Movatterモバイル変換


[0]ホーム

URL:


مندرجات کا رخ کریں
ویکیپیڈیاآزاد دائرۃ المعارف
تلاش

ایل سی ڈی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
  • اگر مضمون کی ابتدا سمجھنے میں دشواری ہو تو شکل ب۔ اور آسان خلاصہ کی ہیڈنگ (سرخی) پہلے مطالعہ کیجیے۔

بلوری سیال تظاہرہ (Liquid crystal display) ایک پتلی، سبک اور (دیگرتظاہرات (display) کی نسبت) چپٹی سطح والیتظاہرہ اختراع (display device) ہوتی ہے جو ایسے کئیرنگوں والے یاواحد رنگ والےعکاصر (monochromepixels) پر مشتمل ہوتی ہے جو ایک منبعروشنی یاعاکس (reflector) کے سامنےترتیب کے ساتھ لگائے گئے ہوں۔ اس قسم کیاختراع کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میںبرقی طاقت کم استعمال ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہبرقیچہ (battery) سے چلنے والی اختراعات میں نہایت موزں الاستعمال ہے۔

  • شکل ا۔ کے اعداد کی وضاحت

1- عمودیمصفا جھلی (vertical filter film) جوروشنی کوقطبدار (polarize) کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے
2-آئی ٹی اوبرقیروں کے ساتھزجاجیرکیزہ (glass substrate) جس پر عمودی ہموار خراشیں ہوتی ہیں

بلوری سیال تظاہرہ۔ شکل ا۔ 3عکصر رکھنے والابلوری سیال؛ 2، 4آئی ٹی او برقیرے ؛ 1، 5قطبگر مصفاہ۔ مزید وضاحت کے لیے متن دیکھیے

3-خمدار خیطیبلوری سیال (twisted nematic liquid crystal)
4- مشرکہآئی ٹی او برقیروں کے ساتھ زجاجی رکیزہ، جس پر عرضی خراشیں ہوتی ہیں جو عرضی مصفاہ سے صف بندی کرتی ہیں
5- عرضی مصفاہ جھلی (horizontal filter film) جو روشنی کو روکتی اور گذارتی ہے یعنیقطبگری کرتی ہے
6-انعکاسی سطح، روشنی کو واپس ناظر کی تک بھیجتی ہے

نظر طائرانہ

[ترمیم]

ایک LCD پر موجود ہر [شکل ا۔ 3] کی اس تہـ میں موجود ہوتا ہے جو دوشفاف آئی ٹی او برقیروں [شکل ا۔ 2 اور 4] اور دو عددقطبگر مصفاؤں (polarizing filters) [شکل ا۔ 1 اور 5] کے درمیان معلق ہوتی ہے۔

جیسا کہ اوپر بھی مذکور ہے کہ قطبگر مصفاؤں کیقطبیت (polarity) ایک دوسرے پر عمودی ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ان دونوں کے درمیان بلوری سیال (liquid crystal) کی تہ (عدد 3) نہ ہو تو تمام روشنی جو پہلے مصفاہ سے گذر جائے گی وہ دوسرا مضاہ روک لے گا۔ کیونکہطبیعیات کے اصولوں کے مطابق کوئی بھی قطبگر روشنی کے ارتعاش کو یک سمتی کر دیتا ہے۔

بلا نفاذ برقی بار

[ترمیم]

جب تک کوئیبرقی بار نافذ یا لگائی نہ جائے تب تک بلوری سالمات، حالت سکون میں رہتے ہیں اور خود اپنے اندرونیبار (چارج) کی وجہ سے اپنے آگے اور پیچھے موجودزجاجی رکیزہ کے برقیروں (الیکٹروڈز) پر موجود ہموار خراشوں یا گڑھوں میں ترتیب پاجاتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر بھی بیان آیا کہ یہ خراشیں ایک دوسرے پر عمودی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بلوری سیال کے سالماتحلز یا helical کی شکل میں صف بند ہوتے ہیں یا آسان سے الفاظ میں یوں کہ لیں کے ایک برقیرے کی سطح سے دوسرے برقیرے کی سطح تر پہنچتے پہنچتے یہ ایک اختیار کرجاتے ہیں (دیکھیں شکل ب۔ ہلکے نیلے رنگ کے بلوری سالمات)

فائل:Blorisaiyaltazahira.PNG
شکل ب۔ ایک بلوری سیال تظاہرہ کے جزیات ؛عکاصر اورقطبسازی کی وضاحت اور آپس میں تعلق

اب جب روشنی گذرتی ہے تو پہلا مصفاہ یا فلٹر اس کو قطبدار (پولارائزڈ) کردیتا ہے یعنی اس کے تمام سمتوں میں ارتعاش کر ختم کرکے صرف ایک ارتعاش کو باقی رکھتا ہے (یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ روشنی کا صرف وہ ارتعاش یا موج جو اس فلٹر کی خراشوں سے ہم آہنگ (مثلا عمودی) ہو گذر جاتا ہے)۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ دوسرے مصفاہ (جو عرضی ہے) سے گذرنے پر تمام روشنی ختم ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوتا، اس کی وجہ جیسا کہ اوپر بھی کہا گیا یہ ہوتی ہے کہ پہلے فلٹر سے گذرنے کے بعد یہ روشنی جب بلوری سیال کے سالمات سے گذر رہی ہوتی ہے تو بل کھا کر اپنی سمت بدل لیتی ہے اور یوں دوسرے مصفاہ یا فلٹر سے گذرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس پوری ترتیب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روشنی کی آدھی مقدار پہلے قطبگر (پولارائزر) سے گذرتے ہوئے جذب ہوجاتی ہے مگر باقی تمام نظام روشنی کے لیے شفاف رہتا ہے۔

برقی بار کے نفاذ پر

[ترمیم]

جب دونوں برقیروں پربرقی بار کا نفاذ کیا جائے تو اس کی کشش کے تحت بلوری سالمات پر کھنچاؤ پڑتا ہے اور ان کی حالت سکون والی حلزی ترتیب تبدیل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اب اس میں سے گذرنے والی روشنی مڑنے کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔

اگر برقی بار کے زیراثر بلوری سیال کے سالمات مکمل طور پر اپنی بلدار (حلزی) ترتیب کھو دیں اور سیدھے ہو جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ روشنی کو بالکل بھی موڑ نہ سکیں گے۔ پہلے قطبگر (عرضی خراش والے) سے گذرنے بعد روشنی عرضی ارتعاش شدہ (قطبدار) ہو جائے گی اور چونکہ اب بلوری سالمات سیدھے ہو چکے ہیں لہذا وہ اس روشنی کو گھما کر عمودی نہیں کر سکیں گے اور یوں جب یہ عرضی قطبدار روشنی دوسرے (عمودی) قطبگر (polarizer) سے ٹکرائے گی تو اپنی قطبداری عرضی ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر اس میں جذب ہو جائے گی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام کی تمام روشنی روک لی جائے گی، یعنی آدھی پہلے قطبگر سے گذرنے پر اور آدھی دوسرے قطبگر سے گذرنے پر اور اس طرحعکصر روشن نہ ہوسکیں گے۔

اسطراز (ٹیکنیک) کو استعمال کرتے ہوئے بلوری سیال کے سالمات کو کے خم کھانے یا بل کھانے کی مقدار کو تضبیط (کنٹرول) کیا جا سکتا ہے اور یوں گذرنے والی روشنی کی مقدار کو بھی ضرورت کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے تاکہ عکاصر (پکسلز) کو مناسب انداز میں روشن و بے روشن کیا جاسکے۔

آسان خلاصہ

[ترمیم]

ایل سی ڈی کے پردے کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں شیشے کی دو عدد باریک تہوں کے درمیان ایک سیال (مائع) رکھا جاتا ہے، یہ بات شکل ب۔ میں دیکھی جا سکتی ہے اس شکل ب میں سیال کو بلوری سالمات لکھا گیا ہے اور شیشے کی تہوں کو زجاجی رکیزے کہا گیا ہے۔ پھر ان دونوں شیشے کی تہوں کے باہر کی جانب بھی ایک ایک تہـ ایک خاص مادے کی ہوتی ہے جو روشنی کو قطبدار بناتی ہے، اسی لیے اس تہـ کو قطبگر کہا جاتا ہے اور شکل میں اس تہـ کو عرضی مصفاہ اور عمودی مصفاہ کہا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک روشنی کو صرف عرضی جانب اور دوسرا صرف عمودی جانب قطبدار (polarized) بناتا ہے۔

شیشے کی تہوں کے بیچ میں موجود سیال کے بلوری سالمات پر جب تک کوئی برقی بار (الیکٹرک چارج) نہ لگایا جائے تو وہ حالت سکون میں رہتے ہیں۔ ایل سی ڈی میں موجود ان بلوری سالمات کی ساخت لمبوتری یا سلاخ نما ہوتی ہے اسی وجہ سے ان کو خیطی (یعنی خیط یا دھاگہ نما) کہا جاتا ہے یہ سالمات اپنے اندرونی چارج کی وجہ سے شیشے کی تہوں کے درمیان ایک بلدار یا گول زینے کی شکل میں ترتیب پائے ہوئے ہوتے ہیں، جیسا کہ شکل ب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اگر روشنی کو موجوں کی صورت میں تصور کیا جائے تو ایل سی ڈی کا کام سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ روشنی میں عمودی اور عرضی تو اقسام کی موجیں (یا جزء) شامل ہیں۔ لہذا جب روشنی پہلے عرضی فلٹر (مصفاہ) سے گذرے گی تو روشنی کی موجوں میں شامل عرضی جزء تو اس فلٹر کی عرضی دھاریوں میں سے گذر جائے گا جبکہ عمودی جزء نہیں گذر پائے گا۔

اس طرح جو روشنی پہلے عرضی فلٹر سے گذر کر اندر آئے گی وہ صرف عرضی موجوں پر مشتمل ہوگی اور جب یہ روشنی سفر طے کرتی ہوئی دوسرے عمودی فلٹر سے ٹکرائے گی تو اس بار چونکہ یہ صرف عرضی موجوں پر مشتمل ہے لہذا عمودی فلٹر ان عرضی موجوں کو روک لے گا اور نتجے کے طور پر تمام کی تمام روشنی ایل سی ڈی کے پردے میں ہی جذب ہو کر یا رک کر ختم ہو جائے گی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے سیال کے بلوری سالمات، بلدار ہونے کی وجہ سے اپنے اندر سے گذرنے والی روشنی کی عرضی موجوں کو ان کے عرضی محور سے ہٹا دیتے ہیں اور جتنا زیادہ روشنی اپنے عرضی محور سے ہٹ کر عمودی کی جانب ہوتی جائے گی اتنی ہی زیادہ اس کے دوسرے فلٹر سے گذر کر اسکرین کے پکسلز تک پہنچنے کی مقدار ہوگی۔

روشنی کے اس طرح پکسلز تک پہنچنے والی مقدار کو سیال کے بلوری سالمات کی بلدار کیفیت کو بجلی کے ذریعے چارج لگا کر کنٹرول کیا جاتا ہے۔

مختصر تاریخ

[ترمیم]
  • 1904 میں Otto Lehmann نےبلوری سیال (liquid crystal) پر اپنی تحقیق شائع کی
  • 1911 میں Charles Mauguin نے بلوری سیال کی ساخت اور خصوصیات پر مزید تحقیق کی
  • 1936 میں Marconi Company نے بلوری سیال کیٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے، بلوری سیال نوری صمام (Liquid crystal light valve) کے حقوق امتیازی (patents) حاصل کیے
  • 1963 ڈاکٹرGeorge W. Gray کی جانب سے "بلوری سیال کی سالماتی ساخت اور خصوصیات" (Molecular Structure and Properties of Liquid Crystals) کے عنوان سے اہم مقالہ کی اشاعت۔
  • 1968 میںRCA کی جانب سےDSM کی بنیاد پر پہلا ایل سی ڈی متعارف کرایا گیا
  • 1970 میں بلوری سالمات میںtwisted nematic field effect کے حقوق امتیازی M. Schadt اور Helfrich کی جانب سپردملف کیے گئے۔ اسی قسم کے ایک حقوق امتیازی کو 1971 میں James Fergason نے امریکا میں سپرد فائل کیا۔ 1971 ہی میں Fergason ILIXCO (جو اب LXD Incorporated ہے) نے اس خمداری خیطی اثر (TN-field effect) کی بنیاد پر پہلا LCD بنایا جس نے جلد ہی DSM کی بنیاد پر بنائے گئے 1968 کے نمونے کو پیچیھے چھوڑ دیا
      • *
      • *
  • ویکی ذخائر پرایل سی ڈی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=ایل_سی_ڈی&oldid=6623172»
زمرہ جات:
پوشیدہ زمرہ جات:

[8]ページ先頭

©2009-2025 Movatter.jp