Movatterモバイル変換


[0]ホーム

URL:


مندرجات کا رخ کریں
ویکیپیڈیاآزاد دائرۃ المعارف
تلاش

محمد علی جناح

یہ ایک منتخب مضمون ہے۔ مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
”جناح“ اس صفحے سے رجوع مکرر ہے۔ دیگر استعمال کے لیے دیکھیے؛ضد ابہام صفحہ۔

محمد علی جناح
(اردو میں:محمد علی جناح)، (گجراتی میں:મહમદ અલી ઝીણાویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش1870ء کی دہائی ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات11 ستمبر 1948[1][2][3][4][5][6][7] ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتسل  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفنمزار قائد  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتطبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریتپاکستان
برطانوی ہند (25 دسمبر 1876–13 اگست 1947) ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہباسلام
جماعتانڈین نیشنل کانگریس (1906–13 اپریل 1920)
آل انڈیا مسلم لیگ (10 اکتوبر 1913–11 اگست 1947)
مسلم لیگ (11 اگست 1947–11 ستمبر 1948) ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکنفیبین  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہسل  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہایمی بائی جناح (1892–1893)
مریم جناح (19 اپریل 1918–20 فروری 1929) ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاددینا واڈیا  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد1  ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدینپونجا جناح ( والد)
مٹی بائی جناح (والدہ)
والدجناح بھائی پونجا  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہمتھی بائی جینا بائی  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
صدر پاکستانی آئین ساز اسمبلی  ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
11 اگست 1947  – 11 ستمبر 1948 
 
لیاقت علی خان  
مکلم ایوان زیریں پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
11 اگست 1947  – 11 ستمبر 1948 
 
مولوی تمیز الدین  
گورنر جنرل پاکستان (1  )  ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
15 اگست 1947  – 11 ستمبر 1948 
 
خواجہ ناظم الدین  
عملی زندگی
مادر علمیجامعہ اوکسفرڈ (3 جولا‎ئی 1887–30 جنوری 1892)
لنکنز ان (5 جون 1893–28 اپریل 1896)
کیتھڈرل اینڈ جان کینون اسکول  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہوکیل ،  بیرسٹر ،  حریت پسند ،  سیاست دان[8] ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زباناردو ،  گجراتی[9] ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانانگریزی ،  اردو[10]،  سندھی ،  گجراتی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹباضابطہ ویب سائٹ ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
درستی -ترمیم سانچہ دستاویز دیکھیے
مضامین بسلسلہ
محمد علی جناح

  • سیاسی نظریات

جماعتیں


گیلری: تصاویر، سمعی وبصری مواد

محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی،25 دسمبر1876ء11 ستمبر1948ء) کے ناموروکیل،سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح1913ء سے لے کرپاکستان کی آزادی14 اگست1947ء تکآل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھرقیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلےگورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پرپاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اوربابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائشپاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔[11][12]

کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح،بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میںآل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔1916ء میںآل انڈیا مسلم لیگ اورآل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والےمیثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناحآل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انھوں نےچودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصدہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح1920ء میںآل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کےموہن داس گاندھی کی قیادت میںستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔
1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال،مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میںقرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران،آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میںکانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعدآل انڈیا کانگریس اورآل انڈیا مسلم لیگ متحدہہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نہ ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔
پاکستان کے پہلےگورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انھوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جوتقسیم ہند کے بعدپاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انھوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کوسلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ،وہ (یعنی جناح)پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔

ابتدائی سال

پس منظر

مزید دیکھیے:جناح خاندان
جناح کے والد، جناح بھائی پونجا کا عکس

جناح کا پیدائشی نام محمد علی جناح بھائی تھا اور وہ غالباً1876ء[a] میں ایک کرائے کے مکانوزیر مینشنکراچی[13] کے دوسری منزل میں، جناح بھائی پونجا اور ان کی بیوی مٹھی بائی کے ہاں پیدا ہوئے۔ جناح کی جائے پیدائشپاکستان میں ہے لیکن یہ اس دور میںبمبئی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ جناح کا تعلق گجراتی خوجااسماعیلی شیعہ پس منظر سے تھا، لیکن بعد میں انھوں نےبارہ امامی[14][15][16] مسلک اختیار کر لیا۔ جناح کا تعلق ایک متوسط آمدنی والے گھرانے سے تھا۔ ان کے والد ایک تاجر تھے جونوابی ریاستیں گونڈل (کاٹھیاواڑ،گجرات) کے گاؤں پنیلی میں ایک جولاہا خاندان میں پیدا ہوئے تھے ان کی والدہ کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ وہ1875ء میںکراچی منتقل ہو گئے اور وہ اس سے قبل ہی رشتہ ازدواج میں بندھ گئے تھے۔کراچی کی معیشت ان دنوں ترقی کر رہی تھی اور1869ء میںنہر سوئز کنال کے کھلنے کا مطلب یہ تھا کہکراچیبمبئی کے مقابلے میںیورپ سے 200 ناٹیکل میل قریب ہو گیا تھا[17][18]۔

فائل:Nikahnama-jinah.png
قائد اعظم گو کہاسماعیلی شیعہ پس منظر رکھنے والے خوجا تھے لیکن انھوں نے اپنی بہنفاطمہ جناح سمیت اپنا مسلک شیعہ اسماعیلی سے تبدیل کر کےاثنا عشریہ شیعہ کر لیا تھا۔ جس کا ثبوت ان کا نکاح نامہ کا عکس ہے۔

جناح کا اپنے بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا، ان کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں جن میںفاطمہ جناح بھی شامل تھی۔ ان کے والدینگجراتی زبان بولتے تھے جبکہ بچےکچھی زبان اورانگریزی بھی بولنے لگے تھے[19]۔ سوائے فاطمہ کے، جناح کے باقی بہن بھائیوں کے متعلق کم ہی معلومات دستیاب ہیں جیسے کہ وہ کہاں رہے اور آیا کبھی وہ جناح کے وکالتی اور سیاسی میدان میں کامیابیوں کے دوران میں ان سے ملے بھی یا نہیں؟۔[20]لڑکپن میں جناح اپنی خالہ کے ہاںبمبئی میں بھی کچھ عرصہ رہے تھے جہاں شاید وہ گوکال داس تیج پرائمری اسکول میں پڑھے، بعد میں انھوں نے کیتھڈرل اینڈ جان کینون اسکول میں تعلیم حاصل کی۔کراچی میں وہسندھ مدرسۃ الاسلام اور کرسچن مشنری سوسائٹی ہائی اسکول[21][22][23] میں داخل رہے۔

انھوں نے میٹرک جامعہ بمبئی کے ہائی اسکول سے کیا۔ ان کے اگلے سالوں بالخصوص ان کے وفات کے بعد بانی پاکستان کے لڑکپن کے حوالے سے کئی کہانیاں گردش کرتی رہیں، جیسے وہ اپنے فراغت کے اوقات پولیس اسٹیشن میں قانونی کارروائیوں کو دیکھنے میں صرف کرتے تھے یا وہ گلی کی روشنی میں اپنے کتابیں پڑھتے تھے جس کی وجہ دیگر ذرائع سے محرومی تھی۔ ان کے سرکاری سوانح نگارہکٹر بولیتھو نے1954ء میں ان کے کئی لڑکپن کے ساتھیوں سے انٹرویو کیے، انھوں نے ایک کہانی سنی کہ جناح اپنے ساتھیوں کو کنچے کھیلنے سے منع کرتے تھے اور وہ انھیں کہا کرتے کہ وہ مٹی میں کنچے کھیل کر اپنے کپڑے گندے کرنے کی بجائے کرکٹ کھیلیں۔[24]

انگلستان میں

لنکن ان، 2006ء میں

اسی سال1892ء میں وہبرطانیہ کی گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں تربیتی شاگردی[25] کے لیے گئے، یہ کام سر فریڈرک لیف کرو نے انھیں دلوایا تھا جو ان کے والد پونجا بھائی جناح کے کاروباری شراکت دار تھے تاہمبرطانیہ جانے سے پہلے ان کیوالدہ کے دباؤ پر ان کی شادی ایک دور کی رشتہ دارایمی بائی سے کردی گئی، جو جناح سے عمر میں دو سال چھوٹی تھیں۔ تاہم یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی کیونکہ آپ کےبرطانیہ جانے کے کچھ مہینوں بعد ہی ایمی جناح اور ان کی والدہ وفات پا گئیں۔[26] 1893 میں جناح کے خاندان والےبمبئی منتقل ہو گئے[21]۔لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی جس پر ان کے والد ان سے سخت ناراض ہوئے تھے جنھوں نے انھیں جانے سے قبل تین سال رہنے کا معقول خرچ فراہم کیا تھا۔ وہ بیرسٹر کی ڈگری سے متاثر تھے لہذا انھوں نے لنکن ان میں داخلہ لے لیا بعد میں انھوں نے اس ادارے کو انن آف کورٹ پر فوقیت دینے کی یہ وجہ بتائی کہ لنکن انن میں داخل ہونے پر ان تمام رہنماؤں کے نام لکھے تھے جنھوں نے دنیا کو قوانین سے متعارف کرایا تھا جن میںحضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام بھی درج تھا۔ اگرچہ ان کے سوانح نویساسٹینلی وولپرٹ نے ایسا کوئی نام نا دیکھا البتہ وہاںحضرت محمد کی تصویر ضرور موجود تھیاسٹینلی وولپرٹ نے بعد میں خیال کیا کہ شاید جناح نے یہ کہانی مختلف انداز میں اس لیے اپنائی کیونکہ مسلمان پیغمبروں کی تصویرکو برا خیال کرتے ہیں۔[27] جناح کے قانون کی تعلیم میں پیوپلیج (قانونی تربیتی پیش نامہ) نظام شامل تھا جو وہاں صدیوں سے لاگو تھا۔ قانون کا علم حاصل کرنے کے لیے وہ سینئر بیرسٹروں کی رہنمائی لیتے نیز وہ کئی قانونی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے[28]۔ اس دور میں انھوں نے اپنا نام مختصر کر کے محمد علی جناح کر لیا تھا۔

اپنے طالب علمی کے دور میں وہ دیگر کئی ہندوستانی رہنماؤں کی طرح برطانوی روشن خیالی سے متاثر ہوئے۔ اس سیاسی رجہان میں جمہوری قومیت اور تعمیری سیاست بھی شامل تھی[29]۔ مزید برآں وہ اس میدان میں ہندوستانی پارسی رہنما دادا بھائی نوروجی اورسر فیروز شاہ مہتہ سے متاثر ہونے لگے۔

اس دوران میں آپ نے دیگر ہندوستانی طلبہ کے ساتھ مل کر برطانوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ ان سرگرمیوں کا اثر یہ ہوا کہ جناح وقت کے ساتھ ساتھہندوستان کی آئین ساز خود مختار حکومت کے نظریہ کے حامی ہوتے گئے اور آپ نے ہندوستانیوں کے خلاف برطانوی گوروں کے ہتک آمیز اور امتیازی سلوک کی مذمت کی۔ جب دادا بھائی نوروجیبرطانوی ہندوستان کے پہلے رکن پارلیمنٹ بنے اور انھوں نے فنس بری سنٹرل میں تین ووٹوں کی اکثریت حاصل کی۔ تب جناح نے ناؤروجی کی تقریر ہاوس آف کامنز کے گیلری میں بیٹھ کر سنی۔[30][31]

مغربی دنیا نے نا صرف جناح کی سیاست کو متاثر کیا، بلکہ نجی زندگی میں وہ مغربی لباس سے بھی متاثر تھے۔ وہ تمام زندگی عام لوگوں میں آتے ہوئے اپنے لباس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کے پاس 200 کے قریب سوٹ تھے، وہ کاٹن کے بھاری شرٹ زیب تن کرتے تھے جن پر وہ ڈیٹیچ ایبل کالر (علاحدہ کالر) استعمال کرتے تھے اور بطور بیرسٹر وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ انھوں نے کبھی ایک ہی ریشمی ٹائی دو مرتبہ استعمال نہیں کی[32]۔ حتیٰ کہ جب وہ قریب المرگ تھے تب بھی انھوں نے اپنی عادت برقرار رکھی اور کہا کہ میں اپنے پاجامے میں سفر نہیں کرتا[20]۔ بعد کے ایام میں وہ قراقلی (ٹوپی) پہنتے تھے جو ان کی بدولت جناح کیپ سے معروف ہوئی۔[33]

جناح قانون سے مطمئن نا تھے، لہذا وہ مختصر عرصے کے لیے شیکسپیرین کمپنی سے منسلک ہو گئے، لیکن جلد ہی مستعفی ہوئے جب انھیں اپنے والد کی جانب سے ایک سخت خط موصول ہوا اس خط میں انھیں واپسی کا کہا گیا[34] کیونکہ والد کاروبار میں خسارے کے سبب ان کے اخراجات اٹھانے کے متحمل نا تھے۔1895ء میں، 19 سال کی عمر میں وہبرطانیہ میں سب سے کم عمر بار کہلانے والے پہلے ہندوستانی بنے[35]۔ وہ جب واپس لوٹے تو انھوں نےکراچی میں مختصر عرصے قیام کیا پھر وہبمبئی چلے گئے۔[34]

فائل:Jinnahhouse (2).jpg
ممبئی میں واقع جناح ہاؤس

قانونی اور سیاسی زندگی

بیرسٹر

بیس سال کی عمر میں جناح نےبمبئی میں وکالت کی مشق شروع کی وہ اس وقت شہر کے واحد مسلم بیرسٹر تھے۔ وہ عادتاًانگریزی زبان استعمال کرتے تھے اور یہ عادت تمام عمر رہی۔ ان کی وکالت کے ابتدائی تین سال1897ء تا1900ء کچھ خاص نا تھے۔ اس میدان میں ان کے روشن مستقبل کا آغاز اس وقت ہوا جبممبئی کے ایڈوکیٹ جنرل، جان مولسورتھ مک پہتسن، نے انھیں اپنے چیمبر سے کام کرنے کے لیے مدعو کیا[36][37]۔ سال1900ء میںممبئی کے پریزیڈنسی مجسٹریٹ پی۔ ایچ۔ داستور، کی نشست وقتی طور پر خالی ہو گئی اور اس نشست کو بطور قائم مقام حاصل کرنے میں جناح کامیاب ٹھہرے۔ چھ ماہ اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد جناح کو 1500 روپے ماہانہ تنخواہ کی مستقل حیثیت ملی۔ جناح نے یہ کہہ کر اسے ٹھکرادیا کہ وہ روزانہ 1500 روپے کمانا چاہتے ہیں- جو اس دور میں ایک بہت بڑی رقم تھی- اور انھوں ایسا کر کے بھی دکھایا[36][37][38]۔ نا صرف یہ بلکہ بطور گورنر جنرلپاکستان انھوں نے زیادہ تنخواہ لینے کی بجائے صرف ماہانہ ایک روپیہ لینا پسند کیا[39]۔
بطور وکیل جناح کی وکالت نے1907ء میں بے پناہ شہرت پائی جس کی وجہ ماہرانہ طور پر کاوکس کا مقدمہ لڑنا تھا۔ یہ مسئلہممبئی کے میونسپل انتخابات میں کھڑے ہوئے جب یورپیوں نے اپنے کاوکس (سیاسی جماعت کا نمائندہ) کے ذریعے ہندوستانی عہدے داروں کو دھاندلی پر مجبور کیا تاکہ سر فیروز شاہ مہتہ کو کونسل سے باہر رکھا جاسکے۔ اگرچہ وہ اس مقدمہ کو جیت نہ سکے لیکن ان کے قانونی منطقوں اور وکالتی انداز نے انھیں مشہور کر دیا۔[40][41]

ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کی بڑھتی شہرت نے کانگریس کے معروف رہنمابال گنگا دھر تلک کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں1905ء میںبال گنگا دھر تلک نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِبرطانیہ کی جانب سے دائر کیے گئے، نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں۔ جناح نے اس مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے، اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقصِ امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجودبال گنگا دھر تلک کو اس مقدمے میں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔

فائل:Majinnah4.jpj.jpg
محمد علی جناح ایک نوجوان وکیل کے روپ میں

لیکن جب1916ء میں ان پر دوبارہ یہی الزام عائد کیا گیا تو جناح اس بار ضمانت لینے میں کامیاب ہوئے۔[42]

بمبئی ہائی کورٹ کے ایک بیرسٹر جو جناح کے ہم عصر تھے کہتے ہیں کہجناح کو اپنے آپ پر ناقابل یقین حد تک اعتماد تھا، انھوں نے یہ بات اس واقعے کے تناظر میں کہی جب ایک دن کسی جج نے غصے میں جناح کو کہا کہمسٹر جناح یاد رکھو کہ تم کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہو جناح نے برجستہ جواب داغ دیاجناب والا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو خبردار کروں کہ آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ہیں۔[43]

سیاست کا آغاز

1857ء کی جنگ آزادی میں بہت سے ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ جنگ کے بعد، کچھ انگلو ہندوستانیوں اوربرطانیہ میں موجود کچھ ہندوستانیوں نےبرصغیر کے لیے ایک وسیع خود مختاری کا مطالبہ کیا، ان مطالبات کے نتیجے میں1885ء میںآل انڈیا کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس جماعت کے قائدین میں سے اکثربرطانیہ سے پڑھے ہوئے تھے اور ان کے مطالبوں پر حکومت چھوٹے موٹے اصلاحات سامنے لاتی تھی[44]۔ مسلمانبرطانوی ہند میں جمہوری اداروں کے قیام میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، کیونکہ ان کی آبادی مجموعی آبادی کا ایک تہائی تھا جبکہ اکثریت ہندوں کی تھی[45]۔ کانگریس کے ابتدائی اجلاسو ں میں مسلمانوں کی شرکت کم تھی جن میں ،زیادہ تر امیر طبقے کے تھے[46]۔
جناح1920ء کے ابتدائی برسوں تک وکالت کی مشق کرنے میں مصروف رہے تھے لیکن وہ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔[47] جناح نے دسمبر1904ء میںبمبئی میںکانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کا شمار کانگریس کے ان ارکان میں ہوتا تھا جو ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور جدید خیالات کے مالک تھے ان میں مہتہ، ناروجی اور گوپال کرشنا گوکھالے شامل تھے۔[48] ان ارکان کے خیالات کی مخالفت کرنے والوں میں تلک اور لالا لجپت رائے شامل تھے جو آزادی کے لیے سریع رفتار عمل کے حامی تھے۔[49]1906ء میں مسلمان رہنما جن میںآغا خان سوم شامل تھے نے گورنر جنرل ہند لارڈ منٹو سے ملاقات کی اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلا کر ان سے دریافت کیا کہ آیا ان سیاسی اصلاحات میں میں انھیں "بے رحم اکثریت [ہندوں]" سے بچایا جائے گا[50]۔ اس عمل سے اختلاف کرتے ہوئے جناح نے گجراتی اخبار کہ مدیر کو خط لکھا کہ یہ مسلمان رہنما کس طرح مسلمانوں کی قیادت کر رہے ہیں حالانکہ مسلمانوں نے انھیں نا منتخب کیا ہے بلکہ یہ اپنی تئیں ہی رہنما بن بیٹھے ہیں[48]۔ جب یہ قائدینڈھاکہ میں دوبارہ مل بیٹھ کر اپنے برادری کے مسائل کے حوالے سےآل انڈیا مسلم لیگ کے قیام پر عمل کر رہے تھے تب بھی جناح نے اس کی مخالفت کی تھی۔[51]ہندوستان کے اس وقت کے وائسرائے بھیمسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ماننے کو تیار نا تھے کیونکہ لیگتقسیم بنگال کی منسوخی(جو لیگ کے نزدیک مسلمانوں کے خلاف تھی) پر خود کو زیادہ پراثر ثابت نا کر پائی تھی۔[51]

1906ء میں جناح نےانڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی جو اُس وقتہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی لیکن اُس وقت کے دیگر کانگریسی رہنماؤں کی طرح جناح نے یکسر آزادی کی حمایت کرنے کی بجائےہندوستان کی تعلیم،قانون،ثقافت اورصنعت پر برطانوی اثرات کوہندوستان کے لیے موثر قرار دیا۔ جناح ساٹھ رکنیمرکزی مشاورتی کونسل (امپیریل لیگسلیٹیو کونسل) کے ارکان بن گئے لیکن اس کونسل کی اپنی کوئی حیثیت یا طاقت نہیں تھی اور اس میں شامل زیادہ تر افراد غیر منتخب، سلطنتِبرطانیہ کی زبان بولنے والےیورپی تھے۔ اس کے باوجود جناح متحرک رہے اور کم عمری کی شادی کے لیے قانون اور مسلمانوں کے وقف کے حق کو قانونی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے، انہی کاوشوں کے نتیجے میں سندھرسٹ کمیٹی بنائی گئی، جس نےڈیرہ دون میںہندوستانی فوجی اکادمی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔[52][52][53]پہلی جنگ عظیم کے دوران میں جناح نے دیگر ہندوستانی ترقی پسندوں کے ساتھ برطانوی جنگ کی تائید کی، اس اُمید کے ساتھ کہ شاید اس کے صلے میں ہندوستانیوں کو سیاسی آزادی سے نوازا جائے۔

کانگریس سے علیحدگی

کانگریس میں جناح جیسے خیالات رکھنے والے ارکان کی کمی ہوئی جب مہتہ اور گوپال کرشنا گھوکھلے1915ء میں انتقال کرگئے، اس تنہائی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب دادابھائی نوروجی بھیلندن سدھار گئے جہاں وہ1917ء یعنی اپنی موت تک رہے۔ اس کے باجود جناح نےمسلم لیگ اورانڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں فاصلوں کو مٹانے کی کوشش کی۔1916ء میں جب وہمسلم لیگ کے صدر تھے، دونوں تنظیموں نے متفقہ طور پرمیثاق لکھنو پر رضامندی ظاہر کی، اس کے تحت مختلف علاقوں میں ہندوں اور مسلمانوں کے لیے خاص کوٹے رکھے گئے۔ اگرچہ اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا لیکن اس نے دونوں جماعتوں میں تعاون کی راہ ہموار کی۔[54][46]
جنگ کے دوران میں جناح نے ان ہندوستانیوں سے اتفاق کیا جن کا خیال تھا کہبرطانیہ کی ہمایت کرنے سے شاید گورے بطور انعام ہندوستانیوں کو آزادی دے دیں۔1916ء میں جناح نے آل انڈیا ہوم رول لیگ کے قیام کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ انھوں نے دیگر سیاسی رہنماوں جیسےاینی بیسنٹ اوربال گنگا دھر تلک کے ساتھ "ہوم رول" کا مطالبہ کیا جس کا مقصدہندوستان کوسلطنت برطانیہ میں رہتے ہوئےکینیڈا،نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا جیسی خومختاری حاصل کرنی تھی لیکن جنگ کے بعد گوروں کی دلچسپیاں ان ہندوستانی قانونی اصلاحات میں سرد پڑ گئی۔ برطانوی کیبنٹ وزیر ایڈون مونٹیگو اس دور کے جناح کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں" جوان، مکمل طور پر باتمیز، متاثر کن- چہرہ، تیز لہجوں سے مسلح اور اپنے تمام منصوبے پر مصّر"۔[55]
1918ء میں جناح نے خود سے پچیس سال کم عمرمریم جناح سے شادی کی۔ وہ ان کے دوست سر دینشاہ پیٹٹ کی جواں سال فیشن پسند بیٹی تھی جن کا تعلقبمبئی کے ایک امیر پارسی گھرانے سے تھا۔[29] اس شادی کی مخالفت مریم جناح کے گھر والوں اور پارسی برادری کی جانب سے خوب کی گئی ساتھ ہی کئی دیگر مسلم مذہبی رہنما بھی اس شادی کے خلاف تھے۔ رتن بھائی اپنے خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود اسلام میں داخل ہوئیں اور انھوں نےمریم جناح کا نام اپنایا اگرچہ کبھی وہ اسے استعما ل نہیں کرتی تھی اس طرح وہ اپنے خاندان اورپارسی برادری سے ہمیشہ کے لیے تعلق گنوا بیٹھی۔ اس جوڑے نے اپنی رہائشبمبئی میں رکھی اور وہ شادی کے بعدہندوستان اوریورپ کے کئی علاقوں میں تفریح کے لیے گئے۔ ان کی واحد اولاد جو بیٹیدینا واڈیا تھی15 اگست1919ء کو پیدا ہوئی[29][56] ۔1929ء میں جناح کی بیوی کا انتقال ہوا اورفاطمہ جناح ان کی اور ان کی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے لگی[57]۔
1919ء کے دوران میں برطانیوں اور ہندوستانیوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے جب انھوں نے جنگ کے دوران میں عوامی آزادیوں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی۔ جناح نے اس دور میں استعفی دیا۔جلیانوالہ باغامرتسر کے واقعہ کے بعد سارےہندوستان میں بے چینی پھیلی جس میں برطانوی فوجیوں نے ہجوم پر فائرنگ کرکے کئی سو لوگوں کا قتل کیا تھا۔جلیانوالہ باغ سانحے کے تناظر میںگاندھی کیہندوستان واپسی ہوئی اور انھیںہندوستان میں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا اس دور میں وہکانگریس کے ایک پر اثر اور قابل احترام رہنما ثابت ہوئے اور اسی دور میں انھوں نے برطانیوں کے خلاف ستیاگرا کی مہم چلائی وہ کئی مسلمانوں کے سامنے بھی متاثرکن شخصیت رکھتے تھے۔ جس کی وجہتحریک خلافت میںگاندھی کی جانب سے مسلمانوں کے موقف کی حمایت تھی یہ مسلمانخلافت عثمانیہ سے روحانی طور پر منسلک تھے۔[58]لیکنپہلی جنگ عظیم میں عثمانی خلیفہ کو شکست کی وجہ سے اپنے تخت سے محروم ہونا پڑا۔ اس کے بعد اس مہم سے منسلک کئی مسلمان قتل یا قید کیے گئے[59][60][61] اور ان مسلمانوں کی حمایت کی وجہ سےگاندھی نے مسمانوں میں اچھی خاصی شہرت کمائی۔ جناح کے برعکسگاندھی اورآل انڈیا کانگریس کے اکثر رہنما ہندوستانی لباس پہننا فخر سمجھتے تھے اور یہ لوگ ہندوستانی زبان کوانگریزی پر فوقیت دیتے تھے۔گاندھی کے مقامی انداز میں کی گئی سیاست نےبرصغیر میں کافی شہرت حاصل کی۔ جناح نےگاندھی کے خلافت کے معاملے کو غلط سمجھتے تھے وہ اسے "مذہبی جذبات کا بے جا اظہار "[58] کہتے۔ جناح نےگاندھی کے ستیاگرا مہم کو "سیاسی انارکی" سے تشبیہ دی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خود مختار حکومت کا حصول قانونی طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نےگاندھی کی مخالفت کی، لیکن ہندوستانیوں کے نظریات کی موجیں ان کے مخالف رہی۔1920ء میںناگپور میں ہونے والےکانگریس کے سالانہ اجلاس میں کئی رہنماوں نے جناح کے نظریات کی سخت مخالفت کی وہ اس بات پر مصّر تھے کہگاندھی کی ستیاگرا مہم کوہندوستان کی آزادی تک چلایا جانا چاہیے۔ جناح نے اسی عرصے میں ہونے والےمسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی یہ اجلاس بھی اسی شہر میں منعقد ہوئی تھی اور انھوں نے بھی اسی قسم کی قرارداد منظور کی۔کانگریس کی جانب سےگاندھی کی مسلسل حمایت کی وجہ سے انھوں نے اس جماعت کے تمام عہدوں سے استعفاء دے دیا، لیکن وہمسلم لیگ کے عہدوں پر فائز رہے۔[62][63]

جداگانہ دور۔ برطانیہ میں سکونت

گاندھی اورتحریک خلافت کے مابین موجود اتحاد زیادہ عرصے نا چل سکی اور مزاحمت کی یہ مہم امید سے کم ہی پر اثر ثابت ہوئی، جیسا کہ برطانوی ادارے بدستور کام کرتے رہے۔ جناح اس دور میں کانگریس کے مخالف میں ایک جماعت کھڑی کرنے اور نئے سیاسی خیالات کے متعلق سوچتے رہے۔ ستمبر1923ء میں جناح بمبئی کے سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی کے مسلم رکن منتخب ہوئے۔ وہ ایک فعال رکن پارلیمنٹ بن کر سامنے آ ئے اور انھوں نے کئی ہندوستانی ارکان کو سورج پارٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے منظم کیا، انھوں اس دور میں انھوں نے ایک زمہ دار حکومت کا مطالبہ جاری رکھا ۔1925ء میں ان کے خدمات کے اعتراف کے طور پر روفس آئزکس جو وائسرائے کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے تھے نے انھیں شہہ سوار کے خطاب سے نوازنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن جناح نے جواب دیا،" میں مسٹر جناح کو استعمال کرنا ترجیح دیتا ہوں"۔[64]
1927ء میںکنزرویٹو پارٹی (برطانیہ) کے منتخب وزیر اعظماسٹینلے بالڈون نے گوررنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کے تناظر میں ہندوستانیوں کے حقوق کا ازسر نو جائزہ لیا۔ سٹینلی نے اگلے انتخابات میں شکست کے خوف سے یہ جائزہ دو سال قبل شروع کیا۔ اس وقت کیبنٹ اپنے وزیرونسٹن چرچل سے متاثر تھی جوہندوستان کو خود مختاری دینے کے مخالف تھے، دیگر ارکان کا خیال تھا کہ اس کام کو جلد کرنے سے ان کی حکومت برقرار رہے گی۔ اس فیصلے کے بعد1928ء میں لبرل پارٹی کے رکن پارلیمنٹ جاہن سمن کی قیادت میں جس میںکنزرویٹو پارٹی (برطانیہ) کی اکثریت نے مارچ میں ہندوستان کا دورہ کیا۔[65]لیکن انھیں مسلم و ہندو رہنماؤں سے بائیکاٹ کے سوا کچھ نا ملا کیونکہ انھوں نے ان رہنماوں کو کمیشن میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ مسلم رہنماوں نےمسلم لیگ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا کیونکہمسلم لیگ نے اس کمیشن کو خوش آمدید کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اکثریت نے جناح سے وفاداری دکھائی اور انھوں نےدسمبر1927ءاورجنوری1928ء کے اجلاسوں میں شرکت کی، ان اجلاسوں نے جناح کوآل انڈیا مسلم لیگ کی مستقل صدرات سونپ دی۔ جناح نے کمیشن کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ"برطانیہ پر ایک قانونی جنگ مسلط کی جاچکی ہے۔ مسئلے کے حل پر مفاہمت کا مطالبہ ہمارے طرف سے نہیں آیا۔۔۔ گوروں سے پُر ایک کمیشن کے قیام سے لارڈ برکنہڈ نے ہمیں خود مختار حکومت کو چلانے سے نا اہل قرار دیا ہے۔"[66]

1928ء میں برکنہڈ نے ہندوستانیوں کو اپنی جانب سےہندوستان کے لیے قانونی تبدیلی کے لیے تجاویز تیار کرنے کا حکم دیا، جواب میںآل انڈیا کانگریس نےموتی لال نہرو کی قیادت میں ایک رپورٹ پیش کی۔[1] کمیٹی کا مقصدہندوستان کے لیے ہندوستانیوں کے ذریعے ایک ایسے آئینی ڈھانچے کو تشکیل دینا تھا جوہندوستان میں آباد تمام قومیتوں کے لیے قابل قبول ہو یا جس کو کم از کم کانفرنس میں شریک تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس کمیٹی نے جو آئینی رپورٹ تیار کی،ہندوستان کی تاریخ میں اسےنہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جناح کے نزدیک یہ رپورٹ مسلمانوں کے حقوق کا موثر حل نا تھی لہٰذا انھوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک الگ رپورٹ شائع کی جوجناح کے چودہ نکات کے نام سے معروف ہوئی۔ اس نکات کے ذریعے جناح کو امید تھی کی لیگ کے باقی ماندہ ارکان بھی متحد ہوجائیں گے[67]۔ لیکن کانگریس اور انگریزوں نے ان کے ان نکات کو تسلیم نا کیا۔

بالڈون1929ء کے برطانوی انتخابات میں ہار گئے اور لبرل پارٹی کے رامسے مکڈونالڈ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیےلندن میں ہندوستانی اور برطانوی سیاست دانوں کو مدعو کیا اس عمل کی حمایت جناح بھی کر چکے تھے۔ اس سلسلے میں تین گول میز کانفرنسیں اگلے کچھ سالوں تک ہوتے ی رہیں۔ جناح کو آخری کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا[68]ان کانفرنسوں سے مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ جناح1930ء تا1934ء تکلندن میں قیام پزیر رہے اس دوران میں وہ پریوی کونسل میں بیرسٹر کی مشق کرتے رہے، وہ اس دوران میں ہندوستان سے متعلق کئی معاملات کو بھی نبٹاتے رہے۔ ان کی زندگی کے متعلق لکھنے والوں کے نزدیک یہ بحث طلب موضوع ہے کہ آخر وہ اتنا عرصہ وہاں کیوں رہے۔ معروف مؤرخاسٹینلے ولپرٹ لکھتے ہیں کہ شاید وہ مستقل سکونت اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بننے میں دلچسپی لے رہے تھے[69][70]۔ البتہ ان کے اولین سوانح نگار اس بات سے متفق نہیں کہ وہ اس متعلق کچھ ارادہ رکھتے تھے[69] جبکہجسونت سنگھ کے نزدیک وہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے رخصت پر تھے۔[71] ہیکٹر بولیتھو ان ایام کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "جناح کہ یہ ادوار غورفکر اور تیاری کے سال تھے ابتدائی جدوجہد کے بعد ایک آخری فتح کے طوفان کی تیاری"۔[72]
1931ء میںفاطمہ جناح اپنے بھائی جناح کے ہاںلندن منتقل ہوگئیں۔ وہ ان کی دیکھ بھال کرتی تھی کیونکہ وہ اب بوڑھے ہو چکے تھے نیز وہ پھیپھڑوں کی بیماری میں بھی مبتلا تھے جو جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی،فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کی قریبی مشیر کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ جناح کی بیٹی ڈینا نے تعلیمبرطانیہ اورہندوستان میں حاصل کی۔ جناح اور ان کی بیٹی کے مابین تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب ان کی بیٹی نے نیوائل واڈیہ سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جو ایک پارسی امیر تاجر گھرانے تعلق رکھتا تھا۔[73] جبکہ جناح کی خواہش تھی کہ وہ ایک مسلمان سے شادی کرے لیکن ان کی بیٹی جناح کو یہ کہتی کہ "آپ نے بھی اپنے ہم مسلک سے شادی نہیں کی"۔ جناح نے اس معاملے کو نرمی سے حل کرنے کی کوشش کی لیکن باپ بیٹی کے رشتے میں فاصلے موجود رہے اور ان کی بیٹی نےقیام پاکستان کے بعد جناح سے ملاقات نا کی، البتہ وہ جنازے میں شریک تھیں۔[74][75]

اقبال کے ذریعے جناح کی نظریاتی تبدیلی

محمد اقبال کے نظریات کا جناح پر بہت زیادہ اثر تھا ،اور اسی اثر کے نتیجے میںپاکستان کے قائم ہونے کی راہ ہموار ہوئی اور اس اثر کو مصنفین نےزبردست،طاقتور اور ناقابل انکار تک لکھا ہے۔۔[76][77][78][79][80][81][82][83][84]محمد اقبال کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جناح کولندن میں خودساختہ جلاوطنی کو ختم کر کے ہندوستان کی سیاست میں شامل ہونے پر بھی رضامند کر لیا تھا۔[85][86][87][88] اگرچہ ابتدا میںاقبال اور جناح دو مختلف خیالات کے مالک تھے جناح کے بارے میںاقبال کا خیال تھا کہ وہہندوستان میں موجود اپنے مسلم برادری کے بحران سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اکبر صلاح الدین احمد کے مطابقاقبال کے خیالات میں بدلاؤ ان کے1938ء میں وفات سے قبل نمودار ہوئے۔اقبال آہستہ آہستہ جناح کے خیالات میں تبدیلی لانے میں کامیاب ٹھہرے اور جناح نے ان کی صلاح قبول کر لی۔ احمد نے جناح کی طرف سےاقبال کو بھیجے گئے خط کا حوالہ دیا جس میں جناح نےاقبال کہ اس نظرئے کہمسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن ہونی چاہیے پر اتفاق کیا[89]
اقبال کی وجہ سے جناح کے نزدیک مسلم تشخص ایک قابل ستائش چیز بھی ٹھہری۔[90] احمد کہتے ہیں کہ جناح ناصرفاقبال سے اپنی سیاسی بلکہ ذاتی عقائد ہر بھی متفق ہو گئے تھے[91]ان اثرات کے ثبوت1937ء سے ظاہر ہونے شروع ہوئے، اس دور میں جناح اپنے تقاریر میں اسلام کے نظریات پر بات کرتے، وہ عوامی مقامات میں اسلامی روایات کا ذکر کرتے۔ احمد کے نزدیک جناح کے قول و عمل میں "کچھ چیزیں بالکل بدل گئی تھیں"۔ لیکن جناح اب بھی اپنی تقاریر میںمذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی بات کرتے وہ پیغمبر اسلام محمدﷺ کی طرزِ حکمرانی کو نمونہ عمل سمجھتے۔ احمد کا دعویٰ ہے کہ جو مصنفین جناح کا ایک سیکولر خاکہ کھینچتے ہیں کو چاہیے کہ وہ ان کی تقاریر سنیں اور اسے اسلامی تاریخ اور ثقافت کے تناظر میں پرکھیں۔ یہی تبدیلی تھی جس نے جناح کی گفتگو میں ایک واضح فطری اسلامی مملکت کا سوال پیدا کیا تھا۔ اسی تبدیلی نے جناح کے آخری ایام تک انھیںاقبال کے نظریات کا طالب بنا دیا، وہ اقبالی نظریات جو کے اسلامی اتحاد، اسلامی نظریہ آزادی، انصاف اور مساوات ،معیشت اور حتیٰ کہ نماز کے پڑھنے تک سے متاثر نظر آنے لگے ۔[92]
جناحاقبال کی سوچ سے کس حد تک متاثر تھے کا اندازہ1940ء میں کی گئی ان کی ایک عوامی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ"اگر مستقبل میںہندوستان میں ایک مثالی اسلامی مملکت قائم ہوئی اور مجھ سے کہا جائے کہ اس طرز حکمرانی اوراقبال کے کام میں بہتر کونسا ہے تو میں مؤخر الذکر کو ہی چنوں گا۔[93]

سیاست میں واپسی

1933ء میں ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص متحدہ صوبوں کے مسلموں نے جناح سے دوبارہ آکرمسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کا کہنے لگے جو اب قدرے غیر متحرک ہو چکی تھی[94]۔ وہ اب صرف نام کے ہی صدر تھے[b]جب انھیں1933ء کے سیشن کی صدارت کے لیے مدعو کیا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اس سال کے اختتام سے قبل حاضر نہیں ہو سکتے۔[95]

جناح لکھنؤ میں لیگی اجلاس کے اختتام پرساتھیوں کے ہمراہ، اکتوبر1937

اس حوالے سے جن رہنماوں نے جناح سے ملاقات کی ان میںلیاقت علی خان بھی شامل تھے جو بعد میں جناح کے قریبی مشیر طور پر سامنے آئے اور وہپاکستان کے پہلےوزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ جناح کی واپسی کے حوالے سےلیاقت علی خان نے کئی مسلم رہنماوں سے مشاورت کی اور ان کے پیغامات جناح تک پہنچائے۔[96][97]1934ء کے ابتدا میں جناح نے ہیمپسٹیڈ میں موجود اپنا مکان بیچ دیا اور اپنے قانونی مشق ختم کردی تاکہ وہ واپس ہندوستان جاسکیں۔[98][99]
بمبئی کے مسلمانوں نے اکتوبر1934ء میں جناح کو مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لیے اپنا نمائندہ نامزد کیا[100][101]۔ برطانوی پارلیمنٹ نے حکومت ہند ایکٹ 1935 کے تحت صوبوں کو کچھ اختیارات دئے، جبکہ دلی میں مرکزی اسمبلی بنائی گئی جس کے پاس اختیارات نا تھے مثلاً اس اسمبلی کو دفاع، خارجی امور اور بجٹ جیسے معاملات میں دخل کا حق حاصل نا تھا۔وائسرائے کو اختیار کل کا مالک بنایا گیا اور وہ اپنی مرضی سے اسمبلی اور قوانین کو جب چاہیں تحلیل کر سکتے تھے۔ لیگ نے اس منصوبے کو قبول کیا لیکن ساتھ ہی کمزور پارلیمنٹ کے معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ کانگریس نے1937ء کے انتخابات کے لیے خوب تیاری کر رکھی تھی جبکہ مسلم لیگ ان انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی حتیٰ کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی انھیں قابل ذکر کامیابی نا مل سکی۔ اس جماعت نے دہلی میں اکثریت حاصل کی اوربنگال میں یہ فاتح جماعت کی اتحادی بنی۔کانگریس اور ان کے اتحادی جماعتوں نےشمال مغربی سرحدی صوبہ (1901–1955) میں بھی حکومت بنائی حالانکہ اس صوبے میں رہنے والے تمام لوگ مسلمان تھے[102]۔
سنگھ کے مطابقیہ نتائج جناح کے لیے زبردست اور تقریباً صدمے تک کا باعث تھے۔[103] باوجود 20 سال تک جناح کے اس خیال کہ مسلمان متحدہہندوستان میں باوجود اقلیت میں ہونے کہ کچھ قانونی اصلاحات ،مسلم صوبوں کی حد بندی سے اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں،جن کے متعلق جناح نے کبھی سوچا تھا کہ یہ مسلمانوں کی گروہی جھگڑوں سے ناکام ہو سکتا ہے۔"[103][104] سنگھ مسلم رہنماوں پر1937ء کے انتخابات میں ناکامی کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے"جب کانگریس نے تقریباً تمام مسلم سیٹوں سمیت حکمت بنائی تو غیر کانگریسی مسلمان رہنما جب ان کے مخالف اپوزیشن کرسیوں پر بیٹھے تو انھیں اچانک اس تلخ حقیقت کا ادراک ہوا کہ وہ کتنے بے اختیار ہیں۔ اگرکانگریس ایک بھی مسلم نشست نا جیتتی تو یہ ان کے لیے بے حد اطمینان کا سبب ہوتا ۔۔ جیسا کہ انھوں نے اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی تھی لہٰذا وہ بلا شراکت غیر ے حکومت بنانے کے مجازتھے۔۔۔"[105]
اگلے دو سالوں تک جناح مسلم لیگ کے لیے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ وہبنگال اورپنجاب کی حکومت میں موجود تھے لہٰذا وہ وہاں سے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ نیز انھوں نےمسلم لیگ کو وسیع کرنے پر بھی کام کیا۔ انھوں نے جماعت کے رکن بننے کی فیس کم کر کے دو آنے (⅛ روپے) کردی جو پھر بھی کانگریس کے ممبرشپ فیس سے آدھے سے زیادہ تھے۔ انھوں نے کانگریس کی طرز پرمسلم لیگ کی ساخت تبدیل کی اور ورکنگ کمیٹی کو بااختیار بنایا جنہیں وہ خود منتخب کیا کرتے تھے۔[106]دسمبر1939ء میںلیاقت علی خان کے اندازے کے مطابق دو آنے والے ارکان کی تعداد تین ملین (تیس لاکھ) تھی۔[107]

پاکستان کے لیے جدوجہد

تفصیلی مضمون کے لیےتحریک پاکستان ملاحظہ کریں۔

آزادی کا پس منظر

جناح پٹنہ میں لیگی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، 1938

1930ء تک اکثر مسلمانان ہند آزادی کے صورت میں ہندوں کے ساتھ ایک متحد مملکت میں رہنے کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ وہ صدیوں سے رہتے آئے تھے اور یہی خیال ہندوؤں کا بھی تھا جو خود مختار حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے[108]۔ اس کے علاوہ کچھ قوم پرستانہ بنیادوں پر بھی تجاویز بنائی گئی تھیں۔1930ء میںخطبہ الہ آباد میںسر محمد اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔چوہدری رحمت علی نے1933ء میں ایک اعلامیہ پاکستان نامی پمفلٹ شائع کی جس میں انھوں نے وادیسندھ کی جانب موجود علاقوں اور دیگر ہندوستانی مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کا نام دیا[109]۔ جناح اور اقبال1936ءاور1938ء میں ملاقات کرتے رہے اور جناح نے اپنی تقاریر میںاقبال کے خواب کی حمایت کی۔[110]
اگرچہ تمام کانگریسی رہنما ایک متحد طاقتور ملک کے لیے کام کر رہے تھے، کچھ مسلم رہنما جن میں جناح بھی شامل تھے، اس کے مخالف تھے۔ وہ ان نظریات کی حمایت اپنی مسلک کے حقوق کی تحفظ کے یقین دہانی نا مل سکنے کے سبب کر رہے تھے۔[108] اگرچہ تمام کانگریسی رہنما ایک متحد طاقتور ملک کے لیے کام کر رہے تھے ،کچھ مسلم رہنما جن میں جناح بھی شامل اس کے مخالف تھے وہ ان نظریات کی حمایت اپنی مسلک کے حقوق کی تحفظ کے یقین دہانی نا مل سکنے کے سبب کر رہے تھے۔ اس کے علوہ کچھ مسلم سیاست دان کانگریس کے ہم خیال بھی تھے ان سب کے باوجود اس منظر میں ایسے کئی ہندو سیاست دان بھی تھے جو آزادی کی صورت میں ہندوستان کو ہندو ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے (ان سیاست دانوں میںولبھ بھائی پٹیل اور مدن موہن مالویا جیسے شامل تھے) ان کے نزدیک آزاد ہندوستان میں گائے کی قربانی پر پابندی اور ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ ملنا تھا۔ ہندو نواز کالم نگاروں کو روکنے سے قاصر کانگریسی حمایتی مسلمانوں کو کئی طرح کے خدشات کو سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی1937ء تک کانگریس کے حمایتی مسلم تعداد قابل قدر حالت میں تھی۔[111]
ان دو گروہوں میں مزید جدائی سامنے آئی جب یہ دونوں جماعتیں1937ء کے انتخابات میں متحدہ صوبوں میں اتحادی جماعت بنانے میں ناکام نظر آئے۔[112]مورخ آیان ٹالبوٹ لکھتے ہیں" کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلم آبادی کو سمجھنے اور ان کے مذہبی حساسیت کو احترام کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام نا اٹھائے۔ جبکہ اس دور میں مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کا دعویٰ کرتی تھی۔ اور بڑی بات یہ کہمسلم لیگ نے اسی کانگریسی حکومتی ادوار کے فورا بعدپاکستان کا مطالبہ اٹھایا۔"[101]"
بالراج پوری اپنے جریدے کو لکھے گئے مضمون میں جناح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ،"1937ء کے ووٹ کے بعدمسلم لیگ کے صدر کی توجہ تقسیم کی طرف گئی"۔[113] تاریخ داناکبر صلاح الدین احمد کی تجویز ہے کہ ان ادوار میں جناح کو کانگریس سے مزید مفاہمت کرنا بے سود لگ رہا تھا نیز ان دنوں وہ اسلامی تشخص کے بھی گرویدہ ہوتے چلے گئے تھے اور یہی ان کے نزدیک ایک الگ ،کافی اور مکمل پہچان تھی اور یہ بات ان کی اگلی زندگی سے بھی جھلکتی رہی۔[22] 1930 کے بعد سے وہ مشرقی لباس زیب تن کیے دکھائی دینے لگے تھے[114]۔1937 کے الیکشن کے بعد جناح کا مطالبہ تھا کہ طاقت کی تقسیم کو پورے ہندوستان میں نافظ کیا جائے اور انھیں تمام مسلمانان ہند کے واحد ترجمان کے طور پر لیا جائے۔[115]

دوسری جنگ عظیم اور قرارداد لاہور

تفصیلی مضمون کے لیےقرارداد لاہور ملاحظہ کریں۔
مسلم لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ، 1940.جناح درمیان میں۔

برطانوی وزیر اعظم نوائل چیمبرلین نے3 ستمبر1939ء کو نازی جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی وائسرائے ہندوکٹر ہوپ نے ہندوستانی سیاست دانوں کو کسی خاطر میں لائے بغیرجنگ میں برطانیہ کا بھر پور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا[116]۔ اس عمل پر برصغیر میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ جناح سے ملاقات کے بعد وائسرائے نے یہ موقف اپنایا کہ جنگ کی وجہ سے خود مختار حکومت کا معاملہ معطل کیا گیا ہے۔[117] کانگریس نے ایک قانونی اسمبلی سے قانون کو بنانے اور آزادی کا مطالبہ کیا، جب اس مطالبے کو مسترد کیا گیا تو کانگریس 10 نومبر کو اپنے آٹھ صوبائی حکومتوں سے مستعفی ہو گئی ان صوبوں میں جنگ کے دوران معاملات کو گورنر چلاتے رہے۔ اس دوران میں جناح دوسری طرف انگریزوں کی حمایت کرنے لگے جس کے سبب انگریز انھیں مسلم آبادی کا نمائندہ سمجھنے لگے[118]۔ جناح بعد میں کہتے ہیں کہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد انگریز انھیںگاندھی کے برابر اہمیت دینے لگے۔ میں حیران تھا کہ مجھےگاندھی کی ساتھ والے نشست پر بٹھایا جاتا۔"[119]اگرچہمسلم لیگ نے جنگ میںبرطانیہ کی متحرک طور پر حمایت نا کی اور نا ہی انھوں نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔[120]

جب مسلمان گوروں سے مکمل تعاون کرنے لگے تو وائسرائے نے جناح سے حکومتی خود مختاری کے متعلقمسلم لیگ کی رائے پوچھی یہ سوچ کر کہ لیگ کے خیالات کانگریس سے مکمل مختلف ہوں گے۔ اس مقام پر پہنچ کر لیگ کے ورکنگ کمیٹی نے فروری1940ء میں چار دن قانونی کمیٹی کو بھیجنے والی سفارشات پر کام کیا۔ اس کمیٹی نے جو مطالبے سب کمیٹی کوبھیجے اس میں کہا گیا کہ" مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد ریاست قائم ہو اور یہ معاملات سیدھےبرطانیہ کی انتظام میں مکمل ہوں"[121] 6 فروری کو جناح نے وائسرائے کو آگاہ کیا کہ لیگ 1935 ایکٹ پر چلتے ہوئے وفاق کے ماتحت بننے کے تقسیم کا مطالبہ پیش کرے گی۔قرارداد لاہور ( جو قرداد پاکستان کے نام سے معروف ہے اگرچہ اس میں یہ نام استعمال نہی کیا گیا) اسی سب کمیٹی کے کام پر مشتمل تھی نیز اس نے دو قومی نظریہ شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں کے انضمام کے لیے اپنایا، جس میں انھیں مکمل خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی طرح کے حقوق کا مطالبہ مشرقی علاقوں کے لیے بھی مانگا گیا اس میں دیگر صوبوں میں موجود اقلیتوں کا بھی خاص ذکر کا گیا۔ اسےمسلم لیگ کےلاہور سیشن میں23 مارچ1940ء کو منظور کیا گیا۔[122][123]
گاندھی نے اس عمل کو خاموش رہتے ہوئے "حیران کن" قرار دیا لیکن انھوں نے ساتھ ہی اپنے پیروکاروں سے کہا کہ مسلم اقوام بھی اپنے خود مختاری کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جناح دلی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، 1943

جب کہ کانگریس کے دیگر رہنما نے اس پر بہت رد عمل دکھایا، جواہر لعل نہرو اسے جناح کے "تخیلاتی تجاویز" قرار دی جبکہچکرورتی راجگوپال آچاریہ نے جناح کے تقسیم کی تجویز کو "ذہنی بیماری کی علامت" قرار دی۔[124]1940ء میں جناح کے وائسرائے سے ملاقات ہوئی اور اسی دوران میںونسٹن چرچل وزیر اعظم بنے[125] ،انھوں نے اگست میں کانگریس اور لیگ دونوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ جنگ میں تعاون کرنے کے صلے میں وائسرائے ہندوستانی نمائندوں کوبرطانیہ کے سامنے اپنے تجاویز رکھنے کی اجازت فراہم کرے گا۔ وائسرائے نے ان نمائندوں سے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا اور کسی بھی بڑی آبادی کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، اگرچہ کانگریس اور لیگ کو ان وعدوں پر زیادہ اعتبار ناتھا لیکن جناح خوش تھے کہ گورے انھیں مسلمانوں کے معاملات میں ان کا نمائندہ سمجھ کر شریک کرتے ہیں[126]۔ جناحپاکستان کی سرحدی حدبندی،برطانیہ سے باقیبرصغیر سے تعلق کے حوالے سے تجاویز دینے پر تذبذب کا شکار تھے کہ کہیں اس سے لیگ میں کہیں فرقہ نا بن پڑے۔[127]
جاپانیوں نےدسمبر1941ء کو پرل ہاربر حملہ کر کےامریکا کو جنگ میں کودنے کا موقع فراہم کیا اور انہی ادوار میں جاپانی فوجوں نےجنوب مشرقی ایشیا کی جانب پیش قدمی شروع کی تو برطانوی کیبنٹ نے ایک مشن جس کی قیادت سر سٹیفورڈ کرپس کر رہے تھےہندوستان میں بھیجی اس مشن کا مقصد ہندوستانی رہنماؤں سے جنگ کے لیے بھرپور تعاون مانگنا تھا۔ کرپس نے کچھ صوبوں کو یہ بھی تجویز دی کہ ان کی مرضی آیا وہ کچھ عرصے کے لیے خود مختار رہیں یا ہمیشہ کے لیے یا مستقبل میں کسی بھی ملک کے ساتھ ضم ہوجائیں۔ چونکہمسلم لیگمشرقی بنگال کے ہندو علاقوں میں ووٹ نا لے سکتی تھی لہٰذا جناح نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ کانگریس نے بھی اس تجاویز کی مخالفت کی اور فوری مراعات دینے کا مطالبہ کیا جس کے لیے کرپس تیار نا تھے۔[128][129]اس کے باوجود جناح اور لیگ کے رہنما کرپس کے معاملے کو پاکستان کے بنیادی مطالبے کوتسلیم کرنے سے تشبیہ دی۔[130]

جناح گاندھی کے ہمراہ، 1944

کرپس مشن کے ناکام ہونے پر کانگریس نے اگست1942ء کو کوائٹ انڈیا مہم چلائی اور آزادی تک ستیاگرا کی مہم دوبارہ چلانے کا فیصلہ کیا۔برطانیہ نے بدلے میں جنگ کے خاتمے تک تمام کانگریسی رہنماوں کو قید کیے رکھا۔گاندھی کو گوروں نے آغا خان کے ایک محل سے گرفتار کیا اور انھیں گھر میں نظر بند رکھاگیا لیکن ان کی طبیعت کی ناسازی کے سبب انھیں1944ء میں رہا کر دیا گیا۔ کانگریس کے رہنماوں کی سیاسی منظرنامے سے گمشدگی کے دوران میں جناح نےتحریک پاکستان خوب چلائی۔ جناح نے اس دوران میں صوبوں میں بھی لیگ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا[131][132]۔ انھوں نےدلی سے1940ء میں انگریزی اخبار ڈان کا اجرا کیا جس میں وہ لیگ کے پیغامات کو پھیلاتے اور بعد میں یہپاکستان کے بڑے انگریزی اخبارات میں شامل ہوئی۔[133]
گاندھی نے1944ء میں اپنی رہائی کے بعدبمبئی کے مالابار پہاڑی میں موجود جناح کے گھر میں ان سے ملاقات کی۔ دو ہفتے چلنے والی اس ملاقات سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ جناح کو اصرار تھا کہ گوروں کے انخلا سے قبل ہی بر صغیر کو تقسیم کیا جانا چاہیے اور ان کے انخلا کے فورا بعد ہیپاکستان کو آزادی حاصل ہونی چاہیے جبکہگاندھی کا موقف یہ تھا کے انگریزوں کے انخلا کے بعد تقسیم کے لیے استصواب رائے معلوم کی جائے۔[134] 1945 میں جنگ کے بعدلیاقت علی خان اور بھلابھائی دیسائی میں ملاقات ہوئی دونوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ کانگریس اور لیگ ایک قائم مقام حکومت بنائی گی اور وائسرائے کے ایکزیکٹیو کونسل میں دونوں جماعت کے ارکان کی تعداد برابر ہوگی۔ جب1945ء میں کانگریس کے دیگر ارکان جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے دیسائی کے عمل کی مخالفت کی اور کہا کہ دیسائی نے اپنے اختیار سے بڑھ کر کام کیا ہے۔[135]

جنگ کے بعد

آرچیبالڈ ویول نے1943ء میں سبکدوش ہونے والے وائسرائے کی جگہ لی۔ اس نئے وائسرائے نے جون1945ء میں تمام جماعتوں کے معروف رہنماؤں کوشملہ میں مدعو کر کے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ انھوں نےلیاقت اور دیسائی کی طرز پر ایک وقتی حکومت کی تجویز دی۔ لیکن وہ اس بات پر رضامند نا تھے کہ مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں پر صرف مسلم امیدوار کھڑے کیے جائیں۔ تمام مدعو رہنماؤں نے اپنی اپنی جماعت کے امیدواروں کی فہرست وائسرائے کے ہاں جمع کی۔ لیکن انھوں نے جولائی کے وسط میں اس عمل کو روک دیا، جس کی وجہ چرچل حکومت کا خیال تھا کہ یہ عمل کامیاب نہ ہو سکے گا۔[136]

جناح (1945)

برطانوی عوام نے اگلے انتخابات میں لیبر پارٹی کے کلیمنٹ ایٹلی کو منتخب کیا۔ ایٹلی اور ان کے مشیر برائے ہندوستان لارڈ پیتھک لارنس نے ہندوستانی حالات کے جائزے کے لیے ایک جائزہ لینے کا حکم جاری کیا[137]۔ جناح نے برطانوی حکومت کی تبدیلی پر کوئی تبصرہ دینے کی بجائے ،اپنی ورکنگ کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا جس میں انھوں نےہندوستان کے لیے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس وقت لیگ صوبائی سطح پر کافی جڑیں پکڑ چکی تھی نیز جناح کا خیال تھا کہ وہ اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ انتخابات میں مسلم علاقوں کی نشستوں میں اکثریت حاصل کرکے اپنے مسلم اقوام کے واحد نمائندہ جماعت ہونے کے اس دعویٰ کو سچ ثابت کر سکے گی۔ وائسرائے نےلندن میں اپنے حکام سے مشارت کے بعد ستمبر میںہندوستان کا رخ کیا اور اس کے فوراََ بعد صوبائی اور مرکز کے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔برطانیہ کا یہ عمل اس بات کا اشارہ تھا کہ قانون بننے کا عمل ووٹنگ کے بعد ہی شروع کیا جائے گا۔[138]
مسلم لیگ نے یہ بات واضح کردی کہ وہ صرفپاکستان کے مطالبہ پر ہی انتخابی مہم چلائی گی۔۔[139]احمد آباد میں جسلے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا"پاکستان ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے"۔[140]دسمبر1945ء کے کونسٹیٹیوینٹ اسمبلی آف انڈیا کے انتخابت میںمسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مختص تمام نشستیں جیت لیں۔ جبکہ صوبائی نشستوں میں اس نے 75 فیصد زائد نشستیں جیتی جبکہ انھیں انتخابات میں اس نے1937ء میں صرف 4۔4 فیصد جیتی تھی۔[141]ان کے سوانح نگار ہیکٹربولیتھو لکھتے ہیں" یہ جناح کے انتہائی خوش کن لمحے تھے،ان کے انتھک سیاسی مہمات، ان کا یقین اور دعوے، تمام کا ہی فیصلہ ہو چکا تھا"[142]۔ ولپرٹ کا خیال ہے" انتخابات میں لیگ کی واضح جیت نے مسلمانوں کے مطالبہ آذادی کو ایک کائناتی حقیقت ثابت کر دیا تھا۔"[143]انڈین نیشنل کانگریس اگرچہ اب بھی جنرل اسمبلی میں اکثریت میں تھی لیکن اب ان کے پچھلے چار نشستیں کم ہوگئیں تھی[143]۔ اس دوران میںمحمد اقبال نے جناح کوغلام احمد پرویز سے متعارف کروایا جنہیں جناح نے ایک میگزین طلوع اسلام کی ادارت کی زمہ داری سونپی، اس رسالے میں مسلمانوں کے علاحدہ ریاست کے مطالبے کا پرچار کیا جاتا تھا۔[144]
فروری1946ء میں برطانوی کیبنٹ نے ایک وفدہندوستان بھیجا جس کا مقصد یہاں کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنا تھا۔ اسکیبنٹ مشن پلان،1946ء میں کرپس اور پیتھک لارنس بھی شامل تھے۔ اس اعلیٰ سطحی وفد نے مارچ میںدلی پہنچ کر مزاکرات میں موجود جمود ختم کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستانی انتخابات کی وجہ سے پچھلے اکتوبر کے بعد سے کم ہی مذاکراتی عمل آگے بڑھ پایا تھا۔[145]برطانوی حکومت نے مئی میں ایک منصوبہ جاری کیا جس کے تحت متحدہہندوستان جس میں کئی خود مختار ریاستیں بھی شامل تھی، نیز انھوں نے مذہب کی بنیاد پر کچھ صوبوں کے گروپ کو بنانے کی بات کی۔ بعض معاملات جیسے دفاع خارجہ امور اور آمدورفت کو ایک مرکزی حکومت کی ذمہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صوبوں کو یہ مرضی دی گئی کہ وہ کسی بھی ریاست سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں اور اس پلان میں کہا گیا کہ لیگ اور کانگریس کے نمائندوں سے ایک قائم مقام حکومت بنائی جائے۔ جناح اور ان کے ورکنگ کمیٹی کے رہنماؤں نے اس پلان کو جون میں قبول کر لیا، لیکن وہ اس سوال پراٹک گئے کہ قائم مقام حکومت میں لیگ اورکانگریس کے نمائندوں کی کیا تعداد ہوگی نیزوہ کانگریس کا فیصلہ کہ ان کے نمائندوں میں ایک مسلم بھی موجود ہوگا پر پریشان تھے۔ اس وفد نےمملکت متحدہ روانگی سے قبل یہ بات بھی کہی کہ اگرایک جماعت اس فیصلہ پر راضی نا بھی ہوتو وہ ضرور ایک ہی جماعت سے قائم مقام حکومت بنائی گی۔[146]

شملہ میں جناح اور نہرو چہل قدمی کرتے ہوئے، 1946

انڈین نیشنل کانگریس نے جلد ہی ہندوستانی وزارت میں شمولیت اختیار کر لی۔ البتہ لیگ نے اس معاملے میں سستی کا مظاہرہ کیا اور اکتوبر1946ء سے پہلے وہ اس میں شامل نا ہوئی۔ لیگ کی حکومت میں شامل ہونے کی رضامندی کے سبب جناح کوکانگریس سے برابری اور مسلم معاملات میں ویٹو کے مطالبے سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس نئی وزارت کی بنیاد مختلف فسادات خاص کریوم راست اقدام کے منظر نامے میں رکھی گئی[147]۔کانگریس چاہتی تھی کہ وائسرائے قانونی اسمبلی کو سمن جاری کر کے قانون بنانے کا کہے نیز وہ محسوس کرتے تھے کہ لیگ کے وزراء کو اس معاملے میں ان کا ساتھ دینا چاہے یا مستعفی ہوجانا چاہیے۔ صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے وائسرائے نے جناح ،لیاقت ،نہرو کودسمبر1946ء میںلندن روانہ کیا۔ مزکرات کے آخر میں یہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ قانون کوہندوستان کے کسی بھی علاقے کی منشا کے بغیر نافذ نہیں کیا جائے گا۔[148]واپسی پر جناح اور لیاقت کئی دنوں کے لیےقاہرہ میں پان اسلامک اجلاس میں شرکت کے واسطے ٹھہر گئے۔

کانگریس نے کچھ معاملات کی وجہ سے ہونے والے اختلاف رائے پرلندن کے اس مذاکرات کی توثیق کردی۔ لیکن لیگ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور انھوں نے قانونی اجلاس میں شرکت نا کی[148]۔ جناح اس وقت ہندوستان سے کچھ تعلقات جیسے مشترکہ دفاع یا آمدورفت کے ساتھ رکھنے کا خیال رکھتے تھے۔ لیکن دسمبر1946ء میں انھوں نے ایک خود مختار پاکستان پر زور دیا[149]۔
لندن معاہدے کی ناکامی کے بعد، جناح کو مذاکرات کرنے کی کوئی جلدی نا تھی وہ سمجھتے تھے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ غیر منقسمپنجاب اوربنگال کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن ان دولت مند، بڑے اور گنجان علاقوں کے بعض حصوں میں مسلم اقلیت میں تھے اور یہی ان کے خیال کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ تھے۔[150]اٹیلی منسٹری نے اس دوران میں خواہش کی کہ وہمملکت متحدہ کےہندوستان میں سے جلد انخلا کی خواہش رکھتے ہیں،لیکن ویول کی وجہ سے وہ کم حوصلہ مند تھے۔ دسمبر1946ء کے ابتدا میںمملکت متحدہ نے وائسرائے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور جلد ان کی جگہلوئس ماؤنٹ بیٹن نے لے لی، جو ایک جنگی رہنما اورملکہ وکٹوریہ کے پوتے ہونے کے سبب کونزرویٹو کے ہاں مقبولیت رکھتے تھے نیز وہ اپنی سیاسی نظریات کے سبب لیبر پارٹی میں بھی مقبول تھے۔[149]

ماونٹ بیٹن اور آزادی

تفصیلی مضمون کے لیےتقسیم ہند ملاحظہ کریں۔

20 فروری1947ء کو اٹیلی نےلارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منتخب ہونے کا اعلان کیا،اور کہا کہمملکت متحدہ جون 1948 سے قبلہندوستان کو طاقت منتقل کرنے کا عمل شروع نہیں کرے گا۔[151]لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے24 فروری1947ء کو اپنے آمد کے دو دن بعدعہدے کا حلف اٹھایا[152]۔ اسی دوران میں کانگریس تقسیم کے معاہدے پر غور کرنے لگی۔ نہروہ نے 1960 میں کہا کہ " ہم تھکے ماندے تھے اور وقت گزرتا جا رہا تھا ۔۔ تقسیم کا منصوبے ہی واحد راستہ فراہم کر رہا تھا لہذا ہم نے اسے اپنا لیا"۔[153]کانگریس بجائے جدا جدا مسلم صوبوں کے پیچھے پڑے رہنے کے وفاق میں زیادہ باختیار اسمبلی کے لیے کوشش کرنا چاہتی تھی[154] لیکن کانگریس نے فیصلہ کیا کہ اگرپاکستان آزاد ہو توبنگال اورپنجاب کو تقسیم کیا جانا چاہیے۔[155]

محمد علی جناح 1947ء میںلوئس ماؤنٹ بیٹن اور ایڈوینہ ماؤنٹ بیٹن کے ہمراہ

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے حکومتی بریفنگ میں جناح کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے انھیں سب سے "مشکل ترین گاہک" قرار دیا اوربقول ان کے "انھوں نے سب سے بڑی پرشانی کھڑی کر رکھی تھی" نیز وہ کہتے" اس ملک (ہندوستان) میں اب تک کوئی بھی جناح کے دماغ میں نہیں جھانک سکا تھا"[156] ۔5 اپریل سے پہلے یہ لوگ چھ مرتبہ ملے۔ اس ملاقات میں موجود تناؤ کی کیفیت میں اس وقت کمی آئی جب جناح نے وائسرائے اور ان کی بیگم کے درمیان میں کھڑے ہوکر تصویر کھینچوائی اور ازراہِ مذاق کہا "دو کانٹوں کے درمیان میں ایک گلاب"۔ اگرچہ وائسرائے نے اپنی بیگم کو درمیان میں رکھنے کا فیصلہ کیا ۔[157]لیکن جناح کے اس مذاق کو وہ اس سے قبل ہی بھانپ گئے تھے۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن جناح سے مثبت طور پر متاثر نا تھے اور انھوں نے اپنے ساتھیوں سے بھی مایوسی کا اظہا کیا تھا وہ جناح کےپاکستان پر کیے جانے والے اصرار پر بیزار ہو گئے تھے۔[158] جناح کو خوف تھا کہمملکت متحدہہندوستان میں اپنے آخری ایام میں اختیارات کو کانگریس کی طرف موڑ دے گی اور اس سے مسلمانوں کیخود مختاری کے مطالبے کو نقصان پہچے گا۔ جناح نےلارڈ ماؤنٹ بیٹن سے برطانوی ہندی فوج کو آزادی سے قبل تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا جو ان کے خیال میں ایک سال تک وقت لے سکتی تھی۔ وائسرائے نے اس تقسیم کو آزادی کے بعد کرنے کا سوچا تھا لیکن جناح آذادی سے قبل اس کا اصرار کر رہے تھے۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح سے ملاقات کے بعدلیاقت علی خان سے ملاقات کی اور جو نتائج اخذ کیے انھیںوزیر اعظم کے ارسال کیے۔ انھوں نے لکھا کہ" ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ فوج کی جانب رجوع کرے گی اگرپاکستان اپنے اصل حال میں آذادی حاصل نا کر پائی۔"[159][160] وائسرائے اسمبلی کے رپورٹ پر منفی مسلم رد عمل سے بھی متاثر تھے جو مرکز ی اسمبلی کو زیادہ اختیارا تفویض کرنے کا کہہ رہے تھے۔[161]
2 جون کو، وائسرائے نے منتقی منصوبہ ہندوستانی رہنماؤں کے سامنے پیش کیا:15 اگست کو، حکومتمملکت متحدہ دو ملکوں کو اختیارات منتقل کر دے گی۔ صوبائی اسمبلیوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مرکزی اسمبلی کے ساتھ رہیں یا نئے کو اپنائے ،جوپاکستان مین شامل ہونا ہے۔بنگال اورپنجاب بھی اس سوال پر ووٹ ڈالے گی کہ آیا اس کا موقف تقسیم پر اور کس اسمبلی میں شامل ہونے کا ہے۔ ایک سرحدی کمیشن دو ملکوں کی سرحد کا فیصلہ کرے گی۔ شمال مغربی صوبے اورآسام کے مسلم اکثریتی علاقےسلہٹ جومشرقی بنگال متصل تھی میں بھی رائے دہی کی جائے گی (جس پر لیگ راضی نا تھی باوجود اکثریتی مسلم ہونے کہ)،3 جون کولارڈ ماؤنٹ بیٹن،جواہر لعل نہرو، جناح اور سکھ رہنما بالدیو سنگھ نے ریڈیو پر رسمی طور پر اعلان کیا۔[162][163][164]جناح نے اپنی تقریر میںپاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جو ان کی تحریرمیں شامل ناتھی[165]۔ کچھ ہفتے پنجاب اور بنگال میں ووٹنگ ہوئی جس میں تقسیم کا فیصلہ ہوا جبکہآسام کے علاقےسلہٹ اورصوبہ سرحد والوں نےپاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ سنایا اورسندھبلوچستان اسمبلیوں نے بھیپاکستان کے حق میں رائے دی۔[164]

4 جولائی1947ء کولیاقت نے وائسرائے سے جناح کی جانب سے گزارش کی کہ وہ برطانوی بادشاہجارج ششم سے جناح کوپاکستان کا گورنر جنرل بنانے کی سفارش کریں۔ اس سفارش نے وائسرائے کو سیخ پا کر دیا جو ان دونوں ملکوں میں بیک وقت یہ عہدہ رکھنا چاہتے تھے- وہ دونوں ملکوں کی آزادی پر انکا سب سے پہلا گورنر جنرل کہلانے کے خواہش مند تھے لیکن جناح کا خیال تھا کہ ان کے گورنر جنرل بننے کی صورت میں وہ نہرو کے قریب ہونے کے سبب ہندو اکثریت کا ساتھ دیں گے۔ مزید برآں گورنر جنرل کو ابتدائی طور پر طاقتور اختیارات کا مالک بنایا گیا تھا اور جناح اس بات سے متفق نا تھے کہ کوئی دوسرا اس دفتر کو سنبھالے۔ اگرچہ سرسیریل ریڈکلف نے اطلاع ارسال نا کی، لیکن تقسیم سے قبل ہی بڑی تعداد میں ہجرت اور کئی علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جناح نےبمبئی میں موجود اپنی کوٹھی بیچنے کا منصوبہ بنایا اور کراچی میں ایک اور خرید لی۔7 اگست کو جناح، ان کی ہمشیرہ اور خاص ملازمین دلی سےلارڈ ماؤنٹ بیٹن کے جہاز میںکراچی روانہ ہوئے اور جب کرائے کے اس جہاز نے اڑان بھرنا شروع کیا تو وہ کچھ سرگوشی میں کہہ رہے تھے "that is the end of that"(یہ اس کا انجام ہے)[166][167][168] 11 اگست کوکراچی میں اسمبلی کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے خطاب کیا"آپ آزاد ہیں؛ آپ ریاست پاکستان میں آزاد ہیں کہ چاہیں تو اپنے مندر میں جائیں یا اپنے مسجد میں اور یا اپنے کسی دوسرے عبادت کے جگے میں۔۔۔ آپ کا تعلق بھلے ہی کس مسلک یا عقیدے سے ہو ۔۔ اس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے سامنے اس بات کو نظریہ سمجھ کر رکھنا چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو اور مسلمان، مسلمان رہیں گے کیونکہ یہ ہر انفرادی بندے کا ذاتی عقیدہ ہے ،جبکہ سیاسی نظر میں وہ ریاست کے شہری ہیں"[169] ۔14 اگست کوپاکستان وجود میں آیا اور جناح نےکراچی میں خوشی منائی۔ ایک عینی شاہد لکھتا ہے"یہاں واقعیپاکستان کے بادشاہ، ہاتھ میں کتاب اٹھائے مولوی، اسپیکر اوروزیراعظم کھڑے ہیں جن کی توجہ ایک مضبوط قائد اعظم کی جانب ہے"۔[170]

جناح آزادی کا اعلان کرتے ہوئے۔

گورنر جنرل

ریڈکلف سرحدی کمیشن نےبنگال اورپنجاب کی تقسیم کا کام مکمل کر کے رپورٹ12 اگست کولارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھجوا دی۔ اس آخری وائسرائے نے یہ نقشے اور رپورٹ17 اگست تک اپنے پاس رکھے، کیونکہ وہ انھیں سامنے لاکر دونوں قوموں کی آزادی کی جشن کو خراب کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چونکہ پہلے ہی سے ہجرت اور فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لہذا ریڈکلف سرحدی کمیشن رپورٹ کا سامنے لانا ان فسادات میں اضافے کا سبب بن سکتا تھا۔ جو لوگ "غلط حصے" میں تھے یا تو قتل ہوئے یا قاتل بنے یا وہاں سے کوچ کرگئے، وہ واقعات کو پیدا کر کے کمیشن کے فیصلے کو بدلنا چاہتے تھے۔ ریڈ کلف نے لکھا کہ چونکہ انھیں معلوم تھا کہ دونوں ہی طرف سے اس تقسیم پر لوگ خوش نہیں ہوں گے لہذا انھوں نے اپنے کام کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیا۔[171] ریڈکلف کے ذاتی مشیر بیومونٹ لکھتے ہیں کہلارڈ ماونٹ بیٹن کو بھی اس الزام کو اپنے سر لینی چاہیے- اگرچہ تمام کو نہی- ان پانچ لاکھ سے دس لاکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کا جو پنجاب سے گزرتے ہوئے فنا ہوئے۔"[172] تقسیم کے بعد 14500،000 لوگوں نے بھارت اور پاکستان میں ہجرت کی۔[172] جناح نےپاکستان میں داخل ہونے والے اسی لاکھ لوگوں کی آباد کاری کے لیے جو ممکن ہوا وہ کیا باوجود 70 کے پیٹے میں ہونے اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کہ انھوں نےمغربی پاکستان میں مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا۔[173]بقول احمد کہ" جس چیز کی اس دور میں پاکستانیوں کو ضرورت تھی وہ ایک ریاست کی علامت تھی،جوانہیں متحد رکھتی اور کامیاب ہونے تک کا حوصلہ فراہم کرتی"[174]۔
جناح کوصوبہ سرحد کی جانب سے کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔1947ء میں کیے گئے رائے دہی میں وہاں کی آبادی میں سے صرف دس فیصد لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے تھے۔ ۔[175]22 اگست1947ء کو گورنر جنرل بننے کے صرف دو ہفتے بعد ہی جناح نے ڈاکٹرخان عبدالغفار خان کی حکومت کو تحلیل کر دیا[176]بعد میں پشتون اکثریتی اس صوبے میں ایک کشمیریخان عبدالقیوم خان کواس مقام پر فائز کیا۔[177][178]12 اگست1948ء کوچارسدہ میںخدائی خدمتگار سے منسلک 400 بابرا واقعے میں ہلاک ہوئے۔[179]
پاکستان نے عوامی املاک کوپاکستان اوربھارت کے مابین تقسیم کرنے والے کمیشن میںلیاقت علی خان اورسردار عبدالرب نشترکو نمائندہ بنا کر بھیجا[180]۔پاکستان نے ان سرکاری املاک میں سے چھٹا حصہ لینا تھا اور اس میں بڑی احتیاط سے کام لیا گیا تھا اور یہاں تک کہ یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ کس ملک نے کاغذوں میں کتنا حصہ لینا ہے۔ لیکن دوسری طرف نئی بھارتی حکومت سستی دکھا رہی تھی اور اس امید سے تھی کہ نوزائیدہ پاکستانی حکومت کب ٹوٹے اور دوبارہبھارت میں شامل ہو۔ انڈین سول سروس اور انڈین پولیس سروس کے کچھ ہی لوگوں نےپاکستان جانے کا فیصلہ کیا تھا لہذاپاکستان میں عملے کی کمی سامنے آئی۔ جبکہ کاشت کار جہاں اپنے اناج فروخت کرتے تھے وہ اب ایک عالمی سرحد میں تبدیل ہو چکی تھی۔پاکستان میں اس وقت مشینری کی بھی کمی تھی۔ نئے آنے والے مہاجروں کے مسئلے کے ساتھ ،نئی حکومت نے خوراک کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی کام کرنا پڑا،ان دگروں حالات میں سیکیورٹی کا نظام بنالیا گیا اور جیسے تیسے بنیادی خدمات فراہم کی گئی۔ ماہر معاشیات یاسین نیاز محی الدین اپنے مطالعے میں کہتے ہیں،"اگرچہپاکستان کو وجود بحرانوں اور خونریزی کے دوران ملی تھی لیکن تقسیم کے بعد اس کا وجود صرف اس کے لوگوں کی قربانیوں اور قائدین کی بے غرض کوششوں سے برقرار رہ سکی"۔
[181]نوابی ریاستیں کومملکت متحدہ نے جاتے ہوئے یہ مرضی دے رکھی تھی کہ آیا وہپاکستان میں شمولیت اختیار کریں یابھارت میں۔ اکثر نے آزادی سے قبل ہی اپنی شمولیت ظاہر کردی تھی لیکن کچھ بڑی ریاستوں کا معاملہ لٹکا رہا۔[182] ہندو رہنما جناح سے اس بات پر خائف تھے کہ انھوں نےجودھ پور،ریاست بھوپال،اوراندور کی ریاستوں کے شہزادوں کوپاکستان میں شامل ہونے پر رضامند کر لیا تھا[183] -ان ریاستوں کی سرحدیںپاکستان سے متصل نا تھیں اور نا ان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھے۔جوناگڑھ کی ریاست جو ہندو اکثریت تھی نے ستمبر1947ء میںپاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اس ریاست کے حکمران دیوان کی موجودگی میںسر شاہ نواز بھٹو نے شمولیت کے کاغذات جناح کے حوالے کیے۔ بھارتی فوجوں نے نومبر میں اس علاقے میں داخل ہوکر یہاں کے نواب اورسر شاہنواز بھٹو کوپاکستان جانے پر مجبور کیا اور انھی بھٹو سےپاکستان کے ایک طاقتور سیاسی خاندانبھٹو خاندان کی ابتدا ہوتی ہے۔[184]
ان تمام تنازعوں میںریاست جموں و کشمیر کا تنازع سب سے بڑا ہونے ہونے والا تھا۔ اس ریاست کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں تھے جس پر ایک ہندو مہاراجا سرہری سنگھ کی حکومت تھی اور انھوں نے اپنی شمولیت کا فیصلہ تعطل میں رکھا ہوا تھا۔ مقامی آبادی نے پاکستانی دخل اندازوں کی مدد سے اکتوبر1947ء میں بغاوت کھڑی کردی جسے دیکھتے ہوئے مہاراجا نےبھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جناح نے اس عمل کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستانی فوجوں کوکشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا۔پاک فوج کے سربراہ اس وقت ایک برطانوی افسر جنرل سر ڈوگلاس گریسی تھے، جنھوں نے یہ حکم اس جملوں کو ادا کرتے ہوئے ماننے سے انکار کیا کہ وہ ایسے علاقوں میں داخل نا ہوگی جو ایک دوسرے ملک کی ہے نیز اس معاملے میں جب تکبرطانیہ سے کوئی حکم نا آئے وہکشمیر پر حملہ نہی کریں گے اس پر جناح نے اپنے احکامات واپس لے لیے۔ یہ ان حملوں کو نا روک سکی جوپاکستان اوربھارت میں جنگ کی صورت میں تبدیل ہو گئے تھے۔[182][185]
کچھ مورخین جناح پرجوناگڑھ جیسی ہندو اکثریتی علاقوں کو حاصل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے بدنیتی کا الزام دھرتے ہیں کیونکہ جناح نے مسلک کی بنیاد پر تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔[186]پٹیل اے لائف میں راج موہن گاندھی لکھتے ہیں کہ "جناح نےجوناگڑھ میں عوامی اصتصواب رائے معلوم کروانی تھی جس میں انھیں یقینی شکست تھی لہازا وہ اسی بنیاد پر بعد میں کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنا چاہتے تھے"۔[187]اقوام متحدہ کی 47 ویں قرارداد جوبھارت کی استصواب رائے کی خواہش پر منظور کی گئی لیکن اس پر کبھی عمل نہ ہو سکا[185]۔
جنوری1947ء میںبھارت نےپاکستان کو برطانوی وراثت میں حصہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان پر زورموہن داس گاندھی نے ڈالا تھا جنھوں نے تادم مرگ روزہ رکھنے کی دھمکی دی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعدموہن داس گاندھی کو قتل کر دیا گیا ان کے قاتل ناتھورام گودسے تھے جو ایک ہندوقوم پرست تھے اور ان کے خیال میںگاندھی ایک مسلم حمایتی تھے۔ جناح نے اپنے تعزیتی پیغام میںگاندھی کے بارے میں کہا" ہندو مسلک میں پیدا ہونے والے عظیم اشخاص میں سے ایک"۔[188]
فروری 1948 میں امریکی عوام کو ریڈیو کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے جناح نے کہا:

پاکستانی قانون کو ابھی پاکستانی اسمبلی نے بنانا ہے، مجھے یہ بات معلوم نہی کہ قانون کی اصل وضع کیا ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری قسم کی ہو گی،جس میں اسلام کے بنیادی اصول بھی شامل کئے جائیں گے۔ آج بھی یہ قانون ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسے کہ وہ 13 سو سال قبل تھے۔اسلام اوراسکے نظرئے نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ یہ ہمیں آدمی،انصاف کے مساوات اور دوسروں سے اچھائی کا درس دیتی ہے۔ہم ان اقدار کے وارثین ہیں اور مستقبل کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں۔

مارچ میں جناح نے باوجود اپنی طبیعت کے خراب ہونے کہمشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ جناح نےانگریزی میں تین لاکھ لوگوں سے خطاب میں کہا،اردوپاکستان کی واحدقومی زبان ہوگی،اور وہ یقین رکھتے تھے کہ ایسا کرنے سے قوم متحد رہ پائے گی۔ لیکنمشرقی پاکستان کےبنگالی زبان بولنے والے لوگوں نے بعد میں اس کی سخت مخالفت کی اور اس معاملے نے1971ء میںبنگلہ دیش کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا۔[189]

قیام پاکستان کے بعد پاکستانی نوٹوں پرجارج پنجم کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ یہ نوٹ30 جون1949ء تک استعمال میں رہے۔ لیکن اپریل1949ء کو ان نوٹوں پرحکومت پاکستان کے سٹیمپ ثبت کیے گئے اور انھیں قانونی اجازت فراہم کی گئی۔ اسی دنپاکستان کےوزیر خزانہ پاکستانملک غلام محمد نے سات سکوں کا سیٹ گورنمنٹ ہاوس میں جناح کے سامنے متعارف کروایا (رو۔ 1،رو۔ 1⁄2،ر۔ 1⁄4،ا۔اے۔ا۔ 1⁄2 اورپائی۔ 1) یہ سکےحکومت پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے پہلے سکے تھے۔

بیماری اور وفات

قائد اعظم ریزیڈنسی زیارت جہاں جناح نے اپنے آخری ایام گزارے

1930ء سے جناح تپ دق کے شکار چلے آ رہے تھے اور یہ بات صرف ان کی بہن اور چند دیگر ساتھیوں کو معلوم تھی۔ جناح نے اس کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انھیں سیاسی طور پر نقصان دے سکتی تھی۔1938ء میں اپنے ایک حامی کو خط میں وہ لکھتے ہیں"تم نے اخبار میں میرے دوروں کے بارے میں پڑھا ہوگا۔۔ میں اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اپنے دوروں میں بے قاعدگیوں کا شکار تھا جس کی وجہ میری خراب صحت تھی"۔[190][191]

کئی سال بعدلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر انھیں جناح کی خرابی صحت کا معلوم ہوتا تو یقینا وہ ان کی موت تک انتظار کرتے اور اس طرح تقسیم سے بچا جا سکتا تھا۔[192]فاطمہ جناح بعد میں لکھتی ہیں کہ،" جناح اپنے کامیابیوں کے دور میں بھی سخت بیمار تھے۔۔ وہ جنون کی حد تکپاکستان کو سہارا دینے کے لیے کام کرتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انھوں نے اپنی صحت کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا"[193]۔ جناح اپنے میز پر کراؤن اے سگریٹ اور کیوبا کا سگار رکھتے تھے اور پچھلے تیس سال میں انھوں نے سگریٹ نوشی بہت زیادہ کردی تھی۔ گورنمنٹ ہاوسکراچی کے پرائیویٹ حصے میں وہ لمبے وقفے آرام کے واسطے لینے لگے تھے اورفاطمہ جناح اور ذاتی عملے کو ہی ان کے قریب رہنے کی اجازت تھی[194]۔
جون1948ء میں وہ اورفاطمہ جناحکوئٹہ روانہ ہوئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انھوں نے مکمل آرام نا کیا بلکہ انھوں نےکمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے آفسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا "آپ دیگر افواج کے ساتھپاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں"۔[195] وہیکم جولائی کوکراچی روانہ ہوئے جہاں انھوں نےاسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب کیا،اسی شامکینیڈا کے تجارتی کمیشن کی جانب سے آذادی کے حوالے سے منعقد تقریب میں شرکت کی جو انکا آخری عوامی جلسہ ثابت ہوا۔[196]

6 جولائی1948ء کو جناح واپسکوئٹہ روانہ ہوئے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔ اس دوران میں جناح کا مسلسل طبعی معائنہ کیا گیا اور ان کی طبعی نزاکت دیکھتے ہوئےحکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو ان کے علاج کے لیے روانہ کیا۔ مختلف ٹیسٹ ہوئے جنھوں نے ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا۔ جناح کو ان کی صحت کی جانکاری دی گئی اور انھیں ڈاکٹروں کو اپنی حالت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کہا گیا نیزفاطمہ جناح کو بھی انکا خیال رکھنے کا کہا گیا۔ انھیں اس دور کے نئے "معجزاتی دوائی "سٹریپٹو مائیسن دی گئی لیکن کچھ افاقہ نا ہوا۔ لوگوں کینماز عید میں ان کے لیے کی گئی خصوصی دعاؤں کے باوجود ان کی صحت برابر گرتی رہی۔ انھیں آزادی سے ایک دن قبل 13 اگست کو کم اونچے مقام کوئٹہ لایا گیا انھوں نے اس دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا۔ ان کا اس وقت وزن گر کر محض 36 کلو رہ گیا تھا ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ اگر اس حالت میں انھیں کراچی زندہ حالت میں لے جایا گیا تو تب بھی وہ کم عرصہ ہی زندہ رہ پائیں گے۔ لیکن جناح کراچی جانے پر تذبذب کا شکار تھے ،وہ نہی چاہتے تھے کہ ان کے معالج انھیں بے کار اسٹریچر پر بیٹھا معزور خیال کریں۔[197]
9 ستمبر کو جناح کو نمونیا نے آگھیرا۔ اب ڈاکٹروں نے انھیںکراچی کا مشورہ دیاجہاں وہ بہتر علاج کر سکتے تھے اور ان کی رضامندی پر وہ11 ستمبر کوکراچی رونا ہوئے۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہٰی بخش کا اندازہ ہے کہ جناح کیکراچی جانے کی رضامندی انھیں اپنے زندگی سے مایوس ہونے کی وجہ سے تھی۔ جب اس طیارے نےکراچی میں لینڈنگ کی تو فوراً جناح کو ایک ایمبولیس میں لٹایا گیا۔ لیکن یہ ایمبولینس راستے میں خراب ہو گئی تب تک جناح اور ان کے رفقاءمتبادل ایمبولینس کا انتظار کرتے رہے، انھیں کار میں بھٹایا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ وہ سیدھے بیٹھنے کی حالت میں نا تھے۔ وہ لوگ شدید گرمی میں وہاں انتظار کرتے رہے اور ان کے سامنے سے گاڑیاں اور ٹرکیں گزرتی رہی جنہیں اس قریب المرگ شخص کی پہچان نا تھی۔ ایک گھنٹے کی انتظار کے بعد ایک ایمبولینس پہنچی اور جناح کو سرکاری گھر میں منتقل کیا گیا۔ جناح صبح کے 10:20 منٹ پر اپنے کراچی گھر میں11 ستمبر1948ء کو پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد انتقال کر گئے۔[198][199]

فائل:علامہ شبیر احمد عثمانی قائد اعظم کے جنازے کیلئے.jpg
علامہشبیر احمد عثمانی قائد اعظم محمد علی جناح کا جنازہ پڑھانے کے بعد،جو ان کی وصیت کے مطابق تھا

بھارتی وزیر اعظم نہرو نے جناح کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،"ہمیں انھیں کیسے پرکھنا چاہیے؟ میں پچھلے کئی سالوں کے دوران میں ان پر سخت غصہ رہا تھا۔ لیکن اب میرے خیالوں میں ان کے لیے کوئی کڑواہٹ باقی نہی رہی،لیکن جو کچھ ہونے پر بڑی ندامت کے سوا۔۔ وہ اپنے مطالبے کو حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرا، لیکن کس قیمت پر اور کس اختلاف سے جو کچھ اس نے سوچا تھا"۔[200]
جناح کو12 ستمبر1948ء کو دونوں ملکوںبھارت اورپاکستان میں سرکاری سوگ کے درمیان میں دفنا دیا گیا۔ ان کے جنازے پر لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ بھارت کے گورنر جنرل راجا گوپال اچاری نے اس دن ایک سرکاری تقریب کو اس مرحوم قائد کے اعزاز میں منسوخ کیا۔ آج جناح کراچی میںسنگ مرمر کے ایک مقبرےمزار قائد میں آسودہ خاک ہیں۔[201][202][203]

بعد از وفات

جکارتہ انڈونیشیاء کی جامع مسجد میں لوگ جناح کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے۔

جناح کی بیٹی دینا واڈیہ آزادی کے بعد میںنیویارک مستقل طور پر منتقل ہونے سے قبلبھارت میں قیام پزیر رہیں۔1965ء کے صدارتی انتخابات میں مادر ملتفاطمہ جناح نےایوب خان کے مخالف جماعتوں کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا لیکن کامیابی حاصل نا کر پائی[204](آج بھی کئی سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ انتخابات دھاندلی سے پر تھے)۔
مالابار پہاڑیبمبئی میں موجود جناح کا مکان آج بھارتی حکومت کے انتظام میں ہے لیکن اس کی ملکیت کے بارے میںپاکستان اوربھارت تنازع کا شکار ہیں۔[205] جناح نےوزیراعظم نہرو سے درخواست کی تھی کہ وہ اس مکان کو حکومتی تحفظ دیں اس امید پر کہ جناح ایک دنممبئی جائیں گے۔ اس عمارت کو پاکستانی قونصل خانے میں بدلنے کی تجاویز بھی گردش کرتی رہی ہیں، لیکن دینا واڈیہ نے بھی اس پر حق ملکیت کا دعوٰی کر رکھا ہے۔[205][206] جناح کی وفات کے بعدفاطمہ جناح نے جناح کے قانونی کارروائیوں کوشیعہ فقہ کے مطابق مکمل کرنے کا کہا[207]۔ اس عمل سے جناح کے مسلک کے بارے میںپاکستان میں بحث چھڑی۔ ولی نثر کہتے ہیں" جناح اگرچہ پیدائشیاسماعیلی (شیعہ) اور اعترافاََبارہ امامی (شیعہ) تھے، لیکن وہ مذہب پر ظاہراََ نہیں چلتے تھے"[208]۔1970ء میں حسنین علی گنجی ولجی نے قانونی دعویٰ کیا کہ جناح نے سنی مسلک اختیار کر لیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے اسے مسترد کرتے ہوئے1976ء میں جناح کے خاندان کے شیعہ مسلک پر ہونے کا فیصلہ دیا۔[209] ایک صحافی خالد احمد کے نزدیک جناح فرقہ پرستی کے مخالف تھے اور "جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بنیادی اسلامی تشخص پر لانے کے لیے تکالیف اٹھائی نا کہ تقسیم زدہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر"۔ احمد ایک انوکھے پاکستانی عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں لکھا ہے" جناح ایک سیکولر مسلم تھے لہذا وہ شیعہ سنی کے زمرے میں داخل نہیں ہیں"۔ اور1984ء میں لیاقت ایچ مرچنٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا " جناح نا سنی تھے، نا ہی شیعہ بلکہ وہ ایک سادہ مسلمان تھے"۔[207]

وراثت اور تاریخی نظر

مزار قائد ،کراچی

جناح کی وراثتپاکستان ہے۔ محی الدین کے بقول "پاکستان میں جناح کا احترام و اہمیت ویسی ہی رہے گی جیسےامریکا میںجارج واشنگٹن کی "پاکستان اپنے وجود کا حق ان کے پرکھنے، چلانے اور استحکام کی وجہ سے رکھ پایا۔۔۔قیام پاکستان میں جناح کی اہمیت ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے اوراسے ناپنا ممکن نہیں۔"[210]

اسٹینلی وولپرٹ نے1998ء میں ان کے اعزاز میں تقریر کرتے ہوئے انھیںپاکستان کا سب سے عظیم قائد قرار دیا۔[211]

بقول سنگھ" جناح کے وفات سے پاکستان نے اپنے صبح گنو ا دئے۔ جیسےبھارت میںگاندھی آسانی سے پیدا نہی ہو سکتا ،اسی طرح ناپاکستان میں کوئی جناح"[212]۔ ملک لکھتے ہیں "جناح جب تک زندہ تھے، وہ علاقائی رہنماوں کو مشترکہ تجارت پر متفق اور حتیٰ کہ مجبور بھی کر سکتے تھے،لیکن ان کے انتقال کے بعد، اتفاق رائے نا ہونے کے سبب سیاسی طاقت اور معاشی ذرائع تنازع کی جانب مڑ گئیں"۔[213]محی الدین کے نزدیک،" جناح کی وفات سےپاکستان ایک ایسے رہنما سے محروم ہوا جو توازن اور جمہوری حکومت کو برقرار رکھ سکتا تھا۔۔پاکستان کی پتھریلی اور اس کے مقابلبھارت کی قدرے ہموار جمہوری سٹرک کے فرق کو اس نہایت قابل احترام اور کرپشن سے پاک قائد کو آزادی کے بعد بہت جلدی کھونے سے منسوب کیا جا سکتا ہے"۔[214]

لندن کے ایک ہوٹل میں لگی تختی جس میں لکھا ہے "بانی پاکستان جناح نے یہاں قیام کیا"

جناح کی تصویر تمام پاکستانی کرنسیوں پر موجود ہے اور ان کے نام پر کئی سرکاری ادارے ہیں۔ کراچی کا پرانا ہوائی اڈا قائد اعظم انٹرنیشنل ائیر پورٹ اب جناح عالمی ہوئی اڈا کہلاتا ہے، جو پاکستان کا سب سے مصروف ہوائی اڈا ہے۔ ترکی کا سب سے بڑا شاہراہ شارع جناح کے نام سے موسوم ہے، جبکہ تہران میں ایک سڑک کا نام محمد علی جناح ایکسپریس وے رکھا گیا ہے۔1976ء میںایران کی شاہی حکومت نے جناح کی تاریخ پیدائش پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔ امریکی شہرشکاگو میں دیون ایوینیوں کا ایک حصہ "محمد علی جناح" سے منسوب ہے۔ مزار قائدکراچی کا ایک مشہور عوامی مقام ہے۔[215]"جناح مینار" گنٹور اندھراپردیش میں جناح کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔[216]

پاکستان میں جناح پر تحقیق کرنے والے عالموں کی کمی نہی ہے اکبر۔ ایس۔ احمد کے نزدیک مقامی لکھاریوں کا کام بیرون ملک زیادہ مقبولیت نہیں رکھتا کیونکہ ان کے کاموں میں جناح پر بہت کم تنقید کی جاتی ہے[217]۔ احمد کے نزدیک بیرون ملک کتابوں میں کہا جاتا ہے کہ جناح شراب نوشی کرتے تھے جبکہپاکستان میں اس بات کو کتابوں سے حزف کر دیا گیا ہے۔ احمد کے نزدیک شراب نوشی کے قصے کو سامنے لانے سے جناح کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچے گا،لیکن جو لوگ اس پر بات بھی کرتے ہیں تو ان کے نزدیک جناح نے عمر کے آخری حصے میں اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔[101][218]
مورخ عائشہ جلال کے نزدیکپاکستان میں جناح کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے جبکہبھارت میں انھیں منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔[219] احمد کے نزدیک "بھارت کی نئی تاریخ میں جناح بدنام ترین شخصیت ہیں"۔۔ بھارت میں بہت سے لوگ انھیں زمین تقسیم کرنے والے بھوت کے طور پر دیکھتے ہیں"۔[220]حتیٰ کہ بہت سے بھارتی اقلیتی مسلم انھیں اپنے رنج الم کا سبب سمجھتے ہیں۔[221]کچھ لکھاریوں جیسے جلال، ایچ ایم سروائی اور جسونت سنگھ کے نزدیک جناح کبھی تقسیم کے حامی نا تھے- یہ کانگریسی رہنماوں کی ضد تھی جو وہ مسلمانوں کے ساتھ اختیارات کی شراکت پر راضی نا تھے۔ ان کے نزدیک جناح کی جانب سے مطالبہپاکستان صرف مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ سیاسی حقوق دلانے کی خاطر تھا۔[222] بھارتی قوم پرست رہنمالال کرشن اڈوانی نے جناح کی توصیف بھی کی جس کی وجہ سے ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں کافی ہلچل ہوئی۔[223]

حکومت ایران کی جانب سے جاری کیا گیا ڈاک کا ٹکٹ
حکومت ترکمانستان کی جانب سے جاری کیا گیا ڈاک کا ٹکٹ

مغرب کے لوگ جناح کے بارے میں کسی حد تک1982ء کے فلمگاندھی میں موجود ان کے کردار سر رچرڈ اٹنبورو سے بھی متاثر ہیں۔ اس فلم کو نہرو اور ماونٹ بیٹن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس فلم کی حمایت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے بھی کی تھی۔ اس فلم میں جناح کا کردار ( جسے لکھا الائق پدسی نے ہے) ایک ایسے شخص کا دکھایا گیا ہے جوگاندھی سے حسد کا شکار نظر آتا ہے۔ پدمسی نے بعد میں اقرار کیا کہ جناح کے کردار کو تاریخی تناظر میں درست نہی دکھایا گیا۔[224]پاکستان کے پہلے گورنر جنرل پر لکھے گئے ایک مضمون میں تاریخ دان آر جے موری، لکھتا ہے قیامپاکستان میں جناح کا مرکزی کردار کائناتی طور پر تسلیم شدہ ہے[225]۔ ولپرٹ دنیا پر جناح کے اثر کو مختصراََ لکھتے ہیں:

کچھ لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کردیتے ہیں۔جبکہ ان میں سے بھی کچھ دنیا کے نقشے میں ترمیم کرتے ہیں۔ان میں بہت ہی کم لوگ نئی قومیت پر ملک تعمیر کرنے کا سہرا سر پرسجاتے ہیں۔اور جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ہیں۔

ایک تحقیقجناح میں یوسف لکھتے ہیں کہ جناح کی طرز رہنمائی ان کی سیاست کے بعد اور آزادی کے بعد بھی تمام ہندوستانی مسلمانوں کے واحد نمائندے کے طور پر رہی۔[226]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ:https://www.findagrave.com/memorial/6523228 — بنام: Muhammad Ali Jinnah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Brockhaus Enzyklopädie online ID:https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/jinnah-mohammed-ali — بنام: Mohammed Ali Jinnah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. عنوان : Store norske leksikon — ایس این ایل آئی ڈی:https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4342&url_prefix=https://snl.no/&id=Muhammad_Ali_Jinnah — بنام: Muhammad Ali Jinnah
  4. عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی:https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0034534.xml — بنام: Mohammed Ali Jinnah
  5. Diamond Catalog ID for persons and organisations:https://opac.diamond-ils.org/agent/96182 — بنام: Mohammed Ali Jinnah
  6. عنوان : Proleksis enciklopedija — Proleksis enciklopedija ID:https://proleksis.lzmk.hr/56202 — بنام: Mohammed Ali Jinnah
  7. عنوان : Hrvatska enciklopedija — Hrvatska enciklopedija ID:https://www.enciklopedija.hr/Natuknica.aspx?ID=29177 — بنام: Mohammed Ali Jinnah
  8. Encyclopædia Britannica
  9. https://books.google.com/books?id=GQTABKAGaVgC&pg=PA61 — اخذ شدہ بتاریخ: 24 مارچ 2023 اور 9 اکتوبر 2025
  10. مصنف:فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی:https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119520727 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  11. "National public holidays of پاکستان in 2013"۔ Office Holidays۔ 22 دسمبر 2015۔ 2013-04-22 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-04-22{{حوالہ ویب}}:نامعلوم پیرامیٹر|deadurl= رد کیا گیا (معاونت)
  12. "Nation celebrates Quaid-e-Azam's birthday"۔پاکستان Today۔ 25 دسمبر 2012۔ 2013-04-22 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-04-22{{حوالہ خبر}}:نامعلوم پیرامیٹر|deadurl= رد کیا گیا (معاونت)
  13. والپرٹ، صفحہ 4
  14. والپرٹ، صفحہ 18
  15. Judith E. Walsh (3 فروری، 2006)۔"A Brief History of India"۔ Infobase Publishing – بذریعہ Google Books{{حوالہ ویب}}:تحقق من التاريخ في:|تاریخ= (معاونت)
  16. سنگھ، صفحہ 30–33
  17. والپرٹ، صفحہ 3–5
  18. Jinnah، Fatima، صفحہ 48–49
  19. ^ابپوری، صفحہ 34
  20. ^ابسنگھ، صفحہ 54
  21. ^اباحمد، صفحہ 26
  22. Sharif، Azizullah. "KARACHI: Restoration of Church Mission School ordered" (Archiveڈان۔ 20 فروری 2010. Retrieved on 26 مئی 2014. "Taking notice of the highly dilapidated and bad condition of the Church Mission School (CMS) where Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah had studied،[…]"
  23. بولیتھیو، صفحہ 5–7
  24. Read، صفحہ 95-96
  25. والپرٹ، صفحہ 8–9
  26. والپرٹ، صفحہ 9–10
  27. والپرٹ، صفحہ 12–13
  28. ^ابپ
  29. بولیتھیو، صفحہ 10–12
  30. سنگھ، صفحہ 55
  31. والپرٹ، صفحہ 9
  32. احمد، صفحہ 85
  33. ^ابوالپرٹ، صفحہ 14–15
  34. احمد، صفحہ 3
  35. ^اببولیتھیو، صفحہ 14–17
  36. ^ابوالپرٹ، صفحہ 17
  37. احمد، صفحہ 4–5
  38. بولیتھیو، صفحہ 20
  39. والپرٹ، صفحہ 29
  40. بولیتھیو، صفحہ 17
  41. بولیتھیو، صفحہ 23
  42. چوہن، صفحہ 18، 24
  43. ^ابملک، صفحہ 120
  44. والپرٹ، صفحہ 20
  45. ^ابسنگھ، صفحہ 41–42
  46. والپرٹ، صفحہ 28
  47. والپرٹ، صفحہ 20–23
  48. ^ابسنگھ، صفحہ 47
  49. ^ابحکومتِ پاکستان سرکاری موقع۔"ریاستی ترجمان: جناح کے کانگریس سے اختلافات"۔ 2018-12-26 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-04-20
  50. والپرٹ، صفحہ 38، 46–49
  51. بولیتھیو، صفحہ 61–70
  52. احمد، صفحہ 11–15
  53. ^ابجلال، صفحہ 8
  54. سنگھ، صفحہ 90–93
  55. والپرٹ، صفحہ 61–71
  56. محی الدین، صفحہ 61
  57. بولیتھیو، صفحہ 84–85
  58. والپرٹ، صفحہ 71–72
  59. والپرٹ، صفحہ 74–76، 87
  60. سنگھ، صفحہ 130–131
  61. والپرٹ، صفحہ 89–90
  62. والپرٹ، صفحہ 96–105
  63. سنگھ، صفحہ 170
  64. ^اببولیتھیو، صفحہ 99–100
  65. والپرٹ، صفحہ 119–130
  66. سنگھ، صفحہ 172
  67. بولیتھیو، صفحہ 102
  68. KULDIP سنگھ (6 اگست 1996)۔"Obituary: Neville Wadia"۔THE iNDEPENDENT
  69. بولیتھیو، صفحہ 101–102
  70. والپرٹ، صفحہ 370–371
  71. T. Paul۔The Warrior State: پاکستان in the Contemporary World۔ ص 37–38۔Iqbal wrote several letters to Jinnah in 1937 persuading him to take the lead in creating پاکستان۔۔۔ These correspondences would change the way Jinnah would look at the issue of a separate homeland for Muslims.
  72. Leonard Kenworthy۔Leaders of New Nations۔ ص 230۔Iqbal's influence was perhaps the most powerful in Jinnah's decision to support the partition
  73. Khurshid Iqbal۔"The Right to Development in International Law: The Case of پاکستان"۔Routledge Research in Human Rights Law۔Jinnah's views were significantly influenced by the ideas of Iqbal
  74. Zamir Khan۔"Iqbal and Quaid's Vision of پاکستان"(PDF)۔The Dialogue۔ 2010، جون 30، 5، 2: 151۔Iqbal's influence on Jinnah is unquestionable
  75. Mujawar Shah (1996)۔Religion and Politics in پاکستان: 1972–88۔ ص 35۔Iqbal's correspondence with Jinnah also played an important role in formulating his course of action.
  76. "The Concept"۔Pakistani periodicals۔ ج 26 شمارہ 1–6: 21۔ 2006۔Certainly these views influenced Mr Jinnah to declare urgently a solid solution to the Indian constitutional problem by projecting Muslims as a separate body
  77. "South Asian Studies"۔ Centre for South Asian Studies۔ ج 3: 19۔The influence of Iqbal on him was discernible.{{حوالہ رسالہ}}:الاستشهاد بدورية محكمة يطلب|دورية محكمة= (معاونت)
  78. Nazir Gil۔Development of Urdu Language and Literature Under the Shadow of the British in India۔ ص 99۔Iqbal's continuous correspondence convinced Jinnah that the creation of the Muslim state was the only solution.
  79. Vasant Naik۔Mr. Jinnah: A Political Study۔ ص 55۔the biographer of Jinnah admits 'that these letters of Iqbal exercised influence on the mind of Mohamed Ali Jinnah.'
  80. Lawrence Ziring۔پاکستان: The Enigma of Political Development۔ ص 67۔It was Iqbal who encouraged Jinnah to return to India
  81. Qutubuddin Aziz۔Jinnah and پاکستان۔ ص 98۔Iqbal's persuasive letter to Jinnah in London to return to India and undertake the leadership of the Muslim League.۔۔۔undoubtedly contributed to Jinnah's eventual decision to return to India permanantly
  82. Iqbal سنگھ۔The Ardent Pilgrim: An Introduction to the Life and Work of Mohammed Iqbal۔ ص 153۔Iqbal was indirectly responsible for Jinnah's return to India from London.
  83. Global Encyclopaedia of Indian Philosophy۔ Global Vision Publishing House۔ ص 342https://books.google.ca/books?id=U7xOAQAAIAAJاورdq=jinnah+iqbal+influenceاورfocus=searchwithinvolumeاورq=convincing+اورsearch_plus_one=form۔Iqbal was an influential force in convincing Jinnah to end his self-imposed exile in London.{{حوالہ موسوعہ}}:پیرامیٹر|title= غیر موجود یا خالی (معاونت)
  84. اکبر احمد۔Jinnah، پاکستان and Islamic Identity: The Search for Saladin۔ ص 62–73
  85. M. Kazimi۔M.A. Jinnah Views and Reviews۔ ص 114۔Iqbal's influence led Jinnah to a deeper appreciation of Muslim identity
  86. Akbar احمد۔Jinnah، پاکستان and Islamic Identity: The Search for Saladin۔ ص 117، 175–178
  87. Zamir Khan۔"Iqbal and Quaid's Vision of پاکستان"(PDF)۔The Dialogue۔ 2010، جون 30، 5، 2: 151
  88. Zamir Khan۔"Iqbal and Quaid's Vision of پاکستان"(PDF)۔The Dialogue۔ 2010، جون 30، 5، 2: 152
  89. جلال، صفحہ 9–13
  90. والپرٹ، صفحہ 133
  91. بولیتھیو، صفحہ 104–106
  92. ملک، صفحہ 130
  93. بولیتھیو، صفحہ 106
  94. والپرٹ، صفحہ 134
  95. والپرٹ، صفحہ 136
  96. ^ابپ
  97. جلال، صفحہ 15–34
  98. ^ابسنگھ، صفحہ 188
  99. جلال، صفحہ 35
  100. سنگھ، صفحہ 198
  101. جلال، صفحہ 39–41
  102. Moore، صفحہ 548
  103. ^ابMoore، صفحہ 532
  104. ملک، صفحہ 121
  105. احمد، صفحہ 80
  106. Hibbard، صفحہ 121–124
  107. Hibbard، صفحہ 124
  108. پوری، صفحہ 35
  109. احمد، صفحہ 8
  110. سنگھ، صفحہ 200
  111. بولیتھیو، صفحہ 123
  112. سنگھ، صفحہ 223
  113. جلال، صفحہ 47–49
  114. سنگھ، صفحہ 225–226
  115. سنگھ، صفحہ 225
  116. جلال، صفحہ 51–55
  117. سنگھ، صفحہ 232–233
  118. جلال، صفحہ 54–58
  119. والپرٹ، صفحہ 185
  120. والپرٹ، صفحہ 189
  121. جلال، صفحہ 62–63
  122. Moore، صفحہ 551
  123. جلال، صفحہ 71–81
  124. والپرٹ، صفحہ 196–201
  125. Moore، صفحہ 553
  126. جلال، صفحہ 82–84
  127. والپرٹ، صفحہ 208، 229
  128. احمد، صفحہ 107
  129. سنگھ، صفحہ 266–280
  130. سنگھ، صفحہ 280–283
  131. سنگھ، صفحہ 289–297
  132. جلال، صفحہ 132
  133. سنگھ، صفحہ 301–302
  134. سنگھ، صفحہ 302
  135. والپرٹ، صفحہ 251
  136. جلال، صفحہ 171–172
  137. بولیتھیو، صفحہ 158
  138. ^ابوالپرٹ، صفحہ 254
  139. "The volatile fusion: Origins، rise اور demise of the 'Islamic Left'"۔ DAWN News۔ 2018-12-26 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2015-08-24
  140. سنگھ، صفحہ 302، 303–308
  141. سنگھ، صفحہ 308–322
  142. جلال، صفحہ 221–225
  143. ^ابجلال، صفحہ 229–231
  144. ^ابوالپرٹ، صفحہ 305
  145. جلال، صفحہ 246–256
  146. جلال، صفحہ 237
  147. Khan، صفحہ 87
  148. Khan، صفحہ 85–87
  149. Khan، صفحہ 85–86
  150. والپرٹ، صفحہ 312
  151. جلال، صفحہ 250
  152. والپرٹ، صفحہ 317
  153. والپرٹ، صفحہ 318–319
  154. Wolpert، صفحہ 319–325
  155. Jalal، صفحہ 249–259
  156. Jalal، صفحہ 261–262
  157. Khan، صفحہ 2–4
  158. Wolpert، صفحہ 327–329
  159. ^ابJalal، صفحہ 287–290
  160. ہکٹر بولیتھو، صفحہ 187
  161. سنگھ، صفحہ 393–396
  162. جلال، صفحہ 290–293
  163. والپرٹ، صفحہ 333–336
  164. والپرٹ، صفحہ 337–339
  165. والپرٹ، صفحہ 341–342
  166. Khan، صفحہ 124–127
  167. ^اب
  168. ملک، صفحہ 131
  169. احمد، صفحہ 145
  170. Jeffrey J. Roberts۔The Origins of Conflict in Afghanistan۔ Greenwood Publishing Group۔ ص 108–109۔ISBN:978-0-275-97878-5۔ اخذ شدہ بتاریخ2015-04-18
  171. "This too was Pakistan (1947-71): A response to Nadeem Paracha's "Also Pakistan" – by Abdul Nishapuri"۔LUBP
  172. M.S. Korejo (1993)۔The Frontier Gandhi: His Place in History۔ Karachi: Oxford University Press.
  173. Afzal، M.Rafique (1 اپریل 2002)پاکستان: History and Politics، 1947–1971۔p38 OUP پاکستانISBN 0-19-579634-9
  174. نورالبشر نويد پېښور۔"پښتونخوا کالم: زهبابړه يم"۔BBC News پښتو
  175. گاندھی، صفحہ 416
  176. محی الدین، صفحہ 78–79
  177. ^ابملک، صفحہ 131–132
  178. گاندھی، صفحہ 407–408
  179. والپرٹ، صفحہ 347
  180. ^ابوالپرٹ، صفحہ 347–351
  181. گاندھی، صفحہ 435
  182. گاندھی، صفحہ 435–436
  183. والپرٹ، صفحہ 357–358
  184. والپرٹ، صفحہ 359
  185. والپرٹ، صفحہ 158–159، 343
  186. احمد، صفحہ 9
  187. احمد، صفحہ 10
  188. والپرٹ، صفحہ 343
  189. والپرٹ، صفحہ 343، 367
  190. والپرٹ، صفحہ 361
  191. والپرٹ، صفحہ 361–362
  192. والپرٹ، صفحہ 366–368
  193. سنگھ، صفحہ 402–405
  194. والپرٹ، صفحہ 369–370
  195. سنگھ، صفحہ 407
  196. سنگھ، صفحہ 406–407
  197. والپرٹ، صفحہ 370
  198. احمد، صفحہ 205
  199. ^اب
  200. ^اب
  201. محی الدین، صفحہ 74–75
  202. سنگھ، صفحہ 406
  203. ملک، صفحہ 134
  204. محی الدین، صفحہ 81–82
  205. احمد، صفحہ 31
  206. احمد، صفحہ 200
  207. جلال، صفحہ 221
  208. احمد، صفحہ 27
  209. احمد، صفحہ 28
  210. احمد، صفحہ 28–29
  211. Yousaf، N (2015): Salient features of Jinnah’s، International Journal of Public Leadership،Vol. 11 No. 1، 2015



















کتابیات

جناح متعلقہ کتابیں

دیگر مآخذ

جرائد و دیگر ذرائع ابلاغ

  • R. J. Moore (1983)۔ "Jinnah and the Pakistan Demand"۔Modern Asian Studies۔ Cambridge, UK: Cambridge University Press۔ ج 17 شمارہ 4: 529–561۔DOI:10.1017/S0026749X00011069۔JSTOR:312235
  • بلراج پوری (1–7 مارچ 2008)۔ "Clues to understanding Jinnah"۔اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکی۔ ممبئی: Sameeksha Trust۔ ج 43 شمارہ 9: 33–35۔JSTOR:40277204

حواشی

  1. اگرچہ جناح کا یوم پیدائش25 دسمبر کو منایا جاتا ہے لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے اس پر شک کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ان کی پیدائش کے بعد برتھ سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا گیا اور نا ہی ان کے خاندان والوں نے کوئی ریکارڈ رکھا کیونکہ اس دور میں اس بات کو لوگ ضروری خیال نہیں کرتے تھے)، ان کے اسکول کے ریکارڈ میں انکی تاریخِ پیدائش8 اکتوبر1875ء درج ہے۔ Seeہکٹر بولیتھو، صفحہ 3
  2. Jinnah was permanent president of the League from 1919 to 1930، when the position was abolished. He was also sessional president in 1916، 1920، and from 1924 until his death in 1948. SeeJalal، صفحہ 36۔

بیرونی روابط

Muhammad_Ali_Jinnah کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کےساتھی منصوبے:
لغت و مخزن ویکی لغت سے
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے


سرکاری عہدہ
ماقبل 
نیا عہدہ تخلیق ہوا
گورنر جنرل پاکستان
1947ء  –   1948ء
مابعد 
سیاسی عہدے
ماقبل 
نیا عہدہ تخلیق ہوا
سپیکر قومی اسمبلی پاکستان
1947ء  –   1948ء
مابعد 
تحریک پاکستان
جناح خاندان اور ذاتی زندگی
یادگاریں
متعلقہ
Standard of the Governor-General of Pakistan
پاکستان کا پرچم
تاریخ
فلسفہ
اور نظریات
واقعات اور
تحریکیں
تنظیمیں
سماجی
مصلحین
کارکنان
آزادی
برطانوی رہنما
آزادی
تاریخ
مسلم لیگ کے رہنما، 1940
مسلم لیگ کے رہنما، 1940

پرچم پاکستان
پرچم پاکستان

نشان پاکستان
نشان پاکستان
تنظیمیں
قائدین
کارکنان
ادب
علامتیں
اہم ایام
اہم علامات
شعار
شخصیات
دیگر علامات
تعمیرات
پاکستان میں قدامت پسندی
نظریہ اور اقدامات
The پاکستان کا پرچم
تنظیمیں اور جماعتیں
کلیدی شخصیات
حکومتیں
میڈیا
اخبارات
ٹیلی ویژن
پاپ ثقافت
ادب
تاریح و واقعات
شخصیات
یادگاریں
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=محمد_علی_جناح&oldid=8849829»
زمرہ جات:
پوشیدہ زمرہ جات:

[8]ページ先頭

©2009-2025 Movatter.jp