فارسی قدیم کا رسم الخط دوسرے تماممیخی خطوط جیسےسمیری، عکادی اور بابلی وغیرہ سے سادہ تر اور صحیح تر ہے اسے ”پارسی پاستا ن“اور ہخامنشی زبان بھی کہتے ہیں، تقریباً 700 ق م میں فارس (موجودہ:ایران) کے بادشاہ ہخامنش نے ناصرف اہل عکاد کی علامتی حروف کو سلیبی حروف میں تبدیل کر وایا بلکہ ان کی شکل بھی آسان اور مختلف کردی۔ انھوں نے ٹیڑھی میڑھی پیچیدہ میخوں کو ترک کر دیا اور صرف عمودی اور افقی میخوں کو اختیار کیا۔
فارسی قدیم کا یہ میخی خط یوں تو آرامی سے ماخوذ ہے مگر فارسیوں نے اس میںحرف علت کی بجائے سلیبی حروف استعمال کرکے اس کی پیچیدگی دور کردی تھی، یہ زبانسنسکرت سے ملتی جلتی تھی اور بائیں سے دائیں لکھی جاتی تھی۔ اس کے حروف کی تعداد 36 ہیں اور چار سو سے زیادہ علامتی الفاظ بھی اس میں جوں کے توں رائج رہے۔ چند علامتی حروف یہ ہیں خشائی ثیا (بادشاہ)، دھیاوش (ملک)، بومِش(زمین)، اہورمزد( خدا) اور بَگ(دیوتا)وغیرہ اس رسم الخط میں الفاظ کو جُدا رکھنے کے لیے ایک فل سٹاپ بھی موجود تھا اور ساتھ ہی سو تک گنتی بھی موجود تھی۔
ہخامنش کے عہد میں یہی زبان فوجی اور شاہی زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس عہد کے جتنے بھی کتبے دستیاب ہوئے وہ بالعموم فارسی قدیم میں تھے۔ فارسی قدیم کے دریافت شدہ کتبوں میں سب سے مشہور کتبہ بہتون ہے یہ کتبہ تین زبانوں فارسی قدیم، عیلامی اور بابلی میں ہے۔ دوسرا مشہور کتبہ” نقشِ رستم“ہے جو دارا اوّل کے آباد کردہ شہر اصطخر کے شاہی قبرستان میں بادشاہوں کی قبروں پر تحریر ہے۔ فارسی قدیم، پارسیوں کی مذہبی زبان تھی اور ان مذاہب کی اولین تحریریں اور مذہبی احکام اسی خط میں لکھے جاتے تھے۔ قدیم فارسی کے بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں جو آج جدید فارسی میں شامل ہیں، مثال کے طور پر اصطخرکے شاہی قبرستان میں بادشاہ کیخسرو کے مقبرے سے دریافت شدہ قدیم فارسی کی یہ حمد ملاحظہ کیجیے:
فارسی قدیم کے علاوہ ایران میں ایک زبان ”اوستائی“ بھی رائج تھی، پھریونانیوں کے حملہ کے بعد جب پارتھیوں کی حکومت آئی تو ان کی زبان ”پرتو“ جو بعد میں پہلوی کہلائی، بھی زبان زدعام ہو گئی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے قدیم فارسی کے دشوار میخی خط کو چھوڑ دیا اورساسانی دور آنے تک ایران میں صرفاوستائی اورپہلوی زبان ہی باقی رہ سکیں۔[1]