قلعہ الٰہ آباد، 1850 کی تصویر۔ یہ قلعہ بادشاہ اکبر نے 1575 میں بنوایا تھا۔قلعہ الٰہ آباد
الٰہ آباد (باضابطہ نام:پریاگ راج)بھارت کی ریاستاتر پردیش کا ایکقدیم شہر جوگنگا اورجمنا کے سنگم پر آباد ہے اور ساتھ ہی ایک تجارتی مرکز، ہندوؤں کا مقدس مقام اور ریلوے کا بہت بڑا جنکشن بھی ہے۔ مسلمانوں کے دور حکومت سے قبل اس کا نام پریاگ تھا۔ یہاں اکبر کا ایوان، جامع مسجد،اشوک کی لاٹھ، زمین دوز قلعہ اور خسرو باغ جیسی قابل دید تاریخی عمارتیں پائی جاتی ہیں۔1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں یہاں انگریزوں اور حریت پسندوں میں زبردست لڑائی ہوئی اور بالآخر الہ آباد1861ء میں انگریزوں کی عملداری میں آیا۔
الہ آباد فی کس آمدنی کے لحاظ سے صوبہ اتر پردیش کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ شہر کی آبادی تخمیناً سترہ لاکھ چالیس ہزار ہے اور اس لحاظ سے یہ اتر پردیش کا ساتواں گنجان ترین شہر ہے۔ سنہ 2011ء میں اسے دنیا کا 130 واں تیزی سے بڑھتا ہوا شہر قرار دیا گیا تھا۔ یہاں ہندو، مسلمان، سکھ، مسیحی، پارسی، جین اور بودھ مذہب کے ماننے والے امن و آشتی کے ساتھ رہتے ہیں۔ زبانیں اردو، اودھی، ہندی، انگریزی، بنگالی اور پنجابی ہیں۔ الہ آباد کے رہنے والے الہ آبادی کہلاتے ہیں۔
الہ آباد کالجوں اور تحقیقی اداروں کا مرکز ہے اور دور قدیم ہی سے علمی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہاوت بھی مشہور ہے کہ الہ آباد میں آکر تعلیم حاصل کرنے اور مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت سے نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ الہ آباد کا ایک نام پریاگ بھی بتایا جاتا ہے۔ پریاگ یا پرساد کی جگہ۔ موجودہ نام 1583ء میں مغل شہشاہ اکبر نے رکھا۔ یہاں بہت سے قدیم مندر اور محلات موجود ہیں جو ہندوؤں کی کتابوں کے مطابق ان کے مذہب میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہاںمولوی لیاقت علی نے آزادی کی جد و جہد کی تھی اور حریت پسندوں اور فرنگیوں کے مابین سخت جنگ ہوئی لیکن بالآخر 1861ء میں یہاں فرنگی راج نافذ ہو گیا۔
الہ آباد کو وزرائے اعظم کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد منتخب ہونے والے 13 میں سے سات وزرائے اعظم کا تعلق یا تو الہ آباد سے تھا یا وہ الہ آباد میں پیدا ہوئے، وہاں تعلیم حاصل کی یا الہ آباد سے انتخابات میں حصہ لیا اور منتخب ہوئے۔ ان میں جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، گلزاری لال نندا، وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر شامل ہیں۔
الہ آباد ہی وہ شہر ہے جہاں 1930ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ سر محمد اقبال نے اپنا تاریخی خطبہ الہ آباد دیا اور مسلمانوں کی مشکلات، ان کے مستقبل اور مسلمانان ہند کی منزل کی نشان دہی کی۔
الٰہ آباد کو قدیم دور سے ہی تعلیمی اور سماجی اہمیت حاصل رہی ہے۔ تعلیمی اعتبار سے یہ شہر بے حد اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ یہ بات شہرۂ عام ہے کہ اس شہر میں آکر تعلیم حاصل کرنے اور مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت سے نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹیبھارت کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے جسے1887ء میں انگریزی سرکار نے شروع کیا تھا۔ یہاںہندو،مسلمان،سکھ،مسیحی،پارسی،جین اور بودھ مذہب کے ماننے والے امن و آشتی کے ساتھ رہتے ہیں۔
الٰہ آباد کی مرکزی زبانیںاردو،اودھی،ہندی،انگریزی،بنگالی اورپنجابی ہیں۔اردو لکھنے اور بولنے والی آبادی آٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہاںاردو کی تعلیم کے لیے چھوٹے بڑے سیکڑوں مدارس اور کالج موجود ہیں۔
الٰہ آباد نےاکبر الہ آبادی جیسا طنزومزاح کا شاعر اقوامِ عالم کو دیا ہے۔ مشہور شاعرنوح ناروی اسی سرزمین سے وابستہ رہے جو الفاظ کے جادوگر مانے جاتے ہیں۔ بعد کے دور میںفراق گورکھپوری، شبنم نقوی، راز الہ آبادی، عتیق الہ آبادی وغیرہ نےاردو زبان کو پروان چڑھایا۔گیان پیٹھ انعام یافتہفراق گورکھپوری کا منظوم مجموعہگل نغمہ یہیں رہ کر لکھا گیا۔
ویکی ذخائر پرالٰہ آباد سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔