نیو یارک شہر (یعنینیا یارک)ریاستہائے متحدہ امریکا کا سب سے بڑا شہر ہے اور دنیا کے عظیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کو بگ ایپل (big apple) بھی کہا جاتا ہے۔ریاست نیویارک کے اس شہر کی آبادی 8.2 ملین ہے، جبکہ شہر 321 مربع میل (تقریباً 830 مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔ یہبراعظم شمالی امریکا کا سب سے گنجان آباد شہر ہے۔ مضافاتی علاقوں کی آبادی سمیت 18.7 ملین کی آبادی کے ساتھ نیویارک دنیا کے بڑے شہری علاقوں میں سے ایک ہے۔
نیویارک کاروبار، تجارت، فیشن،طب، تفریح، ذرائع ابلاغ اور ثقافت کاعالمی مرکز ہے، جہاں کئی اعلیٰ نوعیت کے عجائب گھر، آرٹ گیلریاں، تھیٹر، بین الاقوامی ادارے اور کاروباری مارکیٹیں موجود ہیں۔اقوام متحدہ کا صدر دفتر بھی اسی شہر میں ہے، جبکہ دنیا کی کئی معروف بلند عمارات بھی اسی شہر کی زینت ہیں۔
یہ شہر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش حیثیت کا حامل ہے، جو نیویارک کے اقتصادی مواقع، ثقافت اور طرز زندگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔امریکا کے دیگر شہروں کے مقابلے میں نیویارک شہر میں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔
نیویارک شہر کو اطالوی باشندے گیووانی ڈی ویرازانو کی جانب سے دریافت کے وقت مقامی امریکی باشندوں نے آباد کیا تھا۔ ویرازانو نیویارک کی بندرگاہ تک داخل نہیں ہو سکا تھا اور اس کا جہاز واپسبحر اوقیانوس میں داخل ہو گیا تھا۔ پہلی بارانگلستان کے ہنری ہڈسن نے علاقے کا نقشہ ترتیب دیا۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے کام کرنے والے ہڈسن نے11 ستمبر1609ء کومین ہٹن کو دریافت کیا۔ وہ اس دریا میں سفر کرتے ہوئے، جو اب ان کے نام پر دریائے ہڈسن کہلاتا ہے، اس مقام تک پہنچے جہاںریاست نیویارک کا دار الحکومت البانی واقع ہے۔ ولندیزیوں نے1613ء میں اس شہر کی جگہ نیو ایمسٹرڈیم کی بنیاد رکھی جس نے1652ء میں خود مختاری حاصل کرلی۔ برطانیہ نے ستمبر1664ء میں شہر پر قبضہ کر کے اسے ڈیوک آف یارک اور البانی کے نام پر ”نیویارک“ کا نام دیا۔ ولندیزیوں نےاگست1673ء میں شہر کو دوبارہ حاصل کر لیا اور اسے”نیو اورنج“ کا نام دیا لیکن نومبر 1674ء میں شہر سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھے۔
برطانیہ کے دور حکومت میں نیویارک مسلسل ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ وسیع تر سیاسی آزادی کے لیے بڑھتے ہوئے احساسات کے پیش نظر امریکا کی انقلابی جنگ کے دوران میں شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر لیا گیا۔ شہر جنگ کے خاتمے تکبرطانیہ کے قبضے میں رہا اور1783ء میں یہ آخری بندرگاہ تھی جسے برطانوی جہازوں نے چھوڑا۔
نیویارک وفاق کے مسودات کے تحت1785ء سے1788ء تک اور بعد ازاں1788ء سے1790ء تک نو تشکیل شدہریاستہائے متحدہ امریکا کا دار الحکومت رہا۔انیسویں صدی میں نہر ایری کی تعمیر کے بعد نیویارک نےبوسٹن اورفلاڈیلفیا کے مقابلے میں اقتصادی اہمیت حاصل کرلی۔ یہ عرصہ شہر کی اقتصادی ترقی کا عہد سمجھا جاتا ہے۔
ذرائع نقل و حمل کے نئے روابط خصوصاً1904ء میں شہر میں زمین دوز ریلوے کے قیام نے شہر کو مزید پھیلنے میں مدد دی۔1925ء میں شہر نےلندن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کا اعزاز حاصل کر لیا۔دوسری جنگ عظیم میں بندرگاہ اور تجارت و صنعت کے مرکز کی حیثیت سے نیویارک کا کردار انتہائی اہم رہا۔ جنگ کے نتیجے میں نیویارک دنیا کا ابھرتا ہوا شہر بن گیا جس کیوال اسٹریٹ نے عالمی اقتصادیات پرامریکا کی برتری قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔1952ء میںاقوام متحدہ کے دفاتر کے قیام نے اسے دنیا بھر کے شہروں پر سیاسی برتری دلائی اور تجریدی عمارات نے اسےپیرس کی جگہ ثقافتی دنیا کا مرکز بنا دیا۔
11ستمبر 2001ء کے حملوں سے قبل مین ہٹن کی بلند عمارات کا دلکش منظر، ورلڈ ٹریڈ سینٹر نمایاں ہے
جنگ عظیم کے بعد مضافات میں آبادیوں کے قیام کے باعث شہر کی آبادی میں کمی واقع ہوئی اور1970ء کی دہائی میں پیداوار میں کمی، جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور سفید فاموں کی بڑے شہروں سے ہجرت نے نیویارک کو سماجی و اقتصادی بحران سے دوچار کر دیا جس سے شہر1990ء کی دہائی تک دوچار رہا۔ اس عرصے میں نسلی تناؤ میں کمی واقع ہوئی، جرائم کی شرح میں ڈرامائی کمی، معیار زندگی میں بہتری، اقتصادی نمو اور تارکین وطن کے لیے نئے قوانین نے اس شہر کو ایک نئی زندگی عطا کی۔
شہر11 ستمبر2001ء کے حملوں کا نشانہ بنا جب شہر کی بلند ترین عمارتورلڈ ٹریڈ سینٹر کے تباہ ہونے کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جگہ تعمیر ہونے والا ایک ہزار 776 فٹ بلند فریڈم ٹاور2012ء میں مکمل ہوگا۔
نیویارکامریکا کے شمال مشرق اورریاست نیویارک کے جنوب مشرق میںدریائے ہڈسن کے کنارے واقع ہے۔ شہر کا کل رقبہ 468.9 مربع میل (ایک ہزار 214.4 مربع کلومیٹر) ہے جس میں سے 35.31 فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ شہر تین اہم جزیروںمین ہٹن،اسٹیٹن اور ویسٹرن لونگ جزیرے پر مشتمل ہے۔ برونکس شہر کا واحد علاقہ ہے جو برعظیم امریکا سے منسلک ہے۔
نیویارک شہر پانچ علاقوں پر مشتمل ہے:مینہیٹن،بروکلن،کوئینز،برونکس،اسٹیٹن جزیرہ۔ یہ پانچوں علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر انھیں الگ شہر بھی سمجھا جائے تو یہ تمام دنیا کے 50 گنجان آباد ترین علاقوں میں شامل ہوں گے۔
مین ہٹن (آبادی 15لاکھ 93ہزار200) شہر کا کاروباری مرکز ہے۔ نیویارک شہر کی بلند ترین اور امتیازی عمارات اسی علاقے میں واقع ہیں۔
نیویارک کی بلند عمارتیں دنیا بھر میںشہرت رکھتی ہیں۔ نیویارک میں مختلف انداز کی عمارتیں قائم ہیں جن میں فرنچ سیکنڈ امپائر انداز کی کنگز کاؤنٹی سیونگز بینک بلڈنگ، گوتھک ریوائیول انداز کی وول ورتھ بلڈنگ، آرٹ ڈیکو انداز کی امپائر اسٹیٹ بلڈنگ اور کریسلر بلڈنگ، بین الاقوامی انداز کی نیو اسکول، سی گرام بلڈنگ اور لیور ہاؤس اور انتہائی جدید انداز کی اے ٹی اینڈ ٹی بلڈنگ شامل ہیں۔ کونڈے ناسٹ بلڈنگ سبز انداز کی اہم ترین مثال سمجھی جاتی ہے۔
شہر کی معروف اور بلند ترین عمارت بلاشبہورلڈ ٹریڈ سینٹر تھی جو11ستمبر2001ء کو دہشت گرد حملوں میں تباہ ہو گئی۔
ہر سال 40 ملین غیر ملکی اور امریکی سیاح نیویارک کا دورہ کرتے ہیں۔ امپائر اسٹیٹ بلڈنگ، مجسمہ آزادی، بروڈوے پروڈکشنز، ال میوسیو ڈیل بیریو اور انٹریپڈ بحری، فضائی و خلائی عجائب گھر، برونکس کا چڑیا گھر اور نیویارک کا نباتیاتی باغ، ففتھ اور میڈیسن ایونیو کے شاپنگ مالز اور ہیلووین پریڈ اور ٹرائی بیکا فلم فیسٹیول سیاحوں کے لیے خصوصی کشش رکھتے ہیں۔
نیویارکامریکا میں کھیلوں کا بھی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کیبیس بال،باسکٹ بال،امریکی فٹ بال اورآئس ہاکی کی ٹیمیں امریکا میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ ایکعالمی شہر کی حیثیت سے نیویارک امریکا کے ان 4 بڑے کھیلوں کے علاوہ دیگر ایونٹس کی میزبانی کرتا ہے جن میں یو ایس ٹینس اوپن اورنیویارک سٹی میراتھن خصوصاً مشہور ہیں۔
ٹائمز اسکوائر، شہر میں ذرائع ابلاغ کے اداروں کامرکز
نیویارک کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کا دار الحکومت بھی کہلاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں عالمی معروف ادارے مثلاً ٹائم وارنر، نیوز کارپوریشن، ہیرسٹ کارپوریشن اور وایا کوم اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کی آزاد فلموں میں سے ایک تہائی نیویارک میں پیش کی جاتی ہیں۔ 200 سے زائد اخبارات اور 350 جرائد کے دفاتر شہر میں موجود ہیں۔ صرف کتب کی طباعت و اشاعت کی صنعت سے ہی 13 ہزار افراد وابستہ ہیں۔
شہر سےامریکا کے تین معروف قومی روزناموں میں سے دو دی نیویارک ٹائمز (اشاعت 1.1ملین) اور دی وال اسٹریٹ جرنل (اشاعت 2.1 ملین) نیویارک سے شائع ہوتے ہیں۔ ٹائمز کے علاوہ شہر کے دیگر بڑے اخبارات میں نیویارک ڈیلی نیوز (اشاعت 7 لاکھ 30 ہزار) نیویارک پوسٹ (اشاعت 6ل اکھ 50 ہزار) اور نیوز ڈے (اشاعت ایک ملین) شامل ہیں۔
شہرامریکا کے 4 بڑے نشریاتی ٹیلی وژن اداروں اے بی سی، سی بی ایس، فوکس اور این بی سی اور دیگر کئی معروف کیبل ٹیلی وژن چینلوں بشمول ایم ٹی وی، فوکس نیوز، ایچ بی او اور کامیڈی سینٹرل کا ہیڈکوارٹر ہے۔
انگریزی کے علاوہاردو کے کئی ہفتہ وار اخبار بھی نیو یارک سے شائع ہوتے ہیں۔ ان میں سے اردو ٹائمز اور پاکستان پوسٹ قابل ذکر ہیں۔ اردو ٹائمز 28 سال اورپاکستان پوسٹ 15 سال سے شائع ہو رہا ہے۔
نیویارک شہر بین الاقوامی کاروبار اور تجارت کا عالمی مرکز سمجھا جاتا ہے اور اسے عالمی اقتصادیات کے تین مراکز (نیویارک، لندن اور ٹوکیو) میں سے ایک قرار دیا جاتاہے۔ تجارت، انشورنس، ریئل اسٹیٹ، ذرائع ابلاغ اور آرٹس کے علاوہ شہر کے دیگر اہم شعبہ جات میں ٹیلی وژن اور فلم انڈسٹری، طبی تحقیق اور ٹیکنالوجی، غیر منافع بخش ادارے اور جامعات اور فیشن شامل ہیں۔
نیویارک اسٹاک ایکسچینج حجم کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا بازار حصص ہے جبکہ نیس ڈیک فہرست کے اعتبار سے دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ دنیا کے کئی بڑے اداروں کے دفاتر نیویارک میں قائم ہیں۔
پیداوار کے ضمن میں شہر میں گارمنٹس، کیمیکل، دھاتی پیداوار، غذائی مصنوعات اور فرنیچر اہم ہیں۔
امریکا میں سالانہ سب سے زیادہ پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں نیویارک میں حاصل کی جاتی ہیں۔ 40 ہزار سند یافتہطبیب اور 127نوبل انعام یافتہ افراد نے اسی شہر کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔
نیویارک کی سٹی یونیورسٹیامریکا کی تیسری سب سے بڑی سرکاری جامعہ ہے۔1754ء میں قائم ہونے والی کولمبیا یونیورسٹی ریاست کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ ہے جبکہ نیویارک یونیورسٹیامریکا کی سب سے بڑی نجی اور غیر منافع بخش جامعہ ہے۔
نیویارک پبلک لائبریری امریکا کی سب سے بڑی سرکاری لائبریری ہے۔
نیویارک شہر کا نظامامریکا کا سب سے پیچیدہ اور وسیع ٹرانسپورٹ نظام ہے جس میں تقریباً 13 ہزار ٹیکسیاں، ایک لاکھ 20 ہزار سائیکلوں کے علاوہ زمین دوز ریلوی، بسوں اور ریلوے کا نظام، ہوائی اڈا، پل اور سرنگیں، فیری سروس اور ٹرام وے شامل ہے۔ اس شاندار نظام کی بدولت نیویارک کے شہریوں کی اکثریت ذاتی گاڑی کی مالک نہیں۔ 2000ء کے اعداد و شمار کے مطابق نیویارک امریکا کا واحد شہر ہے جہاں نصف سے زائد افراد ذاتی گاڑی نہیں رکھتے۔
نیویارک کا زمین دوز ریلوے نظام دنیا کا سب سے بڑا نظام ہے جس کی پٹریوں کی لمبائی 656 میل یعنی ایک ہزار 56 کلومیٹر ہے جبکہ سالانہ مسافروں کی تعداد کے حساب سے یہ دنیا کا پانچواں بڑا نظام ہے جسے سالانہ 1.4 ارب مسافر استعمال کرتے ہیں۔ نیویارک کی سرکاری بسوں اور ریل کا نظام شمالی امریکا کا سب سے بڑا نظام ہے۔
شہر اور اس کے گرد و نواح میں تین بڑے ہوائی اڈے ہیں جن میں جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئرپورٹ (جے ایف کی) اور لاگارڈیا ایئرپورٹ (ایل جی ای) کوئینز میں جبکہ نیوارک لبرٹی انٹرنیشنل ایئرپورٹ (ای ڈبلیو آر) قریبی نیوارک، نیو جرسی میں واقع ہے۔ 2005ء میں تقریباً 100 ملین مسافروں نے ان ہوائی اڈوں کو استعمال کیا۔