بَنگْلَہ دیش (بنگالی: বাংলাদেশ)، سابقمشرقی پاکستان،جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ یہ تین اطراف سےبھارت سے ملا ہوا ہے۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہاسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اب جنوب میں اس کی سرحدیںخلیج بنگال سے ملتی ہیں۔بھارت کی ریاست کو ملاکر بنگالی اسے اپنا نسلی وطن کہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا مطلب ہے "بنگال کا ملک"۔
بنگلہ دیش کی موجودہ سرحدیں1947ء میںتقسیم ہند کے موقع پر وجود میں آئیں جب یہ پاکستان کے مشرقی حصے کے طور پربرطانیہ سے آزاد ہوا۔ پاکستان کے دونوںمشرقی ومغربی حصوں کے درمیان میں 1600کلومیٹر (ایک ہزارمیل) کا فاصلہ حائل تھا۔ مشترکہ مذہب ہونے کے باوجود پاکستان کے دونوں بازوؤں میں نسلی و لسانی خلیج بڑھتی گئی، جسے مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش حکومت نے مزید وسیع کر دیا جو بالآخر1971ء میں ایک خونی جنگ کے بعدشیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بنی۔ اس جنگ میں بنگلہ دیش کو بھارت کی مکمل مدد حاصل رہی۔ اور بھارت کی سازش کے ذریعے بنگلہ دیش وجود میں آیا شیخ مجیب الرحمن کو بھارت نے ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا آج موجودہ بنگلہ دیش میں بہارت زبردستی اپنا حکم منواتا ہے اور بنگلہ دیش کی کٹھ پتلیوزیر اعظمشیخ حسینہ واجد انڈیا کی ایجنٹ بنی ہوئی ہے جس طرح اس کے والد کا انجام ہوا اس کا انجام بھی ویسا ہی ہوگا گا بنگلہ دیش کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی پاکستان سے محبت بستی ہے۔ایک لحاظ سے پاکستان کو توڑنے میں بھارتی حکمرانوں یا شیخ مجیب الرحمٰن سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں اور فوج کی غلط جنگی حکمت عملی کا ہاتھ تھا۔ 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی گئی۔ لیکن مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی کے سربراہ ذو الفقار علی بھٹو نے اقتدار کی کشش لالچ اور بنگالیوں کو غدار اور خود سے کم تر سمجھنے کی وجہ سے عام انتخابات میں عوامی لیگ کیکامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور فوج نے بھی بھٹو کی حمایت جاری رکھی یوں شیخ مجیب الرحمٰن کو وزیر اعظم پاکستان بننے کا حق نہیں دیا گیا حالانکہ وہ اقتدار کے حقدار تھے۔ لیکن پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد ذو الفقار علی بھٹو کو پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم تسلیم کیا گیا جو سراسر جھوٹ ہے اس لیے کہ اگر 70ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جاتا تو ظاہر ہے ذو الفقار علی بھٹو نہیں بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہوتے۔ بہرحال شیخ مجیب الرحمٰن کی اقتدار سے نا جائز محرومی نے ان کے ذہن میں پاکستان سے آزادی اور بنگلہ دیش بنانے کے عزم کو مزید پختہ کر دیا اور انھوں نے ہر حالت میں پاکستان توڑنے کی ٹھان لی۔ دوسری طرف بھارت بھی جس کو نظریہ پاکستان سے شدیدتکلیف تھی اس قسم کے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا۔ لہذا بھارتی حکمرانوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی ہر طرح سے حمایت کی۔ انجام کار مشرقی پاکستان میں موجود فوج پر بھارت کے حمایت اور تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نے حملے شروع کر دیے۔ ان گوریلوں کو تربیت دینے کا ذمہ داری بھارتی فوج کےمیجر جنرل شاہ بیگ سنگھ کی تھی جو بعد میں سکھوں کے مقدس مقامگولڈن ٹیمپل پر ہونے والے بھارتی فوج کےآپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میں مارے گئے۔ شروع شروع میں ہونے والی جھڑپیں بعد میں ایک بھرپور جنگ میں بدل گئیں۔ اس جنگ میں افواج پاکستان نے کم تعداد اور وسائل کے باوجود دشمن کا نہایت جرات اور دلیری سے مقابلہ کیا۔ پاکستانی فوج کے افسران اور سپاہیوں کی بہادری اس قدر زبردست تھی کہ اس سے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی میدان جنگ میں بہادری کی مثالیں تازہ ہو گئیں۔ لیکن پھر بھی کم تعداد اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے فوج کے کمانڈر جنرل نیازی کوڈھاکہ کے پیریڈ گراؤنڈ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لاکھوں بھارتی فوجیوں اور مکتی باہنی کے کارندوں کے سامنے بھلا ایک ڈویژن فوج محدود ہتھیاروں کے ساتھ کب تک ٹکتی۔ لہذا شکست مقدر بنی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ جس پر بعد میں مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نےاسلام آباد سے نیویارک تک خوب ٹسوے بہائے اور پاکستان توڑنے کی ذمہ داری سے خود کو علاحدہ کرنے کی خوب اداکاری کی۔بنگلہ دیش بنے پچاسسال سے زائد کا عرصہ بیت چکا لیکن ابھی تک پاکستانی عوام کو اس سوال کا جواب ہی نہیں مل پایا کہ پاکستان کو سیاست دانوں نے توڑا یا فوج نے یا دونوں نے مل کر؟ دونوں فریق ایک دوسرے کو پاکستان توڑنے کا ذمہ قرار دیتے ہیں۔ فوج سیاست دانوں کو اور سیاست دان ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کو۔
بنگلہ دیش اپنے قیام سے مستقل سیاسی افراتفری کا شکار ہے اور اب تک 13 مختلف حکومتیں بر سر اقتدار آ چکی ہیں اور کم از کم چارفوجی تاخت (مارشل لا) ہو چکے ہیں۔
بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے دنیا کاساتواں بڑا ملک ہے اور تقریباً 144،000 مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 94 واں ملک ہے۔ دنیا کا گنجان آباد ترین آبادی کے حامل ممالک میں سے ایک ہے بلکہ اگر چھوٹے موٹے جزائر یا شہری حکومتوں کو فہرست سے نکال دیا جائے تو یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن جاتا ہے جس کے ہر مربع کلومیٹر پر 998.6 (یا ہر مربع میل پر 2،639 افراد) بستے ہیں۔ یہ تیسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اس کی آبادی ہندوستان میں مقیم اقلیتی مسلمانوں سے کچھ کم ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہدریائے گنگا وبرہمپتر کے زرخیز دہانوں (ڈیلٹا) پر واقع ہے۔مون سون کی سالانہ بارشوں کے باعث یہاںسیلاب اورطوفان معمول ہیں۔ بنگلہ دیشجنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) اور BIMSTEC کا بانی رکن اوراسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) اورترقی پزیر 8 (ڈی -8) کا رکن ہے۔
اسلام بنگلہ دیش کاریاستی مذہب ہے۔[9][10] بنگلہ دیشی آئین مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور قطع نظر مذہب کے تمام بنگلہ دیشی شہریوں کو مساوی بنیادی حقوق دیتا ہے۔[11][12]
2011ء کی مردم شماری کے مطابقمسلمان کل آبادی کا 90%، جب کہہندو 8.5% اور 1% دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔[13] 2003ء کے ایک جائزے سے تصدیق کی گئی کہ شہریخود کی شناخت مذہب سے کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش صرف اسلام، ہندومت، مسیحیت اور بدھ مت مذاہب ہیں۔[14]
بنگلہ' یابنگالی بنگلہ دیش میں بولی جانی والی اہم زبان ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔1971ء تک بنگلہ دیشپاکستان کا حصہ تھا اور اس کی پہچانمشرقی پاکستان کے طور پر تھی۔اردو کو یہاں کی مقامیبنگالی زبان کی طرح سرکاری حمایت حاصل تھی۔ تاہم 1971ء کے بعد کے واقعات جن کے بعد جب یہ ملک وجود میں آیا، اردو زبان کو یہاں کی پہچان سے متصادم سمجھا گیا اور یہاں کی بہاری آبادی جو اردوگو ہے، غیر شہری سمجھا گیا۔ موجودہ دور میں اردو داں آبادی کی تعداد چار لاکھ بتائی گئی ہے۔[15]
↑"NATIONAL SYMBOLS→National مارچ"۔Bangladesh Tourism Board۔ Bangladesh: Ministry of Civil Aviation & Tourism۔ 2018-12-25 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-06-19۔In 13 جنوری 1972, the ministry of Bangladesh has adopted this song as a national marching song on its first meeting after the country's independence.