حرم قدسیٰحرم قدسی کے جنوبی حصے میں واقع مسجد اقصیٰ
مسجد اقصی کی قریبی سنہری گنبد والی عمارت کے لیے دیکھیےقبۃ الصخرۃ
مسجد اقصی مسلمانوں کاقبلہ اول اورخانہ کعبہ اورمسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث[2] ہے جو تاریخی اور مذہبیحقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی , یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی۔ مُسلمانوں کےیروشلیم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ حالانکہ کہ قرآن میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے۔ گویا یہ مسجدحضور ﷺ کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی۔ متعدد روایات کے مطابق خانہ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ الاقصٰی تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کا تعلق اللہ کی عبادت سے ہے اور ہر نبی کو عبادت کے لیے مسجد کی ضرورت تھی۔ یہاں تک درست ہے کہ موجودہ دور میں اس مسجد کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نےجنات سے تعمیر کرایا۔ لیکن اسے کلیتہًہیکلِ سلیمانی قرار دینا تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ ہیکل کا لفظ رہائش گاہ، محل یا دربار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ نبی اللہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی رہائش کا حجرہ بھی مسجد میں ہی بنا رکھا ہو اور اپنے متبعین کا اجتماع بھی مسجد میں ہی کرتے ہوں اس لحاظ سے اس مسجد کو ہیکل سلیمانی یعنیسلیمان علیہ السلام کا محل یا دربار کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہو۔ حالانکہ یہمسجد فی الواقع زمین پر دوسری تعمیر ہونے والی مسجد ہے۔
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یاحرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں۔ یہ مشرقییروشلم میں واقع ہے جس پراسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہیروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔2000ء میںالاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔
قرآن مجید کی سورہ الاسرائیل میں اللہ تعالٰی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
”
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میںمسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے(سورہ الاسرائیل آیت نمبر 1)
“
احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میںمسجد حرام، مسجد اقصٰی اورمسجد نبوی شامل ہیں۔ البتہ شیعہ رویات کے مطابق ان تین مساجد کے علاوہمسجد کوفہ بھی بافضیلت ترین مساجد میں شامل ہے۔ (شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، طبع 1413ھ، ج1 ص29)
تونبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟تونبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمانے لگے : مسجد اقصیٰ، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟تونبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ چالیس سال، پھرجہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3366، صحیح مسلم حدیث نمبر 520)
“
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کاقبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھرتحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہخانہ کعبہ ہو گیا۔
جبعمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرتعمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اوربراق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انھوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ مسجد اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہقرآن مجید کیسورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سےصحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔مسجداقصٰی کا بانیحضرت یعقوب کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان نے کی۔بعد میں خلیفہعبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انھوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انھوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انھوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطانصلاح الدین ایوبی نے1187ء میںفتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اورمحراب اورمسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔
مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورےحرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترینقبۃ الصخرۃ ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے۔ تاہم آج کل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہقبۃ الصخرۃ نہیں، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصیٰ خیال کرتے ہيں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اورقبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔
زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پرہو تا تھا اور اس کی تائيد امامابن تیمیہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ:
”
مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسےسليمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسےعمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نےاس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسےعمربن خطاب رضي اللہ تعالٰی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
21 اگست1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسےصلاح الدین ایوبی نےفتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریباً 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اسمنبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریباً ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نےموتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی۔ تاہم1973ء میںپاکستان کے شہرلاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔
یہودی اس مسجد کوہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔