25اپریل،1945ء سے 26جون،1945ء تکسان فرانسسکو،امریکا میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس میں ایکبین الاقوامی ادارے کےقیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہاقوام متحدہ یا United Nations کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24اکتوبر،1945ء میں معرض وجود میں آئی۔
تنظیمِ اقوامِ متحدہ یا United Nations Organisation کا نامامریکا کے سابق صدرفرینکلن ڈی روزویلٹ نے تجویز کیا تھا۔
ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کوجنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔
انسانوں کے بنیادیحقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے۔
مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے۔ اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔
ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامیآئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔
لہذا
یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔
ہمسایوں سے پر امن زندگی بسر کریں۔
بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں۔ نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں اس بات کا یقین دلائیں کہ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔
تمام اقوام عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں۔
اقوام متحدہ کی شق نمبر 1 کے تحت اقوام متحدہ کے مقاصد درج ذیل ہیں۔
مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔
قوموں کے درمیان میں دوستانہ تعلقات کو بڑھانا۔
بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرناانسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔
ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کا مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔
ہر امن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کر سکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے۔ بعد میں بڑھتے گئے۔ سیکورٹی کونسل یاسلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔سلامتی کونسل معطل شدہ اراکین کے حقوق رکنیت کو بحال کر سکتی ہے۔ اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔ تفصیلی فہرست کے لیے دیکھیے :اقوام متحدہ کے رکن ممالک۔
جنرل اسمبلی تمام رکن ممالک پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر رکن ملک اسمبلی میں زیادہ سے زیادہ پانچ نمائندے بھیج سکتا ہے۔ ایسے نمائندوں کا انتخاب ملک خود کرتا ہے۔ ہر رکن ملک کو صرف ایک ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جنرل اسمبلی کا معمول کا اجلاس سال میں ایک دفعہ ماہ ستمبر کے تیسرے منگل کو شروع ہوتا ہے، تاہم اگرسلامتی کونسل چاہے یا اقوام متحدہ کے اراکین کی اکثریت کہے تو جنرل اسمبلی کا خاص اجلاس کسی اور وقت میں بھی بلایا جا سکتا ہے۔
جنرل اسمبلی کا کام سر انجام دینے کے لیے چھ کمیٹیاں بنائی گئیں ہیں۔ ان کمیٹیوں میں نمائندگی کا حق ہر ممبر ملک کو حاصل ہے۔
پہلی کمیٹی تحفظاتی اور سیاسی معاملات سے متعلق ہے۔ ہتھیاروں میں تخفیف کا معاملہ بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ اس کی مزید امداد کے لیے ایک خصوصی سیاسی کمیٹی بھی ہے۔
دوسری کمیٹی اقتصادی اور مالیاتی معاملات کے متعلق ہے۔
تیسری کمیٹی سماجی انسانی اور ثقافتی معاملات کے بارے میں ہے۔
چوتھی کمیٹی تولیتی معاملات کے متعلق ہے جس میں غیر مختار علاقوں کے معاملات بھی شامل ہیں۔
پانچویں کمیٹی انتظامی معاملات اور بجٹ کے متعلق ہے۔
چھٹی کمیٹی قانون سے متعلق ہے۔
ان کے علاوہ جنرل اسمبلی کے ایک پریذیڈنٹ، 17 وائس پریذیڈنٹ اور بڑی کمیٹی کے 6 ارکان پر مشتمل ہے، جن کا انتخاب جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ جنرل کمیٹی کا اجلاس اسمبلی کے کام کا جائزہ لینے اور اسے بخوبی سر انجام دینے کے لیے اکثر منعقد ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی کی امداد کے لیے مزید کئی کمیٹیاں بھی ہیں۔ جنرل اسمبلی اکثر اوقات بہ وقت ضرورت ہنگامی کمیٹیاں بھی مقرر کرتی ہے۔ مثلاً اسمبلی نےدسمبر1948ء میںکوریا کے لیے اقوام متحدہ کا کمیشن مقرر کیا۔ اقوام متحدہ نے مصالحتی کمیشن برائےفلسطین مقرر کیا۔ تمام کمیٹیوں کی سفارشات جنرل اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
سلامتی کونسل یا سکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے اہم عضو ہے اس کے کل پندرہ ارکان ہوتے ہیں، جن میں سے پانچ مستقل ارکان جوفرانس،روس،برطانیہ،چین اورامریکا ہیں اور ان کے پاس کسی بھی معاملہ میں راے شماری کو تنہا رد یعنیویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔
ان کے علاوہ اس کے دس غیر مستقل اراکین بھی ہیں جن کو جنرل اسمبلی دو دو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ انھیں فوری طور پر دوبارہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔
اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا
کسی ایسے جھگڑے یا موضوع کی تفشیش کرنا جو بین الاقوامی نزاع پیدا کر سکتا ہو
بین الاقوامی تنازعوں کو سلجھانے کے بارے میں منصوبے تیار کرنا۔
سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے تمام اراکین کی طرف سے کارروائی کرتی ہے۔ یہ سب اراکان سلامتی کونسل کے فیصلوں کی تعمیل میں ہامی بھرتے ہیں اور اس کی درخواست پر بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے مسلح فوجیں یا دیگر مناسب اقدام کرتے ہیں۔
سلامتی کونسل کی کارروائی ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اس لیے رکن ملک کا ایک ایک نمائندہ ہر وقت اقوام متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں موجود رہتا ہے۔ سلامتی کونسل جہاں چاہے اپنا اجلاس فوراً منعقد کر سکتی ہے۔
فوجی عملے کی کمیٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے چیف آپ سٹاف یا ان کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کے 54 اراکین ہیں جس میں سے 18 ممبروں کو جنرل اسمبلی ہر بار باری باری 3، 3 سال لے لیے منتخب کرتی ہے۔ جنرل اسمبلی کے زیر انتظام یہ کونسل اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی سرگرمیوں کی ذمہ دار ہے۔
اس کونسل میں ہر فیصلہ محض کثرت رائے سے کیا جاتا ہے۔ یہ رکن کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ یہ کونسل کمیشنوں اور کمیٹیوں کے ذریعے کام کرتی ہے۔
اقوام متحدہ نے ایک بین الاقوامی تولیتی نظام قائم کیا تاکہ ان علاقوں کی نگرانی اور بندوبست کا انتظام کرے جو جداگانہ تولیتی معاہدوں کے ذریعہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آ گئے۔
تولیتی نظام کا مقصد بین الاقوامی امن و امان اور حفاظت کو ترویض کرنا۔ تولیتی علاقی جات کے باشندوں کی ترقی کا خیال رکھنا تا کہ وہخود مختاری اور آزادی حاصل کر سکیں۔
تولیتی کانفرس کا فرض ہے کہ تولیتیعلاقہ جات کے باشندوں کی سیاسی، اقتصادی، سماجی اور تعلیمی ترقی کے بارے میں استفسار نامہ مرتب کرے جس کی بنا پر انتظام کرنے والی حکومتیں سالانہ رپورٹ تیار کریں۔ اس کے ممبروں میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے علاوہ ٹرسٹ علاقوں کا انتظام کرنے والے ممالک شامل ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت کا صدر مقام شہرہیگ واقعنیدر لینڈز (ہالینڈ) ہے۔ یہ عدالت اقوام متحدہ کا سب سے بڑا قانونی ادارہ ہے۔ تمام ملک جنھوں نے آئین عدالت کے منشور پر دستخط کیے، جس مقدمے کو چاہیں اس عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں خود بھی سلامتی کونسل قانونی تنازعے عدالت بھیج سکتی ہے۔
بین الا قوامی عدالت 15 ججوں پر مشتمل ہے۔ عدالت کی ان ارکان کو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل آزاد رائے شماری کے زریعی نو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ جج اپنی ذاتی قابلیت کی بنا پر منتخب ہوتا ہے۔ تاہم یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اہم قانونی نظام کی نمائندگی ہو جائے۔ یاد رہے کہ ایک ہی ملک کے دو جج بیک وقت منتخب نہیں ہو سکتے۔
نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کے صدر مقام کے قریب واقع سیکریٹیریٹ کی عمارت
سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے سب سے بڑے ناظم امور کی حثیت سے کام کرتا ہے۔سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی سیکٹری جنرل منتخب کرتی ہے۔ سیکٹری جنرل اسمبلی کو ایک سالانہ رپورٹ پیش کرتا ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ اپنا عملہ خود نامزد کرے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ میں مندرجہ ذیل دفاتر شامل ہیں۔
سیکٹری جنرل کا دفتر
اقتصادی اور سماجی امور کا محکمہ
خصوصی سیاسی معاملات کا دفتر
تولیتی اور غیر مختار علاقوں کا عملہ
اطلاعات عامہ کا دفتر
قانونی امور کا دفتر
کانفرس سروس کا دفتر
کنٹرولر کا دفتر
جنرل سروسز کا دفتر
سیاسی اور تحفظاتی امور کا محکمہ
اقوام متحدہ کا جنیوا کا دفتر
مندرجہ ذیل امدادی اداروں میں بھی اقوام متحدہ کا عملہ کام کرتا ہے۔
وہ ادارے جنھیں جنرل اسمبلی یا اقتصادی کونسل قائم کرے
قدرت اللہ شہاب باقاعدہ الیکشن جیت کر یونائیٹڈ نیشنز کے ایگزیکٹو بورڈ کے 6 سال کے لیے ممبر رہے تھے۔ اپنی کتابشہاب نامہ[2] میں یونائیٹڈ نیشنز کے بارے میں لکھتے ہیں:
"پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن و امان کو فروغ دینے کے لیےلیگ آف نیشنز وجود میں آئی تھی، لیکن یہ انجمن کفن چوروں کی جماعت ثابت ہوئی اور اقوام عالم کی بہت سی قبریں آپس میں تقسیم کرنے کے بعد اس نے آرام سے جنیوا میں دم توڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تنظیم نویو این او نے جنم لیا۔ اس ادارے کا رہنما اصول جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ جب کوئی لاٹھی والا طاقتور ملک جارحیت سے کام لے کر کسی چھوٹے اور کمزور ملک کی بھینس زبردستی ہنکا کر لے جاتا ہے تو یو این او فوراً جنگ بندی کا اعلان کر کے فریقین کے درمیان سیز فائر لائن کھینچ دیتی ہے۔"[3]
"نیویارک میں جگہ کی کمیابی کے باعث مختلف شعبوں کے اپنے اپنے سرد خانے یو این او کے دم چھلا بین الاقوامی اداروں کے نام سے بہت سے دوسرے یورپی ممالک میں قائم ہیں۔ غالباً سیاسی گرد و غبار موسمیاتی تپش و حرارت اور ناخواندگی و افلاس کی گرم بازاری کے پیش نظر مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید سمیت کسی افریقی اور ایشیائی ملک کو اقوام متحدہ کے کسی بڑے ذیلی ادارے سے نہیں نوازا گیا۔"[4]
"اقوام عالم میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کی ترقی و تعمیر و ترویج کے لیے یو این او کا جو ادارہ پیرس میں قائم ہے اس کا نام یونیسکو (UNESCO) ہے۔ (United Nation's Education, Science and Culture Organization)"[5]
"یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں بیٹھے ہوئے اسٹاف پر ستر روپے خرچ کرتا ہے اور باقی ایک تہائی حصہ ساری دنیا میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے فروغ پر لگاتا ہے۔"[6]
"خود حفاظتی کا یہ حصار کھینچ کر موسیو رینے ماہیو نے بارہ برس تک یونیسکو میں اپنی اندر سبھا قائم کیے رکھی۔ ان کا زمانہ اخلاقی اقدار کی پامالی، نا انصافی، خویش پروری اور جنسی بے راہروی کا دور تھا۔"[8]
"لیکن فرعونے رامو سے، رینے ماہیو کی فرعونیت کا طلسم توڑنے کے لیے یونیسکو میں احتجاج اور مزاحمت کی جو آواز اٹھی، وہ ایک پاکستانی کے مقدر میں لکھی تھی۔ ان کا نام نسیم انور بیگ ہے۔"[9]
"اکتوبر 1968ء میں مجھے پاکستانی وفد کا سربراہ بنا کر یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں شرکت کے لیے پیرس بھیجا گیا تھا۔ وہاں پر میں نے یونیسکو کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی بد نظمیوں، نا انصافیوں، فضول خرچیوں اور عیاشیوں کا تفصیل کے ساتھ پردہ چاک کیا۔"[10]
"ایک بار نوجوانوں کے مسائل پر سوچ بچار کرنے کے لیے یونیسکو کے زیر اہتمام پیرس میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے جو نمائندے مدعو کیے گئے، ان سب کی عمر ساٹھ برس سے اوپر تھی۔"[13]
امن و امان کے خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا۔
اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے سفارشات کے بعد جنرل اسمبلی یہ فیصلہ کریگی کہ نئے ریاست(وں) کو رکنیت دینا ہے یا نہیں;
مخصوص اداروں کے بجٹ کی جانچ پڑتال کرنا وغیرہ;
سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان کا انتخاب کرنا، ہر ملک کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔
انٹظامی طور پر اقوام متحدہ کی دیگر اعضاء کے ساتھ تعاون کرتا ہے (مثلاََ کسی کانفرنس کا انعقاد کرنا،مختلف رپورٹ وغیرہ پیش کرنا اور بجٹ کی تیاری اس کے اہم کاموں میں شامل ہیں)۔
اس کا چیئرمین کا انتخاب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کرتی ہے جس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔یہ چیئرمین درحقیقت اقوام متحدہ کا سب سے اعلیٰ نمائندہ ہوتا ہے۔
ان تمام ریاستوں کے درمیان تنازعات پر اپنا فیصلہ سناتا ہے جو ریاستیں اس کے قوانین کو تسلیم کرتے ہیں۔
قانونی رائے پیش کرتا ہے
بین الا قوامی عدالت پندرہ (15) جج صاحبان پر مشتمل ہے۔ عدالت کی ان ممبران کو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل آزاد رائے شماری کے زریعی نو سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔
سلامتی کونسل — بین الاقوامی حفاظتی معاملات کے لیے —