ابراہم لنکن کے ناگہانی قتل کی منظر کشی: فورڈ تھیٹر کے صدارتی بُوتھ میں، بائیں سے دائیں، قاتل جان وِلکس بوتھ،ابراہم لنکن، اُن کی اہلیہمیری ٹاڈ لنکن، کلارا ہیرس اور ہنری راتھبون دکھائی دے رہے ہیں۔
ناگہانی قتل یاخفیہ قتل (Assassination) ایک ارادی اور منصوبہ بند عمل ہوتا ہے، جس میں کسی شخص بالخصوص کسینمایاں یا اہم شخصیت کو اچانک، خفیہ یا پیشگی منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا جاتا ہے۔[1][2] یہ قتل عموماً سیاسی، نظریاتی، مذہبی، مالی یا عسکری مقاصد کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔[3] ناگہانی قتل کے احکامات بعض اوقات افراد کی جانب سے دیے جاتے ہیں اور بعض اوقات تنظیمیں اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں جبکہ ان کے کارندے اسے انجام دیتے ہیں۔ناگہانی قتل انسانی تاریخ میںقدیم زمانے سے رائج ہے۔ ایسا شخص جو کسی اور کے لیے یہ قتل انجام دے،خفیہ قاتل یاگپت گھاتی (assassin) کہلاتا ہے۔[4]
سیاسی قتل (Political assassination) سے مراد کسی بھی سیاسی میدان میں فعال شخص کا اس کی سرگرمیوں اور نمایاں مقام کی وجہ سے قتل کیا جانا۔ اس طرح کے قتل قدیم زمانے سے چلے آ رہے ہیں۔
موہن داس کرم چند گاندھی، جو عام طور پر مہاتما گاندھی کے نام سے جانے جاتے ہیں، کو 30 جنوری 1948ء کو برلا ہاؤس (موجودہگاندھی سمرتی) میں قتل کیا گیا۔ گاندھی کسی مذہبی میل ملاپ میں اپنے خاندان کے ساتھ موجود تھے۔ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والے ایک انتہا پسند ہندو قوم پرست شخصنتھو رام گوڈسے پہنچا اور اس نے موہن داس گاندھی پر گولی چلاکر قتل کر دیا ۔
1984ء کواندرا گاندھی ان کے ہی دو سکھ محافظوں نے گولی مار ان کو قتل کر دیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ1984ء کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس ہی نے سکھوں کا قتل عام کیا تھا۔[5]
21 مئی1991ء کوراجیو گاندھی سری پیرومبدور( تامل ناڈو) میں کانگریس پارٹی کے انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے میں قتل ہوئے۔
2013ء کوبھارت کی اہم ریاستاتر پردیش کے ایک ضلعمظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات میں 50 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی اور پولیس نے تفتیش کے بعد بھارتیہ جتنا پارٹی کے کئی مقامی کارکنوں اور سیاست دانوں پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلانے کی ذمہ داری عائد کی تھی۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ منافرت آمیز تقاریر سے معاشرتی تقسیم کو گہرا کر رہے ہیں۔ کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت کے اقلیتی امور کے وزیر رحمان خان کا بھی کہنا ہے کہ ایسے بیانات سے ہندو مسلم کشیدگی کو ہوا دینے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔[6]
بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ2015ء اکتوبرتک بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے تشدد کے 630 واقعات پیش آئے جن میں 86 افراد کو قتل کیا گیا۔ جبکہ 1899 افراد زخمی بھی ہوئے۔[7]
18 اکتوبر2007ء کوکراچی میں سابق وزیر اعظمبے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے آٹھ سال بعد واپسی پر ایک خودکش حملے اور ایک چھوٹے بم دھماکے میں 139 افراد سیاسی قتل کا شکار ہوئے۔
27 دسمبر 2007ء کواسلام آباد کے نزدیک راولپنڈی میںلیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد وہاں سے رخصتی کے وقت ایک خودکش حملے اور پھر فائرنگ کے ایک واقعے میں پاکستان کی سابقہ وزیر اور اعظم پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو اور ان کے تقریباﹰ دو درجن حامیوں کا قتل۔
2009ء میںبلوچستان کے صوبائی وزیر برائے تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں قتل کیا گیا
2010ء میں بلوچ قوم پرست رہنماحبیب جالب کو بھی صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔
2010ء کوپشاور میں ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت علی خودکش حملے میں مارے گئے،
2 اگست 2010ء کوسندھ میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتایم کیو ایم کے صوبائی رکن پارلیمانرضا حیدر کوکراچی میں گولی مار دی گئی۔ ان کے قتل کے بعد کراچی میں شروع ہونے والے خونریز واقعات میں 40 سے زائد افراد مارے گئے۔
16 ستمبر 2010ء کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رکن اورلندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والےعمران فاروق کو برطانوی دار الحکومت میں قتل کر دیا گیا ۔
4 جنوری 2011ء وفاقی مخلوط حکومت میں شامل بڑی پارٹی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے صوبہ پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کااسلام آباد میں اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل۔ خود کو موقع پر ہی پولیس کے حوالے کر دینے والے ان کے ذاتی محافظ نے اقرار کیا کہ اس نے سلمان تاثیر کو ان کے ملک میں توہین رسالت سے متعلقہ قانون کے بارے میں بیان کی وجہ سے قتل کیا۔[8]
2011ء پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امورشہباز بھٹی کوراولپنڈی میں نا معلوم نے افراد قتل کر دیا تھا۔
↑Black's Law Dictionary "the act of deliberately killing someone especially a public figure, usually for money or for political reasons" (Legal Research, Analysis and Writing by William H. Putmanp. 215 andKristen Eichensehr (6 May 2006)."On the Offensive — Assassination Policy Under International Law".Harvard International Review (بزبان انگریزی). Archived fromthe original on 2010-12-06.