جولیئن کیلنڈر، رومن سلطنت کے مشہور بادشاہ جولیس سیزر کے حکم نامے سے یکم جنوری 45 قبل مسیح (45 BC) کو رائج کر دیا گیا۔ اُس وقت تک رومن کیلنڈر بہت بے ترتیب ہو چکا تھا — کبھی مہینے بدل دیے جاتے، کبھی سال لمبا کر دیا جاتا اور لوگ تہواروں کے دن بھولنے لگے تھے! جولیس سیزر نے ماہرِ فلکیات سوسجینیز (Sosigenes) کو بلایا، جو مصر کے شہراسکندریہ (Alexandria) سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس نے سورج کے گرد زمین کے چکر کا حساب لگا کر بتایا کہ ایک سال تقریباً 365.25 دن کا ہوتا ہے۔ تو سیزر نے فیصلہ کیا:ہر سال 365 دن کا ہوگا۔ہر چوتھے سال میں ایک دن کا اضافہ ہوگا (لیپ ایئر)، یعنی 366 دن۔یہ کیلنڈر سادہ، سیدھا اور اس وقت کے لیے زبردست ایجاد تھا۔ لیکن اس میں ایک چھوٹی سی غلطی تھی۔سینکڑوں سالوں بعد سائنس دانوں نے پتا لگایا کہ ایک سال اصل میں 365.2422 دن کا ہوتا ہے — یعنی جولیئن کیلنڈر ہر سال 11 منٹ زیادہ لے رہا تھا۔ اب 11 منٹ زیادہ نہیں لگتے، لیکن جب ہر سال 11 منٹ جمع ہوتے رہے، تو صدیوں بعد فرق کئی دنوں تک پہنچ جاتا ہے۔مثلاً: 1500 سال بعد، جولیئن کیلنڈر سورج کے اصل وقت (جیسا کہ موسمِ بہار کی آمد) سے تقریباً 10 دن پیچھے جا چکا تھا, جس سےسمر سولسٹس،ونٹر سولسٹس اورایکونوکس (یعنی سال کا سب سے بڑا، چھوٹا اور برابر دن) اپنے مقررہ تواریخ سے دس دن پہلے واقعہ ہو رہے تھے۔ ایسے میں کئی مذہبی تہوار مثلاًکرسمس اورایسٹر وغیرہ بھی فلکیاتی طور پر صحیح دن نہیں منائے جا رہے تھے۔ان معاملات کو دیکھتے ہوئے 1582 میں کیتھولک چرچ کے پوپ گریگوری (Pope Gregory XIII) نے فیصلہ کیا کہ اب کیلنڈر کو فلکیاتی حساب سے دوبارہ ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ انھوں نے جو نیا کیلنڈر متعارف کروایا، اسے آج ہمگریگورین کیلنڈر کہتے ہیں — اور یہی آج دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے۔
گریگورین کیلنڈر کی تیاری کے لیے پوپ نے کئی اقدامات کیے۔
پہلا اس نے 45 قبل مسیح سے 1582ء تک جمع ہونے زائد دنوں کو کاٹ دیا: جب گریگورین کیلنڈر آیا، تو پوپ نے اعلان کیا کہ 4 اکتوبر 1582 کے بعد سیدھا 15 اکتوبر ہوگا! یعنی بیچ کے 10 دن غائب کاٹ دیے گئے۔ دوسرا اس نے لیپ ایئر کو فلکیاتی لحاظ سے مزید بہتر کیا اب ہر چوتھا سال تو لیپ ایئر ہوتا ہے، لیکن ہر 100 سال میں ایک سال بغیر لیپ والا آتا ہے — یعنی اگر سال 1700، 1800 یا 1900 ہو، تو وہ لیپ ایئر نہیں ہوں گے — مگر اگر وہ 400 سے پورے تقسیم ہوتے ہوں (مثلاً 1600 یا 2000)، تو وہ لیپ ایئر ہوں گے۔
مختلف ملکوں کے گریگورین کیلنڈر اپنانے میں مذہب، سیاست اور عوامی رد عمل نے اس میں بڑا کردار ادا کیا۔ مختلف ممالک نے مختلف سالوں (اور صدیوں) میں اس جولیئن کیلنڈر کو ترک کرکے گریگورین کیلنڈر کو اپنایا۔
1582 میں سب سے پہلے اپنانے والے ممالکاٹلی،اسپین،پرتگال اورپولینڈ تھے (کیونکہ یہ کیتھولک تھے): ان ملکوں نے پوپ گریگوری XIII کی بات مان کر فوراً کیلنڈر بدل دیا۔ ان ممالک نے 4 اکتوبر 1582 کے بعد سیدھا 15 اکتوبر کر دیا، یعنی 10 دن کاٹ دیے گئے۔
1583–1600 کے دور میں کچھ دوسرے کیتھولک ممالک نے بھی گریگورین کیلنڈر جلد ہی اپنا لیا جن میں فرانس (دسمبر 1582 میں کچھ علاقوں میں، مکمل 1583 تک)، لکسمبرگ، بیلجیئم، ہالینڈ (کیتھولک حصے) اور آسٹریا (کچھ حصے) وغیرہ شامل تھے۔
پروٹسٹنٹ ممالک نے پوپ کی بات ماننے سے ہچکچاہٹ محسوس کی، اس لیے انھوں نے دیر سے کیلنڈر بدلاڈنماک اورناروے نے 1700 میںجرمنی اس وقت کئی ریاستوں پر مشتمل تھا اس لیے الگ الگ علاقوں نے 1700 سے 1775 کے درمیان نئے کیلنڈر کو رائج کیا۔
برطانیہ اور اس کی کالونیز (جیسےامریکہ) نے 1752 میں نئے کیلنڈر کو رائج کیا۔ 2 ستمبر 1752 کے بعد سیدھا 14 ستمبر کر دیا گیا — 11 دن غائب ہو گئے۔ اس وقت امریکا برطانوی کالونی تھا، تو وہاں بھی یہی تبدیلی ہوئی۔ یہ احتجاج یہاں تک بڑھا کہ کچھ جگہوں پر "Give us our eleven days!" کے نعرے بھی لگے! "ہماری زندگی کے 11 دن کہاں گئے؟! ہمیں ہمارے دن واپس دو!"
مشرقی یورپ اورآرتھوڈوکس چرچ جولین کیلنڈر اپنائے رکھنے پر بضد رہے اور گریگورین کے اپنائے جانے پر صدیوں تک مزاحمت کرتے رہے۔ اس لیے مشرقی یورپ اور آرتھوڈوکس ممالک نے سب سے آخر میں گریگورین کیلنڈر اپنایا جن میں یونان نے 1923 میں روس نے 1918 میں (روس میں یہ تب بدلا گیا جببولشیویک انقلاب آ چکا تھا)، بلغاریہ نے 1916 میں اور رومانیہ نے 1919 میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس میں انقلابِ اکتوبر (October Revolution) درحقیقت نومبر میں ہوا تھا — کیونکہ روس تب تک جولین کیلنڈر پر تھا۔