مَملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ (انگریزی: United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland) جسے عموماًبرطانیہ (انگریزی: Britain) یامملکت متحدہ (انگریزی: United Kingdom) کہا جاتا ہے،[1] شمال مغربییورپ کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ برطانیہ اورشمالی آئرلینڈ کے علاوہ ملحقہ سمندر کے مختلف جزائر پر پھیلا ہوا ہے۔
برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے جو دولت مشترکہ کے 16 ممالک کی طرح شہنشاہچارلس سوم کو اپنا حکمران تصور کرتی ہے۔
برطانیہ جی 8 کا رکن اور انتہائیترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی معیشت دنیا کی پانچویں اوریورپ کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جس کا اندازہ 2.2 کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ برطانیہ آبادی کے لحاظ سےیورپی یونین کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی 60.2 ملین ہے۔ برطانیہشمالی اوقیانوسی معاہدہ (نیٹو) اوراقوام متحدہ کا بانی رکن اورسلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ برطانیہ دنیا کی بڑیجوہری طاقتوں میں سے ایک ہے۔ یہیورپی یونین کا بھی رکن ہے۔
سلطنت برطانیہ کے خاتمے کے باوجودانگریزی زبان کے عالمی استعمال اوردولت مشترکہ کے باعث برطانیہ کے اثرات اب بھی دنیا پر باقی ہیں۔
برطانیہیورپ کے ان ممالک میں سے ہے جن کی تاریخ بہت زرخیز ہے۔ کرو-میگنونز، جو قدیم برطانیہ بناتے تھے اس کا تصفیہ تقریباً 30,000 سال قبل شروع ہونے والی لہروں میں ہوا تھا۔ علاقے کے ما قبل تاریخ دور کے اختتام تک، خیال کیا جاتا ہے کہ آبادی کا زیادہ تر تعلق انسولر سیلٹک کہلانے والی ثقافت سے تھا، جس میں بریٹونک برطانیہ اور گیلک آئرلینڈ شامل ہیں۔ بریٹن قبائل کی وجہ سے ان جزائر کا نام برطانیہ پڑ گیا جویورپ اور دیگر خطوں سے ہجرت کرکے برطانیہ میں آباد ہوئے۔ ان بریٹنوں کی اکثریت آج بھیویلز کے علاقے میں مقیم ہے ان بریٹنوں کے مذہبی رہنماؤں کو ڈروئدا کہا جاتا تھا۔
قبل مسیح کے رومی حکمرانآگستس کے زمانے میں جزائر برطانیہ پر رومی حکومت کا قبضہ تھا اگرچہ برطانیہ میں اس دور میں رہنے والے تمدن کے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے مگر پھر بھی وہ رومہتہذیب کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔
117ء میںھیڈرین کو روم کی سینٹ نے روم کا بادشاہ بنوایا۔ اس دور میں ہیڈرین نے خصوصی طور پر برطانیہ پر توجہ دی۔ برطانیہ کی قدیم سڑکوں کی تعمیر ھیڈرین کے دور ہی میں ہوئی تھی اور قلعہ بندی کا آغاز بھی ہیڈرین کے دور ہی میں شروع ہوا جس کے بعد طویل مدت تک برطانیہرومی سلطنت کا صوبہ بنا رہا اسی دور میں وسطی ایشیائی ممالک اور روس اور دیگر خطوں سے یورپ کی جانب خونخوار قبیلوں کی ہجرت کا آغاز ہوا جن میں اہم ترین قبیلےجرمن،ھن،مشرقی گاتھ، ایلارک، ونڈال، مغربی گاتھ،فرینک اورلمبارڈ شامل ہیں۔ ان خونخوار اور لڑاکا قبائل نے جن کی اکثریت وسطی ایشیا اور روس سے ہجرت کرکے یورپ میں داخل ہوئی تھی یورپ میں جنگ و جدل کی فضا قائم کردی یہ لڑاکا قبائل جو وحشیانہ زندگی کے خوگر تھے جلد ہی یورپ کی فضاؤں میں داخل ہو کر یورپ کی زندگی میں رچ بس گئے اور انھوں نے اپنے آبائی مذاہب کو چھوڑ کر یورپی مذہبمسیحیت کو اپنا لیا۔ ان جنگجو قبائل میں سےگاتھ جو کے مشرقی اور مغربی گاتھوں میں تقسیم تھے انتہائی لڑاکا اور جنگجو تھے۔ گاتھوں کی لڑائیوں کی وجہ سے یورپ کی سب سے مضبوط سلطنت زوال سے دوچار ہوئی جب کے یورپ کے بیشتر علاقے پر گاتھوں نے بذور شمشیر قبضہ کر لیا، گاتھوں کے حملے کی وجہ سےروم جس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھا تباہ و برباد ہو گیا۔ گاتھوں کے حملے ہی کی وجہ سےقسطنطین نے اپنادار الحکومتروم کی جگہقسطنطنیہ کو بنایا۔ مگر جلد ہی گاتھ مسیحی مذہب سے متاثر ہو گئے۔ اس کے ساتھ وہیورپ کے بیشتر حصوں پر قابض ہوتے چلے گئے جس کی وجہ سے نوبت یہ ہو چکی تھی کہ اگرچہ گاتھ مسیحی ہو چکے تھے اس کے باوجودیورپ کے تمدن یافتہ اور سابق حکمراں گاتھوں کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ گاتھوں کے اقتدار کے دور میں اگرچہ کےیورپ میں کسی حد تک استحکام رہا مگر اس طرح نہیں جس طرح رومی حکومت کے دور میں رہا۔
جزائر برطانیہ بھی ان حملہ آووروں کے حملوں سے بری طرح سے متاثر ہوا ایک جانب رومی حکومت کی گرفت کمزور ہوئی تو دوسری جانب علاقائی حکومتیں قائم ہوتی چلی گئیں جو چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل تھیں ان حکومتوں کو تاریخ میں حکومت ہفتگانہ کہا جاتا ہے اسی زمانے میں برطانیہ میں مسیحیت کیتبلیغ ہوئی اور برطانیہ کے مختلف علاقےبت پرستی سے مسیحیت کی آغوش میں چلے گئے اسی دوران میںآٹھویں صدی میں برطانیہ پرڈنمارک کے رہنے والےڈین قبائل نے حملے کرنا شروع کردیے۔ حملوں کا مقصد برطانیہ پر قبضہ کرنا تھا۔ ٹھیک اسی زمانے میںناروے میں بسنے والے جنگجووائیکنگ نے بھی برطانیہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کرنا شروع کردیے۔ وائیکنگ یورپ کی تاریخ کی انتہائی جنگجو قوم تھی جس نے تمام یورپ میں اپنی وحشیانہ اور جنگجویانہ سرگرمیوں سے دہشت قائم کر رکھی تھی۔
اس زمانے میں برطانیہ کا بادشاہ ایلفرڈ بہت بہادر تھا، جسے ایلفرڈ اعظم بھی کہا جاتا ہے، نے ان وائی کنگ حملہ آوروں کے خلاف طویل ترین جنگیں لڑیں اور بڑی بہادری کے ساتھ وائیکنگ کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں وائیکنگ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے باوجودایلفرڈ اعظم نے جو صلح کا معاہدہ وائی کنگ کے ساتھ کیا، اس معاہدے میں حکمتِ عملی کے تحتدریائے ٹیمز سے اوپر کے علاقے جس میں شمالی و مشرقی انگلستان کا ایک وسیع علاقہ ان وائیکنگ کے حوالے کیا اور باقی حصہ بدستور ایلفرڈ اعظم کے قبضے میں رہا۔ایلفرڈ اعظم کے بعد اس کی اولاد حکمران رہی یہاں تک کہدسویں صدی کے آخر میںڈنمارک کے بادشاہ نے حملہ کیا اور اس خاندان کا ایک فرد باقاعدہ انگلستان کا بادشاہ بن گیا۔ مگر اس کی حکومت کا خاتمہ اس کی موت کے بعد جلد ہی ہو گیا کیونکہ اس کی اولاد میں سے کوئی بھی حکمرانی کے قابل نہیں نکلا۔ لہٰذا1042ء میں اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ایلفرڈ اعظم کی اولاد میں ایڈورڈ کو انگلستان کا بادشاہ بنایا گیا۔ مگر ایڈورڈ لاولد انتقال کرگیا جس کی موت کے بعد انگلستان میں تخت کے دو دعویداروں ھیرلڈ اور ولیم کے درمیان میں جنگ ہوئی جس میں ھیرلڈ مارا گیا اور ولیم انگلستان کا بادشاہ بنا۔ واضح رہے کہ ولیم ایڈورڈ کا رشتے دار تھا مگر چونکہ اس کا تعلق نارمنڈی سے تھا اس لیے اس کی حکومت کو نارمنوں کی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔
جنگ ھیسٹینگز کے بعد انگلستان پر نارمنوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ ولیم اول نے انگلستان پر بڑی ہی فراست کے ساتھ حکومت کی۔ قدیم جاگیر دارانہ نظام بدستور قائم رکھا گیا، اس کے باوجود ولیم کا ان جاگیرداروں پر بہت مضبوط کنٹرول تھا۔ اس کے احکامات تھے کہ کوئی بھی جاگیردار اس کی اجازت کے بغیر کوئی قلعہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ بڑے بڑے مذہبی عہدے داروں کا تقرر بادشاہ کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ 1087ء میں ولیم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ولیم ثانی بادشاہ بنا مگر لوگ اس سے بہت ناراض تھے جس کی وجہ سے ولیم ثانی1100ء میں مارا گیا۔ جس کے بعد اس کا بیٹا ہنری اول تخت نشین ہوا، جس کے عہد میں تجارت کو بہت ہی فروغ حاصل ہوا۔ ہنری کے دور میں ہی انگریز تاجر برطانیہ سے باہر نکلے اور تجارت کے میدان میں دیگر یورپی اقوام کے مقابلہ میں جدوجہد شروع کی۔
ہنری اول کی وفات کے بعد اس کا نواسہ ہنری دوم کے نام سے انگلستان کا بادشاہ بنا۔پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) خاندان سے تعلق رکھنے والا ہنری دوم، ہنری اول کی بیٹی مٹیلڈا کا بیٹا تھا۔ مٹیلڈا کی شادی آنجو (Angou) کے نواب جیوفرے کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس خاندان کا نشان ایک جھاڑی تھا اس لیے اس کوخاندان پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کہا جاتا ہے۔ ہنری دوم کے بعد انگلستان میں جب تک اس خاندان کی حکومت قائم رہی اس حکومت کو پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کا دور کہا گیا۔ ہنری دوم کے دور میں انگلستان کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ جو علاقے اس سے قبل انگلستان کے بادشاہوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ ہنری نے عدالتی اصلاحات کی، مالیات کے محکمے کو ازسر نو منظم کیا، تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے۔ اس کا سب سے یادگار قدم جو آج بھی ہنری دوم کی یاد دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد 1209ء میں رکھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا رچرڈ بادشاہ بنا، تاریخ میں اس بادشاہ کورچرڈ شیردل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رچرڈ شیر دل تیسری صلیبی جنگ میں خود شامل ہوا تھا جس کے بعد اس کی بہن کی شادی سلطان ایوبی کے بھائی کے ساتھ ہوئی۔
سن1272ء میں ہنری کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا ایڈورڈ انگلستان کا بادشاہ بنا جسے ایڈورڈ اول کہا گیا جو انگلستان کی تاریخ کا انتہائی قابل اور مدبر بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے زمانے میں ویلز کی بغاوت کا خاتمہ ہوا، اسکاٹ لینڈ بھی انگلستان کے ساتھ شامل ہوا، اگرچہ یہ شمولت رسمی ہی تھی اس کے باوجود اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو اہم ترین فیصلہ ایڈورڈ اول نے کیا وہ یہ تھا کہ1290ء میں اس نے انگلستان کی حدود سے یہودیوں کو نکل جانے کے احکامات دیے۔1295ء میں ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی جس میں، بشپ، ایبٹ، بڑے بڑے امیر، نامور جنگجو اور مختلف قبائلی سرداروں نے شرکت کی۔ اس نمائندہ اجلاس میں پہلی بار میگنا کارٹا کی تصدیق کردی گئی اور اس کے ساتھ میگنا کارٹا میں ایک دفعہ مزید بڑھائی گئی کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی غیر جاگیردار محصول نافذ نہیں کرے گا۔ ایڈورڈ کے دور کی ایک خوبی یہ ہے کہ متوسط طبقے سے بادشاہ باقاعدہ رابطہ قائم رکھتا تھا اور ان کی تجاویز سنتا تھا اور ان پر عمل درآمد بھی کرواتا تھا۔ بادشاہ کا یہ قدم انگلستان میں جمہوریت کو قائم رکھنے میں بہت مدد گار ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ عدالتوں کی اصلاح بھی کی گئی، عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں ایک سوالنامہ شائع کیا جاتا تھا جس میں تمام عدالتی کارروائی کی تفصیل درج ہوتی تھی۔
رچرڈ کی وفات کے ساتھ ہی برطانیہ میںخاندان لنکاسٹر کا آغاز ہو گیا، جس کا بانیہنری سوم تھا، جو ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا تھا۔ ہنری سوم کے دور میں برطانیہ میں بہت سے کام ہوئے، مگر ہنری کے دور میں بہت سے امرا نے بغاوت کی۔فرانس نے بھی باغی سرداروں کی امداد میں اپنی فوج بھیجی۔ مگر1413ء میں ہنری وفات پاگیا جس کے بعد اس کا بیٹاہنری پنجم کے لقب سے بادشاہ بنا ہنری پنجم بہت ہی لائق بادشا ہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے برگنڈی کے ڈیوک کیساتھ صلح کرکے فرانس کے تخت و تاج کا دعویٰ کر دیا اور فرانس کے خلاف لڑائی شرع کردی۔ جس کے بعد ہنری کی افواج نے ایجن کورٹ کے مقام پرفرانس کو شکست دیدی اور نارمنڈی کے علاقے کو فتح کر لیا۔1420ء میں صلح نامے کے نتیجے میں فرانس کے ولی عہد کو سلطنت سے محروم کرکے اعلان کر دیا گیا کہ ہنری پنجم ہی فرانس کا آئندہ بادشاہ ہو گا۔ مگر ہنری1422ء میں اچانک وفات پاگیا ہنری پنجم کی وفات کے بعد اس کے نو ماہ کے بیٹے کوہنری ششم کے لقب سے بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے تین چچاؤں نے بادشاہ کے سرپرست کی حیثیت اختیار کی ایک چچا فرانس میں نائب السلطنت بن گیا دوسرا انگلستان میں نائب سلطنت بنا، مگر انھی دنوں فرانس میں بغاوت کی ابتدا ہو گئی، یہ بغاوت مشہور و معروفجون آف آرک نے شروع کی، جس کے نتیجے میں فرانس میں انگلستان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔1437ء میں ہنری بالغ ہو گیا لیکن وہ اچھا حکمران ثابت نہیں ہو سکا۔ اس کے دور میں بد نظمی ہی رہی کبھی کوئی نواب فوج جمع کرکے کنٹرول کرلیتا کبھی کوئی۔ ان حالات میں ڈیوک آف یارک کے پوتے نے بادشاہ کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ اس طرح ایک ہی خاندان کی دو شاخوں کے درمیان میں خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ یارک اور لنکاسٹر خاندانوں کے درمیان میں ہونے والی اس جنگ میں ابتدا میں یارک نے شاہی فوج کو شکست دے کر بادشاہ کو گرفتار کر لیا۔ مگر بادشاہ کی ماں اور ہنری پنجم کی بیوہ نے فوج جمع کرکے ڈیوک آف یارک کی افواج کو شکست دیدی۔ جنگ میں ڈیوک آف یارک مارا گیا مگر جنوبی انگلستان کے لوگوں کی حمایت سے ڈیوک آف یارک کے بیٹے ایڈورڈ نے شاہی افواج کو شکست دینا شروع کردی جس کے نتیجے میں جلد ہی لنکاسٹر خاندان شکست کھا گیا اور1461ء میںخاندان یورک کی حکمرانی کی ابتدا ہو گئی۔ 1465ء میں ہنری ششم گرفتار ہو گیا جس کو ٹاؤر میں بند کر دیا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری دنخاندان پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کے آخری بادشاہ رچرڈ کی مانند گزارے۔
پانچویں صدی عیسوی میں مسیحی راہبوں کے ذریعہآئرلینڈ میں مسیحیت پھیلی۔ اس سے قبل یہاں پر بت پرستی رائج تھی۔ مسیحیت پھیلنے کے تین سو برس بعد تک آئیر لینڈ میں مسیحی رہبانیت کے تحت ہی نظام کام کرتا رہا۔ مگر آٹھویں صدی کے بعد جو صورتِ حال انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کی اوپر بتائی گئی ہے اس سے ملتی جلتی صورت حالآئرلینڈ کی ہو گئی، جہاں یورپ کے دیگر علاقوں کے مختلف قبائل آکر حملہ کرتے اور قبضہ کرلیتے تھے۔ مگر پھر سنہ 1171ء میں انگلستان کے نارمن بادشاہ ہنری دوم نےپوپ کے فرمان کے مطابقآئرلینڈ پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا اور یوں وہاں انگلستان کی حکومت قائم ہو گئی۔
اسی طرحاسکاٹ لینڈ کی بھی صورت یہ تھی کہپانچویں صدی میں اسکاٹ لینڈ چار حصوں میں تقسیم تھا۔ چھوٹے چھوٹے قبائلی سردار اپنی اپنی راجدھانی کے سردار بن کر بیٹھ گئے تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے انگلستان کی حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مقامی حکومت قائم کرلی۔ مگر یہاں بھی اسی طرح کی صورت حال تھی کےاسکینڈینیویا کے ممالک کے لوگ اسکاٹ لینڈ پر حملہ آور ہوتے اور کبھی کسی علاقے پر قبضہ کرلیتے اور کبھی کسی علاقے پر۔ مگر پھر ان کو احساس ہوا اور1034ء میں تمام اسکاٹ لینڈ ایک حکومت کے جھنڈے تلے آ گیا۔
1199ء میں رچرڈ کی وفات کے بعداس کا بھائیجان بادشاہ بنا۔ برطانیہ کی تاریخ میں کنگ جان سے زیادہ اچھا بادشاہ کسی کو نہیں جانا جاتا ہے۔ کنگ جان کوئی زیادہ کامیاب باشاہ نہیں تھا۔ اس کے دور میں ایک جانب تو پوپ کے ساتھ کشمکش کا آغاز ہوا اور دوسری جانب امیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں جس کی وجہ سے انگلستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ مگر تاریخ میں کنگ جان کا نام اس اعتبار سے زیادہ مشہور ہے کہ اس کے دور میں اس جمہوریت کی ابتدا ہوئی جس کی وجہ سے آج برطانیہ کا نام قوموں میں سر بلند ہے۔ کنگ جان نے1214ء میں اس دستاویز پر دستخط کیے جو تاریخ میںمیگنا کارٹا یعنی منشور کبیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہی منشور انگلستان میں جمہوریت کی سنگ بنیاد تصور کیا جاتاہے۔ جان کے دور میں انگلستان میں پوپ کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا تھا۔ جان کے لیے ضروری تھا کہ پوپ کو خوش رکھنے کے لیے باقاعدہ نذرانے بھیجتا رہے جس سے معیشت بہت متاثر ہوئی اور اس کے نتیجے میں انگلستان مختلف شورشوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔1216ء میں جان نے وفات پائی۔ جان کے بعد اس کا بیٹاہنری سوم کے نام سے نو برس کی عمر میں انگلستان کا بادشاہ بنا۔ مگر اس کی خوش نصیبی یہ رہی کہ ایک انتہائی قابل شخص ولیم مارشل جو اس کے باپ جان کا ساتھی تھا ہنری سوم کا نائب السلطنت بنا۔ ولیم مارشل انتہائی قابل اور وفادار تھا۔ اس نے انتہائی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ کار مملکت چلائے۔ جس کی وجہ سے انگلستان میں نو سالہ بادشاہ کی موجودگی میں کسی بھی طرح کی بے امنی اور بد انتظامی نہیں ہو سکی۔ مگر جلد ہی ولیم مارشل کی وفات کے بعد انتظامی معاملات بگڑنے لگے۔ ایک جانب پوپ انگریزی کلیساؤں سے چندے کی رقم کا مطالبہ کرتا تھا اور دوسری جانب پوپ کی طرف سے مختلف مذہبی مطالبات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے تھے۔ پھر ویلز میں بغاوت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان اورفرانس کے درمیان میں جنگ بھی شروع ہو گئی۔ حالانکہ ہنری کی شادی فرانس کی شہزادی کے ساتھ ہوئی تھی اس کے باوجود انگلستان اورفرانس کے درمیان میں جنگ ہوئی۔ پوپ کی جانب سے انگلستان میں مداخلت کا سلسلہ بھی جاری ہی رہا۔ ایک جانب تو پوپ نے اپنے مصارف کے لیے مستقل دباؤ ڈالنا شروع کیا جس کی انتہائی صورت یہ تھی کہ انگلستان کی پوری آمدنی کا ایک تہائی حصہ پوپ کے حوالے کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں عوام ناراض ہونے لگے اور امرا کی ایک کمیٹی جو 24 اراکین پر مشتمل تھی، نے اصلاحی اسکیم پیش کردی۔ ہنری نے اس اسکیم کو توڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس میں اس کوکامیابی نہیں ہوئی۔ اس طرح خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا جس میں بادشاہ کے بہنوئی سائمن ڈی مانفرٹ (Siman de Monfort) نے اصلاحی گروہ کی سرداری قبول کرلی۔ بادشاہ کو شکست ہوئی اور سائمن نے پورا انتظامی کاروبار سنبھال لیا۔ بادشاہ نے مشورے کے لیے جو مجلس بنا رکھی تھی اسے پہلے مجلس کبیر (Great Council) کہا جاتا تھا مگر1240ء میں اس کا نام پارلیمنٹ رکھا گیا، جو آج تک جاری ہے۔1925ء میں سائمن نے ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی۔ بادشاہ کا بڑا بیٹا، ایڈورڈ جو پہلے اصلاحی پارٹی کے ساتھ تھا ان امیروں کے ساتھ مل گیا، جو بادشاہ کے طرف دار تھے۔ اس نے سائمن کو شکست دی۔ اب اقتدار دوبارہ ہنری کے ہاتھ میں آ گیا لیکن اس وقت بھی وہ برائے نام بادشاہ تھا کیونکہ تمام اقتدار ایڈورڈ کے ہاتھ میں ہی تھا۔
ایڈورڈ کا دور اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ اس دور میں آئیرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ انگلستان کا حصہ بنے جو گریٹ برٹین کی ابتدا تھی اس کے ساتھ ایڈورڈ نے جو اہم ترین کام انجام دیا وہ یہ کہ1209ء میں بننے والیآکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب بھرپور توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہو سکا آکسفورڈ یونیورسٹی اس وقت دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے جہاں سے کروڑوں طالب علم اس وقت اپنی تعلیم کو مکمل کرکے دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب منگولوں نےچنگیز خان کی سربراہی میں منگولیا سے نکل کر بیرونی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے کر تہلکہ مچا دیا تھا منگولوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے عالمِاسلام کے اہم ترین اور طاقتور ریاستوںسمرقند وبخارا اوربغداد کو روند کراور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا وہیں انھی منگولوں نے ایک جانب تمام روس دوسری جانبپولینڈ،جرمنی،آسٹریا،بلغاریہ،ترکی،رومانیہ پر قبضہ جمالیا تھا یورپ میں موجود مسیحیت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ نے منگولوں کے حملے کو عذابِ خداوندی قرار دیا اور یورپ کے تمام بادشاہوں کو اس عذابِ خداوندی کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجا ہونے کی دعوت دی مگر جلد ہی منگولوں کے پہلے بادشاہچنگیز خان کے مر جانے کے بعدایشیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں پہلی شکست کھانے کے بعد منگولوں کی قوت تتر بتر ہونے لگی جس کے نتیجے میں ان کے طوفانی حملوں کا زور یورپ میں ختم ہو گیا اور یورپی ریاستوں نے ایک ایک کرکے منگولوں سے آزادی حاصل کرنا شروع کردی اس صورت حال کے اثرات برطانیہ پر بھی پڑے ایک جانب منگولوں کے ہاتھوں شکست کھانے والے قبائل پناہ لینے کے لیے برطانیہ کی جانب رخ کرنے لگے دوسری جانب برطانیہ میں اعلیٰ ترین صنعت کار اور تاجر آنے لگے یورپ کے اجڑنے کے ساتھ برطانیہ کے بسنے کا عمل بھی جاری ہوا اسے انگریز قوم کی خوبی ہی کہا جائے گا کہ انگریزوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ایسا قومی ماحول تشکیل دیا جس کے نتیجے میں قومی ترقی کے امکانات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔
ایڈورڈ اول کی وفات کے بعد اس کے بیٹےایڈورڈ دوم کے نام سے تخت نشین ہوا وہ زیادہ قابل نہ تھا اس لیے امیروں کا کنٹرول ایڈورڈ دوم پر تھا جس کی وجہ سے نہ تو ایڈورڈ دوم پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی کام کر سکتا تھا اور نہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اعلانِ جنگ کر سکتا تھا اس کے دور میں اسکاٹ لینڈ کے باغیوں نے شاہی فوج کو شکست دیدی جس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ آزاد ہو گیا ایڈورڈ کی شکست کے نتائج اس کو اس طرح سے بھگتنا پڑے کہ1327ء میں اسے تاج و تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا آٹھ ماہ کی قید کے بعد اسے قتل کر دیا گیا جس کے بعدایڈورڈ سوم پندرہ سال کی عمر میں بادشاہ بنایا گیا مگر جلد ہی اس نے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیے۔1330ء میں اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور1337ء میں فرانس کے خلاف جنگ شروع کی جو سو سال تک جاری رہی اس لیے اس جنگ کوصد سالہ جنگ بھی کہا جاتا ہے ایڈورڈ سوم کے دور میں انتظامی معاملات درست ہو گئے ا سی کے عہد میں پارلیمنٹ کا آغاز ہوا دارلعوام اور دار الامرا کا آغاز ہوا مگر1348ء میں خونی پلیگ پھیلی جس کی وجہ سے نصف آبادی موت کا شکار ہو گئی اسی دور میں مسیحیت کی اصلاحی تحریک کا آغاز بھی ہوا اس تحریک کے بانیجان وکلف کا کہنا تھا کہ ہر شخص کسی کی وساطت کے بغیر خدا سے براہ راست رشتہ قائم رکھ سکتا ہے اور کلیساؤں کے ساتھ اوقاف رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نیز پادریوں نے شادی نہ کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے، پادریوں نے دولت جمع کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے۔ اس طرح جان وکلف نے پوپ اور پادریوں کے تمام اقتدار کا خاتمہ کر دیا جان وکلف نے1372ء میںبائبل کا مکمل انگریزی ترجمہ کیا۔ اپنے ان خیالات کی وجہ سے جان وکلف کو آخری دور میں بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب بڑھاپے کی وجہ سے ایڈورڈ بالکل ہی ناکارہ ہو گیا اس کا بڑا بیٹا بھی بیمار تھا اس وجہ سے برطانیہ کا نظام بگڑ گیا اس کے بیٹے نے حالات کو بہت درست کرنے کی کوشش کی مگر وہ1376ء میں وفات پاگیا اس کا بیٹارچرڈ سوم تخت نشین ہوا جو تخت نشین کے وقت صرف دس سال کا تھا اس کا چچا جان جو لینکاسٹر کا ڈیوک تھا بادشاہ کی سرپرست مجلس کا سربراہ بنایا گیا اس کے دور میں فرانس کے ساتھ از سر نو جنگ چھڑ گئی جس میںفلینڈرس کا علاقہ چھن گیا۔ اس وقت روپے کی سخت ضرورت پڑی جو محصول لگا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی وجہ سے برطانیہ میں بے چینی بڑھنے لگی جس کی وجہ سے بعض مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ بڑے بڑے زمینداروں کی جانب سے کسانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے نتیجے میں کسانوں کی جانب سے بغاوت ہو گئی۔ جاگیرداروں کے مراکز جلادئے گئے، بڑے بڑے زمیندار اور قانون داں اس بغاوت میں مار دیے گئے۔ انگلستان کے مشرقی اور جنوبی حصے سے ایک بہت بڑا ہجوم دو سرداروں ویٹ ٹائیلر اور پول ٹاکس کی قیادت میں لندن کی جانب روانہ ہوا۔ ہجوم کے بڑے بڑے مطالبات یہ تھے کہ زمینداروں نے کسانوں پر جو ناواجب ٹیکس لگائے ہوئے ہیں وہ منسوخ کر دئے جائیں، کلیساؤں کے اوقاف چھین لیے جائیں اور شکار کے تمام قوانین ختم کردئے جائیں۔ بادشاہ نے ہجوم سے ملاقات کرکے ان کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں ہجوم واپس ہو گیا۔ اس دوران میں ویٹ ٹائیلر مارا گیا اس کے بعد رچرڈ نے خومختار بننے کی کوشش کی پارلیمنٹ نے اس کے اس اقدام کی مخالفت کی اسی دوران میں ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا آئیر لینڈ سے آ گیا اس نے رچرڈ کے تمام اختیارات خود لے کر رچرڈ کو بادشاہت سے دستبردار کرکے اور رچرڈ کو ٹاؤر میں قید کر دیا جہاں رچرڈ نے1400ء میں وفات پائی۔
خاندان یورک کی حکمرانی برطانیہ کے عوام کے لیے نئی صبح بن کرطلوع ہواعوام مسلسل ہونے والی خانہ جنگی سے بے زار آچکے تھے۔
انگریزی اصلاحات نےسولہویں صدی میں سیاسی، آئینی، سماجی اور ثقافتی تبدیلی کا آغاز کیا اور چرچ آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں، اس نے انگلینڈ کے لیے ایک قومی شناخت کی وضاحت کی اور آہستہ آہستہ، لیکن گہرے طور پر، لوگوں کے مذہبی عقائد کو بدل دیا۔ ویلز کو مکمل طور پر برطانیہ کی بادشاہی میں شامل کر لیا گیا اور آئرلینڈ کو انگلش تاج کے ساتھ ذاتی اتحاد میں ایک مملکت کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اور باقی حصہ جس میں شمالی آئرلینڈ بننا تھا، آزاد کیتھولک گیلک اشرافیہ کی زمینیں ضبط کر لی گئیں اور انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے پروٹسٹنٹ آبادکاروں کو دے دی گئیں۔
1603 میں، انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی سلطنتیں ایک ذاتی اتحاد میں متحد ہوئیں جب اسکاٹس کے بادشاہ جیمز ششم نے انگلینڈ اور آئرلینڈ کے تاج وراثت میں حاصل کیے اور اپنے دربار کو ایڈنبرا سے لندن منتقل کر دیا۔ اس کے باوجود ہر ملک ایک الگ سیاسی وجود رہا اور اپنے الگ الگ سیاسی، قانونی اور مذہبی اداروں کو برقرار رکھا۔ 17ویں صدی کے وسط میں، تینوں مملکتیں متصل جنگوں کی ایک سیریز میں شامل تھیں (بشمول انگریزی خانہ جنگی) جس کی وجہ سے بادشاہت کا عارضی طور پر تختہ الٹ دیا گیا اور انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر مشتمل دولت مشترکہ کی جمہوریہ رہ گئی۔
اگرچہ بادشاہت بحال کر دی گئی، 1688 کے شاندار انقلاب اور اس کے بعد کے بل آف رائٹس 1689 کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ میں کلیم آف رائٹ ایکٹ 1689 نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یورپ کے باقی حصوں کے برعکس، شاہی مطلق العنانیت نہیں ہوگی۔ کیتھولک سے تعلق رکھنے والا کبھی تخت پر نہیں بیٹھ سکتا۔ برطانوی آئین آئینی بادشاہت اور پارلیمانی نظام کی بنیاد پر تیار ہوگا۔ 1660ء میں رائل سوسائٹی کے قیام کے ساتھ، سائنس کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس عرصے کے دوران، خاص طور پر انگلستان میں، بحری طاقت کی ترقی اور دریافت کے سفروں میں دلچسپی بیرون ملک مقیم کالونیوں کے حصول اور آباد کاری کا باعث بنی، خاص طور پر شمالی امریکا اور کیریبین میں۔
اگرچہ 1606، 1667 اور 1689 میں برطانیہ کے اندر دو ریاستوں کو متحد کرنے کی پچھلی کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں، لیکن 1705 میں شروع کی گئی کوشش کے نتیجے میں 1706 کے اتحاد کے معاہدے پر دونوں پارلیمانوں نے اتفاق کیا اور اس کی توثیق کی۔ یکم مئی 1707 کو، برطانیہ کی بادشاہی قائم ہوئی، جو یونین 1707 کے ایکٹ کے نتیجے میں ہوئی۔ 18ویں صدی میں، کابینہ کی حکومت رابرٹ والپول کے تحت تیار ہوئی، جو عملی طور پر پہلےوزیر اعظم (1721–1742) تھے۔ جیکبائٹ بغاوتوں کی ایک سیریز نے پروٹسٹنٹ ہاؤس آف ہینوور کو تخت سے ہٹانے اور کیتھولک ہاؤس آف اسٹورٹ کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ جیکبائٹس کو بالآخر 1746ء میں کلوڈن کی جنگ میں شکست ہوئی، جس کے بعد سکاٹش ہائی لینڈرز کے قبیلے کے سرداروں کی جاگیردارانہ آزادی کو منسوخ کر کے زبردستی اسکاٹ لینڈ میں ضم کر دیا گیا۔ شمالی امریکا میں برطانوی کالونیاں جو امریکی جنگ آزادی میں ٹوٹ گئیں وہ ریاستہائے متحدہ بن گئیں، جسے برطانیہ نے 1783 میں تسلیم کیا۔
برطانوی راج یا سلطنت برطانیہ کو ’’سرکارِ انگلشیہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، خصوصاً 1857ء سے1947ء کے دوران میں جببرصغیر مکمل طور پر سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا۔
برطانیہ کا کل رقبہ تقریباً 244,820 مربع کلومیٹر (94,530 مربع میل) ہے۔ یہ ملک برطانوی جزائر کے بڑے حصے پر قابض ہے اور اس میں برطانیہ کا جزیرہ، آئرلینڈ کے جزیرے کا شمال مشرقی ایک چھٹا حصہ اور ارد گرد کے کچھ چھوٹے جزائر شامل ہیں۔ یہ شمالی بحر اوقیانوس اور بحیرہ شمالی کے درمیان واقع ہے جس کے ساتھ جنوب مشرقی ساحل شمالی فرانس کے ساحل سے 22 میل (35 کلومیٹر) کے اندر آتا ہے، جہاں سے اسے انگریزی چینل کے ذریعے الگ کیا گیا ہے۔
لندن میں رائل گرین وچ آبزرویٹری کو 1884 میں بین الاقوامی میریڈیئن کانفرنس میں پرائم میریڈیئن کے ڈیفائننگ پوائنٹ کے طور پر چنا گیا تھا۔ یونائیٹڈ کنگڈم عرض البلد 49° اور 61° شمال اور عرض البلد 9° مغرب اور 2° مشرق کے درمیان واقع ہے۔ شمالی آئرلینڈ جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ 224 میل (360 کلومیٹر) زمینی سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔ برطانیہ کی ساحلی پٹی 11,073 میل (17,820 کلومیٹر) لمبی ہے۔ یہ چینل ٹنل کے ذریعے براعظم یورپ سے منسلک ہے، جو 31 میل (50 کلومیٹر) (24 میل:38 کلومیٹر) پانی کے اندر) دنیا کی سب سے طویل زیر آب سرنگ ہے۔ برطانیہ چار زمینی ماحولیاتی خطوں پر مشتمل ہے: سیلٹک broadleaf جنگلات، انگلش لو لینڈ ساحلی جنگلات، شمالی بحر اوقیانوس کے نم ملے جلے جنگلات اور کیلیڈون جنگلات۔ 2023 میں برطانیہ میں جنگلات کا رقبہ 3.25 ملین ہیکٹر ہونے کا تخمینہ ہے، یہ برطانیہ کے کل رقبہ کا 13% ہے۔
برطانیہ آئینی راجشاہی کے تحت ریاست ہے۔ملکہ ایلزبتھ دوم پندرہ دیگردولت مشترکہ ریاستوں کا فرمانروا ہونے کے علاوہ برطنیہ کا صدر ملک ہے۔ فرمانروا کو مشورہ دینے کا، حوصلہ دینے کا اور انتباہ دینے کا حق ہے۔ برطانیہ دنیا کے ان چار ممالک میں سے ایک ہے جن کی کوئی تدوین شدہ آئین نہ ہو۔ لہٰذا برطانیہ کا آئین زیادہ تر الگ الگ تحریری ذرائع پر مشتمل ہے، بشمول تحریری قانون، منصف ساختہ نظائری قانون اور بین الاقوامی معاہدے، آئینی رواجوں کے ساتھ۔ چونکہ عام تحریری قانون اور آئینی قانون میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، برطانوی پارلیمان آئینی اصلاح کر سکتا ہے صرف پارلیمانی قانون جاری کرنے سے اور لہٰذا آئین کی تقریباً کوئی بھی تحریری یا غیر تحریر شدہ عنصر کو منسوخ کرنے کی سیاسی اقتدار رکھتا ہے۔ تاہم کوئی پارلیمان ایسا قانون جاری نہیں کر سکتا جو آئندہ پارلیمان بدل نہ سکیں۔
برطانیہ کی ویسٹ مِنسٹر نظام پر مبنی پارلیمانی حکومت ہے جس کی دنیا بھر میںتقلید کیا گیا ہے: برطانوی سامراج کا ایک ورثہ۔ برطانیہ کا پارلیمان جو ویسٹمِنسٹر محل میں ملتا ہے اس کے دو ایوان ہیں؛ ایک منتخب ہاؤس آف کامَنز (ایوانِ زیریں) اور مقررہ ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا)۔ تمام مسوداتِ قانون جو جاری کیے جاتے ہیں انھیں قانون بنانے سے پہلے شاہی منظوری دی جاتی ہے۔
برطانوی حکومت کے سربراہ، وزیرِ اعظم کا عہدہ وہ رکنِ پارلیمان رکھتا ہے جس کو ہاؤس آف کامنز کے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہاؤس آف کامنز میں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو جاتی ہے، برطانوی وزیر اعظم اسی جماعت سے ہی چنا جاتا ہے۔ منتخب وزیر اعظم اس اکثریتی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ خالی ہونے پر بادشاہ ہاؤس آف کامنز میں اکثریتی سیاسی جماعت کے سربراہ کو حکومت بنانے کے لیے کہتا ہے۔ پھر وہ اکثریتی جماعت کا سربراہ ہاؤس آف کامنز سے ووٹ لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے ملاقات کرتا ہے اور اپنی حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں سے آگاہ کرتا ہے
کابینہ عام طور پر دونوں ایوانوں میں سے وزیرِ اعظم کے جماعت کے ارکان سے چنا جاتا ہے اور زیادہ تر حصہ ہاؤس آف کامنز سے، جسے وہ ذمہ دار ہیں۔ وزیرِ اعظم اور کابینہ عاملانہ اقتدار رکھتے ہیں۔ ہاؤس آف کامنز کے انتخابات کے لیے، برطانیہ 650 حلقۂ انتخابوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک ایک ہی رکنِ پارلیمان انتخاب کرتا ہے۔ عام انتخابات فرمانروا مقرر کرتا ہے وزیرِ اعظم کے مشورے پر۔1911ء اور1949ء کے پارلیمانی قانون لازمی بناتے ہیں کہ نئے انتخابات پچھلے والوں کے بعد پانچ سال ختم ہونے سے پہلے مقرر ہوں۔
مسیحیت کی شکلیں 1,400 سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ کی مذہبی زندگی پر حاوی رہی ہیں۔ اگرچہ شہریوں کی اکثریت اب بھی بہت سے سروے میں مسیحیت کے ساتھ شناخت کرتی ہے، 20ویں صدی کے وسط سے چرچ میں باقاعدگی سے حاضری ڈرامائی طور پر گر گئی ہے، جب کہ امیگریشن اور آبادیاتی تبدیلی نے دیگر عقائد، خاص طور پر اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مبصرین نے برطانیہ کو ایک کثیر العقیدہ، سیکولرائزڈ یا بعد از مسیحی معاشرے کے طور پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں، تمام جواب دہندگان میں سے 71.6 فیصد نے اشارہ کیا کہ وہ عیسائی ہیں، جن میں اگلا سب سے بڑا عقیدہ ہے اسلام (2.8 فیصد)، ہندومت (1.0 فیصد)،سکھ مت (0.6 فیصد)،یہودیت (0.5 فیصد) ,بدھ مت (0.3 فیصد) اور دیگر تمام مذاہب (0.3 فیصد)۔ جواب دہندگان میں سے، 15 فیصد نے کہا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اور مزید 7 فیصد نے مذہبی ترجیح بیان نہیں کی۔ 2007 میں ایک ٹیئرفنڈ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دس میں سے صرف ایک برطانوی درحقیقت ہفتہ وار چرچ میں آتا ہے۔ 2001 اور 2011 کی مردم شماری کے درمیان، عیسائی کے طور پر شناخت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی، جب کہ ان لوگوں کی فیصد جو کوئی مذہبی وابستگی نہیں بتاتے تھے دگنی ہو گئی۔ یہ دیگر اہم مذہبی گروہوں میں ترقی کے برعکس ہے، مسلمانوں کی تعداد میں سب سے زیادہ فرق سے کل تقریباً 5 فیصد تک اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کی آبادی 2001 میں 1.6 ملین سے بڑھ کر 2011 میں 2.7 ملین ہو گئی ہے، جس سے یہ برطانیہ میں دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ بن گیا ہے۔