مشتری (انگریزی: Jupiter) ہمارے نظام شمسی کاسورج سے پانچواں اور سب سے بڑا سیارہ ہے۔گیسی دیو ہونے کے باوجود اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے لیکننظام شمسی کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے زیادہ بھاری ہے۔زحل،یورینس اورنیپچون کی مانند مشتری بھی گیسی دیو کی درجہ بندی میں آتا ہے۔ یہ سارے گیسی دیو ایک ساتھ مل کر جووین یعنی بیرونی سیارے کہلاتے ہیں[11] ۔
قدیم زمانے سے لوگ مشتری کو جانتے تھے اور مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں مشتری کو نمایاں حیثیت دی گئی تھی۔ رومنوں نے اس سیارے کو اپنے دیوتا جیوپیٹر کا نام دیا تھا[12] ۔ زمین سے دیکھا جائے تو رات کے وقت آسمان پر چاند اور زہرہ کے بعد مشتری تیسرا روشن تریناجرام فلکی ہے[13] ۔
مشتری کا زیادہ تر حصہہائیڈروجن سے بنا ہے جبکہ ایک چوتھائی حصہہیلیئم پر بھی مشتمل ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے مرکزے میں بھاری دھاتیں بھی پائی جاتی ہوں[14] ۔ تیز محوری حرکت کی وجہ سے مشتری کی شکل بیضوی سی ہے۔ بیرونی فضاء مختلف پٹیوں پر مشتمل ہے۔ انہی پٹیوں کے سنگم پر طوفان جنم لیتے ہیں۔ عظیم سرخ دھبہ نامی بہت بڑا طوفان سترہویں صدی سے دوربین کی ایجاد کے بعد سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ مشتری کے گرد معمولی سا دائروی نظام بھی موجود ہے اور اس کامقناطیسی میدان کافی طاقتور ہے۔مشتری کے کم از کم 63 چاند ہیں جن میں چار وہ ہیں جو 1610 میںگلیلیو نے دریافت کیے تھے۔ ان میں سے سب سے بڑا چاند عطارد یعنی مرکری سے بھی بڑا ہے۔
مشتری پر خودکار روبوٹ خلائی جہاز بھیجے گئے ہیں جن میں سے پائینیر اور وائجر اہم ترین ہیں جو اس کے قریب سے ہو کر گذرے تھے۔ بعد میں اس پر گلیلیو نامی جہاز بھیجا گیا تھا جو اس کے گرد محور میں گردش کرتا رہا۔ اس وقت تک کا سب سے آخری جہاز نیو ہورائزن ہے جو فروری 2007 میں اس کے قریب سے گذرا تھا اور اس کی منزلپلوٹو ہے۔ مشتری کی کشش ثقل کی مدد سے اس جہاز نے اپنی رفتار بڑھائی ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں برف سے ڈھکے مائع سمندروں والے چاند یورپا کی تحقیق شامل ہے۔
مشتری زیادہ تر گیسوں اور مائع جات سے بنا ہے۔ نہ صرف بیرونی چار سیاروں میں بلکہ پورے نظام شمسی میں سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کےخط استوا پر اس کاقطر 1،42،984 کلومیٹر ہے۔ مشتری کی کثافت 1.326 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے جو گیسی سیاروں میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے تاہم چار ارضی سیاروں کی نسبت یہ کثافت کم ہے۔
مشتری کی بالائی فضاء کا 88 سے 92 فیصد حصہہائیڈروجن سے جبکہ 8 سے 12 فیصدہیلیئم سے بنا ہے۔ چونکہ ہیلیئم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے ایٹم کی نسبت 4 گنا زیادہ ہوتا ہے اس لیے مختلف جگہوں پر یہ گیسیں مختلف مقداروں میں ملتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی فضاء کا 75 فیصد حصہ ہائیڈروجن جبکہ 24 فیصد ہیلئم سے بنا ہے۔ باقی کی ایک فیصد میں دیگر عناصر آ جاتے ہیں۔ اندرونی حصے میں زیادہ وزنی دھاتیں پائی جاتی ہیں اور ان میں 71 فیصدہائیڈروجن، 24 فیصدہیلیئم اور 5 فیصد دیگر عناصر بحساب وزن موجود ہیں۔ فضاء میں میتھین، آبی بخارات، امونیا اور سیلیکان پر مبنی مرکبات ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاربن، ایتھین، ہائیڈروجن سلفائیڈ، نیون، آکسیجن، فاسفین اور گندھک بھی انتہائی معمولی مقدار میں ملتی ہیں۔ سب سے بیرونی تہ میں جمی ہوئی امونیا کی قلمیں ملتی ہیں۔[15][16] زیریں سرخ اوربالائے بنفشی شعاعوں کی مدد سے کی گئی پیمائشوں میں بینزین اور دیگر ہائیڈرو کاربن بھی دیکھی گئی ہیں۔[17]
ہائیڈروجن اورہیلیئم کی فضائی خصوصیات قدیم شمسی نیبولا سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ تاہم نیون گیس کی مقدار دس لاکھ اجزاء میں محض 20 ہے جو سورج پر موجود مقدار کا محض دسواں حصہ ہے۔[18] ہیلیئم کی مقدار بھی اب کم ہو رہی ہے تاہم اب بھی اس کی مقدار سورج کی نسبت محض 80 فیصد باقی رہ گئی ہے۔[19] اس کے علاوہ مشتری کی فضاء میں انرٹ گیس کی مقدار سورج کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے۔
سپیکٹرو سکوپی کے مشاہدے کی بنا پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیٹرن کی ساخت مشتری سے مماثل ہے لیکن دیگر گیسی دیو یورینس اور نیپچون پرہائیڈروجن اورہیلیئم کی مقدار بہت کم ہے۔[20] تاہم چونکہ مشتری سے آگے کسی سیارے کی سطح پر مشاہداتی خلائی جہاز نہیں اتارے گئے اس لیے ان کی فضائی ساخت کے متعلق تفصیل سے کچھ بتانا مشکل ہے۔
مشتری کا رداسسورج سے دس گنا کم ہے اورزمین کا رداس مشتری سے دس گنا چھوٹا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کی چوڑائی زمین کے برابر ہے
مشتری کی کمیت نظام شمسی کے دیگر تمام سیاروں کے مجموعی وزن سے اڑھائی گنا زیادہ ہے۔ زمین کی نسبت مشتری گیارہ گنا زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن اسی نسبت سے اگر وہ زمین جتنا بھاری ہوتا تو اسے زمین کی نسبت 1321 گنا زیادہ بھاری ہونا چاہیے تھا لیکن یہ سیارہ محض 318 گنا زیادہ بھاری ہے۔[3][21] مشتری کا قطر سورج کے قطر کا دسواں حصہ ہے,[22] اور اس کی کمیت سورج کی کمیت کے صفر اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد کے برابر ہے۔ اس لیے سورج اور مشتری کی کثافت برابر ہے[23] ۔ مشتری کی کمیت کو پیمائش کی اکائی بنا کر بین النظام الشمسی سیاروں اور بونے ستاروں کی پیمائش کی جاتی ہے۔
مختلف سائنسی مفروضات کے مطابق اگر مشتری کی کمیت زیادہ ہوتی تو یہ سیارہ سکڑ جاتا۔[24] اگر مشتری کی کمیت میں معمولی سا بھی رد و بدل کر دیا جائے تو اس کے قطر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم اگریہ اضافہ ایک اعشاریہ چھ گنا[24] ہو جائے تو مرکزہ اپنی کشش کے باعث سکڑ نے لگے گا اور کمیت میں اضافے کے باوجود سیارے کا قطر کم ہوتا جائے گا۔ نتیجتاً یہ کہا جاتا ہے کہ مشتری کی طرح کے سیارے دراصل زیادہ سے زیادہ مشتری جتنے ہی بڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر مشتری کی کمیت 50 گنا بڑھ جائے تو پھر یہبھورا بونا ستارہ بن جائے گا جیسا کہ بعض کثیر الشمسی نظاموں میں ہوتا ہے[25] ۔
اگرچہ مشتری کو ستارہ بننے کے لیے 75گنا زیادہ کمیت درکار ہوگی تاکہ وہ ہائیڈروجن کے ملاپ سے ستارہ بن سکے۔ سب سے چھوٹاسرخ بونا ستارہ دراصل مشتری کے قطر سے محض تیس فیصد بڑا ہے[26] ۔ اس وجہ سے مشتری ہر سال دو سینٹی میٹر جتنا سکڑ رہا ہے۔ جب مشتری پیدا ہوا تھا تو بہت زیادہ گرم اور موجودہ حجم سے دو گنا بڑا تھا[27] ۔
مشتری کے مرکزے میں مختلف عناصر پائے جاتے ہیں جن کے گرد دھاتیہائیڈروجن بشمول کچھہیلیئم کے مائع شکل میں موجود ہے جس کے باہر مالیکیولر ہائیڈروجن ہے۔ اس کے علاوہ مزید باتیں ابھی یقین سے نہیں کہی جا سکتیں۔ مرکزے کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ پتھریلا ہے لیکن مزید تفصیلات معلوم نہیں۔ 1997 میں کشش ثقل کی پیمائش سے مرکزے کی موجودگی کا ثبوت ملا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزہ زمین سے 12 تا 45 گنا زیادہ بھاری ہے اور مشتری کے کل کمیت کے 4 سے 14 فیصد کے برابر[28][29] ۔ تاہم یہ پیمائشیں سو فیصد قابل اعتبار نہیں ہوتیں اور عین ممکن ہے کہ مرکزہ سرے سے ہو ہی نہ۔
تراشہ شدہ مشتری جس میں اس کا چٹانی مرکزہ اور اس کے اوپر مائع دھاتی ہائیڈروجن کی موٹی تہ دکھائی دے رہی ہے۔
دوائجر اول کی 25 فروری 1979 کو 92 لاکھ کلومیٹر کی دوری سے لی گئی اس تصویر میں عظیم سرخ دھبہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ دکھائی دے رہا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کے نیچے سفید گول طوفان کا حجم زمین کے تقریباً برابر ہے
مشتری پر امونیا کی قلموں یعنی کرسٹل اور ممکنہ طور پر امونیم ہائیڈرو سلفائیڈ کے بادل مستقل طور پر چھائے رہتے ہیں۔ بعض جگہوں پر 100میٹر فی سیکنڈ یعنی 360 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی ہوا عام پائی جاتی ہے[31] ۔
اس متحرک تصویر میں مشتری پر گھڑیال موافق حرکت کرتے بادلوں کی پٹیاں دکھائی دے رہی ہیں:720 پکسل،1799 پکسل.
بادلوں کی یہ تہ تقریباً 50 کلومیٹر موٹی ہے اور اس میں دوتہیں ہیں۔ اوپری تہ ہلکی جبکہ نچلی تہ گہری اور بھاری ہے۔ مشتری پر چمکنے والیآسمانی بجلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بادلوں کی تہ کے نیچے پانی کے بادلوں کی بھی ہلکی تہ موجود ہوگی[28]۔ یہ بجلی زمینی بجلی کی نسبت ہزار گنا زیادہ طاقتور ہو سکتی ہے[32] ۔ بادلوں کے رنگ نارنجی اور بھورے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جس مادے سے بنے ہیں، وہ سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں میں اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہ بادل فاسفورس، گندھک اور شاید ہائیڈرو کاربن سے بنے ہوں[28][33] ۔ مشتری اپنے محور کے گرد اس طرح گھومتا ہے کہ اس کے قطبین پر سورج کی روشنی نسبتاً کم پڑتی ہے[21]۔
مشتری کا عظیم سرخ دھبہ مختصر ہو رہا ہے (15 مئی 2014).[34]
مشتری کا سب سے نمایاں نشان اس کا عظیم سرخ دھبہ ہے جو خط استوا سے 22 ڈگری جنوب میں موجود ایک اینٹی سائکلونک طوفان ہے اور اس کا رقبہ زمین سے بڑا ہے[35] ۔ 1831 سے اس کے بارے معلومات ہیں اور عین ممکن ہے کہ اسے پہلی بار 1665 میں دیکھا گیا ہو۔ ریاضیاتی ماڈلوں سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ طوفان مشتری کی مستقل خاصیت ہو۔ 12 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ قطر کے عدسے والی دوربین سے اس طوفان کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
وائجر اول نے مشتری سے قریب ہوتے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے دوران یہ تصویر کھینچی جس میں فضائی پٹیوں کی حرکت اور عظیم سرخ دھبے کے چکر کھانے کو دیکھا جا سکتا ہےبڑی تصمیم والی وڈیو
بیضوی جسم گھڑیال مخالف سمت گھومتا ہوا چھ دن میں ایک گردش مکمل کرتا ہے۔ عظیم سرخ دھبے کی لمبائی اور چوڑائی 24000 سے 40000 ضرب 12000 سے 14000 کلومیٹر ہے[36] اور نزدیکی بادلوں کے بالائی سرے سے آٹھ کلومیٹر اونچا ہے[37] ۔ اس طرح کے طوفان دیگر گیسی دیوؤں پر بھی عام پائے جاتے ہیں۔ مشتری پر سفید اور بھورے طوفان بھی ہیں لیکن ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ طوفان نسبتاً ٹھنڈے بادلوں سے بنے ہیں۔
مشتری کے گرد مدھم حلقے پائے جاتے ہیں جس کے تین حصے ہیں۔ ایک اندرونی، ایک درمیانی نسبتاً روشن اور ایک بیرونی[38] ۔ یہ حلقے گرد سے بنے ہیں اور زحل کے حلقوں کی مانند سے برف سے نہیں بنے[28]۔ اصل حلقہ شاید مشتری کے اپنے چاندوں ایڈریاسٹا اور میٹس سے خارج شدہ مادے سے بنا ہے۔ عام طور پر خارج ہونے والا مادہ جو واپس اسی چاند میں جا گرنا چاہیے، مشتری کی طاقتور کشش کی وجہ سے مشتری پر جا گرتا ہے[39] ۔
مشتری کا مقناطیسی میدان زمین کی نسبت 14 گنا زیادہ طاقتور ہے اور اس کی پیمائش 4.2 سے 10-14 گاز تک ہے۔ یہ مقدار ہمارے نظامِ شمسی میں سورج کے دھبوں کے بعد سب سے زیادہ طاقتور ہے[40]۔ مشتری کے چاند آئی او کے آتش فشاں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار خارج کرتے ہیں۔ مشتری کی 75 جسامتوں کے فاصلے پر اس کا مقناطیسی میدان اور شمسی ہوا ٹکراتے ہیں۔ مشتری کے چاروں بڑے چاند اس کے مقناطیسی میدان میں ہی حرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شمسی ہوا سے بچے رہتے ہیں[28]۔
مشتری(سرخ) سورج(مرکزہ) کے گرد ایک چکر 11.86زمینی (نیلا رنگ) گردشوں میں مکمل کرتا ہے
مشتری واحد سیارہ ہے جو سورج کے مرکزثقل سے صرف 7% دوری پر ہے، یہ سورج کے حجم کے باہر اس کے ساتھ ہے[41] ۔ مشتری کا مدار سورج سے 77 کروڑ 80 لاکھ کلومیٹر دور ہے جو زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کا 5 گنا ہے۔ اس کے علاوہ سورج کے گرد اس کا ایک چکر 11.86 زمینی سالوں میں پورا ہوتا ہے[42] ۔مشتری کے محوری جھکاؤ نسبتاً چھوٹا ہے: صرف 3.13 °۔ جس کے نتیجے میں مشتری پر زمین اور مریخ کے برعکس زیادہ موسمی تبدیلیاں نہیں آتیں[43] ۔ مشتری کی اپنے محور پر گردش پورے نظامِ شمسی میں سب سے تیز ہے جو دس گھنٹے سے بھی کم وقت میں مکمل ہو جاتی ہے۔ زمین سے اچھی دوربین کی مدد سے مشتری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی شکل بیضوی ہے جس کی وجہ سے اس کا نصف قطر خطِ استوا پر قطبین کی نسبت بڑا ہے۔ اسی وجہ سے قطبین پر نصف قطر خطِ استوا کی نسبت 9275 کلومیٹر کم ہے[44]۔ کیونکہ مشتری ایک ٹھوس جسم نہیں ہے، اس کی بالائی فضا میں متفاوت گردش رونما ہوتی ہیں۔ مشتری کے قطبی فضا کی گردش استوائی فضا سے تقریباً 5 منٹ طویل ہے[45] ۔
چاند اور مشتری پہلو بہ پہلوبظاہر واپس جاتے ہوئے بیرونی سیارے کی حرکت دراصل اس کے زمین کے مقام سے منسلک ہوتی ہے
مشتری آسمان پر سورج، چاند اور زہرہ کے بعد چوتھا روش ترین اجرام فلکی ہے[40]۔ تاہم بعض اوقات مریخ اس سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ مشتری کے مقام کا دارومدار زمین کی نسبت سے ہے، اس کا وہ نظارہ جو نظر آتا ہے حقیقت میں اس سے مختلف ہو سکتا ہے، یہ سورج کے عطف سے−2.9 سے −1.6 تک نیچے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مشتری کے زاویاتی قطر 50.1 سے 29.8 آرک سیکنڈ پر مختلف ہوتی ہے[3]۔زمین اپنے مدار میں گردش کرتے وقت ہر 398.9 دن بعد مشتری کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اس وجہ سے جب زمین آگے نکلتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے مشتری نے اچانک ہی اپنی حرکت کی سمت الٹ دی ہو۔ مشتری کی سورج کے گرد بارہ سال میں ایک چکر علم نجوم میں اہمیت رکھتا ہے اور شاید برجوں کا سلسلہ اسی کے مشاہدے سے شروع ہوا تھا[21]۔چونکہ مشتری کا مدار زمین کے مدار سے باہر کی جانب ہے، اس لیے مشتری ہمیشہ زمین سے روشن دکھائی دیتا ہے۔ خلائی جہاز سے کھینچی گئی تصویر میں مشتری ہلال کی شکل میں بھی دکھائی دے سکتا ہے[46] ۔ ایک چھوٹی دوربین عام طور پر مشتری کی فضا میں، مشتری کے چار گلیلی چاند اور نمایاں بادلوں کی پٹی دکھائے گی[47] ۔ جب کہ ایک بڑی دوربین مشتری کا عظیم سرخ داغ بھی دکھائے گی۔
عہد بابل کے لوگوں نے 7ویں یا 8ویں صدیقبل مسیح میں مشتری کا مشاہدہ کیا تھا[48] ۔ چینی فلکیاتی تاریخ دان ژی زیزنگ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک چینی فلکیات دان نے مشتری کے ایک چاند کو 362 ق م میں بغیر کسی آلے کے دریافت کر لیا تھا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ دریافت گلیلیو کی دریافت سے 2000 سال پہلے ہوئی ہوگی[49][50] ۔ دوسری صدی میں بقراط نے مشتری کا ماڈل بنایا تھا جس کے مطابق مشتری سورج کے گرد ایک چکر 11.86 سال میں پورا کرتا ہے[51] ۔ 499 عیسوی میں آریا بھاتا نامی ہندوستانی فلکیات دان اورریاضی دان نے بھی لگ بھگ یہی نتیجہ نکالا تھا[52] ۔
1610 میںگلیلیو گلیلی نے دوربین کی مد سے مشتری کے چار بڑے چاند آئی او، یورپا، گائنامیڈ اور کالیسٹو (جنہیں گلیلین چاند بھی کہا جاتا ہے) دریافت کیے۔ دوربین کی مدد سے زمین کے علاوہ کسی بھی سیارے کے چاند کو پہلی بار تبھی دیکھا گیا تھا۔ گلیلیو کا یہ مشاہدہ ثابت کرتا تھا کہ کسی بھی اجرام فلکی کی حرکت اس حساب سے نہیں ہو رہی کہ زمین کو مرکز مانا جائے۔ کوپرنیکس کے نظریے کے حق میں یہ مشاہدہ بہت اہم ثابت ہوا۔ کوپرنیکس کے نظریے کی کھلی حمایت کی وجہ سے گلیلیو کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا[53] ۔
1660 کی دہائی میں کسینی نے ایک نئی دوربین کی مدد سے مشتری پر دھبوں اور دیگر نشانات کو دریافت کیا اور بتایا کہ مشتری گول نہیں بلکہ بیضوی شکل کا ہے اور اس کے قطبین نسبتاً پچکے ہوئے ہیں[16]۔ 1690 میں کسینی نے دریافت کیا کہ مشتری کی پوری فضاء یکساں رفتار سے حرکت نہیں کرتی[28]۔
مشتری کا عظیم دھبہ جو مشتری کی اہم اور مستقل نشانی ہے، کو پہلی بار 1664 میں رابرٹ ہک نے اور پھر 1665 میں جیوانی کسینی نے الگ الگ دیکھا۔ 1831 میں فارماسیسٹ ہنرچ شوابے نے اس عظیم دھبے کی شکل پہلی بار بنا کر پیش کی[54] ۔
1665 سے 1708 کے دوران یہ دھبہ مشاہدے سے اوجھل رہا اور پھر 1878 میں پھر واضح دکھائی دینے لگا۔ 1883 اور پھر 20ویں صدی کے آغاز میں پھر یہ دھندلا ہوتا دکھائی دیا[55] ۔
جیوانی بوریلی اور کسینی نے مشتری کے بڑے چاندوں کی گردش کے جدول بنائے کہ کب کون سا چاند مشتری کے سامنے آئے گا اور کب اس کے پیچھے چھپ جائے گا۔ تاہم 1670 میں جب یہ بات پتہ چلی کہ مشتری زمین سے سورج کی دوسری جانب ہے تو یہ حرکات توقع سے 17 منٹ زیادہ تاخیر سے ہوں گی، کیسنی نے پہلے ہی اسے مسترد کر دیا تھا.[16] اور اس وقت کے اختلاف سے روشنی کی رفتار کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا[56] ۔
1892 میں برنارڈ نے 36 انچ دوربین کی مدد سے کیلیفورنیا کی لِک رصد گاہ سے مشتری کا پانچواں چاند دریافت کیا۔ اس چھوٹے چاند کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی شہرت جلد ہی ہر طرف پھیل گئی۔ بعد میں اس چاند کو امالتھیا کا نام ملا[57] ۔ براہ راست انسانی آنکھ سے دریافت ہونے والا یہ آخری سیاراتی چاند تھا[58] ۔ دیگر آٹھ چاندوائجر اول کے 1979 کے چکر سے قبل دریافت ہو گئے۔
1932ء میں، روپرٹ والڈ نے مشتری کے طیف میں امونیا اور میتھین کے بینڈ کی نشاہدہی کی[59] ۔ 1938 سے تین اینٹی سائیکلون جنھیں سفید بیضے کہا جاتا تھا، مشتری پر دیکھے جاتے رہے اور کئی دہائیوں تک یہ ایک دوسرے کے قریب تو آتے رہے، لیکن ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوئے۔ اخرکار 1998 میں دو اور پھر 2000 میں تیسرا بھی ضم ہو کر ایک بڑا بیضہ بنے[60] ۔
1955 میں برنارڈ برک اور کینیتھ فرینکلن نے مشتری سے 22.2 میگا ہرٹز کے سگنل وصول کیے جو اس کی محوری گردش کے ساتھ منسلک ہے[28]۔ اسی کی بنیاد پر مشتری کی محوری گردش کی رفتار معلوم کی گئی ہے۔ یہ سگنل دو طرح کے دورانیئے کے ہوتے ہیں۔ لمبے سگنل کئی سیکنڈ تک جبکہ مختصر سگنل ایک سیکنڈ کے سوویں حصے سے بھی کم عرصے کے لیے آتے ہیں[61] ۔
1973 سے کئی خودکار خلائی جہاز مشتری تک پہنچ چکے ہیں جن میں سے پاینئر 10 سب سے زیادہ مشہور ہے کیونکہ یہ سب سے پہلے مشتری کے قریب پہنچا تھا اور نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے کے بارے معلومات دی تھیں[62][63] ۔ عموماً دوسرے سیاروں کو جانے والے راکٹوں پر توانائی پر سب سے زیادہ خرچہ آتا ہے۔ زمین کے نچلے مدار سے مشتری کو جانے کے لیے درکار رفتار 6.3 کلومیٹر فی سیکنڈ درکار ہوتی ہے[64] جبکہ زمین کی کشش پر قابو پانے کے لیے خلائی جہازوں کو 9.7 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار درکار ہوتی ہے[65] ۔ اس کے علاوہ گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک کی مدد سے دیگر سیاروں کی کشش سے رفتار کم کرتے ہوئے خلائی جہاز آسانی سے مشتری کو جا سکتے ہیں لیکن اس سے کل درکار وقت بہت بڑھ جاتا ہے[66] ۔
پائینر 10 خلائی جہاز 3 دسمبر 1973 کو 130،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
پائینر 11 خلائی جہاز 2 دسمبر 1974 کو 34،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
وائجر 1 خلائی جہاز 5 مارچ 1979 کو 349،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
وائجر 2 خلائی جہاز 9 جولائی 1979 کو 570،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
اُلائیسس خلائی جہاز پہلی بار 8 فروری 1992 کو 408،894 کلومیٹر جبکہ دوسری بار 4 فروری 2004 کو 12،000،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
کسینی خلائی جہاز 30 دسمبر 2000 کو 10،000،000 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا
نیو ہورائزنز خلائی جہاز 28 فروری 2007 کو 2،304،535 کلومیٹر سے گذرا
1973 سے مختلف خلائی جہاز مشتری کے اتنے قریب سے گذرے ہیں کہ اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ پاینئر مشن نے پہلی بار مشتری کی فضاء اور اس کے کئی چاندوں کی قریب سے کھینچی ہوئی تصویریں زمین کو بھیجی ہیں۔ انہی سے پتہ چلا ہے کہ مشتری کے قطبین پر موجود مقناطیسی میدان توقع سے کہیں زیادہ طاقتور ہے تاہم یہ جہاز بچ نکلنے میں کامیاب رہے[21][67] ۔
چھ سال بعد وائجر جہازوں کی وجہ سے مشتری کے چاندوں اور اس کے دائروں کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوا کہ عظیم سرخ دھبہ اینٹی سائیکلونک ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں لی گئی تصاویر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاینئر مشنز کے بعد سے اس دھبے کا رنگ بدل رہا ہے اور نارنجی سے گہرا بھورا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ آئی او پرآتش فشاں بھی موجود ہیں جن میں سے کئی لاوا اگل رہے ہیں۔ مشتری کے پیچھے جب خلائی جہاز گئے تو تاریک حصے میں چمکتی آسمانی بجلیاں بھی دکھائی دی ہیں[15][21]۔
مشتری کو جانے والا اگلا مشن الائسیس کا سورج کو جانے والا خلائی جہاز سورج کے گرد اپنا مدار قائم کرنے کے لیے مشتری کے پاس سے گذرا۔ چونکہ اس پر کوئی کیمرا نصب نہیں، اس لیے تصاویر نہیں لی جا سکیں۔ دوسری بار یہ خلائی جہاز چھ سال بعد بہت دور سے گذرا۔ پہلی بار گذرتے ہوئے اس خلائی جہاز نے مشتری کے مقناطیسی میدان پر کافی تحقیق کی[68] ۔
زحل کو جانے والا کسینی خلائی جہاز 2000 میں مشتری کے پاس سے گذرا اور اب تک کی بہترین تصاویر بھیجیں۔ 19 دسمبر 2000 کو اس نے ہمالیہ نامی چاند کی تصاویر لیں لیکن دھندلے ہونے کی وجہ سے سطح کے بارے کچھ خاص معلومات نہیں مل سکیں[69] ۔
نیو ہورائزنز خلائی جہاز جو پلوٹو کو جا رہا ہے، گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک سے فائدہ اٹھانے مشتری کے قریب سے گذرا تھا۔ 28 فروری 2007 کو مشتری کے قریب سے گذرا[70] اور اس نے آئی او کے آتش فشانوں اور دیگر چار بڑے چاندوں پر تحقیق کی اور بہت دور سے ہمالیہ اور ایلارا کی بھی تصاویر کھینچیں[71] ۔ چار بڑے چاندوں کیتصویر کشی 4 ستمبر 2006 میں شروع ہوئی[72][73] ۔
تاحال مشتری کے مدار میں پہنچنے والا واحد خلائی جہاز گلیلیو ہے۔ یہ جہاز 7 دسمبر 1995 کو مدار میں پہنچا اور سات سال تک کام کرتا رہا۔ اس نے کئی بار تمام چاندوں کے گرد بھی چکر لگائے۔ اسی خلائی جہاز کی مدد سے شو میکرِلیوی 9 نامی دمدار ستارے کو مشتری پر گرتے دیکھا گیا جو ایک انتہائی نادر واقعہ ہے۔ اگرچہ گلیلیو سے بہت قیمتی معلومات ملیں لیکن ایک خرابی کی وجہ سے اس کا اصل اینٹینا کام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے ڈیٹا بھیجنے کا عمل سخت متائثر ہوا[74] ۔
جولائی 1995 کو گلیلیو نے ایک مشین نیچے اتاری جو پیراشوٹ کی مدد سے 7 دسمبر کو مشتری کی فضاء میں اتری۔ اس نے کل 57.6 منٹ تک کام کیا اور 150 کلومیٹر نیچے اتری اور آخرکار انتہائی دباؤ کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی۔ اس وقت اس پر پڑنے والا فضائی دباؤ زمین سے 22 گنا زیادہ اوردرجہ حرارت 153 ڈگری سینٹی گریڈ تھا[75] ۔ اندازہ ہے کہ پگھلنے کے بعد شاید تبخیر کا شکار ہو گئی ہو۔ 21 ستمبر 2003 کو گلیلیو کو بھی اسی مقصد کے لیے مشتری کے مدار سے سطح کی طرف گرایا گیا۔ اس وقت اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناسا نے یورپا کو کسی قسم کی ملاوٹ سے پاک رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا تاکہ خلائی جہاز راستے میں ہی تباہ ہو جائے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یورپا پر زندگی کے امکانات ہیں[74]۔
مشتری کے قطبین کے بہتر مطالعے کے لیے ناسا جونو نامی کلائی جہاز 2011 میں بھیجنے لگا تھا جو2016ء میں واپس آتا[76] ۔
یورپا جیوپیٹر سسٹم مشن ناسا اور یورپی خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے جس میں مشتری اور اس کے چاندوں کے لیے مہم بھیجی جائے گی۔ فروری 2009 میں ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے اعلان کیا کہ اس مہم کو ٹائٹن سیٹرن سسٹم مشن پر ترجیح دی ہے۔ یہ مہم 2020 کے آس پاس بھیجی جائے گی۔ اس مہم میں ناسا مشتری اور یورپا کے لیے جبکہ یورپی خلائی ادارہ مشتری اور گینی میڈ کے گرد گردش کرنے والا خلائی جہاز بھیجے گا[77] ۔
چونکہ مشتری کے چاندوں یورپا، گینی میڈ اور کالیسٹو کی سطح پر مائع سمندر پائے جانے کا امکان ہے اس لیے ان کے تفصیلی مشاہدے کا منصوبہ ہے۔ تاہمسرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ ناسا کا جیمو یعنی جیوپیٹر آئسی مون آربیٹر مشن 2005 میں منسوخ ہو گیا ہے[78] ۔
مشتری کے 67 قدرتی چاند ہیں[79] ۔ ان میں سے، 51 کا قطر 10 کلومیٹر سے چھوٹا ہے اور انھیں 1975 کے بعد دریافت کیا گیا ہے۔ چار بڑے چاند جنھیں گلیلین چاند کہا جاتا ہے، آئی او، یورپا، گینی میڈ اور کلیسٹو ہیں۔
آئی او، یورپا، گینی میڈ اور چند دیگر بڑے چاندوں کی گردش میں لیپلاس ریزونینس پائی جاتی ہے۔ مثلاً آئی او کے مشتری کے گرد ہر چار چکر پر یورپا اس وقت میں پورے دو چکر کاٹتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گینی میڈ صرف ایک۔ اس وجہ سے ہر چاند دوسرے چاند کو ایک ہی مقام پر ملتا ہے جن کی باہمی کشش کی وجہ سے ان کے مدار گول کی بجائے بیضوی ہیں[81] ۔
مشتری کی کشش کی وجہ سے ان چاندوں کے اندر رگڑ کی وجہ سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور آئی او پر آتش فشاں کی یہی وجہ ہے۔
وائجر مہمات سے قبل مشتری کے چاندوں کو ان کے مدار کی خصوصیات کی وجہ سے چار چار کے چار گروہوں میں رکھا گیا تھا۔ لیکن بے شمار چھوٹے چاندوں کی دریافت کے بعد یہ تقسیم درست نہیں رہی۔ اب چھ اہم گروہ ہیں لیکن اندازہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ گروہ بنیں گے۔
ایک اور درجہ بندی یہ ہے کہ اندرونی آٹھ چاندوں کو ایک گروہ میں رکھا جائے جن کے مدار تقریباً گول اور خطِ استوا کے قریب ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مشتری کے ساتھ ہی پیدا ہوئے تھے۔ باقی سارے چاند ایک ہی درجہ بندی میں آتے ہیں اور خیال ہے کہ وہ شہابیئے ہیں جنھیں مشتری نے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ ان کی شکلیں اور مدار ایک جیسے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے چاند کے ٹوٹنے سے بنے ہوں[82][83] ۔
اپنی بہت زیادہ کششِ ثقل اور نظامِ شمسی کے اندر ہونے کی وجہ سے مشتری کو نظامِ شمسی کا ویکیوم کلینر یا جمعدار کہا جاتا ہے[84] ۔ نظامِ شمسی کے سیاروں میں سب سے زیادہ اسی کے ساتھ دمدار ستارے اور شہابیئے ٹکراتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیارہ نظامِ شمسی کے اندرونی سیاروں کو شہابیوں سے بچانے کے لیے ڈھال کا کام کرتا ہے۔ تاہم حالیہ کمپیوٹر سمولیشن کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ مشتری جتنے شہابیئے یا دمدار ستارے اپنے مدار میں کھینچتا ہے، اتنے ہی اس کی وجہ سے اپنے مدار سے نکل کر اندرونی نظامِ شمسی کا رخ کرتے ہیں[85] ۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مشتری اوورت بادل سے آنے والے دمدار ستاروں سے بچاؤ کا کام کرتا ہے۔
16 جولائی سے 22 جولائی 1994 کے دوران شو میکر لیوی 9 دمدار ستارے کے 20 ٹکڑے مشتری کے جنوبی نصف کرے سے ٹکرائے تھے اور نظامِ شمسی میں ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ نظامِ شمسی کے دو اجسام ایک دوسرے سے ٹکرائے ہوں۔ اس ٹکراؤ کے مشاہدے سے ہمیں مشتری کی فضاء کے بارے قیمتی معلومات ملی ہیں[86][87] ۔
19 جولائی 2009 کو ایک جگہ دمدار ستارے کے ٹکراؤ کے نشان ملے تھے جسے زیریں سرخ روشنی سے دیکھنے پر پتہ چلا ہے کہ یہاں کا درجہ حرارت کافی بلند ہے[88][89] ۔
اسی طرح کا ایک اور چھوٹا نشان آسٹریلیا کے شوقیہ فلکیات دان نے 3 جون 2010 کو دریافت کیا۔ اسے فلپائن میں ایک اور شوقین نے وڈیو پر ریکارڈ بھی کیا تھا[90] ۔
1953 میں ملر اُرے کے تجربات سے ثابت ہوا کہ اولین زمانے میں زمین پر موجود کیمیائی اجزاء اور آسمانی بجلی کے ٹکراؤ سے جو آرگینک مادے بنے، انہی سے زندگی نے جنم لیا۔ یہ تمام کیمیائی اجزاء اور آسمانی بجلی مشتری پر بھی پائی جاتی ہے۔ تاہم تیز چلنے والی عمودی ہواؤں کی وجہ سے ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو سکا ہو[91] ۔
زمین جیسی زندگی تو شاید مشتری پر ممکن نہ ہو کیونکہ وہاں پانی کی مقدار بہت کم ہے اور ممکنہ سطح پر بے پناہ دباؤ ہے۔ تاہم 1976 میں وائجر مہم سے قبل نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ امونیا اور پانی پر مبنی زندگی شاید مشتری کی بالائی فضاء میں موجود ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر کی سطح پر سادہضیائی تالیف کرنے والے پلانکٹون ہوں اور سطح کے نیچے مچھلیاں ہو جو پلانکٹون پر زندہ ہوں اور اس سے نیچے مچھلیاں کھانے والے شکاری۔
مشتری کے چاندوں پر زیرِ زمین سمندروں کی موجودگی سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں زندگی کے پائے جانے کے بہتر امکانات ہوں گے[92][93] ۔
↑Jupiter, entry in the Oxford English Dictionary, prepared by J. A. Simpson and E. S. C. Weiner, vol. 8, second edition, Oxford: Clarendon Press, 1989.ISBN 0-19-861220-6 (vol. 8),ISBN 0-19-861186-2 (set.)
↑گمنام (مارچ 1983)۔"Probe Nephelometer"۔Galileo Messenger۔ NASA/JPL شمارہ 6۔ 2009-07-19 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-02-12
↑Rafe De Crespigny۔"Emperor Huan and Emperor Ling"(PDF)۔Asian studies, Online Publications۔ 2006-09-07 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-05-01۔Xu Huang apparently complained that the astronomy office had failed to give them proper emphasis to the eclipse and to other portents, including the movement of the planet Jupiter (taisui). At his instigation, Chen Shou/Yuan was summoned and questioned, and it was under this pressure that his advice implicated Liang Ji.
↑Stuart Ross Taylor (2001)۔Solar system evolution: a new perspective : an inquiry into the chemical composition, origin, and evolution of the solar system (2nd, illus., revised ایڈیشن)۔ Cambridge University Press۔ ص 208۔ISBN:0-521-64130-6
^ابGautier, D.; Conrath, B.; Flasar, M.; Hanel, R.; Kunde, V.; Chedin, A.; Scott N. (1981)۔ "The helium abundance of Jupiter from Voyager"۔Journal of Geophysical Research۔ ج 86 شمارہ A10: 8713–8720۔Bibcode:1981JGR....86.8713G۔DOI:10.1029/JA086iA10p08713{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Kim, S. J.; Caldwell, J.; Rivolo, A. R.; Wagner, R. (1985)۔ "Infrared Polar Brightening on Jupiter III. Spectrometry from the Voyager 1 IRIS Experiment"۔Icarus۔ ج 64 شمارہ 2: 233–48۔Bibcode:1985Icar...64..233K۔DOI:10.1016/0019-1035(85)90201-5{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Niemann, H. B.; Atreya, S. K.; Carignan, G. R.; Donahue, T. M.; Haberman, J. A.; Harpold, D. N.; Hartle, R. E.; Hunten, D. M.; Kasprzak, W. T.; Mahaffy, P. R.; Owen, T. C.; Spencer, N. W.; Way, S. H. (1996)۔ "The Galileo Probe Mass Spectrometer: Composition of Jupiter's Atmosphere"۔Science۔ ج 272 شمارہ 5263: 846–849۔Bibcode:1996Sci...272..846N۔DOI:10.1126/science.272.5263.846۔PMID:8629016{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑U. von Zahn؛ D. M. Hunten؛ G. Lehmacher (1998)۔ "Helium in Jupiter's atmosphere: Results from the Galileo probe Helium Interferometer Experiment"۔Journal of Geophysical Research۔ ج 103 شمارہ E10: 22815–22829۔DOI:10.1029/98JE00695
↑Ingersoll, A. P.; Hammel, H. B.; Spilker, T. R.; Young, R. E. (1 جون 2005)۔"Outer Planets: The Ice Giants"(PDF)۔ Lunar & Planetary Institute۔ 2018-12-26 کو اصل سےآرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-02-01{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Davis, Andrew M.; Turekian, Karl K. (2005)۔Meteorites, comets, and planets۔ Treatise on geochemistry,۔ Elsevier۔ ج 1۔ ص 624۔ISBN:0-08-044720-1{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link) اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: زائد رموز اوقاف (link)
↑Burrows, A.; Hubbard, W. B.; Saumon, D.; Lunine, J. I. (1993)۔ "An expanded set of brown dwarf and very low mass star models"۔Astrophysical Journal۔ ج 406 شمارہ 1: 158–71۔Bibcode:1993ApJ...406..158B۔DOI:10.1086/172427{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Guillot, T.; Stevenson, D. J.; Hubbard, W. B.; Saumon, D. (2004)۔ "Chapter 3: The Interior of Jupiter"۔ در Bagenal, F.; Dowling, T. E.; McKinnon, W. B (مدیر)۔Jupiter: The Planet, Satellites and Magnetosphere۔جامعہ کیمبرج Press۔ISBN:0-521-81808-7{{حوالہ کتاب}}:اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہے:|chapterurl= (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Ingersoll, A. P.; Dowling, T. E.; Gierasch, P. J.; Orton, G. S.; Read, P. L.; Sanchez-Lavega, A.; Showman, A. P.; Simon-Miller, A. A.; Vasavada, A. R۔"Dynamics of Jupiter's Atmosphere"(PDF)۔ Lunar & Planetary Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-02-01{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Strycker, P. D.; Chanover, N.; Sussman, M.; Simon-Miller, A. (2006)۔A Spectroscopic Search for Jupiter's Chromophores۔ American Astronomical Society۔Bibcode:2006DPS....38.1115S{{حوالہ کانفرنس}}:نامعلوم پیرامیٹر|booktitle= رد کیا گیا (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
↑Herbst, T. M.; Rix, H.-W. (1999)۔ Guenther, Eike; Stecklum, Bringfried; Klose, Sylvio (مدیر)۔Star Formation and Extrasolar Planet Studies with Near-Infrared Interferometry on the LBT۔ San Francisco, Calif.: Astronomical Society of the Pacific۔ ص 341–350۔Bibcode:1999ASPC..188..341H۔ISBN:1-58381-014-5{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|booktitle= رد کیا گیا (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link) – See section 3.4.
↑T. A. Michtchenko؛ Ferraz-Mello, S. (فروری 2001)۔ "Modeling the 5 : 2 Mean-Motion Resonance in the Jupiter–Saturn Planetary System"۔Icarus۔ ج 149 شمارہ 2: 77–115۔Bibcode:2001Icar..149..357M۔DOI:10.1006/icar.2000.6539
↑Z. Z. Xi (1981)۔ "The Discovery of Jupiter's Satellite Made by Gan-De 2000 Years Before Galileo"۔Acta Astrophysica Sinica۔ ج 1 شمارہ 2: 87۔Bibcode:1981AcApS...1...87X
↑Paul Dong (2002)۔China's Major Mysteries: Paranormal Phenomena and the Unexplained in the People's Republic۔ China Books۔ISBN:0-8351-2676-5
↑Olaf Pedersen (1974)۔A Survey of the Almagest۔ Odense University Press۔ ص 423, 428
↑tr. with notes by Walter Eugene Clark (1930)۔The Aryabhatiya of Aryabhata(PDF)۔ University of Chicago Press۔ ص 9, Stanza 1
↑Richard S Westfall۔"Galilei, Galileo"۔ The Galileo Project۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-01-10
↑Paul Murdin (2000)۔Encyclopedia of Astronomy and Astrophysics۔ Bristol: Institute of Physics Publishing۔ISBN:0-12-226690-0
↑Joe Tenn (10 مارچ 2006)۔"Edward Emerson Barnard"۔ Sonoma State University۔ 2011-09-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-01-10
↑"Amalthea Fact Sheet"۔ NASA JPL۔ 1 اکتوبر 2001۔ 2008-12-08 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-02-21
↑Theodore Dunham Jr. (1933)۔ "Note on the Spectra of Jupiter and Saturn"۔Publications of the Astronomical Society of the Pacific۔ ج 45: 42–44۔Bibcode:1933PASP...45...42D۔DOI:10.1086/124297
↑Fortescue, Peter W.; Stark, John and Swinerd, GrahamSpacecraft systems engineering, 3rd ed., John Wiley and Sons, 2003,ISBN 0-470-85102-3 p. 150.
↑Chris Hirata۔"Delta-V in the Solar System"۔ California Institute of Technology۔ 2006-07-15 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-11-28{{حوالہ ویب}}:نامعلوم پیرامیٹر|deadurl= رد کیا گیا (معاونت)
↑Al Wong (28 مئی 1998)۔"Galileo FAQ: Navigation"۔ NASA۔ 2000-10-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-11-28
↑Lawrence Lasher (1 اگست 2006)۔"Pioneer Project Home Page"۔ NASA Space Projects Division۔ 2006-01-01 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-11-28
^ابShannon McConnell (14 اپریل 2003)۔"Galileo: Journey to Jupiter"۔ NASA Jet Propulsion Laboratory۔ 2006-10-02 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-11-28
↑Julio Magalhães (10 دسمبر 1996)۔"Galileo Probe Mission Events"۔ NASA Space Projects Division۔ 2007-01-02 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-02-02
↑"Life on Jupiter"۔ Encyclopedia of Astrobiology, Astronomy & Spaceflight۔ 2012-03-11 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-03-09
↑Sagan, C.; Salpeter, E. E. (1976)۔ "Particles, environments, and possible ecologies in the Jovian atmosphere"۔The Astrophysical Journal Supplement Series۔ ج 32: 633–637۔Bibcode:1976ApJS...32..737S۔DOI:10.1086/190414{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
Hans Lohninger؛ دیگر (2 نومبر 2005)۔"Jupiter, As Seen By Voyager 1"۔A Trip into Space۔ Virtual Institute of Applied Science۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-03-09{{حوالہ ویب}}:Explicit use of et al. in:|مصنف= (معاونت)
Tony Dunn (2006)۔"The Jovian System"۔Gravity Simulator۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-03-09—A simulation of the 62 Jovian moons.
Seronik, G.; Ashford, A. R۔"Chasing the Moons of Jupiter"۔ Sky & Telescope۔ 2007-07-13 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-03-09{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)