فونیقی (فونیشیا) ایک قدیمسامی تہذیب ہے جو مغربیزرخیز ہلال اور موجودہلبنان کے حصّے پر واقع تھی۔ یہ 1550 قبل مسیح سے 300 قبل مسیح تکبحیرہ روم کے ساحلوں میں پھیلی ہوئی ایک سمندری تجارتی ثقافت تھی۔
آج سے پانچ ہزار برس قبل جس زمانہ میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل، شمالی فلسطین، مغربی شام اور لبنان پر قبیلہسام کی ایک شاخ جو یہاں آ کر آباد ہو گئی، جسے آج ہم فونیشیا یا فونیقی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔فونیقی قبیلوں نے جو سامی نژاد تھے اورسامی زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے تین ہزار سال قبل مسیح میں سامی مہاجرین کے ساتھبحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں کو بسایا اورشام سمیت ساحلی علاقوں میں آباد ہو گئے۔ انھوں نے نہ صرفلبنان کے مغربی ساحل پر کئی تجارتی شہر جن میںصور،صیدا،بیروت،بابلوس،یوگاریت،جریکو اوریروشلم مشہور ہیں، تعمیر کیے بلکہاسپین،اٹلی،تیونس،قبرص،مالٹا،شمالی افریقہ،مارسیلیز،الجیریا،لیبیا،ترکی،مراکش،انگلینڈ اورموریتانیہ میں بھی اپنی نو آبادیاں اورتجارتی کالونیاں قائم کیں جن کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
ماضی میں سرزمینِفلسطین کو "ارضکنعان" کہا جاتا تھا۔ فونیقیوں نے جب اس علاقہ میں رہائش اختیار کی تو خود کو اپنے علاقے کے نام سے اہلِ کنعان موسوم کیا جیسے اہلِ صور و اہلِ صیدا وغیرہ۔ انھوں نے کبھی اپنے آپ کو فونیقی نہیں کہا اور اس دور میں کہیں بھی فونیقیوں کا نام نہیں ملتا ہے۔ فونیقی کی اصطلاحہومر کے زمانے سےیونان میں رائج ہوئی۔
فونیقی ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کے حامل تھے وہکانسی اورلوہے کو اپنی صنعتوں میں استعمال کیا کرتے تھے اور فوجی سازوسامان بنانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ فونیقیوں کا سب سے بڑا کارنامہحروفِ تہجی کو آسان فہم میں منتقل کرنا اور دور دراز کے علاقوں میں پہچانا ہے، انھوں نےپروٹوسیمیٹک حروف کو مزید سہل بنایا تاکہ لکھنے میں زیادہ وقت صَرف نہ ہو اور کاروباری ضرورت کے تحتپپائرس کی شاخوں کے کاغذمصر سے درآمد کیے تاکہ مٹی کی تختیوں پر نقش کرنے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے نہ ہو اور بحری سفر کے دوران نمی سے جو مٹی کی تختیوں کو نقصان پہنچتا ہے اُس سے بھی بچا جاسکے۔فونیقیوں کا ایک اور بڑا کارنامہگنتی کی ایجاد ہے۔ تاجر پیشہ ہونے کی وجہ سے انھوں نےریاضی کی تحریری اہمیت کو سختی کے ساتھ محسوس کيا چنانچہ انھوں نے گنتی کی بنیاد رکھی۔فونیقی قوم کا یہ رسم الخط مختلف اقوام میں پہنچ کر تبدیل ہوتا گیا لیکن پوُنک (Punic) قوم میں یہ رسم الخط جوں کا توں رائج رہا اور فونیقی قوم کے زوال کے برسوں بعد 200 قبل مسیح تک رائج رہا۔
فونیقیوں کا بنایا ہوا ابجدی رسم الخط اور اس کے حروف تہجی اتنے سہل اور آسان فہم تھے کہ دنیا بھر کی مختلف اقوام نے اسے اپنایا۔ میسوپوٹیمیا کے آرامی، یورپ کے یونانی اور رومی، مشرق وسطیٰ کے عبرانی، عربی، ثمودی، نبطی، افریقہ کے حبشی اور ہندوستان کےبرہمی رسم الخط فونیقیوں سے ہی حاصل کردہ ہیں۔جہاں فونیقی قوم کا یہ رسم الخط قدیم آرامی،نبطی، عربی، یونانی، قدیم لاطینی اور جدید رومی زبانوں میں پہنچ کر تبدیل ہوتا گیا۔ وہاں اُن اقوام نے بھی اپنے رسم الخط میں تبدیلی پیدا کی جو تصویری و علامتی رسم الخط استعمال کرتے تھے، مثلاً میسو پوٹیمیا کےسمیری، عکادی اور مصر کےہائروگلفس رسم الخط۔
↑"Phoenicia"۔The Encyclopedia of World History, Sixth edition۔ Houghton Mifflin Company۔ 2001۔ ص 1۔ 2018-12-25 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2008-12-11{{حوالہ ویب}}:الوسيط|پہلا= يفتقد|آخر= (معاونت)