عرب جمہوریہ مصر یامصر،جمهوريةمصر العربية (قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظمافریقا کے شمال مغرب اور بر اعظمایشیا کےسنائی جزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلومیٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میںغزہ پٹی اوراسرائیل، مشرق میںخلیج عقبہ اوربحیرہ احمر، جنوب میںسوڈان، مغرب میںلیبیا اور شمال میںبحیرہ روم ہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرفاردن، بحر احمر کے اس طرفسعودی عرب اور بحیرہ روم کے دوسری جانبیونان،ترکی اورقبرص ہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔
کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کوگہوارہ ثقافت بھی مانا جاتا ہے۔قدیم مصر میں کتب، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[7] مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور ثقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میںاہرامات جیزہ،ابوالہول،ممفس، مصر،طیبہ اوروادی ملوک شامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریخی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میںیونانی قوم،فارس،قدیم روم،عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصرمسیحیت کا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میںمسلمانوں نے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔
سولہویں صدی تا بیسویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں نے حکومت کی۔ شروع میںسلطنت عثمانیہ اور بعد میںسلطنت برطانیہ نے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادی کے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فوج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔مصری انقلاب، 1952ء میں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگادیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوینہر سوئز کا قومیا لیا گیا اورشاہ فاروق اول کو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایکجمہوری ملک بن گیا۔ 1958ء میںجمہوریہ سوریہ کے ساتھ مل کرمتحدہ عرب جمہوریہ کی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔بیسویں صدی کے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں1948ء میںاسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میںسوئز بحران، 1967ء میں چھروزہ جنگ اور 1973ء میںجنگ یوم کپور جیسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تکغزہ پٹی پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نےکیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی ساتھاسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کا دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومتبین صدارتی جمہوریہ ہے اور مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسی ہیں۔ سیاست میں انھیں آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مصر کاسرکاری مذہباسلام ہے اورسرکاری زبانعربی ہے۔[8] مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہشمالی افریقا،مشرق وسطی اورعرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔نائیجیریا اورایتھوپیا کے بعد بر اعظمافریقا کا تیسرا بڑا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادیدریائے نیل کے کنارے پر بسی ہوئی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہصحرائے اعظم پر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میںقاہرہ،اسکندریہ اور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔
مصر کیخود مختار ریاست شمالی افریقا، مشرق وسطی اورعالم اسلام میں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[9]مصر کی معیشت مشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور اکیسویں صدی میں اس کےدنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میںجنوبی افریقا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصرنائیجیریا کے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔[10][11] مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛
مصر (بکسر المیم)Miṣr" (عربی تلفظ: [mesˤɾ]; "مِصر") is theکلاسیکی عربی خالصکلاسیکی عربی کا لفظ ہے اورقرآن میں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہمصری عربی میںMaṣr" (مصری عربی تلفظ: [mɑsˤɾ];مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔[12]
1مکمل طور پر دونوں مراکش اورصحراوی عرب عوامی جمہوریہ کا دعوی2ہسپانوی محصور علاقہ، دعوی المغرب۔3متنازع مابین سوڈان اور مصر4 مصر اور سوڈان کے درمیان میں واقع کسی کا حصہ نہیں5متنازع مابین سوڈان اور جنوبی سوڈان۔6حصہ چاڈ، سابقہ دعوی لیبیا۔7متنازع مابین المغرب اور ہسپانیہ