دمشق (عربی:دِمَشْق)سوریہ کادارالحکومت اوردنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک۔ اسے الشام بھی کہا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے 2260 فٹ کی بلندی پر آباد ہے۔ اس کے چاروں طرف باغات اور مرغزار ہیں۔ جن کے گرد پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں، یہاں بارش کی مقدار اڑھائی سو سے تین سو کلومیٹر تک کمی سے ہوتی ہے، جبکہ اس کے قریبی علاقوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے، بیروت میں 900 سے 850 کلومیٹر تک بارش ہوتی ہے، پہاڑوں کے دامن سے اس میں ایک ہی چشمہ گرتا ہے، جسے غوطہ جھیل کہا جاتا ہے اور یہ اس خطے کا سب سے سرسبز علاقہ رہا ہے، حتی کہ ابن عساکر نے اسے بہشت لکھا۔[6]۔ہمیں ٹھیک ہے علم نہیں کہ تاریخ کے کس دور میں دمشق کی بنیاد رکھی گئی بہرحال 1950 عیسوی میں دمشق کے جنوب مشرق میں تل الصالحیہ کے مقام پر جو کھدائی ہوئیں ان سے یہاں چار ہزار سال قبل مسیح تک ایک شہری مرکز ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جب ہم برنجی دوڑ تک استعمال ہونے والے ابتدائی اور نامکمل اوزاروں کو دیکھتے اور ان کا مقابلہ یہاں کے پیچیدہ نظام ہے اپ پاشی سے کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دو ہزار سال قبل مسیح کے وسط میں اس شہر کی خوش حالی ایک بڑے طویل اور سست رفتار تمدنی ارتقا کا نتیجہ ہوگی۔
تل الاصرفہ کی الواح میں اس کا تذکرہ انے سے گویا دمشق کی تاریخ کا اغاز ہوتا ہے اس کا نام ان شہروں کے ضمن میں اتا ہے جنہیں فرعون تہتموسس (thutmoses) سوم نے جو کچھ مدت کے لیے شام پر قابض ہو گیا تھا 15 ویں صدی قبل مسیح میں فتح کیا تھا۔ تل الامرنا کی کتبوں میں اس کا نام دمشکا درج ہے را میں ثالث کی کتابوں میں یہ نام درمیسیک (darmesek) کی شکل میں ملتا ہے۔[7]۔
گیارہویں صدی قبل مسیح میں دمشق سرزمین ارم کا صدر مقام تھا جس کا حوالہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں ملتا ہے[8] ۔حتی کہ اج بھی مسلمان دمشق کے شمال میں مقام برزہ کی مسجد ابراہیم علیہ السلام کو مقدس سمجھتے ہیں جو برو روایت حضرت ابراہیم کا مقام ولادت تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانے میں ارامیوں نے اس شہر کا جالی نما نقشہ تیار کیا، جس کے بازار بخط مستقیم ایک دوسرے کو قطع کر کے چوراہے بناتے تھے یہ نقشہ دہزار سال قبل مسیح کے بابل اور آشور کے مشابہ تھا، دمشق کا شہر اپنے نہری نظام کی تیاری کے لیے آرامیوں ہی کا مرہون منت تھا، ہمیں کتاب المقدس الملوک الثانی باب 5 میں نعمان الابرص کے قصے سے پتہ چلتا ہے کہ دسویں صدی قبل مسیح میں نہر ابانہ بردی کے ساتھ ساتھ بہتی تھی اور نہر سورہ جس کا نام ارامی ہے اور جو جبل قاسم کی ڈھلانوں کے ساتھ کھودی گئی تھی اس علاقے کو سیراب کرتی تھی جو شہر کے شمار اور شمال مشرق میں واقع ہے اسے اس نخلستان کی زرعی معیشت میں بڑی اہمیت حاصل رہی۔
یہ شہر حضرت داؤد کے ہاتھوں فتح ہوا[9] لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں دمشق کے بادشاہ نے شمال کے شاہ نے عاشور اور جنوب کے ملوک اسرائیل کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی 732 قبل مسیح میں تگ لیت پلیزر سوم کے اشوری لشکر نے دمشق کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے شہر پر قبضہ کر کے معبد اور محل کو لوٹ لیا، جس کا کچھ سامان 1930 عیسوی میں بالائی عراق عجم کے علاقے کی کھدائی سے نکلا ہے۔ اس دور میں شہر مذکور کی تاریخ کے لیے جہاں تک اس پر اٹھویں صدی قبل مسیح میں عاشوریوں، ساتویں صدی میں بابلیوں، چھٹی صدی میں ہخامنشیوں، چوتھی صدی میں یونانیوں اور پہلی صدی قبل مسیح میں بزنتیوں کے یکے بعد دیگرے قبضہ کرنے کا تعلق ہے۔
زمانہ قدیم میں یہ شہر علی الترتیب آرمینی، آشوری اور اہل فارس کے زیر تسلط رہا۔ 333 ق م میں اسےسکندر اعظم نے تسخیر کیا اور 62 ق م میں یہرومی سلطنت کا صوبائی مرکز بنا۔
متجر للشرقيات في دمشق القديمة
یونانی حکومت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلے تو تیسری صدی قبل مسیح میں ایک بطلیموسی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی، پھر کیزی کوس کے سلوقی فرما روا انتیہ کوس نیہم نے اسے دار الحکومت بنا کر اس کا درجہ بلند کیا آگے اس کی طویل تاریخ ہے۔
635ء خلافتعمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ میں اس شہر پراسلامی پرچم لہرایا۔ 661ء تا 741ءخلافت امویہ کا صدر مقام رہا۔عباسیوں نے بر سر اقتدار آنے کے بعدبغداد کو دار الخلافہ بنایا لیکن دمشق کی اہمیت پھر بھی باقی رہی۔صلیبی جنگوں کے دوران یہ شہر کافی عرصہ میدان کارزار بنا رہا۔ 1260ء میںہلاکو خان نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایک سو سال بعد اسےامیر تیمور نے فتح کیا۔ 1516ء میںعثمانی ترک اس پر قابض ہوئے۔ جبشامفرانس کی تولیت میں دیا گیا تو شہرحلب (Aleppo) کے ساتھ دمشق بھی ملک کا دار الحکومت رہا۔ 1946ء میں آزاد شام کا دار الحکومت بنا۔اس شہر کو یہ فخر حاصل ہے کہ تین عظیم اسلامی فاتحیننور الدین زنگی،صلاح الدین ایوبی اوررکن الدین بیبرس کی آخری آرام گاہیں یہاں موجود ہیں۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جو مسلسل آباد ہے۔