مصالحہ /مسالا (Spice) ایسےبیج،پھل،جڑ،چھال یا کسی اورنباتاتی جز کو کہا جاتا ہے جو بنیادی طور پر کھانوں کو ذائقہ دینے یارنگت بخشنے کے لیے استعمال ہو۔ الغرض کھانے کو لذیذ اور پُر کشش بنانے کے لیے جو اجزا شامل کیے جاتے ہیں، انھیں ”مسالا“ یا ”مصالحہ“ کہا جاتا ہے۔[1] مسالوں کوجڑی بوٹیوں سے اس لحاظ سے الگ کیا جاتا ہے کہ جڑی بوٹیوں میں پتے، پھول یا تنوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مسالے پودے کے دوسرے حصوں سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ مصالحے / مسالے اور چٹخارے (سیزننگ) ایک ہی مفہوم نہیں رکھتے تاہم مصالحے اور جڑی بوٹیاں عموماً اسی زمرے میں آتی ہیں۔ کھانوں کے علاوہ مسالے بعض اوقاتطب، مذہبی رسومات،سنگھار کے سامان اورعطر سازی میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پرونیلا ایک ایسا مسالا ہے جو خوشبو سازی میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نباتاتی مٹھاس پیدا کرنے والے اجزا جیسےچینی کو مسالا نہیں سمجھا جاتا۔[2]
مسالے متعدد شکلوں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسے تازہ، سالم، خشک، کُترے ہوئے، کٹے ہوئے، کچلے ہوئے، پیسے ہوئے یا عرق کی صورت میں۔ یہ طریقے یا تو مسالے کی فروخت سے پہلے اختیار کیے جاتے ہیں یا کھانا پکانے کے دوران باورچی خانے میں اور بعض اوقات کھانے کی میز پر بھی مثلاً مرچ کے دانوں کو پیس کر بطور چٹنی یا مسالا شامل کرنا۔ کچھ مسالے مثلاًہلدی شاذ و نادر ہی تازہ یا سالم حالت میں دستیاب ہوتے ہیں[مشکوک –تبادلۂ خیال] اور عموماً پسی ہوئی صورت میں خریدے جاتے ہیں۔ چھوٹے بیج جیسےسونف اوررائی، ضرورت کے مطابق یا تو سالم استعمال کیے جاتے ہیں یا پھر پیس کر سفوف کی شکل میں۔
سالم اور خشک مسالوں کی ذخیرہ اندوزی کی مدت سب سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے انھیں بڑی مقدار میں خریدا اور محفوظ کیا جا سکتا ہے جو فی خوراک کے حساب سے نسبتاً سستا پڑتا ہے۔ تازہ مسالوں جیسےادرک، اپنی خشک صورت کے مقابلے میں عموماً زیادہ خوش ذائقہ ہوتا ہے تاہم یہ زیادہ مہنگا اور کم عرصے تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔
اب تک اس بات کا کوئی کافی طبی ثبوت نہیں ملتا کہ مسالوں کا استعمال انسانی صحت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔[3]
دنیا کی مجموعی پیداوار میں سے تقریباً 75 فیصد مسالےبھارت میں پیدا ہوتے ہیں، جوہندوستانی پکوان اور ثقافت میں بھی جھلکتے ہیں۔ تاریخی طور پر مسالا جات کی تجارتبرصغیر،مشرقی ایشیا اورمشرقِ وسطیٰ میں فروغ پاتی رہی۔ یورپ میں مسالوں کی طلب ہی وہ اہم معاشی و ثقافتی عنصر تھی جس نے ابتدائی جدید دور میں دنیا کی کھوج اور سمندری سفرات کو مہمیز دی۔
رؤف پاریکھ لکھتے ہیں کہ اس لفظ کا ایک املا ”مصالح“ بھی ہے اور بعض افراد اسے ”مسالا“ بھی تحریر کرتے ہیں۔ اس لفظ کے املا کے حوالے سے دہلی کے اہلِ زبان اس کی اصل یعنی عربی زبان کی جانب رجوع کرتے ہوئے ”مصالح“ کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ لکھنؤ کے اہلِ زبان ”مسالا“ کو موزوں سمجھتے ہیں جو فارسی اور اردو میں مروج ہو چکی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ماہرین کے نزدیک موجودہ دور میں ”مسالا“ کو ترجیح دی گئی ہے اور اسی بنا پر ان مرکبات میں بھی ’مسالا‘ ہی لکھا جانا چاہیے مثلاً گرم مسالا، بارہ مسالے کی چاٹ، فلاں کمپنی کے مسالے اور مسالے دار جیسے تراکیب میں بھی یہی املا مستعمل ہونا چاہیے۔[1]
شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں کہ ”شروع شروع میں اردو کا لفظ ’مصالح‘ تھا بعد میں ’مصالحہ‘ ہو گیا۔ لیکن مسالا / مسالا کے ذریعے خلط مبحث پیدا ہونے کی وجہ سے اب ’مسالا / مسالہ‘ بھی لکھا جانے لگا ہے۔۔۔ ان سب معنی میں مصالحہ لکھنا بہتر ہے لیکن مسالا کو کہیں غلط نہ کہیں گے۔“[4]
مصالحہ پیداوار ممالک
(میٹرک ٹن میں)| درجہ | ملک | 2010 | 2011 |
|---|
| 1 | بھارت | 1,474,900 | 1,525,000 |
| 2 | بنگلہ دیش | 128,517 | 139,775 |
| 3 | ترکیہ | 107,000 | 113,783 |
| 4 | چین | 90,000 | 95,890 |
| 5 | پاکستان | 53,647 | 53,620 |
| 6 | ایران | 18,028 | 21,307 |
| 7 | نیپال | 20,360 | 20,905 |
| 8 | کولمبیا | 16,998 | 19,378 |
| 9 | ایتھوپیا | 27,122 | 17,905 |
| 10 | سری لنکا | 8,293 | 8,438 |
| — | دنیا | 1,995,523 | 2,063,472 |
| ماخذ:اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت[5] |