حکومت کے مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ مختلف ادوار میں حکومت مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسے کہبادشاہت جو پہلے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قسم تھا حکومت کا، اس کے بعد پھر ہمارے سامنےمدینہ ریاست کاخلافت سامنے آیا جو حکومت کا ایک نیا انداز تھا۔ اس کے بعدجمہوریت آئی جو آج کل کے دنیا کا 9/10 حصے سے بھی زائد ہے اس نظام میں براہ راست عوام اپنے رہنما منتخب کرتے ہیں۔ حکومت کا ایک طرزآمریت بھی ہوتی ہے جوجمہوریت کا متضاد ہے اور جس میں ڈنڈے کے زور پہ حکومت کی جاتی ہے شہری ہی بناتے ہیں، کسی فرد کی تباہی کا سبب بننے والے عناصر ہی ریاستوں کے زوال کا سبب بنتے ہیںافلاطون نے فرد اور رہ ایک دوسرے کا حصہ سمجھتا ہے کیونکہ وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ اچھے شہری ہی اچھی حکومت بناتے ہیں۔ جو عناصر کسی فرد کی تباہی کا باعث بنتے ہیں وہی اسباب ریاستوں کے زوال کی وجہ بنتے ہیں۔ افلاطون نے طریقِ حکومت کی پانچ اقسام بتلائی ہیں۔
1۔ اشرافیہ حکومت: اشرافیہ وہ طرز حکومت ہے جسے چند معزز لوگ مل کر چلاتے ہیں۔ یہ سب حکومت کے اہل ہوتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں خرابی کی وجہ سے انھیں زوال آ جاتا ہے۔
2۔ سرداروں کی حکومت: سرداری حکومت میں حکمران کسی صاحبِ عزت شخص کا بیٹا ہوگا۔ عقل کی بجائے وہ جذبات کا غلام ہو گا۔ موسیقی اور تقریروں سے لگائو رکھے گا۔ ایسا حکمران عموماً کسی بہادر باپ اور فلسفی ذہن کی اولاد ہوتا ہے لیکن عام طور پر اسے یہ گلہ ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے دولت نہیں کمائی۔ چنانچہ ابتدا میں تو وہ دولت سے نفرت کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ دولت کا شیدائی ہو جاتا ہے اور ان لوگوں کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے جو اس کے باپ سے مختلف ہوتے ہیں۔
3۔ دولت مندوں کی حکومت: دولت مندوں کی حکومت کو سقراط اولیگارشی کا نام دیتا ہے۔ یہ وہ طرز حکومت ہے جس میں دولت مند طبقہ اپنی دولت کے بل بوتے پر حکومت کرتا ہے۔ نجی ملکیت کارجحان بڑھنے لگتا ہے۔ دولت مند طبقہ دن بدن امیر ترین ہوتا جاتا ہے۔ دولت میں اضافہ کی دوڑ میں ہر حکمران ایک دوسرے سے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائداد حکومت کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ یہ طبقہ انصاف و عدل کی تعریف بھول جاتا ہے اور ریاست کا سارا نظام چند امیروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔
4۔ شخصی یا ڈکٹیٹر شپ: اس طرز میں طاقت کے زور پر حکومت کی جاتی ہے اور عوام پر حاکم مسلط ہوتا ہے جو ان پر اپنے فیصلے تھوپتا ہے، جن کی خلاف ورزی پر انھیں سخت ترین کارروائیوں کا سامنا کرنا ح جیسے عورت کسی عورت کے خوبصورت فراک کی تعریف کرے۔ سقراط کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں کوئی کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ غلطی ہو جائے تو ہر کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔ لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے اور سب مل کر حصہ بانٹتے ہیں ۔
سقراط اپنے دوستوں سے کہتا ہے میرے نزدیک اشرافیہ سب سے بہتر طرز حکومت ہے اور سب سے بدتر ڈکٹیٹر شپ۔ وہ دونوں طرز حکومت کی اچھائیاں اور برائیاں تاریخی امتیاز سے ثابت کرتا ہے چنانچہ وہ مثالی ریاست کے لیے اشرافیہ طرز حکومت یعنی ارسٹوکریسی کو لازمی قرار دیتا ہے۔