اطالیہ (اطالوی: Italia[iˈtaːlja] (سنیے))، سرکاری نام:جمہوریہ اطالیہ(اطالوی: Repubblica Italiana[reˈpubblikaitaˈljaːna]،انگریزی: Italy،عربی:ایطالیا)،[11][12][13][14] جنوبییورپ میں واقع ایک جزیرہ نما ملک ہے۔[15] یہاطالوی جزیرہ نما کا ایک حصہ ہے اور رہیں سےرومی سلطنت ورومی تہذیب شروع ہوئی تھی۔ اسےمغربی یورپ بھی کہا جاتا ہے۔[16][17] بعض لوگ اسے انگریزی کی نقالی میں اردو میں بھیاٹلی کہتے ہیں۔ اطالیہ کومسیحیت کا گڑھ کہا جاتا ہے۔رومن کیتھولک فرقے کے روحانی پیشواہ جن کوپوپ کہا جاتا ہے وہ روم میں واقع ایک جگہ جسے ویٹیکن سٹی (شہر واتیکان) کہتے ہیں، وہاں رہتے ہیں۔ اطالیہ کی سرحد فرانس، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ سے ملتی ہے۔ جبکہ اٹلی کے درمیان میںسان مرینو(سان مارینو) اورویٹیکن سٹی( شہر واتیکان) کے آزاد مگر چھوٹے علاقے ہیں۔ اس کا دار الحکومتروم ہے۔زبان اطالوی اور نظام حکومت پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ 25 مارچ 1957 کو یہیورپی یونین کا رکن بنا تھا۔ اطالیہیورپی یونین کے بانی ممالک میں شامل ہے۔ اس کا کل رقبہ 301,340 کلومیٹر2 (116,350 مربع میل) اور اس کیزمینی سرحد فرانس، سوتزرلینڈ، آسٹریا، سولوینیا اورویٹیکن سٹی اورسان مارینو سے ملتی ہیں۔ جنوبی یورپ اوربحیرہ روم طاس میں اپنی مرکزی جغرافیائی وقوع کی وجہ سے اطالیہ ہمیشہ سے ہزارہا اقوام اور تہذیبوں کا مسکن و ملجا رہا ہے۔ متعدد قدیم اقوام کے علاوہ یہاں ہند-یورپی اطالوی قوم آکر آباد ہوئی جنھوں نے جدید ملک کو یہ نام دیا۔ ان کا عہد کلاسیکی دور سے شروع ہوتا ہے جبفونیقی اورقدیم قرطاجنہ نے اطالیہ میں قدم رکھا،[18] ان کے بعدقدیم یونان کی تہذیب ظہور پزیر ہوئی۔ 8ویں صدی ق م میں ایک اطالوی قبیلہ نےرومی مملکت کی بنیاد رکھی اور بعد میںرومی جمہوریہ کے نام سے جانا گیا۔ یہاں اب سینیٹ اور عوامی طرز حکومت ہے۔
عہد وسطی کے اوائل میں اطالیہ کئی بار انہدام اور تخریب کاری کا شکار ہوا۔ لیکن 11ویں صدی میں اطالیہ میںسرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا۔[19] اب ریاستیں آزاد رہنے لگی تھیں اور اور یہاں جہوری اورجاگیردارانہ نظام قائم تھا جس سے تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا اور علاقہ ایشیا و یورپ کا تجارتی مرکز بن گیا۔ البتہ اطالیہ کا ایک حصہ اب بھی مذہبی شکنجہ میں تھا جہاںمذہبی آمریت اورپاپائی ریاستیں قائم تھیں۔
اسلام اطالیہ (اٹلی) میںرومن کیتھولک کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے،2011ء کے اندازے کے مطابق اطالیہ میں مسلمان 2% ہیں۔[20] اطالیہ کا قومی شماریاتی ادارہ (Instituto Nazionale di Stastica) یہاں کے شہریوں کی "حساس" معلومات یکجا نہیں کرتا۔ اس زمرے میں مذہبی وابستگی پر اعداد و شمار بھی شامل ہیں۔ تاہم 2006 میں غیر سرکاری طور پر جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں 723188 سے لے کر دس لاکھ کے درمیان مسلمان یہاں آباد ہیں۔ مسلمانوں کی پہلی آمدنویں صدی عیسوی میں جبصقلیہخلافت عباسیہ کے زیر اقتدار تھا، تب ہوئی۔827ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادماتزار میں کاروبار کر رہی تھی۔[21]