یورپی ثقافت کے بھرپور اثرات کے باعث اسے "جنوب کا پیرس" یا "جنوبی امریکا کا پیرس" بھی کہا جاتا ہے۔ شہر اپنے شاندار طرز تعمیر، شبینہ زندگی اور ثقافتی سرگرمیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہلاطینی امریکہ کے امیر ترین شہروں میں سے ایک ہے، جہاں درمیانے طبقے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد رہائش پزیر ہے۔
19 ویں صدی میں متعدد اندرونی تنازعات کے بعد، بوئنوس آیرس کو وفاق کے زیر انتظام لے لیا گیا اور اسے بوئنوس آیرس صوبے سے الگ کر دیا گیا۔ شہر کی حدود کو توسیع دیتے ہوئے بلگرانو اور فلوریس کے سابق قصبہ جات کو شہر میں شامل کر دیا گیا جو اب شہر کے نواحی علاقے ہیں۔
ہسپانوی جہاز راںہوان دیاز سولس پہلے یورپی تھے جو1516ء میں ریو دے لا پلاتا میں پہنچے، لیکن مقامی قبائل کے حملے میں ہلاکت کے باعث ان کا یہ سفر ناکام ہو گیا۔
اس شہر کو2 فروری1536ء کوسونے کی لالچ میں یہاں آنے والے ہسپانوی مہم جوپیدرو دی میندوزا نے بسایا۔ شہر کا نام بیون آئر (ہوائے خوشگوار) رکھا گیا۔
مقامی افراد کی جانب سے پے در پے حملوں نے یہاں کے نو آباد افراد کو علاقہ چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا اور1541ء تک یہ علاقہ غیر آباد ہو گیا۔ پھر1580ء میںہوان دی گارے نے دوسری (اور مستقل) نو آبادی بسائی۔
اپنے ابتدائی ایام ہی سے اس شہر کی ترقیتجارت پر منحصر تھی۔ 17 ویں اور 18 ویں صدی میں ہسپانویوں نے زور دیا کہ یورپ کے لیے تمام تر تجارتلیما،پیرو سے ہو کر گذرے تاکہ اس پرمالیہ وصول کیا جائے۔ اس منصوبے نے بیونس آئرس کے تاجروں کی محنتوں پر پانی پھیرنا شروع کیا اور مقامی افراد میں نفرت کو جنم دیا اس لیے انھوں نے ناجائز طریقوں سے تجارت کرنا شروع کر دی۔
اس عدم استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئےچارلس ثالث از ہسپانیہ نے تجارتی پابندیوں کو نرم کیا اور1700ء کی دہائی کے اواخر میں بیونس آئرس کو ایک آزاد بندرگاہ کا درجہ دے دیا۔ لیکن اس کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے اور مقامی افراد ہسپانیہ سے آزادی کے خواہاں زیادہ نظر آئے۔
1806ء اور1807ء میںبرطانیہ کی جانب سے ریو دے لا پلاتا پر ہونے والے دو حملوں کو مقامی رضاکار فوج نے ناکام بنا دیا۔ تاہم25 مئی1810ء کو مقامی افراد نے بیونس آئرس سے ہسپانوی نائب السلطنت (وائسرائے) کو نکال باہر کیا اور ایک عبوری حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس تاریخ کو اب قومی تعطیل کی جاتی ہے جو یومِ انقلابِ مئی کہلاتا ہے۔ہسپانیہ سے آزادی کا باضابطہ اعلان1816ء میں کیا گیا تھا۔
19 ویں صدی میں دو مرتبہ شہر کا بحری محاصرہ کیا گیا، پہلا محاصرہ1838ء سے1840ء کے دورانفرانس نے جبکہ دوسرا1845ء سے1848ء تک انگریزی فرانسیسی مشترکہ بحری بیڑے نے کیا تاہم دونوں محاصرے ناکام ہو گئے۔
19 ویں صدی کے اواخر میںریل کی پٹری کی تعمیر نے شہر کی اقتصادی قوت میں اضافہ کیا اور یوں یہ تیزی سے ایک کثیر آبادی اور کثیر الثقافتی شہر بن گیا۔
1920ء کی دہائی میں بیونس آئرس یورپی مہاجرین کی پسندیدہ قیام گاہ بن گیا لیکن اسی دوران ملحقہ صوبوں اور پڑوسی ممالک سے غریبوں کی بڑی تعداد نے بھی بیونس آئرس کا رخ کیا، جنھوں نے شہر کے صنعتی علاقوں میں کچی آبادیاں قائم کر کے ڈیرے ڈال لیے جو آج بھی شہر کا ایک اہم سماجی مسئلہ ہیں۔
16 جون1955ء کو صدر پیرون کو عہدے سے ہٹا دینے والی فوجی بغاوت میں پلازا دے مایو پر بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 365 شہری ہلاک ہوئے۔ یہ واحد موقع ہے جب شہر پر فضائی حملہ ہوا۔
1970ء کی دہائی میں بائیں بازوں کی انقلابی تحاریک اور دائیں بازو کے نیم عسکری گروہہوں کے درمیان متعدد لڑائیاں ہوئیں۔ ہوان پیرون کے انتقال کے بعد1974ء میں دائیں بازو کے پسندیدہ آئزابیل پیرون ارجنٹائن کے صدر بنے۔
1976ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع میں لاکھوں افراد غیر قانونی حراست میں رکھے گئے، جبکہ ہزاروں کو قتل کر دیا گیا۔
پاپ جان پول دوم نے دو مرتبہ شہر کا دورہ کیا، ایک مرتبہ1982ء میںجنگ فاک لینڈ کے آغاز کے موقع پر اور دوسری مرتبہ1987ء میں جب شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا مجمع انھیں دیکھنے کے لیے امنڈ پڑا۔17 مارچ1992ء کو شہر کے اسرائیلی سفارت خانے میں بم دھماکے کے نتیجے میں 29 افراد ہلاک اور 242 زخمی ہوئے۔18 جولائی1994ء کو ایک اور دھماکے میں متعددیہودی تنظیموں کے دفاتر کی حامل عمارت تباہ ہوئی اور 85 افراد ہلاک ہوئے۔
30 دسمبر2004ء کو ری پبلکا کروماگنون کنسرٹ ہال میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 200 افراد ہلاک ہوئے، جو ارجنٹائن کی تاریخ کا سب سے مہلک غیر قدرتی سانحہ ہے۔ اس سانحے کے نتیجے میں دو سال بعد شہر کے ناظم کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
بیونس آئرس ارجنٹائن کا مالیاتی، صنعتی، تجارتی و ثقافتی مرکز ہے۔ اس کی بندرگاہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ ریو دے لا پلاتا کے جہاز رانی کے قابل ہونے کے باعث بیونس آئرس کی بندرگاہ سے شمال مشرقی ارجنٹائن،برازیل،یوروگوئے اورپیراگوئے کے لیے بھی بحری جہاز جاتے ہیں۔
بیونس آئرس کاموسم مرطوب اور معتدل ہے۔سال میں چار واضع موسم ہوتے ہیں اور سال کا اوسط درجہ حرارت 18 درجےسینٹی گریڈ ہے۔ گرم ترین مہینہجنوری ہے جس میں اوسط درجہ حرارت 25.4 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ہوا میں نمی کا تناسب سارا سال ہی قریباً 72٪ کی بلند سطح پر رہتا ہے جس کے باعث گرمی کا احساس اصل درجہ حرارت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ شہر میں تاریخ کا بلند ترین درجہ حرارت 29 جنوری 1957 کو 43.3 درجہ سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔[16].موسمِ بہار (ستمبر سےنومبر) اورموسمِ خزاں (مارچ سےمئی) میں درجہ حرارت قریباً 17 درجے سینٹی گریڈ کی خوشگوار اور معتدل سطح پر رہتا ہے۔ ہوا میں نمی کے باعث موسمِ خزاں اورسرما میں گہریدُھند چھائی رہتی ہے۔[17].
جولائی سال کا سرد ترین مہینہ ہوتا ہے جس میں اوسط درجہ حرارت 11.1 سینٹی گریڈ ہوتا ہے اورانٹارکٹکا سے تقریباً ہر سال ہی سردی کی لہریں آتی ہیں۔ تیز ہواؤں کے باعث سردی کا احساس اصل درجہ حرارت کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ شہر میں تاریخ کا کم ترین درجہ حرارت 9 جولائی 1918 کو -5.4 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔[18]
شہر میں سالانہ 1214.6ملی میٹربارش ہوتی ہے۔[19] بارش کسی بھی وقت ہو سکتی ہے اور اس کے لیے کوئی موسم مخصوص نہیں جبکیژالہ باری بھی عام ہے۔
فٹ بال کی تاریخ کی معروف شخصیتڈیاگو میراڈونا اسی شہر کے نواح میں پیدا ہوئے اور تقریباً تمام یہیں پلے بڑھے۔
بیونس آئرس تین مواقع پرگرمائی اولمپک کھیلوں کی میزبانی کا امیدوار رہا۔1956ء میں یہ محض ایک ووٹ سےملبورن،آسٹریلیا کے ہاتھوں ہار گیا۔1968ء کے گرمائی اولمپک کھیلوں کی میزبانی کے حصول میں بھی شہر ناکام رہا اور یہ کھیلمیکسیکو شہر میں منعقد ہوئے، جو اب تکلاطینی امریکہ میں منعقد ہونے والے واحد اولمپک کھیل ہیں۔2004ء کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی یونانی شہرایتھنز کو ملی۔ اس طرح ارجنٹائنبین الاقوامی اولمپک انجمن کا واحد بانی رکن ہے جو ابھی تک کسی اولمپک کھیل کی میزبانی نہیں کر پایا۔