نوبل گیسیں یانبیل گیسیں (Noble gases) سے مراد وہگیسیں (gases) ہیں جودوری جدول (Periodic table) کا آخری گروہ یعنی اٹھارواں گروہ بناتی ہیں۔ جس طرحنوبل دھاتیں کیمیائی اعتبار سے بہت کم عمل پزیر ہوتی ہیں اسی طرح نوبل گیسیں بھی انتہائی کم عاملیت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ گیسیں انیسویں صدی کے بالکل اختتام پر دریافت ہوئیں اور 1902ء میںدوری جدول میں "گروہ صفر" کے تحت شامل کی گئیں کیونکہ ان کی ویلنسی صفر تھی۔ انھیں غیر عامل گیسیں (inert gases) بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی دریافت کے پچاس ساٹھ سال بعد بھی ان کا کوئی کیمیائ عمل دریافت نہ ہو سکا تھا۔ قدرتی طور پر دستیاب درج ذیل 6 گیسیں اس گروے میں شامل ہیں۔ ساتویںگیس (gas)اوگانیسن مصنوعی طور پرنویاتی معمل میں بنائی جاتی ہے۔
ریڈون۔ یہتابکار گیس ہے جوریڈیئم کے ٹوٹنے سے خارج ہوتی ہے۔ یہ انتہائی نایاب ہے۔
ہیلیم، نیون اور آرگون کے پائیدار مرکبات اب تک نہیں بنائے جا سکے ہیں۔ کرپٹون، زینون اور ریڈون کے کچھ مرکبات پائیدار ہوتے ہیں۔[1]
نیون سائن کے قمقمہ (lamp) میں نیون یا دوسری کوئی نبیل گیس بھری ہوتی ہے۔15000 واٹ کا زینونبلب (bulb) جو سنیما گھر کےپروجیکٹر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے اندر زینون گیس کا دباؤہوا کے دباؤ سے 30 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
تاریخ
1785ء میںہنری کیونڈش نے بتایا تھا کہ ہوا میں لگ بھگ ایک فیصد ایک ایسی گیس ہوتی ہے جونائٹروجن (nitrogen) سے بھی کم عاملیت رکھتی ہے۔ کوئی سو سال بعد 1894ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک کیمیا دان سرسر ولیم رمسے اور ایک انگریز طبیعیات دان لارڈ Rayleigh نے ملکر اس گیس کو ایک نیا عنصر ثابت کیا اور اس کا نام آرگون رکھا۔ 1898ء میں انھوں نے مائع ہوا کیکسری کشید (fractional distillation) سےکرپٹون،نیون اورزینون بھی الگ کر لی۔ ان دونوں سائنسدانوں کو 1904ء میں نوبل انعام ملا۔
نوبل گیسیں
نام
مطلب
علامت
ہیلیئم
sun سورج (helios)
He
نیون
new نیا (neos)
Ne
آرگون
lazy سست (argos)
Ar
کرپٹون
hidden مخفی (kryptos)
Kr
زینون
stranger اجنبی (ksenos)
Xe
جب ہماری زمین پانچ ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی تو یہاںہائیڈروجن (hydrogen) اورہیلیم کی بڑی مقدار موجود تھی۔ مگر زمین کیکشش ثقل اتنی زیادہ نہیں ہے کہ ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسے ہلکےجواہر (atoms) کو اپنی گرفت میں رکھ سکے۔ (دیکھیےاسکیپ ولاسٹی) اس لیے کرہ ہوائی کی ساری ہائیڈروجن اور ہیلیم کرہ ہوائی سے نکل کرکائینات کی فضا میں گم ہو گئیں۔ clevite نامی ایک کچ دھات کو جب گرم کیا جاتا ہے تواس میں سے ہیلیم خارج ہوتی ہے۔ قدرتی گیس میں بھی ہیلیم کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی کے طیف کا مشاہدہ کرکے 1868ء میں سورج پر ہیلیم کی موجودگی کی پیشنگوئی کر دی گئی تھی۔ زمین پر ہیلیم اس کے 27 سال بعد 1895ء میں دریافت ہوئی۔
↑ایلن، لیلینڈ سی۔ (1989)۔ "برق منفیت زمینی حالت کے جواہر میں ظرفی شیل برقیے کی اوسط ایک-برقیہ توانائی ہے"۔جریدہ برائے امریکی کیمیائی معاشرہ۔ ج 111 شمارہ 25: 9003–9014۔DOI:10.1021/ja00207a003۔ISSN:0002-7863