2024 کی آبادی کے مطابق، ملک کی مجموعی آبادی 1,588,670 ہے، جن میں سے 739,736 (46.6%) بحرینی شہری اور 848,934 (53.4%) تارکین وطن ہیں۔[7] بحرین کا کل رقبہ تقریباً 760 کلومربع میٹر (8.2×109 فٹ مربع) ہے،[8] جوفہرست ممالک بلحاظ رقبہ میں ایشیا کے لحاظ سےمالدیپ اورسنگاپور کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے چھوٹا ملک ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہرمنامہ ہے۔
موجودہ بحرین کا علاقہ قدیمدلمون کی تہذیب کا مرکز تھا۔[9] یہاں کےموتی صدیوں تک دنیا میں بہترین سمجھے جاتے تھے اور 19ویں صدی تک عالمی شہرت رکھتے تھے۔[10]بحریناشاعت اسلام کے ابتدائی مراکز میں سے تھا، جہاں 628ء میںمحمد بن عبد اللہ کے دور میں اسلام پہنچا۔
بعد ازاں یہ خطہ مختلف عرب حکمرانوں کے زیرِ اقتدار رہا، پھر 1521 سے 1602 تکپرتگیزی سلطنت نے یہاں قبضہ رکھا، جسے بعد میںصفوی سلطنت کے شاہعباس اول نے ختم کیا۔ 1783 میںبنی عتبہ اور اتحادی قبائل نےنصر آل مذکور سے بحرین فتح کیا اور اس کے بعد سے یہاںآل خلیفہ کی حکومت قائم ہوئی، جس کے پہلے حکمراناحمد الفاتح تھے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں، متعدد معاہدوں کے بعد بحرینمتحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ کامحمیہ بن گیا۔[11] 1971 میں بحرین نے اپنیآزادی حاصل کی۔سابقہامارت ہونے کے بعد، 2002 میں ملک کو باضابطہ طور پر ایکآئینی بادشاہت قرار دیا گیا اور آئین کی دفعہ 2 کے مطابقشریعت کو قانون سازی کا بنیادی ماخذ قرار دیا گیا۔ 2011 میں، ملک نے2011 بحرینی احتجاجات کا سامنا کیا جوعرب بہار سے متاثر تھے۔[12] حکمراںاہل سنتآل خلیفہ خاندان پر مختلف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت رویے اوربحرین کے شیعہ آبادی کے خلاف امتیازی سلوک کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔[13]
بحرینخلیج فارس کی پہلیبعد از تیل معیشت بننے والوں میں شمار ہوتا ہے،[14] جہاں دہائیوں سےبینکاری اورسیاحت کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔[15]منامہ دنیا کے کئی بڑے مالیاتی اداروں کا مرکز ہے۔ اگرچہ تیل کی آمدنی بدستور حکومتی بجٹ کا اہم حصہ ہے، تاہم بحرین کوعالمی بینک اعلی آمدن معیشت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
بحرین کی آبادی کی اکثریت،منامہ اورمحرق شہروں میں رہتی ہے۔ 2010ء کیمردم شماری کے مطابق 70.2% آبادیمسلمان اورمسیحی جو بحرین کا دوسرا بڑا مذہبی گروہ ہے، ان کی آبادی 14.5% ہے جب کہہندو 9.8% اوربدھ مت ہیں 2.5%۔ بحرین میں 4 بڑے مذاہباسلام،مسیحیت،ہندو مت اوربدھ مت ہیں جب کہبہائیت،سکھ اوردروز سمیت متعدد دیگر عقائد والے بھی کچھ لوگ ہیں۔[18] بحرین کی نسلی شناخت کے بارے میں فناشل ٹائمز نے 31 مغي 1983ء کے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا کہ بحرین مذہبی اور نسلی دونوں طرح مخلوط ریاست ہے، گذشتہ دس سال کے عارضی تارکین وطن چھوڑ کر بحرین میں کم از کم آٹھ یا نو نسلی گروہ ہیں۔
اسلام بحرین کا ریاستی مذہب ہے۔ تارکین وطن کی آمد اور غیر مسلم ممالک سے مہمان کارکنوں، جیسا کہبھارت،فلپائن اورسری لنکا کے باعث، 20 ویں صدی کے آخر تک ملک میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ بحرین کی 2010ء کی مردم شماری کے مطابق 70.2 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔[19] آخری سرکاری مردم شماری (1941ء میں) میں مسلمان آبادی کا 53%اہل تشیع مسلمانوں پر مشتمل تھا۔[20]
بحرین میں انسانی تہذیب کے آثار قدیم ترین دور سے ملتے ہیں، خاص طور پردلمون کی تہذیب جوبرنجی دور میںبین النہرین اوردریائے سندھ کے درمیان ایک اہم تجارتی مرکز کے طور پر ابھری۔دلمون کی قدیم بندرگاہ کے آثار کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ بھی حاصل ہے۔[21] قدیم دور میں بحرین پر کبھیسمیری اثرات رہے اور بعد میں یہسلطنت بابل کے زیر اثر آیا۔[22] چھٹی سے تیسری صدی قبل مسیح تک، موجودہ بحرینہخامنشی سلطنت کا حصہ تھا۔ تقریباً 250 قبل مسیح میںپارتھیا نے خلیج فارس کے جنوبی ساحل پر قبضہ کیا اور تجارتی راستوں پر اپنا کنٹرول قائم کیا۔[23] دورِ قدیم میں بحرین کو قدیم یونانیوں میں ’’Tylos‘‘ کہا جاتا تھا، جو موتیوں کی تجارت کا بڑا مرکز تھا۔یونانی بحری جنرلنیرخس — جوسکندر اعظم کے نیچے خدمات انجام دیتا تھا — نے بحرین کا دورہ کیا اور یہاں کپاس کے باغات، تجارت اور سمندری روابط کو ریکارڈ کیا۔[24] اس نے لکھا کہ ’’Tylos میں کپاس کے درختوں سے اعلیٰ معیار کے کپڑے بنائے جاتے ہیں جنھیں ‘سندونس’ کہا جاتا ہے اور یہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عرب میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ‘‘[25]
یونانی فلسفیثاوفرسطس نے بھی لکھا کہ بحرین کپاس اور دستکاریوں کی تجارت کا مرکز تھا، جبکہ یہ بھی مذکور ہے کہ یہاں سے نقش شدہ عصا بابل بھیجے جاتے تھے۔[26] بحرین اُس وقت یونانی ثقافتی دنیا کا حصہ بن گیا تھا اور اعلیٰ طبقے کی زبان یونانی جبکہ روزمرہ کی زبانآرامی زبان تھی۔یہاں کے سکوں پر بیٹھے ہوئے زیوس کی تصویر ملتی ہے، جو ممکنہ طور پر مقامی عرب دیوتاشمس (دیوی) کے ہم پلہ تصور کیے جاتے تھے۔[27]
ٹائلوس میں یونانی کھیلوں کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔ قدیم یونانی مؤرخاسٹرابو کا ماننا تھا کہفونیقی قوم کی اصل سرزمین بحرین ہے۔[28] اسی طرحہیروڈوٹس بھی بحرین کو فونیقیوں کا اصل وطن سمجھتا تھا۔[29][30] انیسویں صدی کے جرمن محقق Arnold Heeren بھی اس نظریے کے حامی تھے کہ ’’Tylos اورعراد، بحرین جیسے مقامات فونیقی تہذیب کے اولین مراکز تھے۔ ‘[31] اگرچہ اس دور ہجرت کے دوران بحرین میں انسانی آبادی کے ٹھوس آثار بہت کم ملتے ہیں، تاہم زبان اور مقامی نام (جیسے اراد) ممکنہ ربط کی نشان دہی کرتے ہیں۔[32] تیسری صدی میںاردشیر بابکاں (اول) — بانیٔخاندان ساسان — نے بحرین اور عمان پر چڑھائی کی اور مقامی حکمران سناتروق کو شکست دی۔[33] بحرین میں ایک بیل دیوتااوال کی پوجا بھی ہوتی تھی۔ اس کے لیےمحرق میں ایک بڑا مجسمہ قائم تھا۔بعد ازاں بحرین کو طویل عرصے تک ’’اوال‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا۔[34] پانچویں صدی تک بحریننسطوریت کا مرکز بن گیا اورسمہیج بستی بشپ کا مرکز تھی۔410ء میں یہاں کے بشپ بطائی کو کلیسا سے خارج بھی کیا گیا۔[35] بحرین چونکہ بازنطینی کنٹرول سے باہر تھا، اس لیے نسٹوریائی مسیحیوں کے لیے یہاں پناہ موجود تھی۔بہت سے مقامی علاقوں کے نام آج بھی اس مسیحی ورثے کو ظاہر کرتے ہیں، مثلاًالدیر یعنی ’’دیرا / خانقاہ‘‘۔ اسلام سے قبل بحرین کی آبادی میں شامل تھے:
محقق رابرٹ برٹرم سرجینٹ کے مطابقبحرنہ لوگ مسیحی، یہودی اور ایرانی آبادی کے عربائزڈ وارث ہیں۔ اسلام سے قبل کے بحرین کے لوگ آرامی اور جزوی طور پر فارسی بولتے تھے، جبکہسریانی زبان مذہبی زبان کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔[37]
محمد بن عبد اللہ کا اہلِ بحرین سے پہلا تعلقغزوہ بنی سلیم کے دوران قائم ہوا۔ محمدؐ نےبنو سلیم پر اچانک حملہ اس لیے فرمایا کہ وہ مدینہ پر حملے کی سازش کر رہے تھے۔ خبر ملی کہ چند قبائل بحرین میں لشکر جمع کر رہے ہیں اور حملے کی تیاری ہے، مگر جب انھیں معلوم ہوا کہ محمدؐ بنفسِ نفیس لشکر کے ساتھ آ رہے ہیں تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔[38][39]
Theساسانی سلطنت on the eve of the Arab conquest, c.600 AD
899ء میںقرامطہ — ایکاسماعیلی اورہزار سالہ نظریہ رکھنے والا فرقہ — نے بحرین پر قبضہ کر کے ایکیوٹوپیا پر مبنی مساواتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں انھوں نےبغداد میں عباسی خلیفہ سے باج طلب کیا اور 930ء میںمکہ کی غارت گری کے دورانحجر اسود کو اٹھا کرسرزمین بحرین لے گئے۔ مؤرخامام الحرمین جوینی کے مطابق، 951ء میں حجر اسود نامعلوم حالات میں واپس بھیجا گیا—ایک بوری میں لپیٹ کرمسجد کوفہ میں پھینک دیا گیا اور نوٹ لکھا تھا: “حکم سے لیا، حکم سے واپس کیا”۔ اس واقعے سے حجر اسود سات ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔[44][45][46]
976ء میںخلافت عباسیہ کے ہاتھوں شکست کے بعد قرامطہ کا اقتدار ختم ہوا اور عربعیونی خاندان نے 1076ء میں بحرین پر قبضہ کر لیا۔[47][48] 1235ء میں جزیرہ مختصر طور پرصوبہ فارس کے حکمران کے قبضے میں گیا، مگر 1253ء میںعصفوری خاندان نے عیونیوں کا خاتمہ کر کے پورے مشرقیجزیرہ نما عرب پر قبضہ کر لیا۔ 1330ء میں بحرینہرمز سلطنت کا خراج گزار علاقہ بنا، جبکہ مقامی طور پر حکومتجاروانی خاندان کے پاس رہی۔[49][50] 15ویں صدی کے وسط میں بحرینجبری خاندان کی حکمرانی میں آیا، جوالحساء کے بدوی حکمران تھے۔[51]
Theقلعہ بحرین, built by the Portuguese when they ruled Bahrain from 1521 to 1602
1521ء میں پرتگیزی سلطنت نے ہرمز کے ساتھ مل کر بحرین پر قبضہ کیا اورمقرن بن زامل کو قتل کر دیا۔ پرتگیزی تقریباً 80 سال تک حکمران رہے اوراہل سنت ایرانی گورنروں پر انحصار کرتے تھے۔[49] 1602ء میںعباس اول (صفوی سلطنت) نے پرتگیزیوں کو نکال دیا، جس سےاہل تشیع کا اثر بڑھا۔[52][53] اگلی دو صدیوں تک ایرانی حکمران زیادہ تر بالواسطہ طور پر حکومت کرتے رہے، کبھیبوشہر کے راستے، کبھیہوالہ عرب قبائل کے ذریعے۔[49][54][55] 1753ء میںنصر آل مذكور نےزند خاندان کے حکم پر بحرین پر قبضہ کر کے براہِ راست ایرانی اقتدار بحال کیا۔[55]
1783ء میں نصر آل مذكور کوبنی اتبہ کے اتحاد نے شکست دی اور بحرین پر قبضہ کر لیا۔ بنی اتبہ 17ویں صدی سے بحرین میں موجود تھے اور کھجور کے باغات خریدتے رہے تھے۔[56][57]ال بن علی قبیلہزبارہ میں مضبوط طاقت تھا اور بحرین میں نیم خود مختار حیثیت رکھتا تھا اورسلمی پرچم استعمال کرتا تھا۔[58]
بعد ازاں قطر کے متعدد خاندان بحرین میں آ کر بسے، جن میں شامل تھے:آل خلیفہ, المعودہ, البوعینین, الفاضل, الکواری, المناعی, النعیمی, الرمیحی, السلیطی, السادہ, الثوادی وغیرہ۔[59]آل خلیفہ خاندان 1799ء میں قطر سے بحرین منتقل ہوا۔ ان کے آباء کو پہلےام قصر سےسلطنت عثمانیہ نے نکالا، پھر 1716ء میںکویت پہنچے، جہاں 1766ء تک رہے۔[60]
↑Potts, D.T., “Coinage of the Caravan Kingdoms…”, 2010, p. 36
↑Ju. B. Tsirkin۔"Canaan. Phoenicia. Sidon."(PDF)۔ ص 274۔ 10 October 2017 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ22 June 2014{{حوالہ ویب}}:تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی= و|آرکائیو تاریخ= (معاونت)،|آرکائیو تاریخ= میں 3 کی جگہ line feed character (معاونت)، و|تاریخ رسائی= میں 3 کی جگہ line feed character (معاونت)
↑R. A. Donkin (1998)۔Beyond Price…۔ American Philosophical Society۔ ص 48
↑Michael Rice (1986)۔Bahrain Through The Ages۔ ص 401–402
↑"Historical Researches…"۔ 1846: 434{{حوالہ رسالہ}}:الاستشهاد بدورية محكمة يطلب|دورية محكمة= (معاونت)
↑The Archaeology of the Arabian Gulf۔ 1994۔ ص 20–21