الجزائر: المجلس الأعلى للغة العربیة بالجزائر () سوڈان: مجمع اللغة العربية بالخرطوم (عربی زبان اکادمی،خرطوم) عراق: المجمع العلمي العراقي فيبغداد (عراقی سائنس اکادمی)
تونس: مؤسسة بيت الحكمة سوریہ: مجمع اللغة العربية بدمشق لیبیا: مجمع اللغة العربية الليبي
عربی زبان بولنے والی دنیا کا نقشہ عربی زبان بولنے والی دنیا کا نقشہ۔ سبز: واحد سرکاری زبان نیلا: شریک سرکاری زبان
عربی (عربی:العربية)بلند میں سب سے بڑی زبان ہے اورعبرانی اور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عری یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اورقرآن کی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والیاردو اورادبی اردو میں فرق ہے۔ عربی زبان نےاسلام کی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاًاردو،فارسی،ترکی وغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کےمسلمانقرآن پڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
عربی کے کئی لہجے آج کل پائے جاتے ہیں مثلاً مصری، شامی، عراقی،حجازی وغیرہ۔ مگر تمام لہجے میں بولنے والے ایک دوسرے کی بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور لہجے کے علاوہ فرق نسبتاً معمولی ہے۔ یہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور اس میں ھمزہ سمیت29 حروف تہجی ہیں جنھیںحروف ابجد کہا جاتا ہے۔
عربی کی وسعت فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حروف تہجی میں سے کوئی سے تین حروف کسی بھی۔
عرب قدیم زمانے میں سامی زبانوں کی وسیع اقسام پر فخر کرتا تھا۔ جنوب مغرب میں، مختلفوسطی سامی زبانیں بولی جاتی تھیں جوقدیم جنوبی عربی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اس سے باہر تھیں (مثلاً جنوبی ثامودی)۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جدید جنوبی عربی زبانوں (غیر مرکزی سامی زبانوں) کے آبا و اجداد بھی اُس وقت جنوبی عرب میں بولے جاتے تھے۔ شمال کی طرف، شمالی حجاز کے نخلستانوں میں،دادانی اورتیمائی کو نوشتی زبان کے طور پر کچھ وقار حاصل تھا۔ نَجد اور مغربی عرب کے کچھ حصوں میں، ایک زبان جو علما کے نزدیک ثمودی جیم کے نام سے مشہور ہے۔ مشرقی عرب میں، قدیم جنوبی عربی سے ماخوذ ایک رسم الخط میں تحریریں ایک زبان کی تصدیق کرتی ہیں جسےحسائی کہا جاتا ہے۔ آخر میں، عرب کی شمال مغربی سرحد پر، مختلف زبانیں جو علما کے نزدیک ثمودی ب، ثمودک د،سفائیہ اورحسمائیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آخری دو، عربی کی بعد کی شکلوں کے ساتھ اہم خط تفریقِ لسانی کا اشتراک کرتی ہیں، مفکرین کو یہ نظریہ پیش کرنے کو کہتی ہیں کہ صفاتی اور حسمائی دراصل عربی کی ابتدائی شکلیں ہیں اور انھیں پرانی عربی سمجھا جانا چاہیے۔