1919ء میںشاہ امان اللہ خان کی قیادت میں، انگریزوں کے ساتھ بین الاقوامی طرز پر کیے گئے خارجہ پالیسی کے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک آزاد ملک بن گیا۔ مگرانگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اوربرطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔11 ستمبر کے واقعے کو بنیاد بنا کر امریکا نے طالبان پرجنگ مسلط کردی اور طالبان حکومت (امارت اسلامیہ افغانستان) کو گرادیا لیکن 20 سال بعدامریکا کو طویل تباہ کن جنگ کے بعد افغانستان سے نکلنا پڑا۔ بظاہر امریکا کی کٹھ پتلی حکومت (اسلامی جمہوریہ افغانستان کے نام سے) 15 اگست 2021ء تک قائم رہی لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی اس حکومت کے اقتدار کاسورج غروب ہو گیا۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔
افغانستان کے پاس خود کفیل معیشت نہیں ہے اور نارکوٹیکا کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ افغانستان دنیا کا سب سے غریب ملک ہے سوائے چند چھوٹے جزیرے کے ملکوں کے۔[17]
فائل:Shapur i.jpgفارس کے بادشاہ شاپور اول کا سکہ۔ زمانہ: تیسری صدی عیسوی
افغانستان میں پچاس ہزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہوتی ہے۔[18]سن 2000 قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔ پھر ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سےسکندر اعظم نے چھین لیے جس میںبلخ بھی شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔
سکندر اعظم کے مختصر قبضے کے بعد، سلیوسیڈ سلطنت کی جانشین ریاست نے 305 قبل مسیح تک اس علاقے پر حکومت کی یہاں تک کہ انھوں نے اس کا زیادہ تر حصہ موریہ سلطنت کو ایک اتحاد کے معاہدے کے حصے کے طور پر دے دیا۔ موریوں نے ہندو کش کے جنوب کے علاقے پر کنٹرول کیا یہاں تک کہ تقریباً 185 قبل مسیح میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ان کا زوال اشوک کی حکمرانی کے ختم ہونے کے 60 سال بعد شروع ہوا، جس کے نتیجے میں یونانی-بختاریوں نے اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا مگر اس کا بیشتر حصہ جلد ہی ٹوٹ گیا اور یہ ہند۔یونانی بادشاہت کا حصہ بن گیا۔دوسری صدی قبل مسیح کے اواخر میں ان کو ہند-سیتھیوں نے شکست دی اور نکال باہر کیا۔ شاہراہ ریشم پہلی صدی قبل مسیح کے دوران نمودار ہوئی اور افغانستان نے اس کے ذریعے ہونے والی چین، ہندوستان، فارس اور شمال میں موجودہ ازبکستان کے شہروں بخارا،سمرقند اور خیوا کے راستے تجارت کے ساتھ ترقی کی۔ اس کے مرکزی مقام پر اشیا اور خیالات کا تبادلہ ہوا، جیسے چینی ریشم، فارسی چاندی اور رومن سونا، جبکہ موجودہ افغانستان کا خطہ خاص طور پر بدخشاں کے علاقے سے لعل بدخشاں کی کان کنی اور تجارت کر رہا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح کے دوران، پارتھین سلطنت نے اس علاقے کو اپنے زیر تسلط کر لیا لیکن بعد میں ہند-پارتھیائی مقامی حکمرانوں نے اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی۔پہلی صدی عیسوی کے وسط سے آخر تک افغانستان میں مرکوز وسیع کشان سلطنت بدھ مت کی ثقافت کی عظیم سرپرست بن گئی، جس سے پورے خطے میں بدھ مت کو فروغ ملا۔تیسری صدی عیسوی میں ساسانیوں نے کشانوں کا تختہ الٹ دیا تھا، پھر بھی ہند-ساسانی علاقے کے کچھ حصوں پر حکومت کرتے رہے۔ ان کے بعد کیدارائیوں کا قبضہ ہو گیا اور بعد میں ان کی جگہ ہفتالیوں نے لے لی۔ساتویں صدی میں ان کی جگہ ترک شاہی نے لے لی۔ 870ء میں صفاریوں کے اس علاقے کو فتح کرنے سے پہلے کابل کی بدھ ترک شاہی کی جگہ ایک ہندو خاندان نے لے لی، اس ہندو خاندان کو ہندوشاہی کہا جاتا تھا۔ ملک کے بیشتر شمال مشرقی اور جنوبی علاقوں پر بدھ ثقافت کا غلبہ رہا۔
642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاً فوقتاً یونانیوں، سیتھیوں،ہنوں،منگولوں،ساسانیوں اورایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلام سے پہلے یہاں کے لوگبدھ مت اور کچھقبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔
اسلامی دور احمد شاہ درانی (ابدالی) تک (642ء سے 1747ء)
642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں ہی کو بنایا۔ پہلے یہ حکمرانیخراسانی عربوں کے پاس رہی۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں، 642 عیسوی میں، اسلامی فوجیںہرات اور زرنج میں اسلام لائیں اور اسلام مشرق کی طرف پھیلنا شروع ہوا۔ مقامی باشندوں نے اسلام قبول کر لیا جبکہ کچھ علاقوں نے بغاوت کی۔ زنبیل اور کابل شاہی کو پہلی بار 870 عیسوی میں زرنج کے صفاری مسلمانوں نے فتح کیا۔ بعد میں، سامانیوں نے ہندوکش کے جنوب میں اپنا اسلامی اثر و رسوخ بڑھایا۔ غزنویوں نے 10ویں صدی میں اقتدار حاصل کیا۔ 11ویں صدی تک، غزنی کے محمود نے بقیہ ہندو حکمرانوں کو شکست دی اور کافرستان کو چھوڑ کر وسیع علاقے کو مؤثر طریقے سے اسلامی بنایا۔ محمود نے غزنی کو ایک اہم شہر بنایا اور مورخ البیرونی اورشاعر فردوسی جیسے دانشوروں کی سرپرستی کی۔ غزنوی خاندان کو 1186ء میں غوریوں نے ختم کر دیا، جن کی تعمیراتی کامیابیوں میں جم کامینار شامل تھا۔ غوریوں نے 1215ء میں خوارزم شاہی خاندان کی فتح پہلے ایک صدی سے بھی کم عرصے میں افغانستان کو کنٹرول کیا۔
998ء میںمحمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے1146ء میں غزنویوں کو شکست دی۔ اور انھیں غزنی کے علاقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر1219ء میںچنگیز خانیمنگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ھرات،غزنی اوربلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حتیٰ کہتیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولاد سے شہنشاہبابر نےکابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنادار الحکومت قرار دیا۔سولہویں صدی سےاٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔ شمالی حصہ پرازبک، مغربی حصے (ھرات سمیت) پر ایرانیصفویوں اور مشرقی حصہ پرمغل اورپشتون قابض رہے۔1709ء میں پشتونوں نےمیرویس خان هوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہراصفہان پر بھی قبضہ کر لیا۔1729ء میں ایرانی بادشاہنادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتیٰ کہ1738ء میںقندھار اورغزنی پر بھی قبضہ کر لیا۔ جو 1747ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔
احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔احمد شاہ درانی کواحمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جون1747ء میںنادر شاہ قتل ہو گیا جس کے بعدلویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کےاحمد شاہ درانی کو سربراہ چن لیا۔ پہلےقندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تمام تر قوت افغانستان کو ایک ملک بنانے پر صرف کی۔ درانی سلطنت میں موجودہایران، افغانستان،پاکستان اوربھارت کے کچھ علاقے شامل تھے۔ اس کی سلطنت میںایران کے شہرمشہد سے لے کرکشمیر اور موجودہبھارت کے شہردہلی تک کے علاقے شامل تھے۔احمد شاہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء میںپانی پت کی تیسری جنگ میںمرہٹوں کو شکست دینا تھا۔ لیکن اس جنگ کے بعدسکھوں نےپنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ پنجاب کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔1772ء تکاحمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔ اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو1823ء میں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کابل کی حکومتمحمد شاہ اور پھر1826ء میںدوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔
امیردوست محمد خان، جس نےکابل کی حکومت1826ء میں سنبھال لی تھی، نے روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا شروع کیے کیونکہ سکھوں نےپنجاب پر قبضہ کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اوردہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر پڑھانا شروع کیا حالانکہ دونوں انگریزوں کے بظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نےکابل کے تخت کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانوی ھند میں کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا اوروسطی ایشیاء کے شہروںمرو،خیوا،بخارا اورتاشقند کو مغرب میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی مکارانہ جدوجہد کو ”عظیم چالبازی“(The Great Game) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[19]اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ ( 1839ء-1842ء) کے دوران میں اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ہرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے اپنی افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔ انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔ اسی وجہ سے مجبوراً انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میںدوست محمد خان نے ہرات کو بھی فتح کر لیا۔ دوسری جنگ (1878ء-1880ء) اس وقت ہوئی جبامیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کوکابل میں رہنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کے بعد انگریزوں کے ایما پر 1880ء میںامیر عبدالرحمٰن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عملاً کابل کے خارجی معاملات انگریزوں کے ہاتھ میں چلے گئے۔
اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ بھی کیا۔امیر عبدالرحمٰن کے بیٹےامیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیا ہوا تھا۔1907ء میںامیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ہند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغرب دوستی اور اثر کی وجہ سےامیر حبیب اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے20 فروری1919ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹاامان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ مگر19 اگست1919ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان میںراولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور یوں افغانستان میں ان کا اثر تقریباً ختم ہو گیا۔19 اگست1919ء کو اسی وجہ سے افغانستان کے یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
امان اللہ خان (دورِ اقتدار: 1919ء-1929ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصلاحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلاحات میں بنیادی تعلیم کا لازمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلاحات شامل تھیں۔ اس نے1921ء میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی تربیتترکی اورفرانس سے کروائی گئی۔ 1927ء میںامان اللہ خان نے یورپ اور ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر جب اس نےکمال اتاترک کی طرز پر پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت خلاف ہو گئے۔شنواری قبائل نے نومبر 1928ء میںجلال آباد سے بغاوت شروع کی اور دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سےتاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلےقندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہبھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلےاطالیہ اور بعد میںسوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں 1960ء میں وفات پائی۔ اس بغاوت کے دوران جنوری 1929ء میں حبیب اللہ کلاکانی عرفبچہ سقا نے کابل پر قبضہ کیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر 1929ء میںجنرل نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پربچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چلا گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنھوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ہزار افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جووزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نےقرآن کو ضامن بنا کر بچہ سقا کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہکابل آیا تو اسے قتل کروا دیا۔[20] نادر خان (دورِ اقتدار: 1929ء- 1933ء ) جوامان اللہ خان کا رشتہ دار تھا اس نے نادر شاہ کے نام سے 1929ء میں افغانستان کا تخت سنبھالا۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹاظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ (دورِ اقتدار: 1933ء-1973ء ) نے چالیس سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایکسردار محمد داؤد خان (المعروف سردار داؤد) تھا جو اس کا قریبی رشتہ دار تھا۔ سردار داؤد نےروس اوربھارت سے تعلقات بڑھائے۔ اسےپاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلات ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفی دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد (دورِصدارت: 1973ء-1978ء) نے دس سال بعد 17 جولائی 1973ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس بغاوت کوروس (اس وقت سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔ظاہر شاہ فرار ہو کراطالیہ چلا گیا۔ 27 اپریل 1978ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ اورنور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب کچھ شامل تھا۔ روس کی یہکامیابیامریکا کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی اے (CIA) نے اسلامی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتاً 1979ء میںروس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عملاً افغانستان پر اسی طرحروس کا قبضہ ہو گیا جس طرح سن 2002 ء سے 2021ء تکامریکا کا قبضہ تھا۔
کابل میں صدارتی محل اپریل 1978ء مارکسی انقلاب کے بعد ایک دن
روس کی کمیونسٹ پارٹی نے کمال اتا ترک کی طرز پر غیر اسلامی نظریات کی ترویج کی مثلاً پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالات جب بہت خراب ہو گئے تو افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پرروس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔ 25 دسمبر، 1979ء کو روسی فوجکابل میں داخل ہو گئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی۔امریکا نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی مگر امریکا کا مقصد اسلام کی خدمت نہیں بلکہ روس کے خلاف ایک قوت کو مضبوط کرنا تھا۔امریکا کوپاکستان کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو بھی امریکا نے روس کے خلاف استعمال کیا۔ افغان مجاہدین اسلام سے مخلص تھے مگر امریکا انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مگر جب امریکا کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہی مجاہدین امریکی اور پاکستانی زبان میں دہشت گرد کہلانے لگے۔ امریکیسی آئی اے،پاکستان،امریکا اورسعودی عرب نے اس دوران میں اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو 1989ء میں مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔اس سلسلے میں روس، افغانستان اور پاکستان کے درمیان میں 1988ء میںجنیوا معاہدہ ہوا تھا۔
روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی مگر 18 اپریل، 1992ء کو مجاہدین کے ایک گروہ نےجنرل عبدالرشید دوستم اوراحمد شاہ مسعود کی قیادت میںکابل پر قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کر دیا۔ مگر امریکا نے اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع کرادی۔ اس وقت ایک اسلامی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلےصبغت اللہ مجددی اور بعد میںبرہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیرونی طاقتوں نےپشتو اورفارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احساسِ محرومی پیدا ہوا۔پاکستان اور افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میںطالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کےجنرل نصیر اللہ بابر طلبہ کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالبان کے رہنماملا محمد عمر نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر المومنین تسلیم کر لیا۔طالبان نے 2000ء تک افغانستان کے 95 فیصد علاقے پر قبضہ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسلامی حکومت مغربی دنیا اوربھارت کو ہرگز قبول نہ تھی۔ یاد رہے کہ طالبان سے پہلےبھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور 50 سال میں پہلی دفعہپاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خلافامریکا کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔
امریکی سپاہی اینڈریو ہولمز ایک غریب افغان کسان کے بیٹے کو قتل کرتے ہوئے
طالبان کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے امریکا کے منظورِ نظر تھے مگر جب امریکا کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ یکایک امریکا کی نظر میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میںاسامہ بن لادن اور اس کے حواری شامل تھے۔ جو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں سرگرم تھے۔11 ستمبر 2001ء کے عالمی تجارتی مرکز ( ورلڈ ٹریڈ سنٹر) کے حادثے کا الزاماسامہ بن لادن اورالقاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے رکھی تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بہانے 7 اکتوبر، 2001ء کو امریکا نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔امریکا نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد کے نام پر مل سکتی تھی۔ دوسرے افغانستان اورعراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر امریکا نے ایران اور کسی حد تک اسلام کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے میں لے لیا۔خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔امریکی ایما پرجرمنی کے شہربون میں ایک افغانی حکومت کا قیام عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے۔ 9 اکتوبر، 2004ء کوحامد کرزئی کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔حامد کرزئی اور بعد میںاشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت میں افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج موجود رہے جو افغانستان کے اصل حاکم تھے۔ بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان میں بہت زیادہ ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکا پاکستان کے صوبے بلوچستان جیسے علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے تھے۔
آخری امریکی فوجی 30 اگست 2021 افغانستان سے جاتے ہوئے
انیس سال تک جنگ میںناکامی کے بعد امریکا نے طالبان سے 29 فروری 2020 کودوحہ میں امن معاہدہ کر لیا جس کے مطابق تمام غیر ملکی افواج نے چودہ ماہ میں افغانستان سے انخلا کرنا تھا اور طالبان نے غیر ملکی افواج پر حملے بند کرنے تھے۔
دوحہ معاہدے کے چودہ ماہ بعد کافی حد تک غیر ملکی افواج انخلا کرچکی تھی۔ یکم مئی 2021 کو طالبان نے کٹھ پتلی افغان حکومت کے خلاف ایک مسلح کارروائی شروع کی اور بمشکل ساڑھے تین ماہ میں بیشتر افغان علاقوں کو فتح کر لیا اور 15 اگست 2021ء کو طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل دوبارہ فتح کر کے اسلامی امارت افغانستان کو بحال کر دیا۔ 30 اگست کو بقیہ غیر ملکی افواج بھی انخلا کرگئیں۔
17 اگست کو بقیہ افغان فوج اور حکومتی عہدے داروں نے صوبہ پنجشیر میںامراللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے حامد شاہ کی قیادت میں ایک حکومت قائم کی اور طالبان کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز کیا اور6 ستمبر تک شکست کھا گئے جس کے بعد طالبان نےپنجشیر کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
7 اکتوبر 2021ء کو طالبان کے ترجمانذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے 33 ارکان پر مشتمل عبوری حکومت کا اعلان کیا اورملا محمد حسن اخوند افغانستان کے عبوری وزیر اعظم مقرر کیے گئے۔[21]
افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیےپاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ ترکوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقامنوشک ہے جو 24,557 فٹ بلند ہے اور ترچ میر کے بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علاقہ (پست ترین مقام) دریائے آمو ہے جو صرف 846 فٹ بلند ہے۔[22] افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ علاقہ (2,640 کلومیٹر) پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ %12 علاقہ زراعت کے قابل ہے مگر صرف %0.22 علاقہ زیرِ کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے اس لیے زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ افغانستان کے علاقے میںسونا،چاندی،کوئلہ،تانبا،کانسی،کرومائیٹ،جست،گندھک،لوہا، قیمتی پتھر اورنمک پائے جاتے ہیں۔تیل کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال نہیں ہو سکے۔ افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔جلال آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ زیادہ بارشیں گرمیوں میں ہوتی ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔[22]
افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکا کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت، جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق 2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتماد اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثلاً 2005ء میںدبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور2006ء میں زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افراطِ زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14 نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکا ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔ افغانستان کئی بین الاقوامی اداروں کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک (SAARC) کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔
افغانستان کا سرکاری نیا سال نوروز سے شروع ہوتا ہے، جو ایک قدیم روایت ہے جو موجودہ ایران میں زرتشتی جشن کے طور پر شروع ہوئی تھی اور جسے کئی دیگر ممالک کے ساتھ سالانہ جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہر سال بہار کے اعتدال پر ہوتا ہے۔ افغانستان میں، نوروز عام طور پر موسیقی اور رقص کے ساتھ منایا جاتا ہے اور بزکشی کے ٹورنامنٹس بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔
یلدا، ایک اور قومی سطح پر منایا جانے والا قدیم تہوار، قدیم دیوی میتھرا کی یاد میں منایا جاتا ہے اور سال کی سب سے طویل رات کو مناتا ہے جو سرمائی انقلاب کی شام (چلے زمستان؛ عام طور پر 20 یا 21 دسمبر کو) ہوتی ہے، جس دوران خاندان اکٹھے ہوتے ہیں، شاعری پڑھتے ہیں اور پھل کھاتے ہیں۔
افغانستان ایک غالب مسلم ملک ہونے کے ناطے، اسلامی تقریبات اور تہوار جیسے رمضان، عید الفطر اور عاشورہ ہر سال بڑے پیمانے پر منائے جاتے ہیں۔ سکھ برادری ویساکھی کا تہوار مناتی ہے اور ہندو برادری دیوالی کا تہوار مناتی ہے۔
قومی یوم آزادی 19 اگست کو منایا جاتا ہے تاکہ 1919 کے اینگلو-افغان معاہدے اور ملک کی مکمل آزادی کو یاد کیا جا سکے۔ افغانستان میں کئی بین الاقوامی تقریبات بھی سرکاری طور پر منائی جاتی ہیں، جیسے کہ یوم مزدور اور یوم خواتین۔ کچھ علاقائی تہواروں میں مزار شریف میں لال پھول کا تہوار (نوروز کے دوران) اور بامیان صوبے میں دمبورا تہوار شامل ہیں۔
افغانستان میں کھیلوں کا انتظام افغان سپورٹس فیڈریشن کے زیر انتظام ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال ملک کے دو سب سے مقبول کھیل ہیں۔ افغان سپورٹس فیڈریشن کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال، گالف، ہینڈ بال، باکسنگ، تائیکوانڈو، ویٹ لفٹنگ، باڈی بلڈنگ، ایتھلیٹکس، اسکیٹنگ، باؤلنگ، سنوکر، شطرنج اور دیگر کھیلوں کو فروغ دیتی ہے۔
افغانستان کی قومی باسکٹ بال ٹیم نے 2010 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں پہلی ٹیم کھیلوں کا ٹائٹل جیتا۔ 2012 میں، ملک کی 3x3 باسکٹ بال ٹیم نے 2012 کے ایشین بیچ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا۔ 2013 میں، افغانستان کی فٹ بال ٹیم نے SAFF چیمپئن شپ جیت کر اس کی پیروی کی۔
افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم، جو 2001 میں تشکیل دی گئی تھی، نے 2009-10 آئی سی سی انٹرکانٹینینٹل کپ جیتا۔ اس نے 2007، 2009، 2011 اور 2013 میں اے سی سی ٹوئنٹی 20 کپ جیتا۔ ٹیم نے 2015، 2019 اور 2023 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں حصہ لیا۔ افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) اس کھیل کا سرکاری انتظامی ادارہ ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر کابل میں ہے۔ الکوزئی کابل انٹرنیشنل کرکٹ گراؤنڈ ملک کا مرکزی کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ ملک بھر میں کئی دیگر اسٹیڈیم بھی ہیں، جن میں جلال آباد کے قریب غازی امان اللہ خان انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم شامل ہے۔ ملکی سطح پر، کرکٹ مختلف صوبوں کی ٹیموں کے درمیان کھیلی جاتی ہے۔
افغانستان کی قومی فٹ بال ٹیم 1941 سے بین الاقوامی فٹ بال میں حصہ لے رہی ہے۔ قومی ٹیم اپنے ہوم میچز غازی اسٹیڈیم، کابل میں کھیلتی ہے، جبکہ افغانستان میں فٹ بال کا انتظام افغانستان فٹ بال فیڈریشن کے زیر انتظام ہے۔ قومی ٹیم نے کبھی فیفا ورلڈ کپ میں حصہ نہیں لیا یا کوالیفائی نہیں کیا، لیکن 2013 میں ایک بین الاقوامی فٹ بال ٹرافی جیتی۔ ملک کی ایک قومی ٹیم فٹسال میں بھی ہے، جو فٹ بال کا 5-اے-سائیڈ ورژن ہے۔
افغانستان کا روایتی اور قومی کھیل بزکشی ہے، جو خاص طور پر شمال میں مقبول ہے۔ یہ پولو سے ملتا جلتا ہے، جس میں دو ٹیموں کے گھڑ سوار ایک بکری کے مردہ جسم کو پکڑنے اور قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان ہاؤنڈ (ایک قسم کا دوڑنے والا کتا) افغانستان میں پیدا ہوا اور بھیڑیوں کے شکار میں استعمال ہوتا تھا۔
افغانستان میں %64 لوگوں کیپشتو اور %14 لوگوں کیدري مادري زبان ہے اور باقی %20 فیصد لوگازبک،ترکمن،نورستانی،بلوچی وغیرہ بولتے ہیں۔[22] نورستانی اور بلوچی سمیت تیس کے قریب علاقائی زبانیں ہیں جو چار فی صد کے قریب لوگ بولتے ہیں۔ جنگ اور ہجرت کی وجہ سے افغانی اباردو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے علاقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور جنوب میں ہیں۔