Movatterモバイル変換


[0]ホーム

URL:


مندرجات کا رخ کریں
ویکیپیڈیاآزاد دائرۃ المعارف
تلاش

معتصم باللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

المعتصم باللہ
خلافت عباسیہ کا آٹھواں خلیفہ
7 اگست 833ء – 5 جنوری 842ء
پیشرومامون الرشید
جانشینالواثق باللہ
نسلالواثق باللہ،المتوکل علی اللہ، محمد، احمد ، علی، عبد اللہ
مکمل نام
ابو اسحاق محمد بن ہارون الرشید المعتصم باللہ العباسی
خاندانخلافت عباسیہ
والدہارون الرشید
والدہماردہ
پیدائش17اکتوبر796ء
خلد محل،بغداد،خلافت عباسیہ، موجودہعراق
وفات5 جنوری 842ء (عمر 45 سال)
عباسی سامرا،سامرا،خلافت عباسیہ، موجودہعراق
تدفینجوثق محل،عباسی سامرا،سامرا، موجودہعراق
مذہبسنی اسلام

ابو اسحاق محمد بن ہارون رشیدعربی:أبو إسحاق محمد بن هارون الرشيد جو عام اپنےلقبمعتصم باللہعربی:المعتصم بالله کے نام سے جانے جاتے ہیںخلافت عباسیہ کا آٹھویںخلیفہ تھا جس کا دور خلافت833ء سے842ء میں اپنی موت تک رہا۔[1] بمطابق ہجری تقویم218ہجری میں تخت نشیں ہوا اور بدستور227ہجری تک خلیفہ رہا۔ اُس کے عہدِ خلافت میں مسئلہ خلق قرآن کے فتنے کا عروج رہا۔

۔[2]

نام و کنیت / لقب

[ترمیم]

نام محمد بنہارون الرشید ہے۔ کنیت ابو اسحاق اور لقب المعتصم باللہ العباسی ہے۔[3]مورخین نے اِسے المعتصم باللہ کے نام سے پکارا ہے۔

ولادت

[ترمیم]

المعتصم کی ولادت بروزپیر 10 شعبان180ھ مطابق 17 اکتوبر796ء کوبغداد کے خلد محل میں ہوئی۔[3] اُس وقت المعتصم کا باپہارون الرشید بحیثیتِ خلیفہ تھا اورہارون الرشید کے عہدِ حکومت کے دسویں سال المعتصم باللہ کی ولادت ہوئی۔

حلیہ

[ترمیم]

المعتصم باللہ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا جبکہ داڑھی گھنی تھی۔ قد متوسط تھا۔

تعلیم و تربیت

[ترمیم]

عباسی خلیفہہارون الرشید المعتصم کو بہت چاہتا تھا۔ اِسی چاہت کے سبب ایک تعلیم یافتہ غلام ہر وقت المعتصم کے ساتھ رہتا جو اُسے پڑھاتا رہتا۔ جب وہ غلام فوت ہو گیا توہارون الرشید نے کہا: محمد! ( المعتصم کا اصلی نام محمد ہے) اب تمھارا غلام بھی مرگیا، اب بتلاو۔ المعتصم نے کہا: ہاں! وہ مرگیا اور میں کتاب کی بلاء سے چھوٹ گیا۔ بعد ازاں وہ تعلیم سے بہرہ مند نہ ہو سکا اور اَن پڑھ ہی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ کچھ پڑھ لیتا تھا اور اِسی قدر لکھ بھی لیتا تھا مگر بہ نسبت دوسرے خلفاء کے وہ غیر تعلیم یافتہ ہی رہا۔[3]

ہارون الرشید،امین الرشید اورمامون الرشید کے عہد حکومت میں

[ترمیم]

المعتصمہارون الرشید کی وفات کے وقت صرف 13 سال کا تھا۔809ء میں جبامین الرشید برسر اِقتدار آیا تو المعتصم شاہی محل میںامین الرشید کی کفالت میں رہا۔813ء میں جبمامون الرشید خلیفہ بن کربغداد میں داخل ہوا تو تب المعتصم 17 سال کا تھا۔ المعتصم بڑا قوی اور شجاع تھا، علاوہ اَزیں وہ صاحب معلومات بھی تھا۔مامون الرشید اُسے اُس کی شجاعت کی بنا پر دل لگاو کے سبب ساتھ رکھا کرتا تھا۔مامون الرشید نے المعتصم کوشام اورمصر کا والی مقرر کر دیا۔ اِسی شجاعت و عظمت کے سببمامون الرشید نے اپنے بیٹے عباس کو خلافت سے محروم کرتے ہوئے المعتصم کو ولی عہد مقرر کیا۔

خلافت اور تخت نشینی

[ترمیم]

جمعرات18رجب218ھ مطابق7 اگست833ء کو عباسی خلیفہمامون الرشید نے اِنتقال کیا توطرطوس میں ہی اُمرائے حکومت نےمامون الرشید کی ولی عہدی کے مطابق المعتصم کی بیعت کرلی مگر لشکریوں یعنی افواج نے شورو غوغا کیا کہمامون الرشید کے بیٹے عباس بنمامون الرشید کو بحیثیتِ خلیفہ تخت نشیں کیا جائے۔ المعتصم نے عباس بنمامون الرشید کو دربارِ شاہی میں طلب کیا۔ عباس نے حاضر ہوکر بطیب خاطر اپنے چچا المعتصم کی بیعت کرلی تو شاہی افواج میں مچا ہنگامہ ختم ہو گیا۔[4]

قلعہ طوانہ کی اِنہدامی

[ترمیم]

مامون الرشید نے طوانہ کی جس قلعہ بندی کا حکم اپنے اواخر ایام میں دیا تھا۔ المعتصم نے اُسے اِسی حالت میں منہدم کردینے کا حکم دے دیا۔ اُس کی وجہ سے وہاں جس قدر اسلحہ اور دوسرا سازو سامان جمع کر لیا گیا تھا اُس میں سے جو بار کرکے لایا جاسکا وہ لے آیا۔ اور باقی کو جلا دیا گیا اور جن لوگوں کومامون الرشید نے وہاں آباد کیا تھا، انھیں اپنے اپنے وطن جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ واقعہ ماہِ شعبان 218ھ میں ہوا۔[4][5]

بابک خرمدین کا انجام

[ترمیم]

مامون الرشید نے مرتے وقت المعتصم کو وصیت کی تھی کہ خرمیوں سے غفلت نہ کرنا ورنہ اُن کا فتنہ بہت خطرناک ہے۔218ھ مطابق833ء میں ہیاصفہان،ہمدان، ماسیزان اور مہرجانقذق کے ہزا رہا پہاڑی باشندےبابک خرمدین کے مذہب میں داخل ہو گئے۔ اور سب نے مجتمع ہوکرہمدان کے علاقہ میں علم بغاوت بلند کر دیا۔ المعتصم نے اِن کے مقابلے میں بہت سی افواج روانہ کیں۔ آخری فوج اسحاق بن ابراہیم بن مصعب کی امارت میں اِس سال ماہِ شوال میں روانہ کی گئی اور اسحاق بن ابراہیم کو تمام علاقہ جبال کا امیر بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔ اسحاق بن ابراہیم ماہِ ذیقعد میں اِس جماعت کے مقابلہ پر روانہ ہوا اور 8 ذو الحجہ کو اِس فتح کا مراسلہ بشارتبغداد میں پڑھا گیا۔ صرفہمدان کے علاقہ میں اُس نے ساٹھ ہزار مرتدین کو جوبابک خرمدین کے پیروکار بن گئے تھے، قتل کر دیا گیا۔ باقی خرمی رومی علاقوں کو بھاگ نکلے۔[4]اتوار 11 جمادی الاول219ھ مطابق 24 مئی834ء کو اسحاق بن ابراہیم علاقہ جبال سے خرمیوں اور دوسرے اَمان حاصل کردہ قیدیوں کے ساتھبغداد آیا۔ خواتین اور بچوں کو چھوڑ کر اسحاق بن ابراہیم نے خرمیوں کی اِن تمام لڑائیوں میں اُن کے تقریباً ایک لاکھ آدمی قتل کردیے تھے۔[6]

221ھ میں ایک بار پھر خرمیوں کا فتنہ عروج کو پہنچ گیا تو المعتصم نے اپنے سب سے بڑے ترکی سپہ سالارافشین کوبابک خرمدین کی مہم پر متعین کرنا چاہا۔ اُس کی روانگی سے قبل ہی ابو سعید محمد بن یوسف کواردبیل بھیجا تاکہ وہ اُن قلعوں کی مرمت کروائے جو خرمیوں کے ہاتھوں تباہ ہوئے تھے۔ اِس اثناء میںبابک خرمدین اور اُس کے خرمی سردار عصمت نے متعدد حملے کیے۔ ابوسعید محمد بن یوسف نے انھیں ہر حملے میں شکست دی۔

عباسی ترکی سپہ سالارافشین اوربابک خرمدین کے درمیان عرصہ مدید تک معرکے ہوتے رہے۔افشین بھاری کمک لے کر اُس کے مقابلے کو روانہ ہوا۔بابک خرمدین کو معلوم ہوا تو وہ شب خون مارنے کو نکلا۔افشین کو اِس کی خبر ہو گئی اور اُس نے اپنی حسن تدبیر سے بفاء الکبیر کو وہاں سے نکال لیا اوربابک خرمدین کا مقابلہ ترکی سپہ سالار ہشیم سے ہو گیا۔ ہشیم کو مقابلہ میں ناکامی ہوئی توافشین نےبابک خرمدین کے عقب سے حملہ کر دیا۔بابک خرمدین کی تمام فوج اِس معرکہ میں کام آگئی۔بابک خرمدین بے سرو سامانی کے عالم میں معدودے چندے افراد کے ہمراہ وہاں سے بھاگا تو شہر موقان پہنچا۔ وہاں بقیہ لشکر کو لے کر مقام بد پر آ پہنچا۔ ماہِ ربیع الاول222ھ مطابقفروری/مارچ837ء کوافشین نےبابک خرمدین کے مرکزی مقام " بد " پر حملہ کر دیا اور کافی تاخت و تاراج کی۔

بغداد میں المعتصم نے جعفر خیاط کی سرکردگی میں ایک عظیم الشان لشکر مع تیس لاکھ درہم مصارف فوج دے کر روانہ کیا۔ فریقین میں سخت خونریزی ہوئی۔ آخر کارافشین اور جعفر خیاط کی مشترکہ فوج غالب آگئی اور مقام " بد " میں داخل ہو گئی۔ محلات میں آگ لگا دی گئی۔بابک خرمدین یہاں سے بھاگ نکلا۔ ابو الساج نے اُس کا تعاقب کیا۔بابک خرمدین کی ماں اور اُس کا بھائی معاویہ گرفتار کر لیے گئے۔بابک خرمدین جبال آرمینیاء میں جا چھپا۔افشین کے جاسوس اُس کے تعاقب میں پیچھے پیچھے تھے۔ سہل بن سباط نےبابک خرمدین کو دیکھ لیا تو اُس کی تعظیم و تکریم کے بہانے میں اُسے اپنے قلعہ میں لا کر رکھا اور اِس کی خبرافشین کو دے دی۔ دوسرے دن شکار کے بہانےبابک خرمدین کو جنگل میں لا کرافشین کے سپہ سالاروں کے ہاتھ گرفتار کروا دیا۔بابک خرمدینافشین کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس نے اِسے قید خانہ بھجوا دیا۔ اِس خدمت کے صلہ میں سہل بن سباط کو ایک لاکھ درہم اور اُس کے بیٹے معاویہ بن سہل کو ایک ہزار درہم دیے گئے اور سہل بن سباط کو جواہرات سے مرصع ایک پیٹی کمربند کی دی گئی۔افشین نے تمام رُوداد المعتصم کے حضور بھیجی۔ خلیفہ نےافشین کوسامرا طلب کیا۔ ماہِ شوال222ھ مطابقستمبر/اکتوبر837ء کوافشین مقام برزند سےسامرا کو روانہ ہوا۔ ہر منزل پر خلیفہ کے حکم سےافشین کی کمالِ عزت افزائی کی جاتی۔ ایک قاصد خاص خلیفہ کا معہ خلعتِ فاخرہ اور ایک راس عربی گھوڑے کےافشین سے ملتا۔ جس وقتافشینسامرا پہنچا تو ولی عہد شہزادہالواثق باللہ مع سرداران اور اراکین سلطنت کے اِستقبال کو آیا اور کمال توقیر سے قصر شاہی " مطیرہ " میں ٹھہرایا۔ اور اِسی قصر شاہی میںبابک خرمدین کو بھی رکھا گیا۔ خلیفہ المعتصم کے حکم سےافشین کے سر پر تاج رکھا گیا۔ اور قیمتی خلعت پہنائی گئی۔ بیس لاکھ درہم بطور صلہ مرحمت کی گئے اور دس لاکھ درہم لشکریوں میں تقسیم کیے گئے۔پیر 7 صفر223ھ مطابق7 جنوری838ء کو خلیفہ کے حکم کے مطابقبابک خرمدین کو دربارِ شاہی میں طلب کیا گیا اور اُس کے ہاتھ پیر کاٹ دینے کا حکم جاری ہوا۔ فوراً حکم کی تعمیل ہوئی اوربابک خرمدین کا سرخراسان بھیج دیا گیا اور بقیہ لاش کوسامرا میں صلیب پر چڑھا دیا گیا۔بابک خرمدین کے پنجہ ظلم سے 60 ہزار 600 مسلمان خواتین اور اُن کو بچوں کو حالت یرغمالی سے آزاد کروایا گیا۔ اُس کے بھائی عبد اللہ کوبغداد میں صلیب پر چڑھا دیا گیا۔[7][8][9]

علویوں کا دعویٰ خلافت

[ترمیم]

المعتصم کے عہد میں اہل بیت کے سربراہ محمد بن القاسم بن علی بن عمر بن علیزین العابدین بنحسین بنعلی بن ابی طالب تھے۔ محمد بن القاسممدینہ منورہ میں رہا کرتے تھے۔ بہت عابد و زاہد اور نیک سیرت مشہور تھے۔ امامیہ شیعہ فرقہ کے نویں اماممحمد تقی المعروف بہ محمد الجواد 24 سال کی عمر میں 30 ذیقعد220ھ مطابق29 نومبر835ء کوبغداد میں فوت ہوئے۔ اُن کے نکاح میںمامون الرشید کی بیٹی ام الفضل تھی۔ جب امام موصوف فوت ہوئے تو ام الفضل واپس شاہی محلبغداد میں اپنے چچا المعتصم کے پاس آ گئی اور یہیں رہنے لگی۔اہل بیت کے بزرگمحمد تقی فوت ہوئے تو شیعوں نے اُن کے سات سالہ بیٹےعلی نقی کو اپنا اِمام قرار دیا۔ زیدیہ جماعت نے محمد بن القاسم کو اپنا اِمام بنالیا۔ ایک فتنہ پرور خراسانی مدینہ منورہ آیا تو وہ محمد بن القاسم کے یہاں مدینہ منورہ میں اُن کے پاس ہی رہنے لگا۔ اُس نے یہ خیال محمد بن القاسم کے ذہن میں مستحکم کر دیا کہ " آپ ہی مستحق خلافت ہیں "۔ جو لوگخراسان سے حج کرنے آئے اُن کو امام موصوف کے پاس لا کر بیعت کروائی۔ پھر تو کچھ عرصہ بعد معتقدین کی کثرت ہوتی گئی۔ وہ خراسانی امام محمد بن القاسم کو لے کرجرجان چلا گیا اور مصلحتاً کچھ روز روپوش رہے۔ جب روساء اور اُمراء نے بھی بیعت کرلی تو اُس نے امام محمد بن القاسم کو ظہور کی رائے دی اور لوگوں کو علانیہ " رضاء من آل محمد " کی دعوت دینے لگا۔ عبد اللہ بن طاہر نے اِس طوفان بغاوت کو روکنے کی طرف توجہ دی۔طالقان کے اطراف میں متعدد لڑائیاں لڑی گئیں اور ہر لڑائی میں امام محمد بن القاسم کو ہزیمت اُٹھانا پڑی۔ آخر امام محمد بن القاسم پیچھے ہٹ گئے اور شہر نساء چلے گئے۔ وہاں پہنچے تو نساء کے عامل نے انھیں گرفتار کرکے عبد اللہ بن طاہر کے پاس بھیج دیا۔ عبد اللہ بن طاہر نے انھیںبغداد المعتصم کے پاس پہنچا دیا۔ یہ ماہِ ربیع الثانی219ھ مطابقاپریل/مئی834ء کو المعتصم کے سامنے حاضر کیے گئے۔ المعتصم نے انھیں مسرور الکبیر ،یعنی خلیفہہارون الرشید کے خدمت گار کے پاسسامرا میں قید کروا دیا۔ جس مقام پر قید کیا گیا اُس کی وسعت تین گز لمبی تھی اور دو گز چوڑی تھی۔ تین دن اِس کوٹھڑی میں رکھا گیا بعد ازاں حجرے میں منتقل کر دیا گیا اور کھانا بھی جاری رہا مگر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ عید الفطر کی شب9 اکتوبر834ء کو محمد بن القاسم روشندان کی رسی کے ذریعہ سے روشندان تک چڑھ کر قید خانے سے فرار ہوئے۔ جب قید خانہ کے خادم صبح کھانا لے کر پہنچے تو وہ غائب ہو چکے تھے۔ حکومتی اعلان کے مطابق اُن کی نشان دہی کرنے والے کو ایک لاکھ درہم اِنعام دینے کا وعدہ کیا گیا، منادیوں نے منادی کی مگر اُن کا قطعی پتہ نہ چلا۔ محمد بن القاسم یوں غائب ہوئے کہ وہ پھر دوبارہ منظر عام پر نہیں آ سکے۔ شیعوں کی زیدیہ جماعت انھیں امام مہدی کہتی ہے کہ زندہ غائب ہو گئے ہیں۔ امام محمد بن القاسم کے غائب ہوتے ہی اُن کے پیروکاروں کی تعداد منتشر ہو گئی۔[10]

المعتصم باللہ بحیثیتِ خلیفہ و حکمران

[ترمیم]

مامون الرشید کے زمانہ حکومت میں جو نظامِ سلطنت قائم ہوا تھا، المعتصم نے اُسی کو برقرا رکھا البتہ اُس نے فوج کے نظام کو بہت تقویت و ترقی دی۔ اِسی ترقی و تقویت سے اُسے کثیر فتوحات کا موقع بھی ملا۔ اِسی نظام کے بدولت اُس نے بادشاہانِ آذربائیجان، طبرستان، سیستان، اشیاصح، فرغانہ، طخارستان، صفہ اور شاہِکابل کو بھی قید کیا۔ مغیرہ بن محمد کہتے ہیں کہ جتنے بادشاہ المعتصم کے دروازے پر جمع ہوئے، کبھی کسی بادشاہ کے وقت میں جمع نہ ہوئے تھے۔[11]

المعتصم باللہ کے عہد کی اولیات

[ترمیم]

المعتصم پہلا بادشاہ ہے جس کے عہدِ حکومت میں باورچی خانہ کا خرچ دن دونا رات چوگنا ہو گیا حتیٰ کہ ایک ہزار دِینار روزانہ کا خرچ ہو گیا تھا۔[12]

المعتصم باللہ اور آٹھ کا ہندسہ

[ترمیم]

المعتصم باللہ کو مثمن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 8 کا ہندسہ اُس کی شخصیت کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکا تھا :

وہ بنو عباس کا آٹھواں خلیفہ تھا۔ اُس کی ولادت برج عقرب میں ہوئی جو دائرۃ البروج کا آٹھواں برج ہے۔ہارون الرشید کی آٹھویں اولاد تھا۔ اُس نے 8 سال 8 ماہ 8 یوم حکومت کی۔180ھ میں پیدا ہوا جس میں 8 کا ہندسہ نمایاں ہے یعنی دوسری صدی ہجری کا آٹھواں عشرہ۔218ھ میں تخت نشیں ہوا اِس میں بھی 8 کا ہندسہ نمایاں ہے۔ 8 فتوحات کیں جن میں وہ کامیاب ہوا۔ 8 بڑے دشمنوں کوقتل کیا۔ اپنی وفات کے بعد 8 لڑکے اور 8 لڑکیاں پیچھے چھوڑیں۔ 8محل تعمیر کروائے اور 8 سرائیں بنوائیں۔ 8 لاکھ دینار سرخ اور 8 لاکھ درہم سفید چھوڑے۔ 8 ہزار گھوڑے اور 8 ہزار غلام اور 8 ہزار لونڈیاں متروکہ چھوڑا۔[12][13]

آخری ایام اور وفات

[ترمیم]

یکم محرم الحرام227ھ کو المعتصم کی بیماری کا آغاز ہوا۔ مرض الموت میں وہ یہ آیت تلاوت کرتا رہا: حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْنَا ھُمْ بَغْتَۃً۔حالت نزع میں کہتا جاتا تھا کہ: " تمام حیلے جاتے رہے اب کوئی باقی نہیں رہا۔ کبھی یہ کہنے لگتا : " مجھے اِن لوگوں میں سے نکال لے چلو"۔ آخری دعا جو اُس نے کی وہ یہ تھی کہ: " اِلہ العالمین تو خوب جانتا ہے کہ میں تجھ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ڈرتا تھا۔ تجھ سے اُمید رکھتا تھا، اپنے سے نہیں "۔[14] آخر بروزجمعرات18ربیع الاول227ھ مطابق5 جنوری842ء کو 45 سال کی عمر میں المعتصم اپنے ہی تعمیر کردہ دار الحکومتسامرا میں فوت ہوا۔[15]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Bosworth 1993، صفحہ 776
  2. "عورتوں کی ہم جنس پرستی اور اسلامی ادب۔راشد یوسفزئی/آخری قسط"۔مکالمہ۔ 28 اکتوبر، 2017۔ 2019-06-01 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2019-06-01{{حوالہ ویب}}:تحقق من التاريخ في:|تاریخ= (معاونت)
  3. ^ابپجلال الدین سیوطی: تاریخ الخفاء، صفحہ 374، ذکر تحت خلیفہ عباسی المعتصم باللہ العباسی۔
  4. ^ابپابن جریر طبری: تاریخ الرسل و الملوک، جلد 6، صفحہ 370۔ طبع لاہور
  5. ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 126۔
  6. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل و الملوک، جلد 6، صفحہ 371۔ طبع لاہور
  7. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 6، تلخیص از صفحہ 371 تا 378، ذکر تحت سنۃ 221ھ - 223ھ، طبع لاہور۔
  8. ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون، جلد 7، حصہ دوم، صفحہ 130 تا 142۔
  9. یعقوبی: تاریخ الیعقوبی، جلد 3، صفحہ 578۔
  10. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل و الملوک، جلد 6، صفحہ 371۔ ذکر تحت سنۃ 219ھ، طبع لاہور۔
  11. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 377۔ ذکر تحت المعتصم باللہ العباسی
  12. ^ابجلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 378۔ ذکر تحت المعتصم باللہ العباسی
  13. ابن الاثیر: تاریخ الکامل، جلد 6 صفحہ 215۔
  14. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 377، ذکر تحت خلافۃ المعتصم باللہ العباسی۔
  15. جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ 376، ذکر تحت خلافۃ المعتصم باللہ العباسی۔
چھوٹی شاخبنو ہاشم
پیدائش:اکتوبر796ء وفات:5 جنوری842ء
مناصب سنت
ماقبل خلیفہاسلام
7 اگست833ء5 جنوری842ء
مابعد 
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=معتصم_باللہ&oldid=8586004»
زمرہ جات:
پوشیدہ زمرہ جات:

[8]ページ先頭

©2009-2025 Movatter.jp