Movatterモバイル変換


[0]ホーム

URL:


مندرجات کا رخ کریں
ویکیپیڈیاآزاد دائرۃ المعارف
تلاش

بنگلہ دیش

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عوامی جمہوریۂ بنگلہ دیش
গণপ্রজাতন্ত্রী বাংলাদেশ
پرچم بنگلہ دیش
نشان of بنگلہ دیش
'ترانہ: 
'
مقام بنگلہ دیش
دار الحکومت
اور سب سے بڑا شہر
ڈھاکہ
سانچہ:Bwwyj
سرکاری زبانیںبنگالی
نسلی گروہ
مذہب
آبادی کا نامبنگلہ دیشی
حکومتوحدانی ریاستپارلیمانی نظاماسلامی
• صدر
عبد الحامد
حسینہ واجد
شیریں شرمین چودھری
سید محمود حسین
مقننہجاتیہ سنسد
14–15 اگست 1947
• پاکستان سے آزادی
26 مارچ 1971
16 دسمبر 1971
4 نومبر 1972
31 جولائی 2015
رقبہ
• کل
147,610[3] کلومیٹر2 (56,990 مربع میل) (92 واں)
• پانی (%)
6.4
آبادی
• 2017 تخمینہ
163,187,000[4] (8th)
• 2011 مردم شماری
149,772,364[5] (8th)
• کثافت
1,106/کلو میٹر2 (2,864.5/مربع میل) (10th)
جی ڈی پی (پی پی پی)2020 تخمینہ
• کل
$686.598 billion[6] (29 واں)
• فی کس
$5,453[6] GDP_PPP_per_capita_rank = 136 واں
جی ڈی پی (برائے نام)2020 تخمینہ
• کل
$347.991 billion[6] (39 واں)
• فی کس
$2,067[6] (148 واں)
جینی (2016)32.4[7]
میڈیم
ایچ ڈی آئی (2016)Increase 0.614[8]
میڈیم · 135
کرنسیبنگلہ دیشی ٹکا () (BDT)
منطقۂ وقتیو ٹی سی+6 (بنگلا دیش معیاری وقت)
تاریخ فارمیٹ
ڈرائیونگ سائیڈبائیں
کالنگ کوڈ+880
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈیBd.
۔বাংলা
ویب سائٹ
bangladesh.gov.bd

بَنگْلَہ دیش (بنگالی: বাংলাদেশ)، سابقمشرقی پاکستان،جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ یہ تین اطراف سےبھارت سے ملا ہوا ہے۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہاسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اب جنوب میں اس کی سرحدیںخلیج بنگال سے ملتی ہیں۔بھارت کی ریاست کو ملاکر بنگالی اسے اپنا نسلی وطن کہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا مطلب ہے "بنگال کا ملک"۔

بنگلہ دیش کی موجودہ سرحدیں1947ء میںتقسیم ہند کے موقع پر وجود میں آئیں جب یہ پاکستان کے مشرقی حصے کے طور پربرطانیہ سے آزاد ہوا۔ پاکستان کے دونوںمشرقی ومغربی حصوں کے درمیان میں 1600کلومیٹر (ایک ہزارمیل) کا فاصلہ حائل تھا۔ مشترکہ مذہب ہونے کے باوجود پاکستان کے دونوں بازوؤں میں نسلی و لسانی خلیج بڑھتی گئی، جسے مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش حکومت نے مزید وسیع کر دیا جو بالآخر1971ء میں ایک خونی جنگ کے بعدشیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بنی۔ اس جنگ میں بنگلہ دیش کو بھارت کی مکمل مدد حاصل رہی۔ اور بھارت کی سازش کے ذریعے بنگلہ دیش وجود میں آیا شیخ مجیب الرحمن کو بھارت نے ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا آج موجودہ بنگلہ دیش میں بہارت زبردستی اپنا حکم منواتا ہے اور بنگلہ دیش کی کٹھ پتلیوزیر اعظمشیخ حسینہ واجد انڈیا کی ایجنٹ بنی ہوئی ہے جس طرح اس کے والد کا انجام ہوا اس کا انجام بھی ویسا ہی ہوگا گا بنگلہ دیش کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی پاکستان سے محبت بستی ہے۔ایک لحاظ سے پاکستان کو توڑنے میں بھارتی حکمرانوں یا شیخ مجیب الرحمٰن سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں اور فوج کی غلط جنگی حکمت عملی کا ہاتھ تھا۔ 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی گئی۔ لیکن مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی کے سربراہ ذو الفقار علی بھٹو نے اقتدار کی کشش لالچ اور بنگالیوں کو غدار اور خود سے کم تر سمجھنے کی وجہ سے عام انتخابات میں عوامی لیگ کیکامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور فوج نے بھی بھٹو کی حمایت جاری رکھی یوں شیخ مجیب الرحمٰن کو وزیر اعظم پاکستان بننے کا حق نہیں دیا گیا حالانکہ وہ اقتدار کے حقدار تھے۔ لیکن پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد ذو الفقار علی بھٹو کو پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم تسلیم کیا گیا جو سراسر جھوٹ ہے اس لیے کہ اگر 70ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جاتا تو ظاہر ہے ذو الفقار علی بھٹو نہیں بلکہ شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہوتے۔ بہرحال شیخ مجیب الرحمٰن کی اقتدار سے نا جائز محرومی نے ان کے ذہن میں پاکستان سے آزادی اور بنگلہ دیش بنانے کے عزم کو مزید پختہ کر دیا اور انھوں نے ہر حالت میں پاکستان توڑنے کی ٹھان لی۔ دوسری طرف بھارت بھی جس کو نظریہ پاکستان سے شدیدتکلیف تھی اس قسم کے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا۔ لہذا بھارتی حکمرانوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی ہر طرح سے حمایت کی۔ انجام کار مشرقی پاکستان میں موجود فوج پر بھارت کے حمایت اور تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نے حملے شروع کر دیے۔ ان گوریلوں کو تربیت دینے کا ذمہ داری بھارتی فوج کےمیجر جنرل شاہ بیگ سنگھ کی تھی جو بعد میں سکھوں کے مقدس مقامگولڈن ٹیمپل پر ہونے والے بھارتی فوج کےآپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میں مارے گئے۔ شروع شروع میں ہونے والی جھڑپیں بعد میں ایک بھرپور جنگ میں بدل گئیں۔ اس جنگ میں افواج پاکستان نے کم تعداد اور وسائل کے باوجود دشمن کا نہایت جرات اور دلیری سے مقابلہ کیا۔ پاکستانی فوج کے افسران اور سپاہیوں کی بہادری اس قدر زبردست تھی کہ اس سے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی میدان جنگ میں بہادری کی مثالیں تازہ ہو گئیں۔ لیکن پھر بھی کم تعداد اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے فوج کے کمانڈر جنرل نیازی کوڈھاکہ کے پیریڈ گراؤنڈ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لاکھوں بھارتی فوجیوں اور مکتی باہنی کے کارندوں کے سامنے بھلا ایک ڈویژن فوج محدود ہتھیاروں کے ساتھ کب تک ٹکتی۔ لہذا شکست مقدر بنی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ جس پر بعد میں مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نےاسلام آباد سے نیویارک تک خوب ٹسوے بہائے اور پاکستان توڑنے کی ذمہ داری سے خود کو علاحدہ کرنے کی خوب اداکاری کی۔بنگلہ دیش بنے پچاسسال سے زائد کا عرصہ بیت چکا لیکن ابھی تک پاکستانی عوام کو اس سوال کا جواب ہی نہیں مل پایا کہ پاکستان کو سیاست دانوں نے توڑا یا فوج نے یا دونوں نے مل کر؟ دونوں فریق ایک دوسرے کو پاکستان توڑنے کا ذمہ قرار دیتے ہیں۔ فوج سیاست دانوں کو اور سیاست دان ڈھکے چھپے الفاظ میں فوج کو۔

بنگلہ دیش اپنے قیام سے مستقل سیاسی افراتفری کا شکار ہے اور اب تک 13 مختلف حکومتیں بر سر اقتدار آ چکی ہیں اور کم از کم چارفوجی تاخت (مارشل لا) ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے دنیا کاساتواں بڑا ملک ہے اور تقریباً 144،000 مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 94 واں ملک ہے۔ دنیا کا گنجان آباد ترین آبادی کے حامل ممالک میں سے ایک ہے بلکہ اگر چھوٹے موٹے جزائر یا شہری حکومتوں کو فہرست سے نکال دیا جائے تو یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک بن جاتا ہے جس کے ہر مربع کلومیٹر پر 998.6 (یا ہر مربع میل پر 2،639 افراد) بستے ہیں۔ یہ تیسرا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اس کی آبادی ہندوستان میں مقیم اقلیتی مسلمانوں سے کچھ کم ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہدریائے گنگا وبرہمپتر کے زرخیز دہانوں (ڈیلٹا) پر واقع ہے۔مون سون کی سالانہ بارشوں کے باعث یہاںسیلاب اورطوفان معمول ہیں۔ بنگلہ دیشجنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) اور BIMSTEC کا بانی رکن اوراسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) اورترقی پزیر 8 (ڈی -8) کا رکن ہے۔

آبادیات

[ترمیم]

مذہب

[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیےبنگلہ دیش میں مذہب ملاحظہ کریں۔

اسلام بنگلہ دیش کاریاستی مذہب ہے۔[9][10] بنگلہ دیشی آئین مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور قطع نظر مذہب کے تمام بنگلہ دیشی شہریوں کو مساوی بنیادی حقوق دیتا ہے۔[11][12]

2011ء کی مردم شماری کے مطابقمسلمان کل آبادی کا 90%، جب کہہندو 8.5% اور 1% دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔[13] 2003ء کے ایک جائزے سے تصدیق کی گئی کہ شہریخود کی شناخت مذہب سے کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش صرف اسلام، ہندومت، مسیحیت اور بدھ مت مذاہب ہیں۔[14]

زبانیں

[ترمیم]
تفصیلی مضامین کے لیےبنگالی زبان  اوربنگلہ دیش میں اردو ملاحظہ کریں۔

بنگلہ' یابنگالی بنگلہ دیش میں بولی جانی والی اہم زبان ہے۔ اور اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔1971ء تک بنگلہ دیشپاکستان کا حصہ تھا اور اس کی پہچانمشرقی پاکستان کے طور پر تھی۔اردو کو یہاں کی مقامیبنگالی زبان کی طرح سرکاری حمایت حاصل تھی۔ تاہم 1971ء کے بعد کے واقعات جن کے بعد جب یہ ملک وجود میں آیا، اردو زبان کو یہاں کی پہچان سے متصادم سمجھا گیا اور یہاں کی بہاری آبادی جو اردوگو ہے، غیر شہری سمجھا گیا۔ موجودہ دور میں اردو داں آبادی کی تعداد چار لاکھ بتائی گئی ہے۔[15]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "NATIONAL SYMBOLS→National مارچ"۔Bangladesh Tourism Board۔ Bangladesh: Ministry of Civil Aviation & Tourism۔ 2018-12-25 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-06-19۔In 13 جنوری 1972, the ministry of Bangladesh has adopted this song as a national marching song on its first meeting after the country's independence.
  2. ^اب
  3. "آرکائیو کاپی"(PDF)۔ 2016-10-22 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-06-19
  4. &br=1&c=513&s=LP&grp=0&a= "Bangladesh" IMF Population estimates.
  5. Dataآرکائیو شدہ 4 ستمبر 2011 بذریعہوے بیک مشین۔ Census – Bangladesh Bureau of Statistics.
  6. ^ابپت"Bangladesh"۔World Economic Outlook Database۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ۔ 2018-12-25 کو اصل سےآرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-01-31
  7. "Gini Index"۔عالمی بنک۔ 2015-02-09 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-03-02{{حوالہ ویب}}:نامعلوم پیرامیٹر|deadurl= رد کیا گیا (معاونت)
  8. "Human Development Report 2016"(PDF)۔ United Nations Development Programme۔ 2016۔ 2018-12-25 کو اصل سےآرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-04-06
  9. "بنگلہ دیش کا 1972ء کا آئین، Reinstated in 1986, with Amendments through 2014"(PDF)۔constituteproject.org۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-10-29
  10. David Bergman (28 مارچ 2016)۔"Bangladesh court upholds Islam as religion of the state"۔الجزیرہ۔ 2018-12-25 کو اصل سےآرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-12-24
  11. "The Constitution of The People's Republic Of Bangladesh Article 12: Secularism and freedom of religion"۔ State.gov۔ 2018-12-25 کو اصل سےآرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-12-24
  12. "Bangladesh's Constitution"۔bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 2019-01-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-10-13
  13. "The Constitution of The People's Republic Of Bangladesh"۔ State.gov۔ 2018-12-25 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2015-07-17
  14. In Bangladesh, Urdu has its past and present but no future
بنگلہ دیش کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کےساتھی منصوبے:
لغت و مخزن ویکی لغت سے
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے
 بنگلہ دیش کے جغرافیائی سانچے
ممالک
مقبوضہ ممالک
تابع ممالک
آسٹریلیا
عوامی جمہوریہ چین
برطانیہ
بنگلہ دیش کی بین الاقوامی رکنیت
خود مختار ریاستیں
انحصاریاں
آسٹریلیا
ارکان
مبصرین
ممالک و علاقہ جات
مسلم برادریاں
بین الاقوامی تنظیمیں
زبانیں
ویکی ذخائر پربنگلہ دیش سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔
بحر ہند کے کنارے واقع ممالک اور علاقے
افریقا
بحر ہند کا نقشہ
ایشیا
دیگر


معلومات کتب خانہ
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=بنگلہ_دیش&oldid=9127824»
زمرہ جات:
پوشیدہ زمرہ جات:

[8]ページ先頭

©2009-2025 Movatter.jp