یوسف ؑ(یوزارسیف به مصری)یعقوب کا گیارھواں اورراخیل کا پہلا بیٹا تھا۔ راخیل نے اس کی پیدائش پر کہا تھا کہ ”خداوند مجھ کو ایک اور بخشے“،[5] اس لیے اُس نے اُس کا نام یوسف رکھا۔ وہ شمالی سلطنت کے دو قبیلوںمنسی اورافرائیم کا جد امجد تھا۔
یوسف کی پیدائش کی کہانیپیدائش باب 30 آیت 22 تا 24 میں بیان ہوتی ہے اور اُس کی باقی زندگی کا بیانپیدائش ابواب 37–50 میں مرقوم ہے:
جبیعقوب 90 سال کا تھا تو فدان ارام میں یوسف پیدا ہوا۔ وہ اپنے باپ کا بڑا چہیتا تھا کیونکہ وہراخیل سے پیدا ہوا تھا اور اُس کے بڑھاپے کی اولاد تھی۔ باپ کا چہیتا ہونا اُس بوقلمون قبا سے ظاہر ہوتا ہے جو اُس نے اُسے بنوا کر دی تھی۔ یہ اس بات کا نشان تھا کہ وہ کس کو اپنے قبیلے کا سردار بنائے گا۔ لہذا بھائیوں میں حسد پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔ بھائیوں کا حسد اُس وقت اَور بھی بڑھ گیا جب اُس نے ان سے اپنے دو خواب بیان کیے جن سے مستقبل میں اُس کی عظمت اور بھائیوں کی اطاعت ظاہر ہوتی تھی۔
جب وہ 17 برس کا تھا تو اُس کے باپ نے اُسے بھائیوں کی خیرخیریت دریافت کرنے کے لیےسکم بھیجا جہاں وہ اپنی بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ لیکن جب وہ سکم پہنچا تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ وہاں سے چلے گئے ہیں، لہٰزا وہ اُدھر چل دیا۔ جب اُس کے بھائیوں نے اُسے آتے دیکھا تو انھوں نے اُسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انھوں نے سوچا کہ اس طرح وہ اس کے خوابوں کے پورا ہونے کو ناممکن بنادیں گے۔ لیکنروبن نے انھیں اُسے ہلاک کرنے سے باز رکھا اور کسی گڑھے میں زندہ ڈال دینے کا مشورہ دیا۔ روبن کا خیال تھا کہ وہ بعد میں اُسے نکال کر باپ کے پاس پہنچا دے گا۔
لیکن جبروبن وہاں نہیں تھا تو اُس کے بھائیوں نے اسمٰعیلیوں کا ایک قافلہ دیکھا جومصر جا رہا تھا۔ انھوں نے فیصلہ کیا وہ یوسف کو سودا گروں کے ہاں بیچ دیں گے۔ پس انھوں نے یوسف کو فروخت کر دیا اور ایک بکری زبح کر کے اُس کے قبا کو اس کے خون میں بِھگو دیا کر اپنے باپیعقوب کے پاس لے گئے گویا اُسے کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہے اور وہ مرچکا ہے۔ عمر رسیدہ باپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور وہ کئی دنوں تک ماتم کرتا رہا۔ دریں اثنا اسمٰعیلی سودا گر یوسف کو لےمصر چلے گئے اور وہاں پہنچ کر مصری افسرفوطیفار کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اس نوجوان غلام نے اپنے آپ کو اس قدر ہوشیار اور قابلِ اعتماد ثابت کیا کہ اُس کے آقا نے اپنے گھر کا تمام انتظام یوسف کے سپر کر دیا۔ وہ یوسف کی زیرِ نگرانی خوب پھلا پھولا۔
فوطیفار کی بیوی کے دست درازی کے غلط الزام پر اُسے جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ وہاں کئی برس تک رہا۔ پھر یوسففرعون کی بھی نظروں میں مقبول ہو گیا۔ جب داروغۂ جیل نے یہ محسوس کیا کہ وہ یوسف پر مکمل اعتماد کر سکتا ہے تو اُس نے تمام قیدی اس کی تحویل میں دے دیے۔ ان قیدیوں میں دوفرعون کے خادم تھے، ایک اُس کا ساقی اور دوسرا نان پَز۔ یوسف نے ان دونوں کی خوابوں کی تعبیر کی اور جیساکہ انھیں بتایا تھا، تین دن بعد بادشاہ کے یوم پیدائش پر نان پَز کو پھانسی دے دی گئی اور ساقی کو اس کے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔[6]
اس واقعے کے بعد یوسف کے حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ ساقی اپنے وعدے کو کہ وہفرعون سے یوسف کا ذکر کرے گا بھول گیا۔ لیکن جب فرعون نے دو خواب دیکھے، ایک دُبلی اور موٹی گائیوں کا اور دوسرا ہری بھری اور سُوکھی بالوں کا تو اُسے یاد آیا اور اُس نے فرعون کو یوسف کی خوابوں کی تعبیر کی لیاقت کے بارے میں بتایا۔ فرعون نے یوسف کو قید خانے سے بلوایا۔ یوسف نے بادشاہ کو بتایا کہ دونوں خوابوں کی تعبیر ایک ہی ہے۔ سات سالوں تک خوب اناج پیدا ہوگا اور سات سال قحط کے ہوں گے اور صلاح دی کہ قحط کے سات سالوں کے لیے ارزانی کے سالوں میں غلہ جمع کر لیا جائے۔ فرعون نے فوراً ہی یوسف کو ذخیرہ خانوں کا حاکم مقرر کیا اور اُسے اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا مکمل اختیار بخشا۔ حکومت کے ایک محکمہ کا انچارج ہونے کے باعث یوسف بادشاہ کا نائب بن گیا۔[7] اور یہ دکھانے کے لیے کہ وہ بادشاہ کی نظروں میں مقبول ٹھہرا ہے اُسے مصری نام دیا گیا اور اُس کی شادی مصر کے قومی مندر ادن کے بڑے پجاری کی بیٹی سے کردی گئی۔ اب یوسف 30 برس کا تھا۔ ارزانی کے سات سالوں میں اُس نے ہر شہر میں ذخیرہ خانوں میں غلہ جمع کر لیا۔ اس دوران اُس کے ہاں دو لڑکےمنسی اورافرائیم پیدا ہوئے۔
جس قحط کی یوسف نے پیشین گوئی کی تھی اُس نے نہ صرفمصر ہی کو بلکہ اُس وقت کی تمام دریافت شدہ دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ پس ہر ملک کے لوگ یوسف کے پاس غلہ خریدنے آنے لگے یہاں تک کہ یوسف کہ بھائی بھی غلہ خریدنے مصر آئے انھوں نے یوسف کو نہیں پہچانا لیکن ہوسف نے انھیں پہچان لیا اور جب انھوں نے اُسے سجدہ کیا تو اُسے اپنے خواب یاد آئے جن کی وجہ سے وہ اُس سے اِس حد تک جلنے لگے تھے۔ یوسف نے اپنے بھائیوں کو ہر لحاظ سے آزما کر دیکھا کہ وہ اِن سالوں میں تبدیل ہوئے کہ نہیں۔ اور جب اُسے یقین ہو گیا کہ وہ کافی بدل چکے ہیں تو جب وہ دوسری مرتبہ غلہ خریدنے آئے، اُس نے اپنے آپ کو اُن پر ظاہر کر دیا۔ اُس نے انھیں یقین دلا دیا کہ اُس کے دل میں بدلہ لینے کا کوئی خیال نہیں اور انھیں کہا کہ اپنے باپ کو ساتھ لائیں اور مصر رہیں۔ اس زمانے کا بادشاہ ہیکسوس خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور یوسف کی طرح سامی النسل تھا۔ لہٰزا اُس نےیعقوب اور اس کے خاندان کو خوش آمدید کہا۔ بعد کے سالوں میں یوسف نےمصر کے زمین کی ملکیت کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اب تمام زمینفرعون کی ملکیت بن گئی۔ اور اس کے سابقہ مالک بادشاہ کے مزارع ٹھہرے۔ یعقوب 17 برس تک یوسف کے پاس مصر رہا۔ یعقوب نے اپنی وفات سے پیشتر یوسف کے دونوں بیٹوں کو اپنا متبنٰے بنایا اور میراث کی تقسیم میں ان کو وہی حق دیا جو اُس کے اپنے بیٹوں کا تھا۔
کتاب پیدائش کے مطابق یوسف 110 برس تک زندہ رہا۔ اپنی وفات سے پیشتر یوسف نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ایک دنخدابنی اسرائیل کو واپسکنعان لے جائے گا اور وصیت کی کہ اُس کی ہڈیاں وہاں دفن کی جائیں۔ بعد ازاں اُس کی ہڈیاں اُس کی خواہش کے مطابقسکم میں اُس خطۂ زمین میں دفن کی گئیں جو اُس کے باپیعقوب نے خریدا تھا۔