تاجِکِسْتان (تاجک: Тоҷикистон،روسی: Таджикистан)وسط ایشیا کا ایک خشکی میں گھرا ہوا (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں جنوب میںافغانستان، مغرب میںازبکستان، شمال میںکرغیزستان اور مشرق میںچین سے ملتی ہیں۔ یہ تاجک نسل کے باشندوں کا وطن ہے، جن کی ثقافتی و تاریخی جڑیںایران میں پیوست ہیں اور یہفارسی سے انتہائی قربت رکھنے والی زبانتاجک بولتے ہیں۔سامانی سلطنت کا گہوارہ رہنے والی یہ سرزمین 20 ویں صدی میںسوویت اتحاد کی باضابطہ جمہوریہ رہی جسےتاجیک سوویت اشتراکی جمہوریہ (Tajik Soviet Socialist Republic) کہا جاتا تھا۔
سوویت اتحاد سے آزادی ملنے کے بعد تاجیکستان1992ء سے1997ء تک زبردست خانہ جنگی کا شکار رہا۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سیاسی استحکام، غیر ملکی امداد اور ملک کے دو بڑے قدرتی ذرائعکپاس اورالمونیم نے ملکی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ سرزمین، جہاں اب تاجکستان واقع ہے، 4 ہزارقبل مسیح سے مستقل آباد ہے۔ یہ علاقہ تاریخ میں مختلف سلطنتوں کے زیر نگیں رہا ہے۔ قبل از مسیح میں یہ علاقہباختر کی سلطنت کا حصہ تھا۔ساتویں صدی عیسوی میںاسلام یہاں بھی داخل ہوا۔عباسی دور کے آخر میں جب سلطنت اسلامیہ کے مختلف حصوں میں نئی ریاستیں وجود میں آئیں تو اولین ریاستوں میں سے ایک ریاستسامانی سلطنت یہاں وجود میں آئی تھی جس نےسمرقند اوربخارا کے شہر بنائے جو تاجکوں کے ثقافتی مراکز بنے۔ بعد ازاںمنگولوں نے وسط ایشیا پر عارضی طور پر قبضہ کیا۔سلطنت روس کا حصہ بننے سے پہلے یہ علاقہامارت بخارا میں شامل تھا۔
19 ویں صدی میں سلطنت روس نے وسط ایشیا پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے اور تاجکستان پر بھی قبضہ کر لیا۔1917ء میںزار روس کی سلطنت کے خاتمے کے بعد وسط ایشیا میںبسماچی تحریک کا آغاز ہوا جنھوں نے آزادی کے لیےسرخ افواج کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ لیکن اس تحریک کو کچل دیا گیا اور یہ علاقہ سوویت اتحاد کا حصہ بن گیا۔ اشتراکی دور میں یہاں مذہب بالخصوص اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا اور مساجد و عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا۔
1924ء میںتاجک خود مختار اشتراکی جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا گیا جوازبکستان کا حصہ تھی لیکن1929ء میںتاجک سوویت اشتراکی جمہوریہ کو دستوری جمہوریہ کے طور پر الگ کیا گیا۔ماسکو نے وسط ایشیا کی ریاستوں میں سب سے کم تاجکستان پر توجہ دی اور یہ طرز زندگی، تعلیم اور صنعت میں وسط ایشیا کی تمام ریاستوں میں سب سے پیچھے رہی۔1970ء کی دہائی میں مختلف نظریات کی حامل خفیہ اسلامی جماعتیں قائم ہوئیں اور1980ء کی دہائی کے اواخر میں تاجک قوم پرستوں نے اضافی حقوق دینے کا مطالبہ کیا۔1990ء تک علاقے میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ پیدا نہیں ہوئی۔ اگلے ہی سال سوویت اتحاد ٹوٹ گیا اور تاجکستان نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
آزادی کے فوراً بعد ملک بد ترین خانہ جنگی کا شکار ہوا جس میں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے قبائل آمنے سامنے ہو گئے۔ اس عہد میں غیر مسلم آبادی، جو زیادہ تر روسیوں اور یہودیوں پر مشتمل تھی، ایذا رسانی کے خوف، بڑھتی ہوئی غربت اور مغرب میں بہتر اقتصادی مواقع ملنے کے باعث ملک سے فرار ہو گئی۔1992ء میںامام علی رحمانوف بر سر اقتدار آئے اور اب تک ملک کے حکمران ہیں۔1997ء میں رحمانوف اور حزب مخالف کی جماعتوں (تاجک متحدہ حزباختلاف) کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔1999ء میں پر امن انتخابات کا انعقاد ہوا اور رحمانوف ایک مرتبہ پھر ملک کے صدر قرار پائے۔ حزب مخالف نے ان انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے روسی افواج موسم گرما2005ء تک ملک میں موجود رہیں۔11 ستمبر2001ء کے حملوں کے بعد سے امریکی و فرانسیسی افواج اس ملک میں موجود ہیں۔
تاجکستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور رقبے کے لحاظ سے وسط ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔سلسلہ کوہ پامیر اس ملک کے بیشتر حصے پر پھیلا ہوا ہے اور ملک کا پچاس فیصد سے زائد کا علاقہ سطح سمندر سے 3 ہزارمیٹر (تقریباً 10 ہزارفٹ) سے اونچا ہے۔ کم بلند زمین کا واحد علاقہ شمال میںوادی فرغانہ اور جنوبیکافرنگان اوروخش کی وادیاں ہیں جوآمو دریا کو تشکیل دیتی ہیں اور یہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ دوشنبہ جنوبی ڈھلوانوں پر وادی کافرنگان کے اوپر واقع ہے۔
تاجکستان کے تین بیرونی علاقے (exclave) بھی ہیں جو وادی فرغانہ میں واقع ہیں جہاں کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان آپس میں ملتے ہیں۔ ان بیرونی علاقوں میں سب سے بڑا وروخ ہے جس کی آبادی 23 سے 29 ہزار ہے جس میں سے 95 فیصد تاجک اور 5 فیصد کرغز ہیں۔ یہ علاقہ کرغز علاقے میں اسفارا سے 45 کلومیٹر جنوب میں دریائے کرفشیں کے کنارے واقع ہے۔ دونوں بیرونی علاقہ کرغزستان میں کائراغچ کے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی آبادی ہے جبکہ آخری سروان کا کاؤں ہے جو ایک زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ ہے (15 کلومیٹر طویل اور ایک کلومیٹر عریض) جو انگرین سےخوقند کے درمیانی راستے پر واقع ہے۔
آزادی کے فوراً بعد تاجکستان مختلف فریقین کے درمیان لڑائی کے باعث خانہ جنگی کا شکار بن گیا، جنھیں مبینہ طور پر ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ خانہ جنگی کے دوران تمام 4 لاکھ روسی باشندے، سوائے 25 ہزار کے، اس علاقے سے روس چلے گئے۔1997ء میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور1999ء میں پر امن انتخابات کے ذریعے مرکزی حکومت قائم ہوئی۔
تاجکستان باضابطہ طور پر ایکجمہوریہ ہے جہاں صدر اور پارلیمان منتخب کرنے کے لیے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ آخری انتخابات 2005ء میں ہوئے اور گذشتہ تمام انتخابات کی طرح ان انتخابات کو بھی بین الاقوامی مبصرین نے غیر منصفانہ قرار دیا۔
حزب اختلاف کی کئی اہم جماعتوں نے6 نومبر2006ء کو ہونے والے انتخابات کا مقاطعہ کیا جن میں 23 ہزار اراکین پر مشتملاسلامی نشاۃ ثانیہ پارٹی بھی شامل تھی۔تاجکستان اس وقت تک وسط ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں متحرک حزب اختلاف موجود ہے۔ پارلیمان میں حزب اختلاف کے اراکین کا بسا اوقات حکومتی اراکین سے تصادم ہوتا رہتا ہے تاہم اس سے بڑے پیمانے پر کوئی عدم استحکام پیدا نہیں ہوا۔
تاجکستان اشتراکی عہد ہی سے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ایک غریب ریاست تھی اور آزادی کے فوری بعد خانہ جنگی نے اس کی معیشت کو لب گور پہنچا دیا۔2000ء میں بحالی کے منصوبوں کی مدد کے کا سب سے اہم ذریعہ بین الاقوامی امداد ہی تھی۔ بین الاقوامی امداد نے خطے میں غذائی پیداوار کی مسلسل کمی اور قحط کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔21 اگست2001ء کوصلیب احمر نے اعلان کیا کہ قحط تاجکستان کو نشانہ بنا رہا ہے اور تاجکستان اور ازبکستان کے لیے بین الاقوامی امداد کا مطالبہ کیا۔
خانہ جنگی کے بعد تاجکستان معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق2000ء سے2004ء کے درمیان تاجکستان کےجی ڈی پی میں 9.6 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تا جکستان کی معیشت میں آمدنی کے بنیادی ذرائع ایلومینیم کی پیداوار، کپاس کی کاشت اور بیرون ملک مقیم تاجک باشندوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ہیں۔ تاجکستان کے جی ڈی پی کا تقریباً 47 فیصد حصہ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے آتا ہے۔ بیرون ملک مقیم باشندوں میں 90 فیصد روس میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ملک کا صرف 7فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اور کپاس سب سے اہم زرعی پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ اجناس، پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ تاجکستان اپنی خوراک کی ضروریات کا تقریباً 60 فیصد حصہ درآمد کرتا ہے۔معدنیات میں سونا، چاندی، یورینیم اور ایلومینیم زیادہ اہم ہیں۔ ایلومینیم کی صنعت حکومتی تحویل میں ہے اور تاجکستان کا ایلومینیم پلانٹ وسطی ایشیا میں سب سے بڑا پلانٹ ہے۔
تاجکستان کی آبادیجولائی2006ء کے اندازوں کے مطابق 7،320،815 ہے۔ سب سے بڑا نسلی گروہ تاجک ہے، جبکہ ازبک باشندوں کی بڑی تعداد بھی تاجکستان میں رہائش پزیر ہے۔ روسیوں کی تھوڑی سی آبادی بھی یہاں رہتی ہے جو ہجرت کے باعث کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کی باضابطہ زبان تاجک فارسی ہے جبکہ کاروباری و حکومتی معاملات میں روسی زبان بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ غربت کے باوجود تاجکستان میں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے اور تقریباً 98 فیصد آبادی لکھنے و پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک کی اکثر آبادی اسلام کی پیروی کرتی ہے جن میں سنی بہت بڑی اکثریت میں ہیں جبکہشیعہ مختصر اقلیت میں ہیں۔ بخارییہودیدوسری صدی قبل مسیح سے اس علاقے میں رہتے ہیں تاہم آج ان کی تعداد چند سو ہی ہے۔
اسلام، پورے وسطی ایشیا میں ساتویں صدی عیسوی سے، جب سے عربوں کے ذریعے یہاں اسلام پہنچا، اہم مذہب ہے۔ اسلام تب سے تاجکی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے تاجکستان ایک سیکولر ملک ہے،[5] سوویت دور کے دوران میں، معاشرے کو مذہب بے زار کرنے کی کوششوں کو بڑی حد تک ناکام ملی اور سوویت دور کے بعد مذہبی رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔۔ تاجکستان کے مسلمانوں کی اکثریت سنی اسلام پر عمل کرتی ہے اور اسماعیلی نزارے شیعیون کی بھی ایک معمولی تعداد موجوھ ہے۔ تاجکستان میں دوسرا بڑا مذہب روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا ہے، اگرچہ 1990ء کی دہائی کی ابتدا میں ان کی تعداد کم ہوئی۔ کچھ دیگر مسیحی فرقے بھی معمولی تعداد میں موجود ہیں جب کہ یہودیوں کی بھی مختصر تعداد ہے۔[6]