| اقبال بانو | |
|---|---|
| (اردو میں:اقبال بانو) | |
| معلومات شخصیت | |
| پیدائش | 27 اگست 1928ء[1] دہلی |
| وفات | 21 اپریل 2009ء (81 سال)[1] لاہور |
| شہریت | |
| فنکارانہ زندگی | |
| آلہ موسیقی | صوت |
| پیشہ | گلوکارہ |
| پیشہ ورانہ زبان | اردو |
| اعزازات | |
| ویب سائٹ | |
| IMDB پر صفحات[2] | |
| درستی -ترمیم | |
کلاسیکی موسیقی خصوصاغزل کی بہترین گلوکارہ۔ دہلی میں 1928ء میں پیدا ہوئیں۔پاکستان بننے کے بعدلاہور آئیں اور بعد میںملتان آکر مستقل سکونت اختیار کی۔
اقبال بانو کے فن نے برسوں پہلے آل انڈیا ریڈیو کےدہلی اسٹیشن میں پہلا اظہار پایا۔1948 میں اس نو عمر گلوکارہ نے ایک پاکستانی زمیندار سے شادی کر لی لیکن فن سے اپنا رابطہ ختم نہ کیا۔
فلموں کے لیے شہر آفاق نغمے گائے جس میں خصوصی طور پر یہ دو نغمے بہت زیادہ مشہور ہوئے
تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
اور پھر:
الفت کی نئی منزل کو چلا تو باہیں ڈال کے باہوں میں
دِل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
سن پچاس کے عشرے میں اقبال بانو نےپاکستان کی نو زائیدہ فلم انڈسٹری میں ایک پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی جگہ بنالی تھی لیکن اُن کا طبعی رجحان ہلکی پھلکی موسیقی کی بجائے نیم کلاسیکی گلوکاری کی طرف رہا۔ٹھمری اوردادرے کے ساتھ ساتھ انھوں نےغزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں گایا۔
دورِضیاالحق کے آخری دِنوں میںفیض کی نظم ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ‘ ان کا ٹریڈ مارک بن چکی تھی اور ہر محفل میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان کی وفات سے چند برس پہلے تک جاری رہا۔ فیض میلے کے موقع پرلاہور میں ایک بڑے اجتماع کے سامنے انھوں نے یہ نظم گائی توعوام کے پُر شور نعرے بھی اس نغمے کا ایک ابدی حصّہ بن گئے۔