Movatterモバイル変換


[0]ホーム

URL:


مندرجات کا رخ کریں
ویکیپیڈیاآزاد دائرۃ المعارف
تلاش

یروشلم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دیگر استعمالات کے لیے، دیکھیےیروشلم (ضد ابہام)۔
یروشلم /القدس /Jerusalem
عبرانی:יְרוּשָׁלַיִם (Yerushalayim)
عربی:القُدس (al-Quds)
آرامی: יְרוּשְׁלֶם (Yərushəlem)
شہر
اوپر بائیں سے: یروشلم سمائی نظارہ، القدس قدیم اور قبۃ الصخرۃ، القدس قدیم کا بازار، مغربی کنیست، مغربی دیوار،برج داؤد اور دیوار عثمانی شہرِ قدیم
عرفیت:ار ہا کودش (مقدس شہر) ، بیت المقدس
کی طرف سے دعوی کیا اسرائیل اور فلسطین
کے زیر انتظام اسرائیل
حکومت
 • ناظم شہرذکی الغل(فلسطینی)،نیر برکت (اسرائیلی)
 • ناظم شہر (فلسطینی)ذکی الغل
رقبہ
 • شہر125.156 کلومیٹر2 (48.323 میل مربع)
 • میٹرو652 کلومیٹر2 (252 میل مربع)
بلندی754 میل (2,474 فٹ)
آبادی(2013)
 • شہر890,428[1]
 • کثافت6,400/کلومیٹر2 (17,000/میل مربع)
 • میٹرو1,029,300
نام آبادییروشلمی
منطقۂ وقت  (UTC+2)
 • گرما (گرمائی وقت)  (UTC+3)
ٹیلی فون کوڈبین الاقوامی : +972-2
مقامی: 02
ویب سائٹjerusalem.muni.il[iv]

یروشلم یاالقدس شہریہودیوں،مسیحیوں اورمسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاںحضرت سلیمان کا تعمیر کردہمعبد ہے جوبنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہرمسیح کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کیتبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلیقبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کر کےنماز ادا کرتے تھے۔

بیت المقدس کو القدس بھی کہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اولمسجد اقصٰی اورقبۃ الصخرہ واقع ہیں۔مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300کلومیٹر ہے۔ شہر 31 درجے 45 دقیقے عرض بلد شمالی اور 35 درجے 13 دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔بیت اللحم اورالخلیل اس کے جنوب میں اوررام اللہ شمال میں واقع ہے۔

نام

بیت المقدس شہر میں واقع مسجد جسے ‘‘ڈوم اوف راک‘‘ کہتے ہیں۔

یروشلم کاعربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المَقدِس لکھتے ہیں، دراصل اس سے مرادہیکل (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمقدش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگا۔

بیت المقدس کو یورپی زبانوں میں Jerusalem (یروشلم) کہتے ہیں۔ "بیت المقدس"سے مراد وہ "مبارک گھر" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جبرومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انھوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔

بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پرمسجد اقصٰی اورقبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔

قدیم تاریخ

سب سے پہلے حضرتابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجےلوط علیہ السلام نےعراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔620ء میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمجبریل امین کی رہنمائی میںمکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھرمعراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔

حضرتیعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرتسليمان علیہ السلام (961ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔

ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میںشاہبابل (عراق)بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرتعزیر علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انھوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پراللہ نے انھیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔

بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نےبابل فتح کر کےبنی اسرائیل کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔یہودی حکمرانہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔

137ق م میں رومی شہنشاہہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اورفلسطین سے جلا وطن کر دیا۔چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نےمسیحیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔

مسلم تاریخ

جبنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلممعراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، بمطابق624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابقکعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔17ھ یعنی639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔خلیفہعبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پرقبۃ الصخرہ بنایا گیا۔

1099ء میںپہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔1187ء میں سلطانصلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔

جدید تاریخ اور یہودی قبضہ

پہلی جنگ عظیمدسمبر1917ء کے دورانانگریزوں نے بیت المقدس اورفلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحتنومبر1947ء میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب14 مئی1948ء کو یہودیوں نےاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا توپہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقےاردن کے قبضے میں آ گئے۔تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہفلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول70ء کی تباہی سےہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔

حوالہ جات

ویکی ذخائر پریروشلم سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔
افریقا
ایشیا
گلیل
یہودیہ
دیگر
یہودی گروہ
فلسفہ
مذہبی متون
مقامات
رہنما
احکام
ثقافت
مسائل و دیگر
زبانیں
مذہبی مضامین
اور دعاہیں
تاریخ
سیاست
ضد سامیت
بائبل
(عہد نامہ جدید)
واقعات
جملے
شخصیات
مقامات
متعلقہ
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=یروشلم&oldid=6176201»
زمرہ جات:
پوشیدہ زمرہ جات:

[8]ページ先頭

©2009-2025 Movatter.jp