
Get the latest news and updates from DawnNews
’اے مین آف آل سیزن‘ ڈرامے کے سب سے یادگار مناظر میں سے ایک وہ ہے جب تھامس مور اپنے جذباتی اور تیز مزاج داماد، روپر کے ساتھ بحث کرتا ہے۔ روپر کا اصرار تھا کہ ’شیطان‘یعنی کوئی بھی ایسا شخص جو خطرناک ہو یا سیاسی طور پر خطرہ ہو، اسے پکڑنے کے لیے قانون کو نظر انداز کیا جانا چاہیے یا اسے ایک طرف کردینا چاہیے۔
اس کے جواب میں تھامس مور ایک مضبوط استعارہ پیش کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ انگلینڈ ’جنگل کی طرح‘ قوانین سے بھرا ہوا ہے اور یہ قوانین ہر ایک کی حفاظت کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جن کو ہم ناپسند کرتے ہیں۔
اس کے بعد تھامس مور ایک چبھتا ہوا سوال پوچھتا ہے۔ اگر تم اپنے دشمنوں کا پیچھا کرنے کے لیے ہر قانون کو ختم کردو گے تو جب طاقت کا رخ بدل کر تمہارے خلاف ہوجائے تب تمہیں کون بچائے گا؟ تھامس مور خبردار کرتا ہے کہ قانون کے بغیر تم ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوگے، ہر طرف سے ہوائیں چل رہی ہوں گی اور تم بالکل بے سہارا ہو گے جہاں تم اپنا دفاع نہیں کر پاؤ گے۔
یہی منظر ڈرامے کا مرکزی خیال بیان کرتا ہے۔ قانون کی حکمرانی طاقتوروں کا ہتھیار نہیں بلکہ سب کے لیے ایک ڈھال ہے۔ اور جب اسے وقتی فائدے کے لیے کمزور کر دیا جائے تو پھر کوئی نہیں جان پائے گا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور نہ ہی کوئی ہونے والی چیز کو روک سکتا ہے۔
دو روز قبل پاکستان کی عدلیہ نے اپنے دو انتہائی باصلاحیت قانون دانوں، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو کھو دیا۔ یہ کیوں ہوا، اس کا جواب تاریخ ہی دے سکے گی۔ مگر اُن کی کہانی دو دن پہلے سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو کئی دہائیاں پہلے 1997ء میں شروع ہوئی تھی جب تین دوست جو آئین پر اٹوٹ یقین رکھتے تھے، نے اس وقت کی سب سے ترقی پسند ترین لا فرم قائم کی جس کا نام اَفریدی، شاہ اینڈ من اللہ تھا۔ ان کے پاس صرف اپنی ذہانت، یقین اور اقتدار کی خاطر اپنے اصولوں سے دستبردار نہ ہونے کا پختہ عزم تھا۔
ایک دہائی بعد، اُن کے اس عزم کا امتحان ہوا۔ وہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔ ڈوگر کورٹ کا بائیکاٹ کیا اور ملک گیر وکلا تحریک کا حصہ بن کر چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے سڑکوں پر آئے۔ اُن کے حوصلے خاموش تھے، مضبوط تھے جو کبھی ڈگمگائے نہیں۔ ڈوگر کورٹ ختم ہوگئی۔ افتخار چوہدری کی عدالت بحال ہو گئی۔ اس چار دیواری کے اندر کیا ہوا، اس پر کسی اور دن بات کریں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ کو 2009ء میں لاہور ہائی کورٹ میں ترقی دی گئی جوکہ اُن کے شاندار قانونی کریئر کے بعد ہوا جہاں انہوں نے ٹیکس، کارپوریٹ اور متعدد عوامی مفاد کے مقدمات کی سماعت کی، خاص طور پر ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کے شعبوں میں بھی فیصلے دیے۔ ترقی کبھی اُن کے ذہن میں نہیں تھی مگر چند لوگوں نے اُنہیں قائل کیا کہ یہ بینچ اُنہیں قانون کی تشریح کرنے، حقوق کو وسعت دینے، سماجی نظام کو بدلنے اور قانون کی حکمرانی کو قائم رکھنے کا موقع دے گا۔
اور انہوں نے یہ سب کچھ کیا بلکہ اس سے بھی زیادہ کیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے انتخابات، جمہوریت، معذوری، صنف، ماحولیاتی تحفظ، ٹیکنالوجی، عدالتی تاخیر، مقامی حکومت اور دیگر موضوعات پر سب سے زیادہ ترقی پسند فیصلے دیے۔ وہ اس وقت ’گرین جج‘ کے نام سے مشہور ہوئے کہ جب انہوں نے گرین بینچ کی قیادت کی تاکہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تنازعات کی سماعت ہوسکے۔
ایک عدالتی اصلاح پسند کے طور پر، انہوں نے پنجاب میں متبادل تنازعات کے حل کے مراکز قائم کیے تاکہ مقدمات کے طویل التوا کو کم کیا جا سکے، فوجداری اور سول ماڈل عدالتیں قائم کیں تاکہ رابطے بہتر ہوں اور انصاف تیزی سے فراہم کیا جا سکے اور کیس مینجمنٹ اور کورٹ آٹومیشن سسٹمز متعارف کروائے۔
پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ساتھ مل کر، انہوں نے پہلا انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم نافذ کیا تاکہ عدالتی نظام آئندہ دہائی کے لیے شفاف، کھلا اور مکمل طور پر متعلقہ بنایا جا سکے۔
2014ء میں دوست اور سابقہ لا فرم کے ساتھی، اطہر من اللہ نے منصور علی شاہ کا ساتھ دیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچ پر فائز ہوئے جہاں عدالتی حوصلے کی ایک واضح جھلک نظر آئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے جبری گمشدگیاں، غیرقانونی زمین کی خریداری، حیوانات کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کیا اور معاشرے کے کمزور افراد کا دفاع کیا۔ جب 2016ء کا الیکٹرانک کرائمز ایکٹ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا تو انہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیا۔
انہوں نے عدالتی تقرریوں میں بھی مثالی کردار ادا کیا جن میں کئی جج شامل رہے جو شدید انتظامی دباؤ کے باوجود بار بار اصولوں پر ڈٹے رہے۔
اس تحریر کا مقصد متعلقہ قانون دانوں کی ہر عدالتی کامیابی کی فہرست تیار کرنا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ان کے ناقدین بھی ان کی تخلیقی صلاحیت، آئینی بصیرت اور سیکڑوں فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں جنہوں نے اندرون اور بیرون ملک پاکستان کے قانونی نظام کو بہتر کیا۔ انہوں نے یہ سب بہترین طریقے سے سپریم کورٹ میں وقار اور حوصلے کے ساتھ انجام دیا اور ان کا اثر آج بھی محسوس کیا جاتا ہے۔
کسی کو ان حضرات کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ بھی سب کی طرح انسان ہیں۔
جیسا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے حال ہی میں ایک خط میں یاد دلایا، ’چند استثنیٰ کو چھوڑ کر، مجھ سمیت ہم سب ان اصولوں میں غلطی کرتے ہیں یا اُن پر پورا نہیں اتر پاتے جن کی پابندی کی ہم نے قسم کھائی ہے۔ آخرکار ہم سب انسان ہیں اور غلطی کرنے کا امکان رکھتے ہیں‘۔
گزشتہ دو سالوں میں جو کچھ ہوا ہے اس میں سے زیادہ تر یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح یکے بعد دیگر ججز کی مدت نے آئین کو شدید نقصان پہنچایا۔ قاضی عدالت نے یہ سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد جو بچا تھا، وہ صرف تباہ نہیں ہوا بلکہ اسے اگلی عدالت نے اور بھی آگے بڑھایا جو سخت، آمرانہ قانونی قوانین سے چلتی تھی۔
اس عرصے کے دوران پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو 2024ء کے عام انتخابات کے دہانے پر اپنے انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔ عدالت نے پی ٹی آئی کی قانونی حیثیت واضح کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا پڑا۔
جب وہ آزاد امیدوار جو متعدد رکاوٹوں کے باوجود کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہ اپنی جمہوری حیثیت کے مطابق نمائندگی حاصل کرنے سے محروم رہ گئے۔ جب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے کسی اور ادارے کے ساتھ الحاق کیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انہیں ان کے آئینی حقوق سے محروم کر دیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اس محرومی کی توثیق کی۔
یہ معاملہ پھر سپریم کورٹ پہنچا جہاں جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں تین رکنی بینچ جس میں جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے، نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا اور ایک بڑے بینچ کے قیام کی ہدایت دی۔ 8-5 اکثریت سے فل کورٹ کی جس رائے پر جسٹس منصور عی شاہ نے دستخط کیے اور جسٹس اطہر من اللہ نے ان کا ساتھ دیا، یہ بات واضح کی کہ ’پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور آج بھی ہے‘۔
اس فیصلے نے انتخابی جمہوریت کے ایک بنیادی اصول کو دوبارہ واضح کیا کہ ’جب الیکشن کمیشن غلطی کرے یا انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے والی اہم غلطیاں کرے تو ان کی اصلاح کے لیے عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے تاکہ انتخابی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ عدلیہ، جسے انتخابی انصاف کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، سب سے پہلے عوام کی مرضی کی حفاظت کرنے کی پابند ہے‘۔
یہ سب بھی کافی نہ تھا۔ ’ماسٹر آف دی روسٹر‘ کے اصول جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود پہلے تنقید کر چکے تھے، دوبارہ بحال کر دیا گیا لیکن اب اسے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو دوبارہ ترتیب دیا گیا تاکہ بینچ کی تشکیل میں مداخلت کی جا سکے۔
ججز کو منتخب کیا گیا، فیصلے پلٹ دیے گئے اور 26ویں آئینی ترمیم کے لیے راستہ ہموار کیا گیا جو کسی ایک فرد کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ تاریخ اس واقعے کو نہیں بھولے گی۔ یہ واقعی ایک تاریک باب تھا جو تاریخ کے پنوں پر لکھا جائے گا۔
پھر بھی عوام کی مرضی کبھی پوری نہیں ہوئی۔ نہ اُس وقت ہوئی، نہ بعد اور نہ آج تک پوری ہوسکی ہے اسی عدالت نے دو مخالف ججز کی مدد سے الیکشن کمیشن کو عدالت کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کی اجازت دی۔
تو قاضی کی عدالت ہمیں کہاں لے آئی؟
آئین کو بے قابو چھوڑ دیا گیا، عوامی آزادیوں کو معطل کر دیا گیا، آئین پر انتظامی قبضہ مضبوط ہوگیا اور عدالتی آزادی چکناچور ہو گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کے آخری دن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ دونوں نے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے انہیں یوں بیان کیا، ‘ایک شتر مرغ کی طرح جس نے اپنا سر ریت میں چھپا لیا ہو، خود اطمینان اور عدلیہ پر بیرونی اثرات و دباؤ کے بارے میں بے پروا ہوچکا ہو‘۔ حتیٰ کہ جب جرأت مند ججز نے اپنے کام میں مداخلت کا سامنا کیا تو چیف جسٹس نے عوامی طور پر اصرار کیا کہ ’عدلیہ پر کوئی بیرونی اثر و رسوخ نہیں ہے‘۔
ان ججز کو انصاف نہیں ملا اور آج تک نہیں ملا۔
قاضی کی عدالت پہلے ہی آئین کی بنیاد کو نقصان پہنچا چکی تھی۔ فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دی گئی، عوام کی مرضی کو بحال کرنے والے فیصلے پلٹ دیے گئے اور 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف چیلنجز کو نظر انداز کیا گیا۔
مخصوص نشستوں کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے ہمیں یاد دلایا، ‘ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آئین وقتی قوانین نہیں ہیں جو صرف عارضی حالات کو پورا کرنے کے لیے بنائے جائیں بلکہ یہ اس وقت تک قائم رہنے کے لیے ہیں جب تک انسانی ادارے قائم رہ سکتے ہیں‘۔
آج پارلیمنٹ نے زبردستی ایک آئینی ترمیم منظور کی ہے جس سے عدلیہ اور حکومت کے درمیان طاقت کا توازن بدل جاتا ہے۔ اس ترمیم سے ایک وفاقی آئینی عدالت وجود میں آتی ہے جو بنیادی طور پر حکومت کے زیرِکنٹرول عدالت ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کا بنیادی کام چھین لیتی ہے جوکہ آئین کی تشریح کرنا ہے۔
اس ترمیم کے تحت، صدر اور وزیرِ اعظم وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے چیف جسٹس اور ابتدائی ججز کا تقرر کریں گے جس سے جسٹس کمیشن آف پاکستان کو نظرانداز کیا جائے گا اور آغاز سے ہی انتظامیہ کا اثر قائم کر دیا جائے گا۔ جب تک قانون اس کی تشکیل کا تعین نہیں کرتا، ججز کی تعداد کا فیصلہ صرف انتظامیہ کرے گی۔ ان کا پسندیدہ نامزد امیدوار پہلے ہی منتخب کیا جا چکا ہے جوکہ وہی جج ہے جنہوں نے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کی ہدایت دی تھی۔
تقریباً ہر عوامی یا فوجداری مقدمہ آئینی مسئلہ اٹھاتا ہے لیکن اب لوگوں کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ایف سی سی یا سپریم کورٹ میں جانا ہے۔ مقدمات آگے پیچھے اچھالیں گے، انصاف کو سست، زیادہ مہنگا عمل اور فیصلوں کو غیریقینی بنا دیں گے۔ عام شہری جنہیں طاقتور مفادات سے تحفظ کی ضرورت ہے، ان کے پاس انصاف حاصل کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ہوگا۔
تاریخ کم ہی ان حکومتوں کو نرمی دکھاتی ہے جو آئینی ہیر پھیر کے ذریعے مستقل طاقت قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے منصوبے ہمیشہ ناکام ہو جاتے ہیں مگر اس سے پہلے وہ ان اداروں کو شدید نقصان پہنچا جاتے ہیں جو شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان یہ سلسلہ پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ اَفریدی نے خبردار کیا کہ ’اس وقت کے غیر معمولی سیاسی ماحول اور ایسے ماحول میں موجود دباؤ نے عدالتی عمل پر اس طرح اثر ڈالا جو عدلیہ کی آزادی کے نظریات سے میل نہیں کھاتا‘۔ انہوں نے جسٹس ڈوراب پٹیل، محمد حلیم اور جی صفدر شاہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جوکہ وہ ججز تھے جو تاریکی کے لمحات میں مضبوط رہے، حتیٰ کہ جب ان کے اختلافی نوٹ نتیجہ بدلنے میں کارگر بھی ثابت نہ ہوسکے۔
لیکن جب تاریخ نے انہیں اسی امتحان میں ڈالا تو لگتا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے اصولوں پر قائم رہنے پر سمجھوتے کا انتخاب کیا ہے۔ 27ویں ترمیم زبردستی کروائی گئی اور انہوں نے عدلیہ کو مزید کمزور کرنے پر مزاحمت نہیں کی۔ انہوں نے اس عمل میں عدلیہ کی حفاظت نہیں کی۔
آخر میں لوگوں نے اسے عدالت کا دفاع کرنے کے بجائے اپنے مفادات کو برقرار رکھنے میں دلچسپی کے طور پر دیکھا، اب وہ ایک ایسی سپریم کورٹ کی قیادت کررہے ہیں جسے بے اختیار چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا آئینی اختیار چھین لیا گیا ہے۔
یہ نقصان ملک کو برسوں تک پریشان رکھے گا۔ اگرچہ تمام آئینی حملوں کی طرح، یہ بھی بلآخر واپس ہوجائے گا لیکن ہم اس احتساب کو صرف وقت پر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ لمحہ وضاحت، حوصلے اور یادداشت کا تقاضا کرتا ہے۔
جو جج ایک غیر قانونی، وفاقی کنٹرول شدہ عدالت میں حلف اٹھائیں گے، وہ اس غیرآئینی عمل میں سہولت کار ہوں گے۔ جو جج ضمیر کے بدلے توسیع اور عہدے قبول کریں گے۔ انہوں نے انہی اصولوں کے ساتھ خیانت کی ہے جن کی پابندی کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔ اب عمل کرنے کا وقت ہے۔ یہ ذمہ داری صرف انہی تک محدود نہیں، یہ ہم سب پر بھی عائد ہوتی ہے جو آئین کی بالادستی، عزم اور عدالتی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
وکلا تحریک کے 18 سال بعد جب تین دوست اور ساتھی جو آئین پر مشترکہ یقین رکھتے تھے، ایک بار پھر آزمائے گئے تو ان میں سے صرف دو ہی اس عزم پر قائم رہ سکے۔ منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ آج بھی مضبوط، جرات مند، اور نہ جھکنے والوں کی صف میں کھڑے ہیں۔
اور یوں کہانی واپس نقطہ آغاز پر آ جاتی ہے۔ جب قانون کا دفاع ذہانت، مضبوط عقائد اور بہادری کے ساتھ کیا جاتا ہے تو یہ ایک جنگل کی طرح رہتا ہے جہاں انصاف پروان چڑھ سکتا ہے۔ یہ ہر کسی کو حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی انصاف دیتا ہے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں اور انہیں طاقت کی غیرمنصفانہ قوتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
شکریہ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ! تاریخ بھولے گی نہ معاف کرے گی۔
یہ تحریر انگریزی میںپڑھیے۔
لکھاری امریکا کے ییل لا اسکول میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس سید منصور علی شاہ کے لیے کلرک کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔