| دار الحکمت | |
|---|---|
| انتظامی تقسیم | |
| ملک | |
| قابل ذکر | |
| درستی -ترمیم | |
دار الحکمت ، جسے دار العلم بھی کہا جاتا ہے، ایک عظیم اسلامی جامعہ تھی جسےخلیفہ فاطمیحاکم بامر اللہ نے 1004ء (395ھ) میں قائم کیا۔تاریخی ماخذوں کے مطابق، اس جامعہ میں 16 لاکھ (1,600,000) کتابیں موجود تھیں، جن میں سے 6500 ریاضی کی مخطوطات اور 18,000 فلسفے کی مخطوطات شامل تھیں (اگرچہ بعض ذرائع نے اس کی تصریح نہیں کی)۔یہ ادارہ مطالعہ، نقلِ نسخہ اور ترجمہ کے لیے بالکل مفت کھلا تھا۔[1]
مشہور مؤرخ احمد بن علی مقریزی بیان کرتے ہیں کہ:
| ” | “قاہرہ میں دار الحکمت اُس وقت تک عوام کے لیے نہیں کھولی گئی جب تک اسے مکمل طور پر فرش، سجاوٹ اور تزئین و آرائش سے آراستہ نہیں کیا گیا۔ اس کے تمام دروازوں اور راہداریوں پر پردے اور غلاف لگائے گئے، منتظمین اور خدام مقرر کیے گئے۔ وہاں چالیس کتب خانے (خزائن) تھیں، جن میں سے ہر ایک میں تقریباً اٹھارہ ہزار کتابیں سما سکتی تھیں۔ الماریاں کھلی ہوتی تھیں، کتابیں ہر شخص کے لیے قابلِ رسائی تھیں اور قاری اپنی مطلوبہ کتاب خود لے سکتا تھا۔ اگر کسی کو کتاب ڈھونڈنے میں دشواری ہوتی، تو وہاں موجود خادمین اس کی مدد کرتے تھے۔”[2] | “ |
اکثر لوگ بیت الحکمت (بغداد) اور دار الحکمت (قاہرہ) کو ایک ہی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ دونوں میں نمایاں فرق ہے:
| پہلو | بیت الحکمت | دار الحکمت |
|---|---|---|
| بانی | عباسی خلفاء | فاطمی خلفاء |
| مقام | بغداد (عراق) | قاہرہ (مصر) |
| تاسیس | عہدِہارون الرشید ومامون | عہدِالحاکم بامر اللہ (395ھ) |
| مقصد | علم، فلسفہ، و ترجمہ کی ترویج | علم کے ساتھ ساتھ فاطمی (اسماعیلی) عقائد کی تعلیم |
| اختتام | 1258ء میںمنگولوں کے ہاتھوں تباہ | 1171ء میںصلاح الدین ایوبی کے بعد لائبریری میں تبدیل |
1258ء میں جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کیا، تو انھوں نے بیت الحکمت سمیت تمام کتب خانے جلا ڈالے۔کہا جاتا ہے کہ دریائے دجلہ کا پانی چھ ماہ تک سیاہ رہا، کیونکہ لاکھوں کتابوں کا سیاہی بھرا حبر اس میں بہا دیا گیا۔باقی کتابیں جلا دی گئیں تاکہ اسلامی علمی و دینی ورثہ ختم کر دیا جائے — ایسی تباہی کسی اور تہذیب میں نہیں دیکھی گئی۔
قاہرہ کی دار الحکمت آخر تک فاطمی خلافت کا علمی و ثقافتی مرکز رہی اور شیعی (اسماعیلی) تعلیمات کی نشر و اشاعت کرتی رہی۔1171ء میں جب صلاح الدین ایوبی نے فاطمی خلافت کا خاتمہ کیا، تو انھوں نے دار الحکمت کو شیعی تبلیغی ادارے سے ایک عام لائبریری میں بدل دیا۔یہ ادارہ بعد میں بھی قائم رہا، لیکن 1517ء میں عثمانیوں کے مصر پر قبضے کے وقت اس کے بیشتر نوادر استنبول منتقل کر دیے گئے۔
اس کے بعد ایک بڑے آتشزدگی نے دار الحکمت کی بیشتر کتابوں کو تباہ کر دیا اور فاطمی عہد کے آخر میں سودانی اور ترک فوجیوں کے مابین جھڑپوں کے دوران لوٹ مار بھی ہوئی۔جب صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں داخل ہوئے تو دار الحکمت میں تقریباً ایک لاکھ کتابیں باقی رہ گئی تھیں۔
{{حوالہ ویب}}:تحقق من التاريخ في:|آرکائیو تاریخ= (معاونت)