روس(روسی:Россия) (انگریزی:Russia) (اردو:روس)، جسے باضابطہ طور پرروسی وفاق کہا جاتا ہے، دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو مشرقی یورپ اور شمالی ایشیا پر محیط ہے۔ روس کی زمینی حدود 17,098,246 مربع کلومیٹر (6,601,668 مربع میل) پر پھیلی ہوئی ہیں، جو اسے رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بناتی ہیں اور یہ دنیا کے کل زمینی رقبے کا تقریباً 11 فیصد ہے۔ روس کی آبادی تقریباً 146 ملین ہے، جو اسے یورپ کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بناتی ہے، جب کہ اس کی دار الحکومت ماسکو، یورپ کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ روس کے اہم شہر ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ عالمی اہمیت کے حامل ہیں۔[3]
روس ایک وفاقی نیم صدارتی جمہوریہ ہے، جس کا صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ روس کی معیشت دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہے اور یہ قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر کے حوالے سے عالمی سطح پر نمایاں ہے۔ روسی تاریخ اور ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے اور یہ ملک عالمی سیاست، معیشت اور عسکری معاملات میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔[4]
روس کی سرحدیں شمالی یورپ، مشرقی ایشیا اور مغربی ایشیا کے کئی ممالک کے ساتھ ملتی ہیں اور اس کی جغرافیائی وسعت اسے مختلف ثقافتوں، تہذیبوں اور قدرتی ماحول سے مالا مال بناتی ہے۔[5]
روس کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے اور یہ مختلف ادوار اور تبدیلیوں سے گذری ہے۔ قدیم مشرقی سلاو سے لے کر جدید روس تک، اس کی تاریخ میں سلطنتوں کا عروج و زوال، عالمی جنگیں، انقلابات اور سرد جنگ جیسے اہم واقعات شامل ہیں۔
روس کی تاریخ کا آغازمشرقی سلاو قبائل سے ہوتا ہے، جو تیسری اور آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان یورپ میں ایک تسلیم شدہ گروہ کے طور پر ابھرے۔[6] ان قبائل نے مختلف علاقوں میں اپنی آبادی کو بڑھایا اور نویں صدی تککیوان روس کی بنیاد رکھی۔
کیوان روس ایک طاقتور مشرقی سلاوی ریاست کے طور پر نویں صدی میں ابھری اور اس کا مرکز موجودہ یوکرین کا شہرکیف تھا۔[7]ولادیمیر اعظم کے دور حکومت میں 988 عیسوی میںبازنطینی سلطنت سےمشرقی آرتھوڈوکس عیسائیت کو اپنایا گیا، جو بعد میں روسی ثقافت اور تاریخ کا اہم جزو بن گیا۔
کیوان روس کا زوال 12ویں صدی میں شروع ہوا جب اندرونی تقسیم اور بیرونی حملوں نے ریاست کو کمزور کر دیا۔[8]منگولوں کے حملوں نے بالآخر کیوان روس کو ختم کر دیا اور ریاست مختلف علاقوں میں تقسیم ہو گئی۔
کیوان روس کے زوال کے بعد،ماسکوی روس نے اہمیت حاصل کی اور 14ویں صدی میں ایک مضبوط ریاست کے طور پر ابھری۔[9] ماسکو نے رفتہ رفتہ دیگر روسی علاقوں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کیا اور روس کا ایک متحدہ ریاست بننے کا عمل شروع کیا۔
1547 میں،ایوان چہارم نے خود کو روس کا پہلا زار قرار دیا، جس کے ساتھ روسی زارڈم کا آغاز ہوا۔[10] ایوان چہارم نے اپنے دور میں روس کی سرحدوں کو وسعت دی اور داخلی اصلاحات کیں، لیکن اس کا دور سختی اور جبر کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
18ویں صدی کے اوائل میںپیٹر اعظم نے روسی سلطنت کی بنیاد رکھی اور روس کو ایک جدید یورپی طاقت کے طور پر ابھارا۔[11] پیٹر اعظم نے روس میں مغربی طرز کی اصلاحات متعارف کرائیں اور سینٹ پیٹرزبرگ کو دار الحکومت بنایا۔ ان کے دور میں روس نے بحیرہ بالٹک تک رسائی حاصل کی اور یورپی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔
1917 میں، روس میںانقلاب اکتوبر برپا ہوا جس کے نتیجے میںزار نکولس دوم کی حکومت کا خاتمہ ہوا اوربالشویک پارٹی نےلینن کی قیادت میں اقتدار سنبھالا۔[12] اس انقلاب نے روس کو دنیا کی پہلی آئینی سوشلسٹ ریاست میں تبدیل کر دیا۔
1922 میں،روسی SFSR نے دیگر سوویت جمہوریہ کے ساتھ مل کرسوویت یونین کی بنیاد رکھی۔[13] سوویت یونین کے قیام کے بعد روس میں تیز رفتار صنعتی ترقی ہوئی اور ریاست نے زبردست سیاسی اور عسکری طاقت حاصل کی۔
1930 کی دہائی میں،جوزف سٹالن نے اقتدار سنبھالا اور سوویت یونین کو تیزی سے صنعتی ترقی کی طرف لے گیا، لیکن اس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر جبر اور قتل عام بھی ہوا۔[14] سٹالن نےدوسری جنگ عظیم کے دورانمشرقی محاذ پر اتحادیوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، سوویت یونین اور امریکا کے درمیانسرد جنگ شروع ہوئی جس میں دونوں ممالک نے عالمی اثر و رسوخ کے لیے نظریاتی اور عسکری مقابلہ کیا۔[15] سوویت یونین نےایسٹن یورپ میں کمیونسٹ حکومتوں کو مضبوط کیا اورخلائی دوڑ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
1991 میں،سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اورروسی SFSR ایک آزاد ریاست کے طور پرروسی فیڈریشن میں تبدیل ہو گئی۔[16] ایک نیا آئین اپنایا گیا جس نے ایک وفاقی نیم صدارتی نظام قائم کیا۔
صدی کے آغاز سے،ولادیمیر پوتن روس کے سیاسی نظام پر حاوی رہے ہیں۔ ان کے دور میں روس نے سیاسی اور اقتصادی استحکام حاصل کیا، لیکن ان کے دور میں انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے شدید تنقید بھی ہوئی۔[17]
روسی خارجہ پالیسی نے 21ویں صدی کے آغاز میں اہم تبدیلیاں دیکھی ہیں، خصوصاً سابق سوویت ریاستوں اور مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔یوکرین کے ساتھ تنازع اس پالیسی کا ایک نمایاں حصہ بن چکا ہے، جس نے بین الاقوامی سطح پر روس کی ساکھ اور اقتصادیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔[18] 2014 میں، روس نےکریمیا کویوکرین سے الگ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا، جس پر عالمی برادری میں تنازع کھڑا ہوا۔[19] 2022 میں، روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور مزید علاقوں کو روس میں شامل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں روس اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
روسی خارجہ پالیسی کے جارحانہ موڑ کی پہلی واضح مثال 2008 میں سامنے آئی جب روس نےجارجیا پر حملہ کیا۔ اس تنازعے کے دوران روس نےابخازیا اورجنوبی اوسیشیا کو آزاد ریاستیں قرار دیا، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ گئی۔[20]
2014 میں، روس نے یوکرین کے علاقےکریمیا پر قبضہ کر لیا اور اسے روس میں ضم کر لیا۔ اس اقدام کو بین الاقوامی برادری، خصوصاً مغربی ممالک، نے غیر قانونی قرار دیا اور روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔[21] اس واقعے نے روس اور مغربی ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ پیدا کیا۔
کریمیا کے الحاق کے بعد، روس نےڈونیسک اورلوہانسک جیسے مشرقی یوکرینی علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کی، جس کے نتیجے میںمشرقی یوکرین تنازعہ شروع ہوا۔ روس نے اپنے براہ راست فوجی کردار سے انکار کیا، لیکن مغربی ممالک نے روس پر باغیوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا۔[22]
فروری 2022 میں روس نے یوکرین پر ایک بڑے حملے کا آغاز کیا، جسےروس-یوکرین جنگ کہا جاتا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں ہزاروں شہری اور فوجی ہلاک ہوئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔[23] اس دوران روس نے مزید چار یوکرینی علاقوں، یعنیڈونیسک,لوہانسک,خیرسون اورزاپوریژیا کو روس میں ضم کرنے کا اعلان کیا، جس پر مغربی ممالک نے مزید پابندیاں عائد کیں۔
یوکرین پر حملے کے بعد روس پر مغربی ممالک نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جن میں بین الاقوامی بینکاری نظام سے نکالنا، توانائی کے شعبے میں پابندیاں اور روسی کمپنیوں اور عہدے داروں کے اثاثے منجمد کرنا شامل ہیں۔[24] ان پابندیوں نے روسی معیشت کو بری طرح متاثر کیا، لیکن روس نے متبادل اقتصادی راستے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغربی پابندیوں کے بعد، روس نے اپنے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کوچین کے ساتھ مضبوط کیا۔ چین نے روس کے لیے ایک اہم اقتصادی شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، خصوصاً توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں۔[25] دونوں ممالک نے عسکری اور تجارتی تعاون کو بھی وسعت دی ہے۔
یوکرین تنازعے کے دوران، روس نے اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے مغربی ممالک کی جانب سے اس کے خلاف عائد کردہ قراردادوں کو روکا۔ روس نے عالمی برادری کے سامنے یوکرین میں اپنی کارروائیوں کا دفاع کیا، لیکن اسے عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔[26]
روسی خارجہ پالیسی میں نیٹو کو اہم مخالف سمجھا جاتا ہے۔ روس کے لیے نیٹو کی مشرقی یورپ میں توسیع نے خدشات کو جنم دیا، جسے روس اپنی سیکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یوکرین میں نیٹو کے ساتھ براہ راست تصادم کے خطرات نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔[27]
روسیہ کا جغرافیہ دنیا کا سب سے بڑا اور متنوع ہے، جس میں مختلف نوعیت کے موسمی حالات، زمین کے مختلف اقسام اور حیاتیاتی تنوع شامل ہیں۔ روس مشرقی یورپ سے لے کر شمالی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے اور یہ دنیا کے کل زمینی رقبے کا تقریباً 11 فیصد پر محیط ہے۔
روس میں متعدد اہم جزائر اور جزیریں شامل ہیں، جن میںسخالین جزیرہ،کوریل جزائر اورنوا یا زملیا جیسے بڑے جزیرے شامل ہیں۔ ان جزیروں کی جغرافیائی حیثیت روس کے آرکٹک اور بحیرہ جاپان کے علاقوں میں دفاعی اور اقتصادی اہمیت رکھتی ہے۔[30]
روسیہ میں مختلف قدرتی زمینی خصوصیات پائی جاتی ہیں، جن میں میدانی علاقے، پہاڑی سلسلے، دریا، جھیلیں اور جنگلات شامل ہیں۔ روس کی سرزمین مختلف خطوں میں تقسیم ہے، جن میںیورپی روس اورایشیائی روس (سائبیریا) اہم ہیں۔
یورپی روس، جو روس کی مغربی سرحدوں سےیورال پہاڑ تک پھیلا ہوا ہے، روس کا سب سے زیادہ آبادی والا حصہ ہے۔ یہاں بڑے میدانی علاقے ہیں، جن میںوالگا دریا اورڈون دریا جیسی اہم آبی گذرگاہیں شامل ہیں۔[31] یہ علاقہ زرعی پیداوار کے لیے بھی اہم ہے اور یہاں بڑے شہر، جیسےماسکو اورسینٹ پیٹرزبرگ واقع ہیں۔
والگا دریا روس کا سب سے بڑا اور لمبا دریا ہے، جو 3,692 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یورپ کا سب سے لمبا دریا بھی ہے۔ یہکیسپین سمندر میں جا کر گرتا ہے اور اس کے اطراف کا علاقہ زرعی اور اقتصادی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔[32]
روس کا ایشیائی حصہ، جویورال پہاڑوں سےبحرالکاہل تک پھیلا ہوا ہے،سائبیریا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ زیادہ تر جنگلات، دریا اور برفانی میدانوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی آبادی بہت کم ہے۔[33]
سائبیریا میں دنیا کے کچھ بڑے دریا شامل ہیں، جن میںاوب دریا،ینسی دریا اورلینا دریا شامل ہیں۔ یہ دریا سائبیریا کے بڑے حصوں کو آبی وسائل فراہم کرتے ہیں اور یہاں کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔
جھیل بیکال دنیا کی گہری ترین اور سب سے پرانی میٹھے پانی کی جھیل ہے، جو سائبیریا میں واقع ہے۔ اس میں دنیا کے تقریباً 20 فیصد میٹھے پانی کے ذخائر موجود ہیں اور اس کی حیاتیاتی اہمیت بھی عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔[34]
یورال پہاڑ روس کے یورپی اور ایشیائی حصوں کے درمیان قدرتی سرحد کا کام کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ معدنیات کے لحاظ سے مالا مال ہیں اور روسی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[35]
کوہ قفقاز روس کی جنوبی سرحدوں پر واقع ہیں اور یہیورپ اورایشیا کے درمیان قدرتی سرحد بھی تصور کیے جاتے ہیں۔[36] یہاں روس کا سب سے اونچا پہاڑماؤنٹ البروز بھی واقع ہے، جو 5,642 میٹر بلند ہے۔
روس کا شمالی علاقہ زیادہ ترآرکٹک اورقطبی موسمی حالات کے زیر اثر ہے، جہاں زیادہ تر سال برف باری ہوتی ہے اور درجہ حرارت اکثر نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے۔[38]
روس کے وسطی اور جنوبی حصے زیادہ ترمعتدل موسمی حالات کے زیر اثر ہیں، جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت معتدل اور سردیوں میں شدید سرد ہوتا ہے۔[39] ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ جیسے شہروں میں معتدل آب و ہوا کے تحت چار واضح موسم پائے جاتے ہیں۔
روس دنیا کے سب سے بڑے تیل اور گیس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔سائبیرین میدان اورآرکٹک علاقوں میں بڑے پیمانے پر تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں، جو عالمی توانائی کی منڈیوں میں روس کی حیثیت کو مضبوط بناتے ہیں۔[40]
روس دنیا کے سب سے بڑے جنگلاتی علاقوں میں شامل ہے، جن میںٹائیگا کا جنگل خاص طور پر مشہور ہے۔ یہ جنگلات روس کی معیشت کے لیے اہمیت رکھتے ہیں اور عالمی ماحولیاتی نظام میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[41]
روس ایک وفاقی جمہوریہ ہے جسے مختلف انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جو ملک کی حکومت اور انتظامی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہیں۔ یہ تقسیم ملک کے مختلف علاقوں کی جغرافیائی، نسلی اور تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
روس کی انتظامی تقسیم کا سب سے اہم حصہ اس کےوفاقی موضوعات ہیں، جو ملک کی مختلف انتظامی اکائیاں ہیں۔ 1 مارچ 2008ء کے بعد سے، روس 83 وفاقی موضوعات پر مشتمل ہے۔[43] یہ وفاقی موضوعات ملک کی سیاسی اور انتظامی وحدت کو برقرار رکھتے ہیں اور ان کی چھ اقسام ہیں۔
روس میں 21 جمہوریات شامل ہیں، جو عموماً نسلی بنیادوں پر قائم کی گئی ہیں۔ ان جمہوریات کو خود مختاری حاصل ہے اور ان کے اپنے آئین اور سرکاری زبانیں ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر،تاتارستان اورچیچنیا ایسی جمہوریات ہیں جو اپنے آئین اور قوانین رکھتی ہیں، لیکن یہ روس کے آئین کے تحت رہتی ہیں۔[44]
کرائیات 9 علاقوں پر مشتمل ہیں، جو بنیادی طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں واقع ہیں۔ یہ اکائیاں جغرافیائی طور پر بڑے ہیں لیکن کم آبادی والے ہیں۔ کرائیات کو دیگر وفاقی اکائیوں کے برابر حقوق حاصل ہیں اور یہ وفاقی قوانین کے تحت ہیں۔[45]
روس میں 46اوبلاست شامل ہیں، جو ملک کے سب سے عام وفاقی موضوعات ہیں۔ اوبلاست عام طور پر مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا انتظام مرکزی حکومت کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ اکائیاں روسی فیڈریشن کا اہم حصہ ہیں اور زیادہ تر یورپی روس میں واقع ہیں، جیسےماسکو اوبلاست۔[46]
روس میں 2وفاقی شہر شامل ہیں:ماسکو اورسینٹ پیٹرزبرگ۔ یہ شہر روس کے بڑے شہری مراکز ہیں اور انھیں دیگر وفاقی اکائیوں سے خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ ان شہروں کا انتظام براہ راست وفاقی حکومت کے تحت کیا جاتا ہے اور یہ ملک کی سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں کے مراکز ہیں۔[47]
روس میں ایکخود مختار اوبلاست ہے، جویہودی خود مختار اوبلاست ہے۔ اس علاقے کو یہودی ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص کیا گیا تھا اور اس کو دیگر وفاقی اکائیوں کی طرح مکمل اختیارات حاصل ہیں۔[48]
روس میں 4خود مختار آکرگ شامل ہیں، جو زیادہ تر شمالی اور مشرقی علاقوں میں واقع ہیں۔ یہ علاقے عام طور پر نسلی اقلیتوں کے زیر اثر ہیں اور انھیں محدود خود مختاری حاصل ہے۔ یہ وفاقی اکائیاں بھی مرکزی حکومت کے قوانین کے تحت آتی ہیں۔[49]
روس کی سیاسی تقسیم صرف وفاقی موضوعات تک محدود نہیں، بلکہ ملک کے مختلف خطوں کو بہتر طور پر منظم کرنے کے لیے دیگر انتظامی اور عسکری تقسیمات بھی موجود ہیں۔
وفاقی اضلاع روس کی انتظامی تقسیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ 2000ء میں صدرولادیمیر پوٹن نے ملک کی بہتر انتظامی نگرانی کے لیے 8 وفاقی اضلاع قائم کیے۔ ہر ضلع میں ایک صدارتی نمائندہ ہوتا ہے جو ضلع کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے اور اسے وفاقی حکومت کے سامنے رپورٹ پیش کرتا ہے۔[50]
وفاقی اضلاع کا قیام وفاقی حکومت کو مقامی سطح پر بہتر انتظامی کنٹرول فراہم کرنے کے لیے کیا گیا۔ یہ اضلاع ملک کے مختلف حصوں میں وفاقی قوانین کے نفاذ اور نظم و نسق کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[51]
روس میںاقتصادی علاقہ جات بھی قائم ہیں، جو ملک کی اقتصادی ترقی اور صنعتوں کے فروغ کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ ہر اقتصادی علاقہ ملک کے وسائل، صنعتی ڈھانچے اور اقتصادی ترقی کو منظم کرنے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
روس میں عسکری لحاظ سے ملک کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیےعسکری اضلاع قائم کیے گئے ہیں۔ یہ اضلاع مختلف فوجی کمانڈز کے تحت ہیں اور ملک کے دفاع کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
روس میںاپیل کی ثالثی عدالتیں بھی قائم ہیں، جو تجارتی اور معاشی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ عدالتیں ملک کے مختلف اضلاع میں قائم کی گئی ہیں تاکہ اقتصادی اور تجارتی معاملات کو بہتر طریقے سے حل کیا جا سکے۔[54]
روس میںمیونسپلٹی نظام بھی رائج ہے، جو چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں کی سطح پر مقامی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ میونسپلٹی کے تحت مقامی خدمات، جیسے کہ تعلیم، صحت اور بلدیاتی انتظام کو منظم کیا جاتا ہے۔[55]
روس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، جو اپنے قدرتی وسائل، توانائی کی پیداوار، صنعتوں اور عالمی تجارت پر انحصار کرتی ہے۔ روس نے 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بازار پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کا آغاز کیا اور آج اس کی معیشت مختلف شعبوں پر مشتمل ہے، جن میں تیل، گیس، معدنیات، زراعت اور صنعتیں شامل ہیں۔
روس دنیا کا سب سے بڑا قدرتی گیس پیدا کرنے والا ملک اور تیل کی پیداوار میں دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ روس کی معیشت کا تقریباً 60 فیصد تیل اور گیس کی صنعت سے منسلک ہے اور یہ ملک توانائی کی برآمدات کے لحاظ سے عالمی سطح پر ایک اہم مقام رکھتا ہے۔گیزپروم،روسنیفٹ اورلکوئل جیسی بڑی روسی کمپنیاں توانائی کے شعبے میں عالمی سطح پر مشہور ہیں۔[56]
روس دنیا کے سب سے بڑے معدنی وسائل رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔ یہاں بڑی مقدار میںکوئلہ،لوہا،تانبا،نکل،سونا اورہیروں کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ روس کی معدنی صنعت ملک کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی برآمدات میں ایک نمایاں حصہ شامل ہے۔[57]
زراعت روس کی معیشت کا ایک اور اہم حصہ ہے۔ ملک میں مختلف اقسام کی زرعی مصنوعات پیدا کی جاتی ہیں، جن میں گندم، جو، آلو اور مکئی شامل ہیں۔ روس دنیا میں گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی زراعت زیادہ تر جنوبی روس اور سائبیریا کے میدانی علاقوں میں مرکوز ہے۔[58]
روس میں مویشی بانی اور جنگلات کی صنعت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں دودھ، گوشت، اون اور دیگر زرعی مصنوعات بڑی مقدار میں پیدا کی جاتی ہیں۔ روس کے جنگلاتی علاقے دنیا کے سب سے بڑے جنگلات میں شمار ہوتے ہیں اور لکڑی کی برآمدات روس کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔[59]
روس کی بھاری صنعتوں میں دھات سازی، مشینری اور گاڑیاں بنانے کی صنعتیں شامل ہیں۔اویشن انڈسٹری اورخلائی صنعت بھی روسی معیشت میں اہم ہیں اور روس کے تیار کردہسوخوئی اورمیگ جیسے لڑاکا طیارے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔[60]
روس کی دفاعی صنعت دنیا کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے اور روس ہتھیاروں کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔روسی فوجی صنعت ملک کی معیشت میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے اور روس دنیا کے کئی ممالک کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی برآمد کرتا ہے۔[61]
روس کا مالیاتی نظام بینکوں اور مالیاتی اداروں پر مشتمل ہے۔روس کا مرکزی بینک ملک کی مالیاتی پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہے اورروبل ملک کی سرکاری کرنسی ہے۔ مالیاتی نظام میں نجی بینکوں کے علاوہ سرکاری بینکوں کا بھی اہم کردار ہے، جیسےسبر بینک اوروی ٹی بی بینک۔[62]
روس کی عالمی تجارت میں توانائی، معدنیات اور فوجی آلات کا بڑا حصہ ہے۔ روس کے بڑے تجارتی شراکت داروں میںچین،یورپی یونین،بھارت اورترکی شامل ہیں۔ سیاحت بھی روس کی معیشت کا ایک اہم حصہ بنتی جا رہی ہے اورماسکو،سینٹ پیٹرزبرگ اورکامچاٹکا جیسے علاقوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔[63]
روس نے بین الاقوامی تنظیموں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جیسے کہبرکس اوریوریشین اکنامک یونین۔ یہ تنظیمیں روس کو عالمی تجارتی اور اقتصادی معاملات میں اہم شراکت دار کے طور پر پیش کرتی ہیں اور اس کی معیشت کے لیے نئی راہیں کھولتی ہیں۔[64]
روس کی معیشت عالمی توانائی کی منڈی میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ روس دنیا کے بڑے توانائی فراہم کنندگان میں شامل ہے اوریورپ،چین اوربھارت جیسی عالمی طاقتیں توانائی کے لیے روس پر انحصار کرتی ہیں۔[65]
2014ء میںکریمیا کے الحاق کے بعد، روس پر مغربی ممالک نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ ان پابندیوں نے روس کی معیشت پر منفی اثرات ڈالے، خصوصاً توانائی کے شعبے اور بین الاقوامی مالیاتی تعلقات میں۔[66]
روس نے اقتصادی اصلاحات کی مدد سے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن معیشت کی مکمل بحالی کے لیے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک میں کرپشن، اقتصادی تنوع کی کمی اور عالمی مالیاتی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ جیسے مسائل معیشت کے لیے چیلنجز بنے ہوئے ہیں۔[67]
روس کی آبادی دنیا کی بڑی آبادیوں میں شامل ہے اور یہ نسلی، لسانی اور مذہبی اعتبار سے متنوع ہے۔ ملک کی آبادی کئی صدیوں میں مختلف تہذیبوں، ہجرتوں اور نسلی گروہوں کے امتزاج سے بنی ہے۔
روس کی آبادی 2024ء کے اندازے کے مطابق تقریباً 146 ملین ہے، جو اسے دنیا کا نواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بناتی ہے۔[68] تاہم، روس کی آبادی میں حالیہ دہائیوں میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، جس کی بڑی وجہ کم شرح پیدائش اور زیادہ شرح اموات ہے۔
روس کی آبادی کا تقریباً 75 فیصد حصہ شہری علاقوں میں رہتا ہے، جبکہ باقی 25 فیصد دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔ روس کے بڑے شہروں، جیسے کہماسکو،سینٹ پیٹرزبرگ اورنووسیبرسک میں بڑی آبادی رہتی ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں آبادی کم اور منتشر ہے۔[69]
روس ایک کثیر نسلی ملک ہے، جہاں تقریباً 190 مختلف نسلی گروہ بستے ہیں۔ ان نسلی گروہوں میں سب سے بڑا گروہروسی ہیں، جو کل آبادی کا تقریباً 77 فیصد ہیں۔[70] دیگر بڑے نسلی گروہوں میںتاتار،یوکرینی،بشکیر،چیچن،ارمینیائی اوریہودی شامل ہیں۔
روسی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں، جو ملک کے تمام حصوں میں پائے جاتے ہیں، خاص طور پر مغربی روس میں۔ روسی قوم کا تعلق مشرقی سلاوی گروہ سے ہے اور یہ ملک کی ثقافتی اور سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تاتار اوربشکیر روس کی دو بڑی مسلم نسلی اقلیتیں ہیں، جو زیادہ ترتاتارستان اورباشکورتوستان میں آباد ہیں۔ یہ گروہ روسی تاریخ میں تجارتی، عسکری اور ثقافتی لحاظ سے اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
چیچن،داغستانی اور دیگر قفقازی نسلی گروہ زیادہ تر جنوبی روس اورقفقاز کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ گروہ روسی معاشرتی اور سیاسی تاریخ میں نسلی تحریکوں اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے مشہور ہیں۔
روسیہ میںروسی زبان سرکاری اور قومی زبان ہے، جو ملک کی اکثریتی آبادی بولتی ہے۔ تاہم، روس کے کثیر نسلی پس منظر کی وجہ سے ملک میں تقریباً 100 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔[71]
روسی زبان ملک کی سرکاری زبان ہے اور یہ تعلیم، حکومت اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ زبانمشرقی سلاوی زبان کی ایک شکل ہے اور اسے دنیا کی اہم ترین زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
روس میں کئی علاقائی اور نسلی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جمہوریات میں، مقامی زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے، جیسے کہتاتاری زبانتاتارستان میں،چیچن زبانچیچنیا میں اوربشکیر زبانباشکورتوستان میں۔[72]
روسی آرتھوڈوکس چرچ روس کا سب سے بڑا اور قدیم مذہبی ادارہ ہے، جو 988ء سے ملک کی مذہبی اور ثقافتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ روسی آرتھوڈوکس مذہب زیادہ تر روسی آبادی میں مقبول ہے اور ملک کے اہم تہوار اور مذہبی رسومات اس کے زیر اثر ہیں۔[73]
اسلام روس کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور زیادہ ترتاتار،بشکیر،چیچن اور دیگر مسلم اقوام اس مذہب کی پیروی کرتی ہیں۔ روس کے مسلمان زیادہ ترتاتارستان،باشکورتوستان اورقفقاز کے علاقوں میں آباد ہیں۔
روس کی آبادی میں کمی ایک اہم مسئلہ ہے، جس کی بڑی وجوہات میں کم شرح پیدائش اور زیادہ شرح اموات شامل ہیں۔ حکومت نے آبادی کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ مالی امداد اور خاندان کی مدد کی اسکیمیں۔
روس کو صحت کے نظام میں بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی اور زندگی کی متوقع عمر میں کمی۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں حکومت نے صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اصلاحات کی ہیں۔
روس کا تعلیمی نظام مفت اور لازمی ہے اور ملک میں ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے مضبوط ادارے موجود ہیں۔ روسی یونیورسٹیاں، جیسے کہماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی، عالمی سطح پر مشہور ہیں اور ہر سال ہزاروں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔
روس کی ثقافت صدیوں پرانی تاریخ، روایات اور مختلف نسلی اور مذہبی پس منظر کا امتزاج ہے۔ اس کی ثقافت میں ادب، موسیقی، فنون، رقص، مذہبی رسومات اور تہواروں کا اہم کردار ہے، جو دنیا بھر میں روسی ورثے کو مقبول بناتے ہیں۔
روس کا ادب دنیا بھر میں اپنی گہرائی اور فنی محاسن کی وجہ سے مشہور ہے۔ روسی ادب نے دنیا کو کچھ عظیم ترین مصنفین دیے ہیں، جنھوں نے عالمی ادب میں گہرا اثر ڈالا۔
روس کا کلاسیکی ادب 19ویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچا، جبالیگزینڈر پوشکن،فیودر دستویفسکی،لیو ٹالسٹائی اورایوان ترگنیف جیسے بڑے ادیب سامنے آئے۔[76]پوشکن کو جدید روسی ادب کا بانی سمجھا جاتا ہے اور ان کی شاعری اور نثر روسی زبان کے ادب کی بنیاد ہے۔لیو ٹالسٹائی کے ناول جیسے کہ "جنگ اور امن" اور "آنا کارنینا" عالمی شہرت یافتہ ہیں اور انسانی زندگی کی گہری تصویر کشی کرتے ہیں۔
سوویت دور میں روسی ادب نے سوشلسٹ حقیقت پسندی کو فروغ دیا، جہاں مصنفین نے انقلاب، جنگ اور طبقاتی جدوجہد کو موضوع بنایا۔میخائل شولوخوف اوربوریس پاسترناک جیسے مصنفین نے اس دور میں اہم کردار ادا کیا، جن میں پاسترناک کا ناول "ڈاکٹر ژواگو" خاص طور پر مشہور ہے۔
روسی مصوری نے 19ویں صدی میں بڑی ترقی کی جبایلیا ریپین اورآئزاک لیویتان جیسے مشہور مصور سامنے آئے۔ ان مصوروں نے روس کی دیہی زندگی اور مناظر کی خوبصورتی کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔[77] روسی مصوری میں حقیقت پسندی اور جمالیاتی اقدار کی خاص اہمیت رہی ہے۔
روس میں تھیٹر کی ایک مضبوط روایت ہے، جس نے عالمی سطح پر بھی اہم مقام حاصل کیا ہے۔ روسی تھیٹر میںاسٹانسلاوسکی کا طریقہ کار خاص طور پر مشہور ہے، جو اداکاری میں حقیقت پسندی کا فلسفہ ہے۔[78]ماسکو آرٹ تھیٹر روس کا سب سے مشہور تھیٹر ہے، جہاں عالمی معیار کی پرفارمنسز پیش کی جاتی ہیں۔
روس میں مذہب اور روایات کا اہم مقام ہے اورروسی آرتھوڈوکس چرچ روسی ثقافت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ، دیگر مذاہب اور روایات بھی روسی معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
روسی آرتھوڈوکس چرچ روس کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم ہے اور ملک کی مذہبی، ثقافتی اور اخلاقی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ روسی آرتھوڈوکس روایات میںایسٹر اورکرسمس جیسے تہوار خصوصی اہمیت رکھتے ہیں، جنھیں روایتی مذہبی رسومات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔[79]
روس میں کئی قومی اور مذہبی تہوار منائے جاتے ہیں، جن میںنیا سال،یوم فتح اورماسلی نیتسا خاص طور پر اہم ہیں۔ نیا سال روس میں سب سے بڑا تہوار ہے، جبکہ یوم فتحدوسری جنگ عظیم میں فتح کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ماسلی نیتسا، جسے "پین کیک ویک" بھی کہا جاتا ہے، روس میں بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔
ماتروشکا گڑیا روس کی سب سے مشہور دستکاری ہے، جو لکڑی سے بنی ہوتی ہے اور چھوٹی گڑیاں بڑی گڑیا کے اندر رکھی جاتی ہیں۔ یہ گڑیا روسی ثقافت کی علامت سمجھی جاتی ہے اور سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔[80]
پالیکھ اورخوخلوما روس کی قدیم دستکاریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پالیکھ کے کام میں روایتی روسی منظر کشی اور مذہبی تصاویر بنائی جاتی ہیں، جبکہ خوخلوما میں لکڑی پر سنہری اور سرخ نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔
روس میںووڈکا ایک مقبول مشروب ہے، جو روایتی طور پر سردیوں کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہکوواس، ایک روایتی غیر الکحل مشروب بھی روس میں عام ہے، جو خمیر شدہ روٹی سے بنایا جاتا ہے۔
روس دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے اور اس کی خارجہ پالیسی عالمی سیاست، تجارت اور دفاعی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ روس کا جغرافیائی محل وقوع، قدرتی وسائل اور عسکری طاقت اسے عالمی سطح پر ایک مضبوط ملک بناتے ہیں، جس کے عالمی تعلقات میں مختلف پہلو شامل ہیں۔
روس کی خارجہ پالیسی کا مقصد قومی خود مختاری، اقتصادی ترقی اور عالمی سطح پر روس کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ روس کی خارجہ پالیسی میں اس کے پرانے حریفوں اور نئے شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
روس کے مغربی ممالک، خاص طور پرامریکا اوریورپی یونین، کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تعلقات میں بہتری کی کوششیں کی گئیں، لیکن حالیہ برسوں میں یوکرین کے تنازعے اور کریمیا کے الحاق جیسے مسائل نے ان تعلقات کو متاثر کیا ہے۔
روس اورنیٹو کے تعلقات میں تناؤ کافی دیر سے چلا آ رہا ہے۔ نیٹو کی مشرقی یورپ میں توسیع کو روس اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، جبکہ نیٹو روس کے اقدامات کو مشرقی یورپ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے طور پر دیکھتا ہے، خصوصاً یوکرین اور جارجیا کے تنازعات میں روس کے کردار کی وجہ سے۔[82]
روس نے حالیہ دہائیوں میںچین،بھارت اورایران جیسے ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔ یہ تعلقات تجارتی، دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں قائم کیے گئے ہیں۔
روس اور چین کے درمیان تعلقات حالیہ برسوں میں بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے اقتصادی، عسکری اور سفارتی تعاون کو فروغ دیا ہے۔ چین روس کے لیے ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔ دونوں ممالک نے بین الاقوامی فورمز میں بھی ایک دوسرے کی حمایت کی ہے، جیسےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں۔[83]
روس اوربھارت کے درمیان تعلقات سرد جنگ کے دوران سے مستحکم ہیں۔ روس بھارت کا بڑا دفاعی شراکت دار رہا ہے اور بھارت اپنی فوجی ضروریات کا ایک بڑا حصہ روسی ہتھیاروں سے پورا کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک نے اقتصادی، جوہری توانائی اور خلائی تعاون کو بھی فروغ دیا ہے۔[84]
روس کا مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کردار ہے اور اس نے خطے میں مختلف تنازعات میں مداخلت کی ہے، خصوصاًشام کی خانہ جنگی اورایران کے ساتھ دفاعی اور جوہری تعاون کے معاملات میں۔
روس نےبشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں 2015ء سے شام کی خانہ جنگی میں عسکری مداخلت کی۔ روسی افواج نے اسد حکومت کو باغیوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مدد فراہم کی، جس کے نتیجے میں اسد کی حکومت مستحکم رہی۔ شام میں روس کا عسکری کردار اسے مشرق وسطیٰ میں ایک اہم طاقت بناتا ہے۔[85]
روس اور ایران کے درمیان دفاعی اور اقتصادی تعلقات مضبوط ہیں۔ دونوں ممالک نے توانائی، تجارت اور عسکری تعاون میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر بھی روس نے اہم کردار ادا کیا ہے اور مذاکرات کے دوران ایران کا دفاع کیا ہے۔[86]
روس نے 2015ء میںیوریشین اکنامک یونین کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس اتحاد میںبیلاروس،قازقستان،آرمینیا اورکرغیزستان شامل ہیں۔ یوریشین اکنامک یونین کا مقصد تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کو بہتر بنانا ہے، تاکہ روس اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اقتصادی طور پر منسلک رہے۔[87]
روساقوام متحدہ کا مستقل رکن ہے اورسلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا حامل ہے۔ روس اقوام متحدہ میں عالمی تنازعات اور مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس نے مختلف عالمی مسائل پر ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے، جیسے شام اور یوکرین کے تنازعات پر۔[88]
روسبرکس (BRICS) ممالک کا ایک اہم رکن ہے، جس میںبرازیل،چین،بھارت اورجنوبی افریقہ شامل ہیں۔ برکس ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے روس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس نے اس گروپ کے ذریعے عالمی اقتصادی نظام میں متوازن ترقی کی حمایت کی ہے اور اسے مغربی ممالک کے غلبے کا توڑ سمجھا جاتا ہے۔[89]
روسجی 20 کا رکن ہے، جو دنیا کی بڑی معیشتوں کا گروپ ہے۔ روس نے اس فورم کے ذریعے عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور عالمی مالیاتی بحرانوں کے حل میں مدد فراہم کی ہے۔ توانائی کی عالمی مارکیٹ میں روس کا اہم مقام ہے اور روس نے عالمی سطح پر اقتصادی تعاون کو فروغ دیا ہے۔[90]
2014ء میںکریمیا کے الحاق کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا۔روس-یوکرین جنگ نے روس کے بین الاقوامی تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا۔ مغربی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جس سے روس کی معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
2014ء میں روس نے یوکرین کے علاقےکریمیا کو اپنے ساتھ ضم کر لیا، جسے عالمی برادری نے غیر قانونی قرار دیا۔ اس اقدام کے بعد روس اور مغربی ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہوا اورامریکا اوریورپی یونین نے روس پر سخت پابندیاں عائد کیں۔[91]
2022ء میں روس نے یوکرین پر مکمل حملہ کیا، جس سے عالمی برادری میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔ مغربی ممالک نے مزید اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور یوکرین کو عسکری اور مالی امداد فراہم کی۔ اس تنازعے نے عالمی سطح پر روس کے تعلقات پر گہرا اثر ڈالا۔[92]
روس پر عائد مغربی پابندیوں نے روسی معیشت کو متاثر کیا، لیکن روس نے متبادل اقتصادی تعلقات تلاش کرنے کی کوشش کی۔ روس نے ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو فروغ دیا، تاکہ مغربی پابندیوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔[93]
روس دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقتوں میں سے ایک ہے، جس کی فوجی تاریخ، جدید ہتھیاروں اور دفاعی پالیسیوں نے اسے عالمی سطح پر ایک بڑی فوجی قوت بنا دیا ہے۔ روس کی فوجی طاقت میں اس کی زمینی فوج، فضائیہ، بحریہ اور ایٹمی ہتھیاروں کا اہم کردار ہے۔
روس کی فوجی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور اس میں کئی جنگوں اور فتوحات کا ذکر ملتا ہے۔ روس کی فوجی طاقت میں اس کے مختلف ادوار میں ہونے والی ترقی اور اصلاحات نے اہم کردار ادا کیا۔
زار شاہی روس کے دور میں فوج نے کئی اہم فتوحات حاصل کیں، خصوصاًپیٹر اعظم اورکیترین عظیم کے دور میں۔ ان فتوحات میںسوئیڈن اورعثمانی سلطنت کے خلاف جنگیں شامل تھیں، جنھوں نے روس کی سرحدوں کو وسعت دی اور اسے یورپ کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھارا۔[94]
1917ء کے انقلاب کے بعد،سرخ فوج نےروس کی خانہ جنگی میں بالشیوک حکومت کا دفاع کیا اوردوسری جنگ عظیم میںمشرقی محاذ پر نازی جرمنی کے خلاف ایک اہم فتح حاصل کی۔ سوویت دور میں روسی فوج نے خود کو عالمی سطح پر ایک بڑی عسکری طاقت کے طور پر منوایا اورسرد جنگ کے دوران اس نے مغربی ممالک، خصوصاًامریکا، کے ساتھ عسکری مقابلہ کیا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، روسی فوج نے کئی اصلاحات کیں تاکہ جدید دور کی عسکری ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ آج روس کی فوج جدید ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور تربیت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوجوں میں شمار کی جاتی ہے۔
روس کی زمینی فوج دنیا کی سب سے بڑی فوجوں میں شامل ہے اور اس کے پاس جدید ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور میزائل سسٹمز ہیں۔ روس کی زمینی فوجٹینک اورآرٹلری میں سبقت رکھتی ہے اور اس کے پاس تقریباً 1 ملین سے زائد فعال فوجی ہیں۔[95]
روس کی فضائیہ جدید لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے لیس ہے۔سوخوئی اورمیگ جیسے طیارے روسی فضائیہ کی شان ہیں، جو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے لیے مشہور ہیں۔ فضائیہ میںسوخوئی 57 جیسے جدید اسٹیلتھ طیارے اورمیگ 29 جیسے ملٹی رول لڑاکا طیارے شامل ہیں۔[96]
روس کی ایٹمی طاقت دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں میں شمار ہوتی ہے۔ روس کے پاس تقریباً 6,000 سے زائد ایٹمی وارہیڈز ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ روس کاآئی سی بی ایم (بین البراعظمی بیلسٹک میزائل) سسٹم جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جو دنیا کے کسی بھی کونے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔[98]
روس نے 1990ء کی دہائی کے بعد سے اپنی فوجی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اصلاحات کیں۔ اس میں فوج کی تعداد میں کمی، جدید ہتھیاروں کی تیاری اور فوجی تربیت میں بہتری شامل ہیں۔
روس نے فوجی تربیت اور حکمت عملی کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ روسی فوجی تربیت میں جدید جنگی حکمت عملیوں کو شامل کیا گیا ہے اور فوج کو زمینی اور فضائی جنگ کے لیے بہتر تربیت دی جا رہی ہے۔
روس کا دفاعی بجٹ دنیا کے بڑے بجٹوں میں سے ایک ہے۔ روس نے 2024ء میں اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے تقریباً 60 بلین ڈالر کا دفاعی بجٹ مختص کیا۔ اس بجٹ کا بڑا حصہ جدید ہتھیاروں کی تیاری، ایٹمی طاقت کی بہتری اور فوجی تربیت پر خرچ ہوتا ہے۔[100]
2015ء میں روس نےشام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی اوربشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں عسکری کارروائیاں کیں۔ روسی فضائیہ نے باغیوں اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف حملے کیے، جس کے نتیجے میں اسد حکومت مستحکم ہوئی۔[101]
2022ء میں روس نےیوکرین پر حملہ کیا، جس کے بعد یوکرین اور روس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس تنازعے نے عالمی سطح پر روس کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کیے۔[102]
روس کئی بین الاقوامی فوجی اتحادوں اور تنظیموں کا رکن ہے، جن میںشنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اورسی ایس ٹی او (CSTO) شامل ہیں۔ ان تنظیموں کے ذریعے روس اپنے اتحادیوں کے ساتھ دفاعی تعاون کو فروغ دیتا ہے۔
روس اور چین نے 2001ء میںشنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس تنظیم میں روس، چین اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک شامل ہیں اور اس کا بنیادی مقصد خطے میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنا ہے۔
سی ایس ٹی او ایک فوجی اتحاد ہے جس میں روس اور کئی سابق سوویت ریاستیں شامل ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد رکن ممالک کی مشترکہ دفاعی صلاحیت کو بڑھانا اور خطے میں سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔[103]
روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کی وجہ سے وسیع قدرتی وسائل اور متنوع ماحول رکھتا ہے، لیکن اسی وسعت کے ساتھ اسے مختلف ماحولیاتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ روس میں ماحولیاتی مسائل میں فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، ماحولیاتی تبدیلیاں اور قدرتی وسائل کا غیر ذمہ دارانہ استحصال شامل ہیں۔
روس میں فضائی آلودگی ایک بڑا ماحولیاتی چیلنج ہے، خاص طور پر بڑے شہروں اور صنعتی علاقوں میں۔ ملک میں فضائی آلودگی کی بنیادی وجوہات میں صنعتی اخراجات، ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ اور توانائی کی پیداوار میں کوئلہ اور تیل کا استعمال شامل ہے۔
روس کی بڑی صنعتیں، خصوصاً تیل، گیس اور دھاتوں کی پیداوار میں، فضائی آلودگی کا بڑا ذریعہ ہیں۔نوریلسک جیسے شہر فضائی آلودگی کے لیے مشہور ہیں، جہاں دھات سازی کی فیکٹریاں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسیں خارج کرتی ہیں، جو صحت اور ماحول دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔[104]
روس میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ بھی فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ خاص طور پر ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ جیسے بڑے شہروں میں ٹریفک کا زیادہ دباؤ اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں نے فضائی معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
پانی کی آلودگی روس میں ایک اور اہم مسئلہ ہے، جو زیادہ تر صنعتی فضلے اور گھریلو نکاسی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ملک کے بڑے دریا اور جھیلیں آلودگی سے متاثر ہیں، جس سے آبی حیات اور انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
روس کے بڑے دریا، جیسےوالگا،اوب اورینسی، آلودگی کا شکار ہیں۔ صنعتی فضلہ اور زراعت میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کا بہاؤ ان دریاؤں میں جا کر پانی کے معیار کو خراب کرتا ہے۔والگا دریا خاص طور پر آلودگی سے متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس کے آبی حیات اور ماحولیاتی نظام کو خطرہ لاحق ہے۔[105]
جھیل بیکال دنیا کی سب سے گہری میٹھے پانی کی جھیل ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کا پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے۔ صنعتی فضلہ، ماحولیاتی تبدیلیاں اور غیر قانونی ماہی گیری جھیل کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔[106]
روس کے جنگلات، خاص طور پرٹائیگا کے علاقے، دنیا کے سب سے بڑے جنگلاتی وسائل میں شامل ہیں۔ یہ جنگلات عالمی ماحولیاتی توازن کے لیے اہم ہیں، لیکن جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور آگ کی وجہ سے یہ علاقے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
روس میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ لکڑی کی غیر قانونی تجارت نے روس کے کئی جنگلات کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ کٹائی نہ صرف ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچاتی ہے، بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی اضافہ کرتی ہے، جس سے عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں مزید شدت اختیار کرتی ہیں۔[107]
روس کے شمالی علاقوں، خصوصاً سائبیریا، میں ہر سال ہزاروں ہیکٹر جنگلات جنگلاتی آگ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ آگ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدت اختیار کر رہی ہیں اور ان سے نہ صرف مقامی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ کاربن کا اخراج بھی بڑھتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں روس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، خاص طور پر آرکٹک کے علاقوں میں جہاں برف کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔ آرکٹک میں ماحولیاتی تبدیلیاں سمندری سطح میں اضافے، آبی حیات کے نقصان اور موسمیاتی تبدیلیوں کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہیں۔
روس کا آرکٹک علاقہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ آرکٹک سمندر کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، جس سے نہ صرف سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ آرکٹک کے جانوروں، جیسےقطبی ریچھ اوروالرس، کے لیے بھی خطرہ بڑھ رہا ہے۔[108]
ماحولیاتی تبدیلیوں نے روس کے زرعی شعبے کو بھی متاثر کیا ہے۔ جنوبی روس میں خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ غیر متوقع موسم اور شدید گرمی کی لہریں روس کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
روس دنیا کے سب سے بڑے قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن ان وسائل کا غیر ذمہ دارانہ استحصال ملک کے ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ تیل، گیس اور معدنیات کی کان کنی ماحولیاتی نقصان کی اہم وجوہات ہیں۔
روس کی تیل اور گیس کی صنعت ملک کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے، لیکن یہ صنعت ماحولیاتی آلودگی کا بڑا سبب بھی ہے۔ تیل کی نکاسی کے دوران ہونے والے رساؤ اور گیس کے اخراج نے آرکٹک اور دیگر علاقوں میں ماحولیاتی نقصان پہنچایا ہے۔[109]
معدنیات کی کان کنی، خاص طور پر کوئلے، سونے اور لوہے کی کان کنی، روس کے ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ کان کنی نہ صرف زمین کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ زیر زمین پانی کے ذخائر کو آلودہ کرتی ہے، جس سے مقامی ماحول اور انسانی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
روس نےکیوٹو پروٹوکول اورپیرس معاہدہ پر دستخط کیے ہیں، جن کے تحت ملک نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، ان معاہدوں کے تحت طے شدہ اہداف کے حصول میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔[110]
روس نے اپنے قدرتی وسائل، خصوصاً جنگلات اور آبی ذخائر کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین متعارف کرائے ہیں۔ حکومت نے جنگلاتی کٹائی کو کنٹرول کرنے اور جنگلات کو دوبارہ اگانے کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، قدرتی پارکوں اور محفوظ علاقوں کا قیام بھی عمل میں آیا ہے تاکہ نایاب جنگلی حیات اور ماحولیات کا تحفظ کیا جا سکے۔
روس میں مختلف ماحولیاتی تنظیمیں اور غیر سرکاری ادارے (NGOs) ماحولیاتی مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ یہ تنظیمیں عوامی آگاہی بڑھانے، ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کے نفاذ اور ماحولیات کی بہتری کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرتی ہیں۔
روس کا تعلیمی اور سائنسی نظام دنیا بھر میں مشہور ہے اور یہ ملک تاریخی طور پر تعلیم اور سائنس میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ روس نے جدید سائنس، ریاضی، طب اور انجینئرنگ میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جبکہ اس کا تعلیمی نظام طلبہ کو مختلف شعبوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرتا ہے۔
روس کا تعلیمی نظام دنیا کے قدیم ترین اور وسیع ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ روس میں تعلیم کو اعلیٰ اہمیت دی جاتی ہے اور یہ لازمی تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے ایک مثالی نظام رکھتا ہے۔
روس میں ابتدائی تعلیم کی شروعات 7 سے 8 سال کی عمر میں ہوتی ہے اور یہ مکمل طور پر مفت ہوتی ہے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم تقریباً 11 سال تک محیط ہوتی ہے، جس میں طالب علموں کو بنیادی علوم، ریاضی، ادب، سائنس اور دیگر مضامین میں تربیت دی جاتی ہے۔[111]
روس میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مفت اور لازمی ہے۔ روسی حکومت تمام بچوں کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرتی ہے اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل اصلاحات کی جاتی ہیں۔ تعلیمی نظام میں نصاب کو جدید بنانے اور طالب علموں کو بہتر مواقع فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
روس کی سائنسی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور ملک نے کئی عالمی سطح کی سائنسی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ روس نے خلا کی تحقیق، طب، طبیعیات اور کیمسٹری میں عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔
روس خلا کی تحقیق میں دنیا کی سرکردہ طاقتوں میں سے ایک ہے۔سوویت یونین نے 1957ء میںسپتنک 1 نامی پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا، جس نے خلا کی تحقیق کے میدان میں انقلاب برپا کیا۔[113]
1961ء میںیوری گاگارین پہلے انسان بنے جنھوں نے خلا میں سفر کیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا اور اس نے خلا کی تحقیق میں روس کو عالمی سطح پر سب سے آگے کر دیا۔ اس مشن نے خلا کی تحقیق میں ایک نئی دوڑ کا آغاز کیا، جسے بعد میں "خلائی دوڑ" کہا گیا۔
روس نے طبیعیات اور کیمسٹری میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔دیمتری میندلیئیف نےدورانی جدول کی ایجاد کی، جو آج بھی دنیا بھر میں کیمیائی عناصر کی درجہ بندی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔[114]
روس کے سائنسدانوں نے طبیعیات میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔لیو لانڈاؤ،اندری ساخاروف اورسرگئی پروخوروف جیسے سائنسدانوں نے طبیعیات کے مختلف شعبوں میں اہم تحقیق کی ہے، جن میں کوانٹم میکینکس، تھیوریٹکل فزکس اور پلازما فزکس شامل ہیں۔
روس نے طبی سائنس میں بھی کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ایوان پاولوف نے طبی سائنس میںشرطی ردعمل کے نظریے پر اہم کام کیا، جس نے نفسیات اور طب میں انقلاب برپا کیا۔ اس کے علاوہ، روس نے ویکسین کی تحقیق اور متعدی بیماریوں کے علاج میں بھی عالمی سطح پر اپنا نام بنایا ہے۔
روس میں طبی تحقیق کے اہم مراکز موجود ہیں، جہاں جدید بیماریوں کے علاج اور ویکسین کی تیاری پر تحقیق کی جاتی ہے۔ روس نےکووڈ-19 کی وبا کے دوران اپنی ویکسیناسپوتنک وی تیار کی، جو عالمی سطح پر استعمال کی گئی۔[115]
روسی اکیڈمی آف سائنسز (RAS) روس کا سب سے بڑا سائنسی ادارہ ہے، جو ملک کی سائنسی تحقیق، تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی نگرانی کرتا ہے۔ RAS کا قیام 1724ء میںپیٹر اعظم کے دور میں ہوا تھا اور یہ آج بھی دنیا کی اہم ترین سائنسی تنظیموں میں شمار ہوتا ہے۔[116]
روس میں کئی سائنسی اور تکنیکی پارک قائم کیے گئے ہیں، جہاں سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے جدید سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ پارک خصوصی طور پر انجینئرنگ، بایوٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے شعبوں میں تحقیق کی ترقی کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔
روس دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ سائنسی تحقیق اور تعلیم کے میدان میں تعاون کرتا ہے۔ روس نے کئی بین الاقوامی معاہدے کیے ہیں، جن کے تحت وہ دوسرے ممالک کے ساتھ سائنسی تحقیق اور تعلیمی تبادلہ کرتا ہے۔
روس نےیورپ اورایشیا کے کئی ممالک کے ساتھ سائنسی تحقیق اور تکنیکی ترقی کے میدان میں شراکت داری قائم کی ہے۔ روس نےچین،بھارت اوریورپی یونین کے ساتھ مشترکہ سائنسی منصوبے اور ریسرچ پروگرامز شروع کیے ہیں۔
روس کاناسا،یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) اورچین کے ساتھ خلائی تحقیق میں قریبی تعاون ہے۔بین الاقوامی خلائی سٹیشن (ISS) کے منصوبے میں روس کا اہم کردار ہے، جہاں روسی خلانورد بین الاقوامی ٹیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور عالمی سطح پر خلائی تحقیق میں حصہ ڈالتے ہیں۔