متی اور لوقا کی انجیل کے ایک بنیادی ماخذ کا مفروضہ، جس کے مطابق ان کا ایک ماخذ مرقس ہے اور ایک دوسرا ماخذ بھی ہے ، جس کا ایک بڑا حصہ دونوں اناجیل میں ملتا ہے۔ جس کو اس تصویر کی مدد سے واضح کیا گيا ہے۔
انجیل (انگریزی: Gospel، یونانی اصل الکلمہ، بمعنی خوشخبری)مسیحیت کی مقدس کتب میں شامل ہے جو مسیحیت کے مطابق کلامِیسوع المسیح اور اسلام کے مطابق حضرتعیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی ہے۔ چار اناجیل ہی کو عام طور پر مسیحی بڑے فرقے مانتے ہیں، مگر اس کے علاوہ دیگر کئی اناجیل کا ثبوت بھی موجود ہے۔عہد نامہ جدید میںچار اناجیل کو شامل کیا گيا ہے جن میں سے پہلی تین کواناجیل متوافقہ کہتے ہیں کیونکہ ان میں واقعات کے ایک ہی سلسلہ کے خلاصہ جات دیے گئے ہیں۔ چوتھی انجیل میں دوسری قسم کے واقعات کا بیان ہے۔ عہد نامہ جدید ان اناجیل سے شروع ہوتا ہے جن میں مسیح کی پیدائش، رسالت، تبلیغ، معجزات، رومیوں کے ہاتھوں قتل اور تین دن بعد دوبارہ زندہ ہونے کی کہانی ہے اور یسوع المسیح کی اسقربانی سے انسان کی بقا اور بہبود کی خوشخبری ہے۔
اشتقاقیات
انجیل
یونانی زبان کے لفظ ایون جولین/Euangelion سے عربی میں (براستہحبشہ[1]) یہ لفظ انجیل بن گیا، (قرآن:سورۃ الحدید:27) میں آ جانے کی وجہ سے پھر جہاں جہاں اسلام پہنچا اس زبان میں بھی مسیحیعہد نامہ جدید کی پہلی چاروں کتب اور بعض اوقات سارے عہد نامہ جدید کے مجموعہ کو انجیل کہا جانے لگا۔
قرآن میں لفظ انجیل (الانجیل) اس صحیفے کے ليے استعمال ہوا ہے جو اسلامی عقیدے کے مطابقعیسیٰ نبی پر نازل ہوا۔[2] جبکہ کہ مسیحیت میں انجیل مسیح (عیسیٰ نبی) پر نازل نہيں ہوئی بلکہ بعد میں کچھ حواریوں یا ان کے شاگردوں (جن پر اختلاف ہے) نے الہام سے اپنے الفاظ کے مطابق اِِرقام کیے ہیں۔
یہ لفظایون جولین/Euangelion عہد نامہ جدید میں تقریباً سو بار آیا ہے۔ اردو پروٹسٹنٹ ترجمہ میں صرف گیارہ مرتبہ ہی اس کا ترجمہ انجیل گیا گیا ہے۔ باقی تمام مقامات پر خوشخبری کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ نئے عہد نامہ کےپروٹسٹنٹ ترجمہ میں لفظ انجیل اور خوشخبری بلا متیاز ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیے گئے ہیں ۔[3] کاتھولک ترجمہ (اردو) میں ہر جگہ انجیل ہی ترجمہ کیا گیا ہے۔
عہد نامہ جدید میں کسی جگہ بھی انجیل سے مراد کوئی کتاب نہیں ہے۔[1] بلکہ ہر جگہ یہ مسیحی عقیدہ کہمسیح نے ان کے لیے جان دی اور نجات کا ذریعہ بنا اور وہ پھر واپس آئے گا، یہی خوشخبری کے معنی رکھتا ہے۔150ء کے بعد ہی انجیل کا لفظ نئے عہد نامہ کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا۔[4]
گاسپل
قدیم انگریزی زبان میںگاڈ-سپل (gōd-spell) تھا،[5] (شاذ و نادر ہی godspel(جوڑ کر) اِرقام کیا جاتا ہے)، جس کا مطلب "اچھی خبر" یا "خوشخبری" ہے۔[6]
خوشخبری (یعنی انجیل اور گاسپل) سے مراد شروع کے ہیمسیحی پیغام کا بنیادی جزو تھی[7] جس سے مرادمسیح کی آمد ثانی اور خدا کی بادشاہی کا قیام تھا۔ شروع میں جو تحریریں اِرقام کی گئیں، کیونکہ ان میں اسی آمد اور جلد ہی بادشاہت (مسیح کی) قائم ہونے کی پیشگوئی کی جاتی رہی۔ اس لیے ان تحاریر کو انجیل یعنی خوشخبری کہا جاتا تھا۔
گاسپل یونانی لفظεὐαγγέλιον (ایون جولین) کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے، (eu- "اچھا"، -angelion "پیغام") یا یہ آرامی زبان کے لفظ (ܐܘܢܓܠܝܘܢ ewang'eliyawn) کا ترجمہ ہے۔
پروفیسر، جون رچچز کے بقول اکثر ماہرین کو اس بات پر شک ہے کہ اناجیل عینی شاہدین نے اِرقام کی تھیں[8]۔ مذہب پر اِرقام کرنے والی دور حاضر کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہکیرن آرم سٹرانگ کا کہنا ہے کہ
”
ہمیں بالکل نہیں معلوم کہ اناجیل کس نے اِرقام کی ہیں۔ جب وہ پہلی بار ظہور پزیر ہوئیں تو انہیں گمنام تحریروں کی حیثیت سے پھیلایا گیا۔ بعد میں انہیں رفتہ رفتہ ابتدائی دنوں کے کلیسیا کی اہم شخصیتوں سے منسوب کیا جانے لگا[9]
“
تمام اناجیل میں کسی مصنف کا نام مذکور نہیں ۔،[10] عام طور پرمسیحی فرقوں کا نظریہ ہے کہ؛ متی نے پہلے عبرانی زبان میں ایک انجیل (یا تحریر لکھی جس میں اقوال مسیح تھے) پھر اس نے خود ہی اس کا یونانی میں ترجمہ کیا یا پھر ایک انجیل یونانی میں اِرقام کی۔ بعد والوں نے اپنی اپنی لیاقت کے مطابق اس سے ترجمہ کیا[11]
شروع میں لوگيا،اگرافا (زبانی روایات) کو تحریر میں لایا گیا، اس بات میں شدید اختلاف ہے کہ پہلے کون سی انجیل اِرقام کی گئی، ایک نظریہ یہ ہے کہ پہلے ایک انجیل (زبانی روایات کی بنیاد پر) تحریر ہوئی، پھر دوسرے مصنف نے اس پہلی انجیل اور کچھ دیگر زبانی روایات لے کر دوسری انجیل اِرقام کی، پھر تیسرے مصنف نے پہلی دو اناجیل اور دیگر زبانی روایات لے کر تیسری انجیل اِرقام کی۔ مگر یہ سوال کہ پہلے کون سی انجیل اِرقام کی گئی اس کے متعلق کئی ترتیبات مختلف دلائل کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔ جو درجہ ذیل ہیں۔
اس پر اکثر ماہرین متفق ہیں کہ چاروں اناجیل 60 عیسوی سے لے کر 100 عیسوی کے درمیان میں اِرقام کی گئیں ،[13] لیکن اس وقت تک ان میں موجود داستان اس طرح مسلسل نہیں تھی۔ 170 عیسوی میں ططیان نے بھی ایک کوشش کی، اس نے متی، مرقس، لوقا اور کچھ زبانی روایات کو لے کر ایک ہی متفقہ (بلا تکرار واقعات) ترتیب دی۔[8] اس دور میں کئی اناجیل کا ثبوت ملتا ہے، خود لوقا کی پہلی آیت میں ہی اس بات کا اقرار ہے کہ بہتوں نے ایسی تحاریر لکھی ہیں۔ غناسطی اناجیل اور دیگر کئی، جن میں سے کچھ کے مخطوطات جدید دور میں دریافت ہوئے ہیں اور وہ شائع کی جا چکی ہیں۔ جیسےتوما کی انجیل، پطرس کی انجیل، مانی کی انجیل اوریہوداہ اسکریوتی،برناباس،مسیح،مریم مگدلینی اور دیگر کئی اہم ابتدائی مسیحی شخصیات سے منسوب اناجیل کے حوالے اور مخطوطات تاریخ میں محفوظ ہیں۔
150ء کے بعد ہی ان تحریروں کو انجیل (کتاب کے معنوں میں) بولا جانے لگا[1]۔نیقیہ کونسل میں پہلی باراناجیل اربعہ کوعہد نامہ جدید کا حصہ مانا گیا اور باقی سب اناجیل کو بدعتی اور گمراہ قرار دے کے ان کے پڑھنے، سننے، اِرقام کرنے، اپنے پاس محفوظ رکھنے پر پابندی لگا دی گئی۔
اناجیل اربعہ
اناجیل اربعہ یا چارگانہ انجیل ان چار کتابوں کو کہا جاتا ہے جویسوع مسیح کے مصلوب ہونے (مسیحی نظریہ) یا عروج کرنے (اسلامی نظریہ) کے بعد ان کے چار حواریوں نے اِرقام کیے۔
یہ چار کتابیں چار مختلف روایت سےیسوع مسیح کا زندگی نامہ ہے۔ یا مسیحی تعبیر میں یہ چار کتابیں چار مختلف پہلو سےیسوع مسیح کی تصویرکشی جیسی ہیں۔ اسی وجہ سے کافی مشترکہ حصوں نیز یکساں مفاہیم اور مطالب کے باوجود ان میں انفرادی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے پہلی تین کواناجیل متوافقہ کہتے ہیں کیونکہ ان میں واقعات کے ایک ہی سلسلہ کے خلاصہ جات دیے گئے ہیں۔ چوتھی انجیل میں دوسری قسم کے واقعات کا بیان ہے۔ عہد نامہ جدید ان اناجیل سے شروع ہوتا ہے جن میں مسیح کی پیدائش، رسالت، تبلیغ، معجزات، رومیوں کے ہاتھوں قتل اور تین دن بعد دوبارہ زندہ ہونے کی کہانی ہے اور یسوع المسیح کی اس قربانی سے انسان کی بقا اور بہبود کی خوشخبری ہے۔ عام طور پر جب صرف اناجیل کہا جائے تو اس سے یہی چار کتابیں مراد ہوتی ہیں۔
متی، مرقس اور لوقا کی انجیل کواناجیل متوافقہ کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کے متن کا ایک بڑا حصہ ایک جیسا ہے، جویوحنا کی انجیل میں نہیں ہے۔ اناجیل متوافقہ میں کئی کہانیاں، اقوال، خطبات، امثال ایک جیسی ہیں جیسے کنواری سے بیت الحم میں پیدائش، پہاڑی کا واعظ، پہاڑی وعظ میں برکت کی بشارتیں، آخری عشائیہ اور صلیبی موت وغیرہ۔
یہ انجیل دیگر اناجیل سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ اسی لیے پہلی تینوں کواناجیل متوافقہ کہا جاتا ہے، کیوں کہ ان کا بہت سا مواد ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور مسیح کی قریب قریب ایک جیسی حیثیت پیش کرتی ہیں، مگر، یوحنا کی انجیل، مسیح کو پہلی ہی آیت کو مسیح میں خدا کے ازلی کلمہ تجسم سے شروع کرتا ہے۔ یہ انجیل باقی مسلمۂ اناجیل کے مقابلے میں شروع سے ہی خود مسیحیت میں اپنی بحث و مباحثے کا موجب رہی ہے۔ یوحنا حواری کے مصنف ہونے پر بہت زیادہ اعتراضات ہوتے رہے ہیں۔ کیوں کہ یوحناکتاب اعمال کے مطابق یوحنا ان پڑھ تھا اور ماہی گير تھا، مکڑ کتاب کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی یہودیت کا ماہر اور عالم ہے اور کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ موجودہ مسیحی علما اسے یوحنا حواری کیبجائے ایک یوحنا بزرگ کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔[14]
یوں تو مسیحیت کے تقریباً تمام فرقے چار اناجیل کو تصدیق شدہ مانتے ہیں۔ البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ چار سے کئی زیادہ اناجیلاِرقام کی گئی تھیں جن کو چرچ کے علما نے سوچ بچار کے بعد غیر مصدق قرار دیا تھا۔[15] تاہم سب چرچ (مثلاًکاتھولک،پروٹسٹنٹ،مالابار) اس بات پر متفق نہیں کہ کون سی اناجیل غیر مصدقہ ہیں۔ ان میں سے خاص طور سے ہندوستان میں بسنے والے شامی مسیحی فرقہ (سیرین کرسچن)توما کی انجیل کو بھی اصلی اور تصدیق شدہ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہالمسیح کا رسول توما جب تبلیغ کرنے ہندوستان آئے توکیرالا پہنچ کر وہاں چرچ قائم کیا اور وہاں کہ لوگوں نے بالآخر ان کو قتل کیا[15] ـ
اسی طرح ایکانجیل بربناس بھی ہے جس میںمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نامفارقلیط دیا گیا تھا، جس کا ترجمہ مسلمان احمد کرتے ہیں اور مسیحی اس انجیل کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ اور اس انجیل اور یوحنا کی انجیل میں موجود نام"فارقلیط "کو روح القدس ہی قرار دیتے ہیں۔
یہودی مسیحی اناجیل
جیروم اور دیگر ابتدائی مسیحی علما نے یہودی مسیحی اناجیل کے اقتباسات اپنے تحاریر میں دیے ہیں۔ جدید ماہرین مسیحیت، ایسی کم از کم 2 یا 3 اناجیل کا وجود مانتے ہیں، جو اس دور میں موجود تھیں۔[16]
توما حواری سے منسوب یہ انجیل، ناگ حمیدی سے مقام سے دریافت ہونے والے صحائف میں یہ انجیل بھی شامل تھی۔ اچھی طرح سے محفوظ ابتدائی مسیحی انجیل ہے، جسے بڑے مسیحی فرقے الہامی نہیں مانتے، لیکن بعض کے نزدیک یہ بھی مستند انجیل ہے، اکثر محققین کا خیال ہے کہ یہ انجیل کی زبانی رویتوں کی بصیرت فراہم کرتی ہے۔ ۔افلاطون کی کتاب جمہوریہ سے ایک اقتباس کے علاوہ، اس انجیل میں دعویٰ پایا جاتا ہے کہ یہ یسوع کے شاگردتوما نے اِرقام کی ہے۔[17]
بچپن کی اناجیل یا بچپن کی انجیل، ، (یونانی:protoevangelion) سے مراددوسری صدی عیسوی کی انجیل کی وہ صنف تھی؛ جس میںیسوع مسیح کے پچپن کے حالات بیان کیے جاتے تھے۔ جیسے انجیل یعقوب۔ مسیحیت میں انہی اناجیل کے ذریعہمریم کے کنوارہ ہونے کا تصورمتعارف کرایا گيا۔ اور توما کی بچپن کی انجیل میں (توما کی انجیل سے مغالطہ نا کھائیں) ان دونوں میں ہی ایسے واقعات ہیں جواناجیل اربعہ میں شامل نہیں ہیں۔
اہلِ اسلام گاسپل کو انجیل کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہی اصلی انجیل تھی جو خودعیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی نا کہ کسی حواری کو الہام ہوا۔ انجیل قران میں بیان کردہ چار بڑی کتب جواللہ کی طرف سےانبیاء پر نازل ہوئیں ان میں سے ایک ہے۔ مسلمان انجیل کو الہامی کتاب مانتے ہیں البتہ اس کی موجودہ صورت کو تحریف شدہ قرار دیتے ہیں اور اس کو قرآن کے نزول کے بعد منسوخ سمجھتے ہیں۔ انجیل اور انجیل کی منسوخی کا قرآن میں جگہ جگہ ذکر ہے۔ اسلام کا نظریہ قرآن پر مبنی ہے کہ اناجیل میں وقتاً فوقتاً تحریف ہوتی رہی ہے اور اس لیے انجیل کے موجودہ متن پر پورا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ مسیحیت کے پیروکار اس بات کی تردید کرتے ہیں۔
سب سے پہلے631ھ اور640ھ کے درمیان میں عمر بن سعد کے حکم سے انجیل کا عربی میں ترجمہ کیا گیا[حوالہ درکار] اور اس کے بعد خود مسلمانوں نے عربی دان مسیحیوں سے اس کا ترجمہ کرایا۔
مزید دیکھیے
ویکی ذخائر پرانجیل سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔
↑Philipp Vielhauer inSchneemelcher'sNew Testament Apocrypha Vol.1 (1971) English revised edition R. Wilson, ofNeutestamentliche Apokryphen 1964 Hennecke & Schneemelcher
↑Bound by a method now calledCoptic binding، the books (technically calledcodices) were found in an earthenware jar by a group of peasants who broke open the jar and otherwise subjected the books to careless treatment resulting in significant damage