متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانۂ نزول پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً، آیت 41 کے فقرے "والذین ھاجرو فی اللہ من بعد ما ظلموا" سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقتہجرتِ حبشہ واقع ہو چکی تھی۔ آیت 106 "من کفر باللہ من بعد ایمانہ" سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہو رہا تھا اور یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہوکر کلمۂ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے۔ آیات 112 تا 114 کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعدمکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورت کے نزول کے وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس سورت میں آیت 115 ایسی ہے جس کا حوالہسورۂ انعام آیت 119 میں دیا گیا ہے اور دوسری طرف آیت نمبر 118 ایسی ہے جس میں سورۂ انعام کی آیت 146 کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے۔ ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورت کا زمانۂ نزول بھی مکے کا آخری دور ہی ہے اور اسی کی تائید سورت کے عام اندازِ بیاں سے بھی ہوتی ہے۔
موضوع اور مرکزی مضمون
شرک کا ابطال، توحید کا اثبات، دعوتِ پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجر و توبیخ۔
مباحث
سورت کا آغاز بغیر کسیتمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ "جب ہم تمھیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمھاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہوں "۔ اس بات کو وہ بالکل تکیۂ کلام کی طرف اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمھارے سر پر تلا کھڑا ہے، اب اس کے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فوراً تفہیم کی تقریر شروع ہوجاتی