اس شہر کوبحیرہ اسود اوربحیرہ روم کے درمیان میں ایک اہم تزویراتی مقام بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یہ شہر تاریخیشاہراہ ریشم پر بھی واقع تھا۔[14] اس سےبلقان اورمشرق وسطی کے درمیان میں ریل نیٹ ورک کو کنٹرول کیا جاتا تھا اوربحیرہ اسود اوربحیرہ روم کے درمیان میں واحد سمندری راستہ تھا۔1923ء میںترک جنگ آزادی کے بعدانقرہ کوجمہوریہ ترکی کا نیادار الحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی شہر کا نامقسطنطنیہ سے بدل کر استنبول رکھا گیا۔ تاہم شہر نے جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی معاملات میں اپنی اہمیت کو اب تک برقرار رکھا ہے۔ 1950ء کی دہائی کے بعد سے اس شہر کی آبادی دس گنا بڑھ چکی ہے کیونکہاناطولیہ سے آنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں یہاں آباد ہو چکے ہیں اور ان کی سکونت کے لیے حدود شہر میں اضافہ بھی ہوا ہے۔[15][16]بیسویں صدی کے اواخر میں یہاں پرفنون لطیفہ،موسیقی،فلم اور ثقافتی میلوں کا انعقاد شروع ہوا اور آج بھی یہ شہر ان کی میزبانی کر رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی بہتر صورت حال نے شہر میں نقل و حمل کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک تیار کر دیا ہے۔
یورپی ثقافت کا صدر مقام نامزد ہونے کے پانچ سال بعد2015ء میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد غیر ملکی زائرین استنبول آئے۔ سیاحوں کے اس رجوع عام کی وجہ سے یہ شہر دنیا کا پانچواں مقبول ترین سیاحتی مقام بن چکا ہے۔[17] شہر کا سب سے بڑا سیاحتی مقام اس کاتاریخی مرکز ہے جو جزوی طور پریونیسکو کےعالمی ثقافتی ورثہ میں درج ہے۔نیز اس کا ثقافتی اور تفریحی مرکز ضلعبے اوغلو میں واقع شہر کی قدرتی بندرگاہشاخ زریں بھی ہے۔ استنبول کوعالمی شہر[18] سمجھے جانے کی وجہ سے یہاں متعدد ترک کمپنیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے مراکز بھی قائم ہیں اور ملک کی مجموعیخام ملکی پیداوار کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ بنتا ہے۔[19] اس کی ترقی اور تیز رفتار توسیع کی امید میں استنبول نےگرمائی اولمپک کھیلوں کے لیے بیس سالوں میں پانچ بار بولی لگائی ہے۔[20]
شہر کا پہلا معلوم نامبازنطیوم ہے (یونانی:Βυζάντιον،Byzántion) جو اسےمیگارا کے آباد کاروں نے اندازہْ600 ق م میں دیا تھا۔[21] خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نام ذاتی نامبیزاس سے ماخوذ ہے جویونانی اساطیر میں ایک کردار ہے۔ قدیم یونانی روایت میں یہ یونانی نوآبادیات کے رہنما اور ایک مشہور بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید علما نے یہ قیاس بھی کیا ہے کہ بیزاس کا نام مقامی تھریسیائی یا الیلیریائی تھا اور اسی وجہ سے میگاریائی آباد کاری کا قیاس کیا گیا ہے۔[22]
330 عیسوی میںقسطنطین اعظم کے اسےرومی سلطنت کے نئے مشرقیدار الحکومت بنانے کے بعد شہر کو عام طور پرقسطنطنیہ کہا جانے لگا جو (Κωνσταντινούπολις) کی لاطینی شکل ہے جس کے معنیقسطنطین کا شہر کے ہیں۔[21]اس نے نام "نووا روما" (Nova Roma) اور اس کے یونانی متبادل ("Νέα Ῥώμη")نیا روم کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی، لیکن یہ بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوا۔[23] جمہوریہ ترکی کے قیام تک مغرب میں اس شہر کا نام قسطنطنیہ عام استعمال ہوتا تھا، جس نے دوسرے ممالک کواستنبول کے استعمال کی تاکید کی۔[24][25](عثمانی ترکی زبان:قسطنطينيه) اور استنبول وہ نام تھے جو عثمانیوں نے اپنے اقتدار کے دوران متبادل طور پر استعمال کیے۔[26] اگرچہ تاریخی اعتبار سے درست ہے، لیکن قسطنطنیہ کا استعمال عثمانی دور کے دوران میں شہر کے نام کے لیے، 2009ء تک اکثر ترکی میں اسے "سیاسی طور پر غلط" سمجھا جاتا ہے۔[27]
انیسویں صدی تک اس شہر کے لیے دوسرے نام استعمال ہوتے تھے جو غیر ملکیوں یا ترکوں کے زیر استعمال تھے۔ یورپی مکمل شہر کے لیے قسطنطنیہ کا استعمال کرتے تھے، لیکنشاخ زریں اوربحیرہ مرمرہ فصیل بند جزیرہ نما کو ترکوں کی طرحستانبول (Stamboul) کہتے تھے۔[27]یونانی لفظپیرا (Pera) (یونانی زبان سے "پار" کے لیے)شاخ زریں اورباسفورس کے درمیان میں کے علاقے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن ترکوں نے اس کے لیےبے اوغلو استعمال کیا جو موجودہاستنبول کے اضلاع میں سے ایک کا نام بھی ہے۔[28]
نام استنبول (ترکی تلفظ: [isˈtanbuɫ] (سنیے)، عام بول چال میں[ɯsˈtambuɫ])قرون وسطی کی یونانی سے ("εἰς τὴνپولس (شہری ریاست)" تلفظ[istimˈbolin]) اخذ تصور کیا جاتا ہےجس کا معنی "شہر بنے" ہیں۔[29] اور اس طرح قسطنطنیہ کا ذکر مقامی یونانیوں نے کیا۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے آس پاس یہ واحد شہر تھا۔سلطنت عثمانیہ میں قسطنطنیہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اسے 'دیر سعادت' معنی 'خوش حالی کا دروازہ' کہا جاتا تھا
عثمانی دنیا میں قسطنطنیہ کی اہمیت بھی عثمانی میں اس کے عثمانی نام 'ڈیر سعادت' کے معنی میں 'خوش حالی کا دروازہ' سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ یہ نام قسطنطنیہ سے براہ راست تیار ہوا، جس میں پہلا اور تیسرا نصاب گر گیا۔ ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ یہ نام قسطنطنیہ سے براہ راست اخذ کیا گیا ہے جس میں حروف کو کم کر دیا گیا ہے۔[21]ایک ترک لوک روایت کے اعتبار نام "اسلام بول" معنی "اسلام کافی زیادہ"[30] سے بنا ہے کیونکہ اس شہر کو اسلامی عثمانی سلطنت کا دار الحکومت کے طور پر اسے "اسلامبول" ("بہت زیادہ اسلام") یا "اسلامبول" ("اسلام ڈھونڈنا") کہا جاتا تھا۔ فتح کے فوراً بعد اس کی پہلی بار استعمال کیا گیا اور کچھ معاصر مصنفین نے اسے خودسلطان محمد فاتح کی ایجاد قرار دیا ہے۔[31]سترہویں صدی کے کچھ عثمانی ذرائع جیسےاولیا چلبی نے اسے اس وقت کا عام ترک نام قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیںسترہویں صدی اوراٹھارہویں صدی کے شروع میں یہ رسمی طور پر استعمال میں تھا۔ سکوں پر "اسلامبول" کا پہلا استعمال1703ء (1115ھ) میں سلطاناحمد ثالث کے دور میں ہوا۔[32]جدید ترکی میں اسے (İstanbul) نقطے والی "İ" سے لکھا جاتا ہے۔[33] ترکی زبان میں شہر کے رہائشی کو "استنبولو" (İstanbullu) اور جمع "استنبولولار" (İstanbullular) کہتے ہیں۔[34]
بازنطیوم سطح مرتفع پر بازنطینی دور کا ایک ستون، موجودہ دور میں یہتوپ قاپی محل کے احاطے کے اندر واقع ہے
اکیسویں صدی کے آغاز میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کئی مقامات سےنئے سنگی دور کی اشیا دریافت کیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ استنبول کا تاریخی جزیرہ نما چھ ہزار صدی قبل مسیح کے دور میں بھی آباد تھا۔[35] یہ ابتدائی آبادی قریب مشرق سے یورپ تکنئے سنگی دور کے پھیلاؤ میں اہم تھا جو پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ڈوب جانے سے پہلے تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔[36][37][38][39] ایشیائی طرف پہلی انسانی آبادکاری فقیر تپہ ٹیلے پتہ تانبے کے دور کی ہے اور اس سے ملنے والے نوادرات 5500 سے 3500 قبل مسیح کے دور کے ہیں۔[40] یورپی طرف جزیرہ نما میںسرائے بورنو کے قریبپہلی صدی قبل مسیح کے شروع میں ایک تھریسی بستی آباد تھی۔ جدید مصنفین نے اسے تھریسی علاقائی نام لیگوس سے جوڑا ہے،[41] جس کا ذکرپلینیوس نےبازنطیوم کے پہلے نام کے طور پر کیا ہے۔[42]
اصل شہر کی تاریخ600 ق مسے شروع ہوتی ہے،[43][44] جبمیگارا کے یونانی باشندوں نےباسفورس کے یورپی جانببازنطیوم قائم کیا۔آباد کاروں نے ابتدائی تھریسی بستیوں کے مقام پرشاخ زریں سے ملحق ایک ایکروپولس تعمیر کیا جس سے شہر کی جدید معیشت کو تقویت ملی۔[45][46]پانچویں صدی ق م کے آغاز پر یہ شہر ایک مختصر عرصہ کے لیےفارس کے زیر نگیں آیا لیکن یونانیوں نے جلد ہیفارس۔ یونانی جنگیں کے دوران میں اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔[47] 355 قبل مسیح میں آزادی حاصل کرنے سے قبلبازنطیوم دوسری ایتھنین لیگ کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔[48] رومیوں سے طویل عرصے سے اتحادی ہونے کے بعدبازنطیوم رسمی طور پر 73 عیسوی میںرومی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔[49]رومی شہنشاہسیپٹیمیوس سیورس کے خلاف طالع آزماپیسینیوس نیجر کا ساتھ دینے پر شہر کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی،195ء کے آخر میں ہتھیار ڈالنے تک محاصرے کے دو سالوں کے شہر کو بالکل تباہ کر دیا۔[50] پانچ سال بعد سےسیپٹیمیوس سیورس نےبازنطیوم کی تعمیر نو کرنا شروع کی اور شہر میں دوبارہ خوش حالی آئی۔[51]
انسان کم از کم کےنئے سنگی دور سے استنبول کے طور پر جانے جانے والے علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ 6700 قبل مسیح کی ابتدائی مشہور آبادی کے آثار تاریخی جزیرہ نماقسطنطنیہ کے یورپی حصے میں2008ء میںینی قاپی سب وے اسٹیشن اورمرمرائی سرنگ کے تعمیراتی کام کے دوران میں دریافت ہوئے۔[52][53][54] اناطولیہ کی طرف پہلی انسانی آبادی فقیر تپہ ٹیلا پر 5500 سے 3500 قبل مسیح کی تانبے کے دور کی ہے۔[55] قریبیقاضی کوئے میںفونیقی دور کی ایک بندرگاہ آبادی کے آثار ہی ملے ہیں۔
قسطنطنیہ کا قیامقسطنطین اعظم کے سب سے پائیدار کارناموں میں سے ایک تھا، اس نے رومی طاقت کے مرکز کو مشرق کی طرف منتقل کیا جس سے یہ شہر یونانی ثقافت اورمسیحیت کا مرکز بن گیا۔[58][59]ایاصوفیہ سمیت پورے شہر میں متعدد گرجا گھر تعمیر کیے گئے۔ایاصوفیہ جوجستین اول کے دور میں تعمیر ہوا، ایک ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر رہا۔[60] قسطنطین نے قسطنطنیہ کےگھڑ دوڑ کے میدان کی ایک بڑی تزئین و آرائش اور توسیع کا کام بھی کیا جس میں دسیوںہزاروں شائقین کی گنجائش تھی۔گھڑ دوڑ کے میدان شہری زندگی کا مرکز بن گیا اورپانچویں اورچھٹی صدی میں نیکا فسادات سمیت بے امنی کا مرکز بنا۔[61][62] قسطنطنیہ کے محل وقوع نے اس کے وجود کو یقینی بنایا اور کئی صدیوں تک اس کیدیواروں اور سمندری حدود نے یورپ کو مشرقی اور مسلم حملہ آوروں کی پیش قدمی سے بچایا۔[59]قرون وسطی کے بیشتر دور کے دوران میں جو بازنطینی عہد کا آخری حصہ تھا شہربراعظمیورپ کا سب سے بڑا اور دولت مند شہر تھا اور کئی اوقات میں یہدنیا کا بھی سب سے بڑا شہر تھا۔[63][64]1025ء میںباسل دوم کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد قسطنطنیہ کی تنزلی کا دور شروع ہوا۔1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ اپنے مقصد سے ہٹا دی گئی اور صلیبیوں نے اس شہر کو لوٹا کھسوٹا۔[65] انھوں نے راسخ الاعتقاد بازنطینی سلطنت کی جگہلاطینی سلطنت قائم کی۔[66]ایاصوفیہ کو1204ء میں کیتھولک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔1261ء میںبازنطینی سلطنت بحال ہو گئی تاہم وہ کافی کمزور ہو چکی تھی۔[67] قسطنطنیہ کے گرجا گھر، دفاع اور بنیادی خدمات ناکارہ ہو گئیں[68] اورآٹھویں صدی کے دوران میں اس کی آبادی نصف ملین سے کم ہو کر ایک لاکھ ہو گئی۔[c]تاہم 1261ء کی بحالی کے بعد اس شہر کی کچھ خدمات بحال ہو گئیں۔
آندرونیکوس دوم کی وضع کردہ متعدد معاشی اور فوجی حکمت عملیوں، جیسے فوج کی تعداد میں کمی نے سلطنت کو کمزور کیا اور اسے حملے کے خطرے سے دوچار کیا۔[69]چودہویں صدی کے وسط میںعثمانی ترکوں نے آہستہ آہستہ چھوٹے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور قسطنطنیہ کی رسد کے راستوں کو منقطع کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔[70]29 مئی1453ء کو آٹھ ہفتوں کے محاصرے کے بعد (جس کے دوران میں آخری رومی شہنشاہقسطنطین یازدہم مارا گیا)، سلطانمحمد فاتح نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور اسےسلطنت عثمانیہ کا نیادار الحکومت قرار دیا۔شہر میں داخلے کے کئی گھنٹوں بعد سلطانایاصوفیہ میں گیا اور ایک امام کو طلب کیا جس نےشہادت کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا کیونکہ شہر نے امن سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا۔[71] سلطانمحمد فاتح نے اپنے لیے نیا لقب "قیصرِ روم" اختیار جو رومی لقبقیصر کے برابر قرار دیا گیا اور عثمانی ریاست کوعثمانی سلطنت میں تبدیل کر دیا گیا۔[72]
قسطنطنیہ کی فتح کے فوراً بعد سلطانمحمد فاتح نے شہر کی بحالی کا کام شروع کیا۔[d]اس نے محاصرے کے دوران میں شہر سے فرار ہونے والے واپس آنے کا کہا اوراناطولیہ کے دیگر علاقوں سے مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کو یہاں پر آباد کیا۔ اس نے حکم دیا کہستمبر تک پانچ ہزار گھرانوں کو قسطنطنیہ میں منتقل کیا جائے۔[74] پوری اسلامی سلطنت سے جنگی قیدیوں اور ملک بدر لوگوں جنھیںسورگون (ترکی زبان:Sürgün;یونانی:σουργούνιδες) کہا جاتا تھا، کو شہر بھیج دیا گیا۔[75] بہت سے لوگ شہر سے دوبارہ فرار ہو گئے اور کئی بارطاعون کی وبا پھیلی اس لیے1459ء میں سلطان نے جلاوطن یونانیوں کو شہر میں واپس آنے کی اجازت دے دی۔[76] اس نے پورے یورپ سے لوگوں کو دار الحکومت میں مدعو کیا جس سے ایک کثیر ثقافتی معاشرہ تشکیل پایا جو عثمانی دور کے بیشتر حصوں میں قائم رہا۔[77]
قسطنطنیہ میں باقی صدی تک طاعون کی وبا برقرار رہی، کیونکہ یہ 1520ء کے سے بعد کچھ سالوں تک رہی اور پھر یہ 1529ء اور 1533ء کے درمیان میں پھر سے آئی اور پھر 1549ء اور 1552ء کے درمیان میں رہی اور اس کے بعد کچھ سال کا وقفہ ریا اور پھر سے 1567ء سے 1570ء تک یہ وبا رہی۔ وبائی امراض کا آغاز مغرب اورحجاز اور جنوبیروس میں ہوتا تھا۔[78] اناطولیہ میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے قسطنطنیہ کو اپنے نقصانات کی تلافی میں مدد ملی اور اس کی آبادی 1800ء تک 500،000 کے قریب برقرار رہی۔محمد فاتح نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی پر بھی کام کیا جس میں پانی کا پورا نظاموالنس آبراہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہگرینڈ بازارکی تعمیر شروع کی اور سلطان کی سرکاری رہائش گاہتوپ قاپی محل تعمیر کیا۔[79]ادرنہ سے قسطنطنیہ میں دار الحکومت کی منتقلی کے بعد نئی ریاست کو رومی سلطنت کا جانشین اور تسلسل قرار دیا گیا۔[80]
عثمانیوں نے جلد ہی اس شہر کومسیحیت کے گڑھ سے بدل کراسلامی ثقافت کی علامت بنا دیا۔ معماری کی شہکار شاہی مساجد کی تعمیر کے لیےمذہبی تنظیمیں قائم کی گئیں، اکثر مساجد اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حماموں کے ساتھ ملحق ہوتی تھیں۔[79]1517ء میںعثمانی خاندانخلافت کا دعوی بھی کر دیا اور قسطنطنیہ چار صدیوں تک اس آخریخلافت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔[13]سلیمان اول کا دور حکومت1520ء سے لے کر1566ء تک رہا اور خاص طور پر اس دور میںمعمار سنان پاشا شہر میں متعدد عمارتیں تعمیر کی جو فن تعمیر اور اس کی عظیم فنکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جبکہ عثمانی فنوں برائے اوراسلامی خطاطی کو بھی بہت فروغ ملا۔[81]اٹھارہویں صدی کے آخر تک قسطنطنیہ کی آبادی 570،000 نفوس پر مشتمل تھی۔[82]
انیسویں صدی کے آغاز میں بغاوت کا ایک دور شروع ہوا اور ترقی پسند سلطانمحمود ثانی کے عروج کا نتیجہ بھی بنا، اس کے نتیجے میں آخر کاردور تنظیمات کا آغاز ہوا۔ جس نے سیاسی اصلاحات کیں اور شہر میں نئی ٹکنالوجی متعارف کروانے کی اجازت دی۔[83] اس دور میںشاخ زریں پر پل تعمیر کیے گئے،[84] اور 1880ء کی دہائی میں قسطنطنیہ باقی یورپی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک ہو گیا۔[85] جدید سہولیات جیسے پانی کی فراہمی کا نیٹ ورک، بجلی، ٹیلی فون اور ٹرام آہستہ آہستہ اگلے دہائیوں میں قسطنطنیہ میں متعارف کروائے گئے، گو کہ دوسرے یورپی شہروں کی نسبتاً تاخیر سے ہوئے۔[86] تاہم جدید کاری کی کوششیںسلطنت عثمانیہ کے زوال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔
سلطانعبدالحمید ثانی1908ء کو نوجوان ترک انقلاب نے معزول کر دیا۔مجلس عمومی (عثمانی پارلیمان) جو14 فروری1878ء سے بند تھی، 30 سال بعد23 جولائی1908ء کو دوبارہ کھول دی گئی جس نے آئینی آئین کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔اور عثمانی پارلیمنٹ (⎘ جنرل اسمبلی)، جو 14 فروری 1878 سے بند تھی، 30 سال بعد 23 جولائی 1908 کو دوبارہ کھول دی گئی، جس نےآئین کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔۔[87]بیسویں صدی کے اوائل میں جنگوں کا ایک سلسلہ جیسے اطالیہ-ترک جنگ (1911ء-1912ء) ور بلقان کی جنگیں (1912ء–1913ء) جس کے نتیجے میں کمزور سلطنت کا دار الخلافہ مزید مشکلات کا شکار ہوا اور 1913ء میں عثمانی بغاوت ہوئی اورتین پاشا دور کا آغاز ہوا۔[88]
1920ء کی دہائی کے آخر میںبینک اسٹریٹ کا ایک منظر جو 1892ء میں مکمل ہوئی، عثمانی سنٹرل بینک کا ہیڈ کوارٹر بائیں طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ 1995ء میںاستنبول اسٹاک ایکسچینج (بورسا استنبول) اسٹائن منتقل ہو گئی
سلطنت عثمانیہ نےمرکزی طاقتوں کی طرف سےپہلی جنگ عظیم (1914ء–1918ء) میں شمولیت اختیار کی اور بالآخر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔24 اپریل1915ء کو آرمینیائی لوگوں کی جلاوطنی ان اہم واقعات میں شامل تھی جسپہلی جنگ عظیم کے دوران میں آرمینی نسل کشی کا آغاز کا کیا تھا۔[89] جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں شہر کی مسیحی آبادی 1914ء سے 1927ء کے درمیان میں 450،000 سے کم ہو کر 240،000 ہو گئی۔[90]30 اکتوبر1918ء کومعاہدۂ مدروس پر دستخط ہوئے اور اتحادیوں نے13 نومبر1918ء کو قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی پارلیمنٹ (مجلس عمومی)11 اپریل1920ء کو اتحادیوں کے ذریعہ تحلیل ہو گئی اور عثمانی وفد کی سربراہی میں داماد فرید پاشا کو10 اگست1920ء کومعاہدہ سیورے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
انقرہ کو1923ء میںترک جمہوریہ کے لیے دار الحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا تا کہ سیکولر جمہوریہ کو عثمانی تاریخ سے دور رکھا جائے۔[93] مؤرخ فلپ مانسل کے مطابق:
1925 میں شاہی خاندان کی رخصتی کے بعد یورپ کا سب سے بڑا بین الاقوامی شہر ہونے کے باوجود قسطنطنیہ ایک سب سے زیادہ قوم پرست بن گیا۔۔۔۔ ویانا کے برعکس قسطنطنیہ نے ماضی سے منہ موڑ لیا۔ یہاں تک کہ اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ قسطنطنیہ کو عثمانی اور بین الاقوامی تنظیموں کی وجہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔ 1926ء سے استنبول صرف پوسٹ آفس میں قابل قبول تھا اور یہ زیادہ تر ترک دکھائی دیتا تھا اور بیشتر ترک نے اسے استعمال کرتے تھے۔[94]
1940ء کی دہائی کے اواخر اور 1950ء کی دہائی کے اوائل میں استنبول میں بڑی ساختی تبدیلیاں آئیں چونکہ پورے شہر میں بعض اوقات تاریخی عمارتوں کو گرا کر نئے عوامی چوکوں، بولیورڈز اور راستوں کی تعمیر کی گئی تھی۔۔[95] 1970ء کی دہائی میں استنبول کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا، جباناطولیہ کے لوگ شہر میں ہجرت کر کے آئے جو یہاں پر بہت ساری نئی فیکٹریوں میں ملازمت ڈھونڈ رہے تھے جو وسیع و عریض شہر کے مضافات میں تعمیر ہوئیں تھیں۔شہر کی آبادی میں اس اچانک اور تیز اضافہ نے مکانات کی بڑی مانگ بہت زیادہ اضافہ کر دیا اور بہت سے مضافاتی دیہات اور جنگلات استنبول کےمیٹروپولیٹن علاقے میں شامل ہو گئے۔[96]
مغربی ترکی میں استنبول کے بالکل جنوب مغرب میں مرکوز ایکدراڑ واقع ہے جوبحیرہ مرمرہ اوربحیرہ ایجیئن کے نیچے سے گزرتی ہے۔استنبول کا مصنوعی سیارے سے نظارہ اورآبنائےباسفورس
استنبول شمال مغربیترکی میںمرمرہ علاقہ میں واقع ہے جس کا کل رقبہ 5،343 مربع کلومیٹر (2،063 مربع میل) ہے۔[b]بحیرہ مرمرہ کوبحیرہ اسود سے جوڑنے والیآبنائے باسفورس اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے جس میں تاریخی اور معاشی مرکز پر مشتمل یورپی حصہتھریس اور ایک ایشیائی حصہاناطولیہ شامل ہیں۔ اس شہر کو مزیدشاخ زریں بھی تقسیم کرتا ہے، جو جزیرہ نما کے ساتھ منسلک ایک قدرتی بندرگاہ جہاں سابقہبازنطیوم اورقسطنطنیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔بحیرہ مرمرہ، باسفورس اورشاخ زریں کا سنگم موجودہ استنبول کے مرکز میں ہزاروں سالوں سے افواج کو اس پر حملہ کرنے سے روکتا رہا اور اب یہ شہر کے مناظر کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔[59]
روم کے ماڈل کے طرز پر یہ تاریخی جزیرہ نما سات پہاڑیوں کی خصوصیات والا کہا جاتا ہے جس میں ہر ایک پر ایک شاہی مسجد موجود ہے۔ ان پہاڑیوں کے مشرقی ترین حصےسرائے بورنو پرتوپ قاپی محل واقع ہے۔[101]شاخ زریں کی مخالف سمت میں ایک اور مخروطی پہاڑی ہے جہاں جدیدبے اوغلو ضلع واقع ہے۔ مقامی جغرافیہ کی مناسبت سے بے اوغلو پر عمارتیں سیڑھی دار طرز پر بنی ہیں اور سڑکیں بھی مرحلہ وار بنائی گئی ہیں۔[102]ایشیائی طرف میں واقعاسکودار بھی اسی طرح کی پہاڑی خصوصیات رکھتا ہے۔ خطہ بتدریج بلندی کم کرتے ہوئے باسفورس کے ساحل کے ساتھ جا ملتا ہے، لیکن شمسی پاشا اور ایازما یک لخت اٹھے ہوئے ہیں اور ایک کوہی راس بناتے ہیں۔ استنبول کا سب سے اونچا نقطہچاملیجا پہاڑی ہے، جس کی اونچائی 288 میٹر (945 فٹ) ہے۔[102] استنبول کا شمالی نصف حصہ جنوبی ساحلی حصے کے مقابلے میں اسطً زیادہ بلندی ہے، جس میں کچھ مقامات 200 میٹر (660 فٹ) تک بلند ہیں اور اس کی ڈھلوانی چٹٹانیں چٹانی کھاڑی کی مشابہت رکھتی ہیں، خاص طور پر باسفورس کے شمالی سرے کے آس پاس جہاں یہبحیرہ اسود سے ملتی ہے۔
استنبول شمالی اناطولیائیدراڑ کے قریب واقع ہے جو افریقی اور یوریشائیساختمانی تختیوں کے درمیان میں حدود کے قریب ہے۔ یہ رخنہ زون جو شمالی اناطولیہ سے بحیرہ مرمرہ تک جاتا ہے شہر کی تاریخ کے متعدد مہلکزلزلوں کا ذمہ دار رہا ہے۔ ان زلزلوں میں سب سے تباہ کن1509ء کازلزلہ تھا جس کی وجہ سے سونامی آیا جس نے شہر کی دیواریں توڑ دیں اور 10،000 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا۔ ابھی حال ہی میں1999ء میں قریبی شہرازمیت کے قریب واقعمرکز زلزلہ سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 18،000 افراد ہلاک ہوئے اس میں استنبول کے نواحی علاقوں کے ایک ہزار افراد بھی شامل ہیں۔ استنبول کے لوگوں کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ مستقبل قریب میں شہر میں اس سے بھی زیادہ تباہ کن زلزلے ثابت سکتے ہیں۔کیونکہ حال ہی میں استنبول کی تیزی سے بڑھتی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے تعمیر کیے گئے ہزاروں ڈھانچے درست معیار پر تعمیر نہیں ہو سکے ہیں۔[103] ماہرین زلزلیات کہتے ہیں کہ استنبول کو 2030ء کے قریب ایک 7.6 شدت یا اس سے زیادہ کے زلزلے کے خطرے کا امکان 60 فیصد سے زیادہ ہے۔[104][105]
کوپن موسمی زمرہ بندی کے مطابق استنبول کی آب و ہوا بحیرہ روم کی آب و ہوا کی سرحد پر ہے، ایک مرطوب آب و ہوا اور سمندری آب و ہوا، ایک عبوری موسمی زون میں اس کے مقام کی وجہ سے ہے۔ چونکہ گرمی کے مہینوں میں بارش 20 سے 65 ملی میٹر (1 سے 3 انچ) تک ہوتی ہے، اس لیے مقام کے لحاظ سے اس شہر کو صرف بحیرہ روم یا مرطوب آب و ہوا کے درجہ میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔[106][107][108] اس کی جسامت کی وجہ سے متنوع ٹپوگرافی، سمندری مقام اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شمال اور جنوب میں دو مختلف پانیوں کے ساحل کا خطہ ہونے کی وجہ سے استنبولخرد آب و ہوا کی نمائندگی کرتا ہے۔ شہر کے شمالی نصف حصے کے ساتھ ساتھ باسفورس کے ساحل، سمندری اور مرطوب نیم استوائی موسم کی خصوصیات کا اظہار ہے، کیونکہبحیرہ اسود اور پودوں کی نسبتاً زیادہ ارتکاز سے نمی کا تناسب زیادہ ہے۔بحیرہ مرمرہ پر جنوب کی طرف شہر کے آبادی والے علاقوں میں آب و ہوا گرم، خشک اور نمی سے کم متاثر ہے۔[109] شمالی نصف حصے میں سالانہ بارش دگنا ہو سکتی ہے (باہچےکوئے، 1166.6 ملی میٹر)، بمقابلہ مرمرہ ساحلی علاقہ (فلوریہ 635.0 ملی میٹر)۔[110] شمالی اور جنوبی ساحلوں پر سالانہ اوسط درجہ حرارت میں بھی بہت زیادہ فرق ہے، باہچے کوئے 12.8 ° س (55.0 ° ف)، کرتال 15.03 ° س (59.05 ° ف)[111] صوبے کے وہ حصے جو دونوں سمندری علاقوں سے دور ہیں براعظم کے اثر و رسوخ کی نمائش کرتے ہیں، جہاں رات اور دن اورموسم گرما اورموسم سرما میں درجہ حرارت کا زیادہ فرق ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں صوبے کے کچھ حصے رات کے وقت اوسطانقطۂ انجماد یا اس سے بھی نیچے رہتے ہیں۔
استنبول کی مستقل طور پر زیادہ نمی جو صبح 80 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔[112] اس کی وجہ سےدھند بہت عام ہے، حالانکہ شہر کے شمالی علاقوں اور شہر کے مرکز میں کم ہے۔[109]گھنی دھند کے باعث باسفورس سمیت اس خطے میں آمدورفت میں خلل پڑتا ہے، یہ موسم خزاں اور سردیوں کے مہینوں میں عام ہے جب نمی دوپہر تک زیادہ رہتی ہے۔[113][114][115] گرمی کے مہینوں میں مرطوب آب و ہوا اور دھند کی لہر دوپہر تک ختم ہوجاتی ہے، لیکندرجہ حرارت معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔[112][116] گرمی کے ان مہینوں میں اعلیٰ درجہ حرارت اوسطا 29 ° س (84 ° ف) اور بارش غیر معمولی بات ہے۔جون اوراگست کے درمیان میں بارش والے دن صرف پندرہ تک ہوتے ہیں۔[117] گرمیوں کے مہینوں میں گرج چمک سب سے زیادہ ہوتی ہے۔[118]
استنبول میںبحیرہ روم طاس کے آس پاس کے بیشتر دوسرے شہروں کی نسبت سردیوں کا موسم زیادہ سرد ہے، کم درجہ حرارت اوسطا 1–4 ° س (34–39 ° ف) تک رہتا ہے۔[117]بحیرہ اسود سے جھیل کا اثر برف عام ہے، اگرچہ اس کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے علاوہ شہر کے بنیادی ڈھانچے میں خلل اور دھند کی وجہ سے بھی درہم برہم ہو سکتی ہے۔[119] موسم بہار اور خزاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے، لیکن اکثر گیلے اور غیر متوقع ہیں۔ شمال مغرب سے چلنے والی سرد ہواؤں اور جنوب سے گرم مرغولوں سے — بعض اوقات ایک ہی دن میں، درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتا ہے۔[116][120] مجموعی طور پر استنبول کی سالانہ اوسطا 130 دن بارش کے دنوں کی اوسط کے ساتھ ہے، جو سالانہ 810 ملی میٹر (31.9 انچ) تک ہوتی ہے۔[117][121] مرمرہ ساحل پر واقع شہر کے وسط میں اب تک کا سب سے زیادہ اور کم درجہ حرارت 40.5 ° س (105 ° ف) اور۔116.1 ° س (3 ° ف) درج ہے۔ایک دن میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے زیادہ بارش 227 ملی میٹر (8.9 انچ) اور سب سے زیادہ برفباری کا 80 سینٹی میٹر ہے (31 انچ) ہے۔[122][123]
ترکی میںعالمی حرارتگرمی کی لہر،[128] خشک سالی،[129] طوفان،[130] اورسیلاب[131][132] کا سبب بن سکتا ہے۔سطح سمندر میں اضافے سے شہر کے ڈھانچے کو متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے، مثال کے طور پر قاضی کوئے میٹرو اسٹیشن کو سیلاب کا خطرہ ہے۔[133] سبز خالی جگہوں پر زیرسکیپنگ کا مشورہ دیا گیا ہے،[134] اور استنبول کا ایکآب و ہوا میں تبدیلی کا ایکشن پلان بھی ہے۔[135]
ضلع فاتح جس کا نام سلطانمحمد فاتح کے نام پر رکھا گیا تھا 1453ء میں عثمانی فتح کردہ علاقے سے مطابقت رکھتا تھاقسطنطنیہ (آج دار الحکومت ضلع ہے اور اسے استنبول کا تاریخی جزیرہ نما کہا جاتا ہے) کا پورا شہرشاخ زریں کے جنوبی کنارے پرقرون وسطی کےجینوا کے قلعہ کے شمالی ساحل تک تھا۔شہر کے شمال کی طرف توسیع کے لیےبرج غلطہ کو چھوڑ کرغلطہ میںجینوائی قلعے بڑے پیمانے پرانیسویں صدی میں مسمار کر دیے گئے تھے۔[136] موجودہ دور میںغلطہ (قرہ کوئے) ضلعبے اوغلو میں موجود ہے جو استنبول کا تجارتی اور تفریحی مرکز ہے اور اس میںاستقلال ایونیو اورتقسیم چوک بھی شامل ہیں۔[137]
آبنائے باسفورس کے کنارے ضلعبیشکتاش میںدولماباغچہ محل عثمانیہ دور میں حکومت کی نشست تھی۔باب عالی جو عثمانی حکومت کے لیے ایک مجازی لفظ بن گیا تھا اصل میںتوپ قاپی محل کے سب سے بیرونی صحن میں شاہی دروازہ (باب ہمایوں) کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔لیکناٹھارہویں صدی کے بعد یہتوپ قاپی محل کے قریب قرہ اوغلو حصے میںصدر اعظم (وزیر اعظم) کمپاؤنڈ کے دروازہ تسلیم کیا جاتا تھا، جہاںصدر اعظم اور دیگروزیروں کے دفاتر تھے اور جہاں غیر ملکی سفارت کاروں کا استقبال کیا جاتا تھا۔اورتاکوئے کا سابقہ گاؤںبیشکتاش کے اندر ہے اورآبنائے باسفورس پرباسفورس پل کے نردیک واقعاورتاکوئے مسجد اسی کے نام پر ہےباسفورس کے دونوں یورپی اور ایشیائی کناروں پر قطار در قطار کھڑی پرتعیش عمارتیں اور تاریخی حویلیاں عثمانی اشرافیہ نے گرمیوں کے گھروں کے طور پر تعمیر کیں تھیں۔[138] اس شہر کی اندرونی رنگ روڈ سے باہر استنبول کے اہم کاروباری اضلاعلیوینٹ اور ماسلک ہیں۔[139]
اصل میں شہر سے باہر، باسفورس کے ساتھ رہائش گاہیں اب استنبول کے کچھ اشرافیہ کے گھر ہیں۔قرہ کوئے کے عمارتوں کا نظارہ، پس منظر میںبرج غلطہ
عثمانی دور میںاسکودار اورقاضی کوئے شہری علاقے کے دائرہ کار سے باہر تھے جہاں سمندر کے کنارے حویلیاں، باغات اور حفاظتی چوکیاں موجود تھیں۔لیکنبیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ایشیائی طرف کو بڑی شرح پر شہری ترقی کا سامنا تھا۔ قدیم رہائشی علاقوں کے مقابلے میں شہر کے اس حصے کی دیر سے ترقی اور بہتر انفراسٹرکچر اور صاف شہری منصوبہ بندی حاصل ہوئی۔[10]باسفورس کے بیشتر ایشیائی حصے یورپی استنبول میں اقتصادی اور تجارتی مراکز کے مضافاتی علاقے ہیں، جہاں ان کے روزگار کا صرف ایک چوتھائی حصہ لیکن شہر کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے۔[10]بیسویں صدی میں استنبول کی نمایاں نمو کے نتیجے میں شہر کا ایک اہم حصہ گیچیکوندو (لفظی معنی "راتوں رات بنا ہوا") پر مشتمل ہے، غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کا حوالہ دیتا ہے۔[140] موجودہ دور میں کچھ گیچیکوندو علاقوں کو آہستہ آہستہ مسمار کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ جدید بڑے رہائشی منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔[141] مزید یہ کہ بڑے پیمانے پر نئے اور شہری تجدید منصوبے ہو رہے ہیں،[142] جیسا کہ تارلاباشی میں منصوبہ[143] اس طرح کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ جبکہسولوکولے میں منصوبے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔[144] شہر کے تیسرے ہوائی اڈےاستنبول ہوائی اڈے کے منصوبے کے ساتھ ترکی حکومت شہر کے یورپی طرف مغرب اور شمال کی طرف وسعت کے متمنی منصوبے بنا رہی ہے۔ شہر کے نئے حصوں میں چار مختلف بستیاں شامل ہوں گی جن میں مخصوص شہری کام اور 1.5 ملین افراد کی رہائش ہو گی۔[145]
استنبول میں کوئی بنیادی شہری پارک نہیں، لیکن اس میں متعدد سبز علاقے موجود ہیں۔گل خانہ پارک اوریلدز پارک اصل میں استنبول کے دو محلاتتوپ قاپی محل اوریلدز محل کے میدان میں شامل تھے لیکن انھیں جمہوریہ ترکی کے ابتدائی عشروں میں عوامی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا۔[146] ایک اور پارکفتحی پاشا کوروسواناطولیہ میںباسفورس پل سے متصل ایک پہاڑی پر واقع ہے جو یورپی طرفیلدز محل کے بالمقابل ہے۔ یورپی طرف اورفاتح سلطان محمد پل کے قریب امیرگان پارک ہے جو بازنطینی دور کے دوران میں کیپرادیس (سائپرس جنگل) کے نام سے جانا جاتا تھا۔سولہویں صدی میں عثمانی دور میں اسے پہلی بار نشانجیفریدون احمد بے کو عطا کیا گیا، جبکہ بعد میںسترہویں صدی میں سلطانمراد رابع نے اسے صفویامیر گونے خان کو عطا کیا اور تب سے اس کا نام امیرگان ہے۔ 47 ہیکٹر (120 ایکڑ) کا ایک پارکانیسویں صدی میںخديويت مصر کےخدیواسماعیل پاشا کی ملکیت تھا۔ امیرگان پارک اپنے پودوں کی تنوع کے لیے جانا جاتا ہے اور یہاں 2005ء سے سالانہگل لالہ کا میلہ بھی لگایا جاتا ہے۔[147]جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی حکومت کا یہ فیصلہ کہتقسیم گیزی پارک کی جگہ عثمانی دور کیتقسیم فوجی بیرکس کی نقل تیار کرنے کے منصوبے نے (جو 1921ء میں گیزی پارک کی تعمیر کے لیے منہدم ہونے سے پہلے، 1921ء میں تقمیم اسٹیڈیم میں تبدیل ہو گیا تھا) 2013ء میں ملک گیر مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں مختلف امور کا احاطہ کیا گیا تھا۔ استنبول کے شہریوں کے لیے موسم گرما کے دوران مقبولبلغراد جنگل ہے، جو شہر کے شمالی کنارے پر 5،500 ہیکٹر (14،000 ایکڑ) پر پھیلا ہوا ہے۔جنگل اصل میں اس شہر کو پانی فراہم کرتا تھا۔ بازنطینی اور عثمانی دور کے دوران میں استعمال ہونے والے ذخائر کی باقیات یہاں موجود ہیں۔[148][149]
اصل میں ایک چرچ، بعد میں ایک مسجد اور 1935 کے بعد سے ایک میوزیم،چھٹی صدی کاآیا صوفیہ (532ء–537ء)بازنطینی شہنشاہجسٹینین اول نے بنوایا تھا۔ یہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا تھا، جب تک کہہسپانیہ میں اشبلیہ کتھیڈرل (1507ء) نہیں بنا تھا۔
ابتدائی بازنطینی تعمیرات میں گنبدوں اور محرابوں والے کلاسیکی رومی ماڈل کی پیروی کیم لیکن ان عناصر پر بہتری آئی، جیسا کہایا صوفیہ اصغر میں فرق صاف ظاہر ہے۔ استنبول کا سب سے قدیم بچ جانے والا بازنطینی گرجا گھر، کھنڈروں میں بنایا گیااستودیوس کی خانقاہ ہے جو454ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔1261ء میں قسطنطنیہ پر دابارہ قبضہ کرنے کے بعد، بازنطینیوں نے موجودہ دو اہم ترین گرجا گھروںخورا گرجا گھر اورپاماکاریستوس گرجا گھر کی توسیع کی۔ بازنطینی فن تعمیر کی سب سے عمارت اور استنبول کے سب سے نمایاں ڈھانچوں میں سے ایکآیا صوفیہ ہے۔ اس کے مرکزیگنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) کا ہے۔[154]آیا صوفیہ صدیوں تک دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کی حیثیت سے برقرار ریا اور بعد میں اسے ایک مسجد میں تبدیل کر دیا گیا، تاہم اب یہ ایکعجائب گھر ہے۔[60]
2004ء کے بعد سے استنبول کی بلدیاتی حدود اس کےصوبے کی حدود کے موافق ہیں۔[159] یہ شہر جو استنبول صوبہ کا دار الحکومت سمجھا جاتا ہے، کا انتظام استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ (ایم ایم آئی) کے زیر انتظام ہے، جو شہر-صوبے کے 39اضلاع کا انتظام کرتا ہے۔[b]
موجودہ شہر کا ڈھانچہانیسویں صدی میںتنظیمات کی اصلاحی دور سے ملتا ہے جس سے قبلقاضی اور امامصدر اعظم کی قیادت میں شہر کا انتظام سنبھالتے تھے۔ فرانسیسی شہروں کے نمونے پر اس مذہبی نظام کی جگہ ایک میئر اور شہر کے نمائندوں پر مشتمل (ملت) ایک شہر گیر کونسل شہر کا انتظام سنبھالتے تھے۔
1975 اور 2011 میں استنبول میں شہری علاقوں کی جسامت (سرمئی زون کے طور پر اشارہ کیا گیا ہے) موازنہ کیے گئے دو نقشے1930ء کی دہائی میں استنبول میںقرہ کوئے میں مسافر فیری سے سفر کرتے لوگ
اپنی پوری تاریخ میں استنبول دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں شامل رہا ہے۔ 500 عیسوی تک قسطنطنیہ میں 400،000 سے 500،000 افراد آباد تھے۔اپنے پیشرو دنیا کے سب سے بڑے شہرروم سے بھی بڑھ کر۔[161]
قسطنطنیہ دوسرے ہم عصربڑے تاریخی شہروں مثلاًبغداد،چانگ آن،کائفینگ اورمرو کے مقابلے میںبارہویں صدی تک اپنی حیثیت برقرار رکھی۔اس کے بعد یہ کبھی دنیا کا سب سے بڑا شہر نہیں رہا، لیکن 1500ء سے 1750ء تک جب اسےلندن نے پیچھے چھوڑ دیا، یہیورپ کا سب سے بڑا شہر رہا۔[162]
ترک شماریاتی ادارے کے اندازے کے مطابق 2014ء کے آخر میں استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کی آبادی 14،377،019 تھی، جو ملک کی کل آبادی کا 19 فیصد ہے۔[3]تب میٹروپولیٹن بلدیہ کے تقریباً 97–98% رہائشی شہر کی حدود میں تھے،2007ء میں 89% تک،[163] اور 1980ء میں یہ صرف 61% رہ گئے۔[164] 64.9% رہائشییورپی طرف اور 35.1%ایشیائی طرف رہتے ہیں۔[165] یہ شہر دنیا کاپانچواں سب سے بڑے اصل شہر ہے، یہ شہری علاقے کے طور پرچوبیسویں مقام پر آتا ہے اور اور میٹرو ایریا کے طور پر یہاٹھارہویں مقام پر ہے کیونکہ شہر کی حدود تقریباً برابر ہیں۔آج یہ یورپ کے سب سے بڑیشہری جمعیت میںماسکو کے ساتھ شامل ہے۔[e]انجمن اقتصادی تعاون و ترقی کے بطابق یہ3.45 فیصد شہر کی سالانہ آبادی میں اضافہ سے دنیا میں اٹھترویں مقام پر ہے۔اعلیٰ آبادی میں اضافے کے باعث یہ ملک بھر میں شہریت کے رجحان کا آئینہ دار ہے، کیونکہ دوسرے اور تیسرے تیزی سے ترقی کرنے والی او ای سی ڈی میٹروپولیٹن میںازمیر اورانقرہ شامل ہیں۔[19]
شارع استقلال ہفتے کے اختتام کے دنوں میں تقریباً تین ملین افراد آتے ہیں۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے دوران میں استنبول نے خاص طور پر آبادی میں تیز رفتار ترقی سامنا کیا اور اس کی آبادی 1950ء سے 2000ء کے درمیان میں اس کی آبادی دس گنا بڑھ گئی ہے۔[15]آبادی میں یہ اضافہ جزوی طور پر شہر کی حدود میں توسیع سے ہوا، خاص طور پر 1980ء اور 1985ء کے درمیان میں جب استنبول کی آبادی تقریباً دگنی ہو گئی۔[98]غیر معمولی نمو کے باوجود مشرقی ترکی سے آنے والے تارکین وطن کو روزگار کے حصول اور رہائشی حالات میں مزید بہتری آئی۔ سات شمالی اور مشرقی صوبوں سے آنے والے استنبول کے رہائشیوں کی تعداد ان کے پورے متعلقہ صوبوں کی آبادی سے زیادہ ہے،صوبہ سیواس اورصوبہ کاستامونو ہر ایک سے استنبول میں نصف ملین سے زیادہ باشندے موجود ہیں۔[16]استنبول کی غیر ملکی آبادی نسبتاً بہت کم ہے، 2007ء میں یہ42،228 رہائشیوں پر مشتمل تھی۔[168] شہر کے صرف 28 فیصد رہائشی اصل استنبول کے ہیں۔[169] انتہائی گنجان آباد علاقوں میں یورپی طرف شمال مغرب، مغرب اور شہر کا مرکز ہے۔ ایشیائی طرف سب سے زیادہ گنجان آباد ضلعاسکودار ہے۔[16]
ترکی اور استنبول میں لوگوں کی اکثریتمسلمان ہے اور خاص طور پراہل سنت ہیں۔ بیشتر سنی ترکحنفی مکتب فکر کی پیروی کرتے ہیں جبکہ کرد سنیشافعی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ سب سے بڑا غیر سنی مسلم گروہعلوی شیعہ ہیں جو ترکی کی آبادی کا 10–20 فیصد ہیں۔[170] ملک کے تمامعلوی شیعہ میں سے ایک تہائی استنبول میں رہتے ہیں۔[169]جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد صوفیانہ تحریکوں جیسےتصوف بھی سرکاری طور پر پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن وہ اب بھی متعدد پیروکاروں پر فخر کرتے ہیں۔[171] 1950ء کی دہائی سے استنبول ایک مہاجر شہر ہے۔ استنبول کی آبادی 1 ملین سے بڑھ کر 10 ملین رہائشیوں تک پہنچ گئی ہے۔ تقریباً 200،000 نئے تارکین وطن جن میں سے زیادہ تر ترکی کے دیہاتوں سے ہوتے ہیں ہر سال یہاں آتے ہیں۔
آیا صوفیہ جو تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کو سب سے بڑا گرجا گھر تھافتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا، ترک جمہوریہ کے آغاز میںعجائب گھر میں تبدیل اور سن 2020 میں دوبارہ مسجد میں بدل دیا گیا۔
استنبول میں یونانی آبادی بطور شہر کی آبادی کا فیصد (1844ء–1997ء)
بطریق قسطنطنیہ کا چھٹی صدی کے بعد سے کل کلیسیا بطریق نامزد کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے 300 ملینمشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کا رہنما سمجھا جاتا ہے۔[172]1601ء کے بعد سےکل کلیسیا بطریقسینٹ جارج کیتھیڈرل، استنبول میں نشست پزیر ہے۔[173]انیسویں صدی میں استنبول کےمسیحی یا تویونانی راسخ الاعتقاد کلیسیا یاآرمینیائی رسولی کلیسیا کے رکن یا شامی کیتھولک ہیں۔[174]بیسویں صدی کے دوران میں ہونے والے واقعات کے سبب جس میںیونان اورترکی کے مابین1923ء کا تبادلہ آبادی، 1942 میں ثروت ٹیکس اور 1955ء کے استنبول فسادات بھی شامل ہیں، کی وجہ سے یونانی آبادی جو اصل میںفینار اور ساماتیا میں مرکوز تھی میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں استنبول کی یونانی آبادی 3،000 تھی۔ (1910ء کی مردم شماری کے مطابق کل 850،000 میں سے 260،000 اور 1919ء میں 350،000 کی سب سے زیادہ آبادی)[175][176] استنبول میں آج 50،000 سے 90،000 آرمینی باشندے موجود ہیں، جو 1913ء کی مردم شماری کے مطابق (جزوی طور پر آرمینی نسل کشی کی وجہ سے) تقریباً 164،000 سے کم ہوئے ہیں۔[177] شامی، لاطینی مسیحی جو عثمانی دور کے دوران میںغلطہ میں آباد تھے،انیسویں اوربیسویں صدی کے اوائل میں استنبول کی ثقافت اور تعمیر کی تشکیل میں ایک مرکزی کردار ادا کیا تھا، ان کی آبادی کم ہو گئی ہے بلکہ وہ شہر میں بہت کم تعداد میں باقی ہیں۔[178]
استنبول میں سب سے بڑی نسلی اقلیتکرد برادری ہے جو مشرقی اور جنوب مشرقی ترکی سے ہیں۔ اگرچہ اس شہر میں کردوں کی موجودگی عثمانی دور کے ابتدائی دور کی ہے[179] تاہم شہر میں کردوں کی آمد کا عمل 1970ء کی دہائی کے آخر میں کرد-ترکی تنازع کے آغاز سے تیز ہوا ہے۔[180] استنبول کے 20 سے 40 ملین باشندے کرد ہیں، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں استنبول میں کرد زیادہ ہیں۔[181][182][183][184][185][186]
بالات محلے میںسفاردی یہودیوں ایک بڑی برادری آباد تھی، جو سب سے پہلے 1492ء میںہسپانیہ سے بے دخل کے جانے بعد یہاں آباد ہوئے تھے۔[188] رومانیوت اوراشکنازی یہود سفاردیوں سے پہلے استنبول میں مقیم تھے لیکن اب ان کا تناسب کم ہو گیا ہے۔ آج استنبول کے 1 فیصد یہودی اشکنازی ہیں۔[189][190] بڑے پیمانے پر یہودی آبادی کیاسرائیل ہجرت کی وجہ سے ان کی آبادی 1950ء میں 100،000 سے کم ہوکر 2005ء میں 18،000 ہو گئی ہے، ان میں سے اکثریت استنبول یاازمیر میں مقیم ہے۔[191]
سیاسی طور پر استنبول کو ترکی میں ایک اہم ترین انتظامی خطے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ صدررجب طیب ایردوان سمیت بہت سےسیاست دانوں کا خیال ہے کہ استنبول میں سیاسی جماعت کی کارکردگی اس کی عام کارکردگی سے زیادہ اہم ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استنبول ترکی کا مالی مرکز ہے، اس کے انتخابی حلقے بڑے اور در حقیقترجب طیب ایردوان خود 1994ء میں استنبول کا میئر منتخب ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کا مالی مرکز، اس کے بڑے انتخابی حلقے اور اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ ایردوان خود 1994 میں استنبول کا میئر منتخب ہوا تھا۔2019ء کےترکی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے دوران، اردوان نے کہا تھا کہ 'اگر ہم استنبول میں ناکام ہو گئے تو ہم ترکی میں ناکام ہوجائیں گے'۔[192]
تاریخی طور پر استنبول نے1995ء سے عام انتخابات میں فاتح پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔2002ء کے بعد سے دائیں بازو کیجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے ہر عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے،24 جون2018ء کو ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اس کو 41.74 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اے کے پی کے صدارتی امیدواررجب طیب ایردوان کو اسی دن ہونے والے صدارتی انتخابات میں 50.0 فیصد ووٹ ملے تھے۔1994ء میں ایردوان کے ساتھ آغاز کرتے ہوئے، استنبول کے2019ء تک 25 سالوں سے قدامت پسند میئر رہ چکے ہیں۔ استنبول کی دوسری سب سے بڑیسیاسی جماعت مرکز میں بائیں بازو کیریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) ہے جو ملک کی اصل حزباختلاف جماعت بھی ہے۔ بائیں بازو کی کرد حمایت یافیہ جمہرری جماعتپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) اس شہر کی تیسری سب سے بڑی سیاسی قوت ہے جس کی اصل وجہ کافی تعداد میں کرد افراد جو جنوب مشرقی ترکی سے ہجرت کر یہاں آئے ہیں اس کے ووٹر ہیں۔
حال ہی میں استنبول اور ترکی کے بہت سے میٹروپولیٹن شہر حکومت اور ان کے دائیں بازو کے نظریہ سے دور رجحان کی پیروی کر رہے ہیں۔ 2013ء اور 2014ء میں بڑے پیمانے پر اے کے پی مخالف طاقتوں نے استنبول میں حکومت مخالف مظاہرے شروع کیے جو پورے ملک میں پھیل گئے۔ یہ رجحان سب سے پہلے 2014ء کے میئر انتخابات میں واضح ہوا جہاں مرکز کے بائیں بازو کے حزب اختلاف کے امیدوار نےکامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود 40 فیصد ووٹ حاصل کر لیے۔ استنبول میں حکومت کی پہلی شکست 2017ء کے آئینی ریفرنڈم میں ہوئی، جہاں استنبول نے 'نہیں' کو 51.4% سے 48.6% تک ووٹ دیا۔ اے کے پی کی حکومت نے 'ہاں' کے ووٹ کی حمایت کی تھی اور ملک کے دیہی علاقوں میں زیادہ حمایت کی وجہ سے یہ ووٹ قومی سطح پرجیت گیا تھاحکومت کو سب سے بڑی شکستترکی بلدیاتی انتخابات، 2019ء میں ہوئی، جہاں میئر کے لیے ان کے سابق وزیر اعظمبن علی یلدرم امیدوار تھے جنھیں اپوزیشن کے امیدواراکرم امام اوغلو نے ایک انتہائی کم فرق سے شکست دے دی۔ یلدرم کے 48.61% کے مقابلے میں امام اوغلو نے 48.77% ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح کے رجحانات اور اپوزیشن کو انتخابی کامیابیاںانقرہ،ازمیر،انطالیہ،مرسین،ادانا اور ترکی کے دیگر میٹروپولیٹن علاقوں میں بھی ملیں۔
انتظامی طور پر استنبول کو 39 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، جو ترکی کے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے۔ ایک صوبے کی حیثیت سے استنبول 98رکن پارلیمان کوترکی قومی اسمبلی میں بھیجتا ہے جس میں کل 600 نشستیں ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے مقصد کے لیے استنبول کو تین انتخابی اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، دو یورپی طرف اور ایک ایشیائی طرف سے جس میں بالترتیب 28، 35 اور 35 ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔
مساوی قوت خرید کے ساتھ استنبول کیخام ملکی پیداوار 301.1 بلینامریکی ڈالر ہے جس کا 2011ء میں دنیا کے شہری علاقوں میں درجہانتیسواں ہے۔[193] 1990ء کی دہائی کے وسط سے استنبول کی معیشتاو ای سی ڈی کے مطابق میٹرو علاقوں میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی رہی ہے۔[19]استنبول ترکی کیخام ملکی پیداوار کے 27 فیصد کا شراکت دار ہے جبکہ ملک کی 20 فیصد صنعتی افرادی قوت شہر میں مقیم ہے۔[19][194] اس کی فی کس خام ملکی پیداوار اور پیداواری صلاحیت قومی اوسط سے بالترتیب 70 فیصد اور 50 فیصد زیادہ ہے، جس کی وجہ اعلیٰ قیمت والی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اس کی آبادی اور ترکی کی معیشت میں نمایاں شراکت کے ساتھ، استنبول ملک کے ٹیکس محصول کا دوتہائی حصہ ادا کرتا ہے۔[19]اس میں استنبول میں مقیم 37 امریکی ڈالر ارب پتیوں کے ٹیکس بھی شامل ہیں جو دنیا بھر کے شہروں میں پانچویں نمبر پر ہے۔[195]
لیوینٹ کا ایک نظارہ، استنبول کا ایک اہم کاروباری ضلع اور شہر کی بلند عمارتوں کا گھر
اتے بڑے شہر کی توقع کے مطابق، استنبول کی متنوع صنعتی معیشت ہے وہ زیتون کے تیل، تمباکو، گاڑیاں اور الیکٹرانکس کی مختلف اشیا تیار کرتا ہے۔[194]اعلیٰ ویلیو ایڈڈ کام پر توجہ دینے کے باوجود اس کا کم ویلیو ایڈڈ مینوفیکچرنگ کا شعبہ خاطر خواہ ہے جو استنبول کی جی ڈی پی کے صرف 26 فیصد نمائندگی کرتا ہے لیکن شہر کی کل برآمدات کا پانچ چوتھائی حصہ ہے۔[19]2005ء میں استنبول میں قائم کمپنیوں نے 41.4 بلین ڈالر کی برآمدات کیں اور مجموعی طور پر 69.9 بلین ڈالر کی درآمدات موصول ہوئیں۔ یہ اعدادوشمار بالترتیب 57 فیصد اور 60 فیصد کے برابر تھے۔[196]
استنبول ترکی کی واحداسٹاک ایکسچینجبورسا استنبول کا گھر بھی ہے جواستنبول اسٹاک ایکسچینج،استنبول گولڈ ایکسچینج اورترکی کی تبادلہ ایکسچینج کو ضم کرنے سے وجود میں آئی۔[197][198] سابقہ استنبول اسٹاک ایکسچینج اصل میں 1866ء میں عثمانی اسٹاک ایکسچینج کے طور پر قائم کی گئی تھی۔[199]بیسویں صدی کے اوائل کے دوران میںغلطہ میںبینک اسٹریٹسلطنت عثمانیہ کا مالی مرکز تھا جہاں عثمانی اسٹاک ایکسچینج واقع تھی۔۔[200]بینک اسٹریٹ 1990ء کی دہائی تک استنبول کا اہم مالیاتی ضلع تھا تاہم اس کے بعد زیادہ تر ترک بینکوں نے اپنا مرکزی دفتر جدید مرکزی کاروباری اضلاعلیوینٹ) اور مسالک میں منتقل کرنا شروع کر دیے۔ 1995ء میں استنبول اسٹاک ایکسچینج (اببورسا استنبول) ضلعساریئر) میں اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہو گئی۔[201]عطا شہر میں ایک نیا مرکزی کاروباری ضلع بھی زیر تعمیر ہے اور تکمیل کے بعد ترکی کے مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے صدر دفتر کی میزبانی کرے گا۔[202]
بحیرہ اسود اوربحیرہ روم کے درمیان میں واحد بحری راستے کے طور پرآبنائے باسفورس دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ ہر سال 200 ملین ٹن سے زیادہ تیل آبنائے سے گزرتا ہے اور باسفورس پر ٹریفکنہر سوئز سے تین گنا زیادہ ہے۔[203] اس کے نتیجے میں شہر کے یورپی طرف آبنائے کے متوازیاستنبول کنال کے نام سے جانی جانے والی ایک نہر تعمیر کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہے۔[204] استنبول میں تین بڑیبندرگاہیں ہیں جوحیدر پاشا بندرگاہ، امبارلی بندرگاہ اور زیتون بورنو بندرگاہ ہیں۔ نیز باسفورس اوربحیرہ مرمرہ کے ساتھ کئی چھوٹی بندرگاہیں اور تیل کے ٹرمینلز موجود ہیں۔[205][206]حیدر پاشا بندرگاہ باسفورس کے جنوب مشرقی سرے پر موجود 2000ء کی دہائی کے اوائل تک استنبول کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی۔اس کے بعد امبارلی بندرگاہ شروع ہونے کے بعد یہ کافی مصروف بندرگاہ ہے اور حیدر پاشا کم استعمال ہو رہی ہے اور اس بندرگاہ کو بتدریج ختم کرنے کا منصوبہ بھی ہے۔[207] 2007ء میں شہری مرکز کے مغربی کنارے پر واقع امبارلی کی سالانہ گنجائش 15 لاکھٹی ای یو تھی (حیدرپاشا میں 354،000 ٹی ای یو کے مقابلے میں)، جو اسےبحیرہ روم کے طاس میں چوتھا بڑا کارگو ٹرمینل بناتا ہے۔[208][209] زیتون برونو بندرگاہ کو موٹر ویز اوراتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے کی قربت کا بھی فائدہ ہے۔[210] اور شہر کے لیے طویل مدتی منصوبوں میں تمام ٹرمینلز اور سڑک اور ریل نیٹ ورک کے مابین زیادہ سے زیادہ رابطے کی ضرورت ہے۔[211]
استنبول ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔ 2000ء میں 2 لاکھ 40 ہزار غیر ملکی سیاحوں نے اس شہر کا دورہ کیا۔ اس نے 2015ء میں 12.56 ملین غیر ملکی سیاحوں کا خیر مقدم کیا اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ دورہ کیا جانے والا شہر بنا۔[17][212] استنبولانطالیہ کے بعدترکی کا دوسرا سب سے بڑا بین الاقوامی گیٹ وے ہے جو ملک میں غیر ملکی سیاحوں کا ایک چوتھائی حصہ وصول کرنا ہے۔ استنبول کی سیاحتی صنعت یورپی طرف مرکوز ہے، شہر کے 90 فیصد ہوٹل یہیں موجود ہیں۔سرائے بورنو میں سستے اور اوسط کرائے کے ہوٹل ہیں، اعلیٰ درجے کے ہوٹل بنیادی طور پرشاخ زریں کے شمال میں تفریحی اور مالی مراکز میں ہیں۔استنبول میں سترعجائب گھر موجود ہیں، جن میںتوپ قاپی محل اورآیا صوفیہ سب سے زیادہ دیکھیے جانے والے ہیں، یہ عجائب گھر ہر سال 30 ملین ڈالر کی آمدنی دیتے ہیں۔ شہر کے ماحولیاتی ماسٹر پلان میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ استنبول میں تاریخی اہمیت کے حامل 17 محل، 64 مساجد اور 49 گرجا گھر موجود ہیں۔[213]
استنبول تاریخی طور پر ایک ثقافتی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا لیکنجمہوریہ ترکی کے قیام کے بعددار الحکومت کیانقرہ منتقلی سے ثقافتی منظر نامہ کا رخ منتقل ہو گیا۔[215] نئی قومی حکومت نے ایسے پروگرام قائم کیے جن سے ترکوں کو موسیقی کی روایات کی طرف راغب کیا گیا، خاص طور پر وہ جو یورپ میں شروع ہوئے، لیکن موسیقی کے ادارے اور غیر ملکی کلاسیکی فنکاروں کے دورے بنیادی طور پر نئے دار الحکومت میں مرکوز ہیں۔[216] ترکی کے بیشتر ثقافتی منظر کی جڑیں استنبول میں ہی تھیں اور 1980ء اور 1990ء کی دہائی تک استنبول ایک ایسے شہر کی حیثیت برقرارنہ رکھ سکا جس کی ثقافتی اہمیت صرف اس کی ماضی کی عظمت پر مبنی ہے۔[217]
انیسویں صدی کے آخر تک استنبول ایک علاقائی فنکارانہ مرکز کے طور پر اپنے آپ کو قائم رکھا، ترکی، یورپی اور مشرق وسطی کے فنکار شہر کی طرف آ رہے تھے۔انقرہ کو ترکی کا ثقافتی دل بنانے کی کوششوں کے باوجود استنبول 1970ء کی دہائی تک ملک کا بنیادی مرکز فن تھا۔[218] جب 1980ء کی دہائی کے دوران میں استنبول میں اضافی جامعات اور آرٹ جرائد کی بنیاد رکھی گئی تھی تو پہلے سے انقرہ میں مقیم فنکار یہاں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔[219]بے واغلو شہر کے فنکارانہ مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے، نوجوان فنکار اور بوڑھے ترک فنکار جو پہلے بیرون ملک مقیم تھے قدم جماتے نظر آتے ہیں۔ استنبول میں جدیدعجائب گھر جن میں پیرا عجائب گھر،ثاقب سابانجی عجائب گھر اوراستنبول ماڈرن شامل ہیں 2000ء کی دہائی میں نمائش گاہوں اور نیلام گھروں میں جدید اضافہ تھا جو شہر کی کثیر ثقافتی قدر کو بڑھانے کا موجب بنے۔[220] ان عجائب گھروں کو ابھی تک تاریخی جزیرہ نما کے پرانے عجائب گھروں کی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے، اس میںاستنبول آثاریات عجائب گھر اورترکی اور اسلامی فنون عجائب گھر بھی شامل ہیں جو ترکی میں جدید عجائب گھروں کے عہد کا آغاز تھا۔[213][214]
استنبول فیسٹیول کا قیام ثقافتی بازگشت کے ساتھ مربوط ہونا تھا، جس نے 1973ء میں ترکی اور پوری دنیا سے مختلف قسم کے فن کی نمائش شروع کی۔اسی مشعل بردار فیسٹیول سے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی استنبول فلم فیسٹیول اور استنبول انٹرنیشنل جاز فیسٹیول آیا۔ اس کی توجہ اب صرف موسیقی اور رقص پر مرکوز ہے، استنبول فیسٹیول کو 1994ء سے استنبول بین الاقوامی میوزک فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔[221] اصل استنبول فیسٹیول سے نکلے جانے والے دیگر تہواروں میں سب سے نمایاں استنبول بائینیئل ہے جو 1987ء کے بعد سے ہر دو سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس کا ابتدائی مقصد ترکی کے بصری فن کی نمائش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بین الاقوامی فنکاروں کے لیے کھلا اور وینس بینیال اور ساؤ پالو آرٹ بینیئل کے ساتھ ساتھ ایلیٹ بائناالس میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔[222]
استنبول صدیوں کے دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں کا دار الحکومت رہا جس کی یہ ثقافت کا ایک بڑا مرکز بھی ہے۔ شہر میں جا بجا تاریخی عمارتیں ہیں جن میں کئی اب عجائب گھروں میں تبدیل ہو جکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہاں متعددعجائب گھر موجود ہیں جن میں اہم عجائب گھر کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
ترکی میں پہلی فلم کی نمائشیلدز محل میں 1896ء میں ہوئی پیرس میں اس ٹیکنالوجی کے عوامی آغاز کے ایک سال بعد۔[223]بے اوغلو میں سینما گھر اور تھیٹر تیزی پھیلنا شروع ہو گئے، سینما گھروں کی بڑی تعداد سڑک کے کنارے مرکوز تھی جسے ابشارع استقلال کہا جاتا ہے۔[224] استنبول ترکی کی جدید فلم انڈسٹری کا دل بن گیا، حالانکہ 1950 کی دہائی تک ترک فلمیں مستقل طور پر تیار نہیں کی گئیں۔[225] تب سے استنبول ترکی ڈراموں اور مزاح نگاروں کی فلم بنانے کا سب سے مقبول مقام رہا ہے۔[226]
صدی کے دوسرے نصف حصے میں ترک فلمی صنعت میں تیزی آگئی اور اوزاک (2002) اور میرے والد اور میرے بیٹے (2005) دونوں کی عکس بندی استنبول میں کی گئی۔ ملکی فلموں میں بین الاقوامی سطح پر کافی کامیابی نظر آتی ہے۔[227] استنبول اور اس کی دلکش عمارتوں نے متعدد غیر ملکی فلموں کے پس منظر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ چند مشہور بین الاقوامی فلموں میںفرام رشیا ود لوو،دا ورلڈ از ناٹ اینف،ٹیکن 2،عثمانی لیفٹیننٹ،مشن استنبول اور توپ قابی شامل ہیں۔ استنبول میں فلمائی گئی دیگر فلموں میںجوانی پھر نہیں آنی 2،دل دھڑکنے دو،ایک تھا ٹائیگر،بیبی،ریس 2،ہجرت اوروار شامل ہیں۔
اس ثقافتی بازگشت کے ساتھ مربوط استنبول فیسٹیول کا قیام تھا، جس نے 1973ء میں ترکی اور دنیا بھر سے مختلف فنون کی نمائش شروع کی۔ اسی فلیگ شپ فیسٹیول سے سن 1980 کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی استنبول فلم فیسٹیول اور استنبول انٹرنیشنل جاز فیسٹیول شہر میں منعقد ہونا شروع ہوا۔ اپنی پوری توجہ صرف موسیقی اور رقص پر مرکوز ہونے کی وجہ سے استنبول فیسٹیول کو 1994ء سے استنبول انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔[228]
تاریخی سے جدید تک استنبول میں متعدد خریداری مراکز ہیں۔بڑا بازار 1461ء کے بعد سے چل رہا ہے یہ دنیا کے قدیم ترین اور چھتے بازاروں میں سے ایک ہے۔[229][230] محمود پاشا بازار ایک کھلا ہوا بازار ہے جوبڑا بازار اورمصری بازار کے مابین پھیلا ہوا ہے جو 1660ء سے استنبول کی مسالا کی بڑی منڈی ہے۔1987ء میں جب گیلریا اتاکوئے کا افتتاح ہوا تو ترکی میں جدید شاپنگ مالز کے زمانے کا آغاز ہوا۔[231] اس کے بعد سے تاریخی جزیرہ نما کے باہر بڑے شاپنگ سینٹرز بن گئے ہیں۔
استنبول اپنے تاریخی سمندری غذا والے ریستورانوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ شہر کے بہت سے مشہور اور اعلیٰ سمندری غذا والے ریستوراںباسفورسکے کنارے واقع ہیں خاص طور پراورتاکوئے، بیبک،ارناوتکوئے، ینی کوئے،بے لربئی اور چنگال کوئے میں۔بحیرہ مرمرہ کے ساحل کے ساتھقوم قاپی پیدل چلنے والا زون ہے جس میں پچاس کے قریب مچھلی والے ریستوراں ہیں۔[232]جزائر پرنس شہر کے مرکز سے 15 کلومیٹر (9 میل)، سمندری غذا والے ریستوراں کے لیے بھی مشہور ہیں۔ان ریستوراںوں، موسم گرما کی تاریخی حویلیوں اور کار سے پاک سڑکوں کی وجہ سےجزائر پرنس استنبول اور غیر ملکی سیاحوں کے درمیان میں چھٹیوں کا ایک مقبول مقام ہے۔[233]
استنبول عثمانی کھانوں کی جدید ترین اور وسیع پیمانے پر پکے پکوان کے لیے بھی مشہور ہے۔ 1960ء کی دہائی میں شروع ہونے والے جنوب مشرقی اور مشرقی ترکی سے آنے والے تارکین وطن کی آمد کے بعد صدی کے آخر تک اس شہر کے کھانے کا نظارہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ مشرق وسطی کے کھانا جیسےکباب کھانے کے منظر میں ایک اہم جگہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔غیر ملکی کھانوں والے ریستوراں بنیادی طوربے اوغلو،بیشکتاش،شیشلی اورقاضی کوئے اضلاع میں مرتکز ہیں۔
استنبول فعال رات کی زندگی اور تاریخی ٹیورنز کے لیے بھی مشہور ہے جو صدیوں سے شہر کی ایک خصوصیت ہے۔شارع استقلال پر چیچک پاسجی اب شراب خانوں پب اور ریستوراںوں کا گھر ہے۔[234] استقلال ایوینیو جو اصل میں اپنے طعام خانوں کے لیے جانا جاتا ہے، خریداری کی طرف بڑھ گیا ہے، لیکن قریب کی نیویزادے اسٹریٹ اب شراب خانوں اور پبوں سے بھری ہے۔[235][236] استقلال ایونیو کے آس پاس کے کچھ دوسرے محلوں کوبے اوغلو کی رات کی زندگی کے لیے نئے سرے سے تشکیل دیا گیا ہے، اب تجارتی گلیوں میں پب، کیفے اور ریستوراں موجود ہیں جن میں لائیو موسیقی ایک خاص خصوصیت ہے۔[237] استنبول کی رات کی زندگی کے دیگر فوکل پوائنٹ میںنشان تاشی،اورتاکوئے، بیبک اورقاضی کوئے شامل ہیں۔[238]
استنبول میں ترکی کے سب سے قدیم اسپورٹس کلبوں کا گھر ہے۔ "بیشکتاش جے کے" جو 1903ء میں قائم ہوا ان کھیلوں کے کلبوں میں سب سے قدیم سمجھا جاتا ہے۔ غلطہ سرائے اپورٹس کلب اور فنارباہچے اپورٹس کلب بین الاقوامی مقابلوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور بالترتیب 22 اور 19 مرتبہ سوپر لیگ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔[239][240][241] استنبول میں باسکٹ بال کی سات ٹیمیں ہیں جو ترک باسکٹ بال سپر لیگ میں کھیلنی ہیں۔[242]
سنان ایردم ڈوم یورپ کے سب سے بڑے انڈور کھیلوں کے میدانوں میں سے ایک ہے۔ اس نے 2010ء فیبا ورلڈ چیمپینشپ کے فائنل کی میزبانی، 2012ء آئی اے اے ایف ورلڈ انڈور چیمپین شپ، اس کے ساتھ ساتھ 2011ء–12ء یورو لیگ اور 2016ء–17ء یورو لیگ فائنل فور کی بھی میزبانی کی۔[243] اولکر اسپورٹس ارینا جو فنارباہچے باسکٹ بال ٹیم کا ہوم کورٹ ہے 2012ء میں کھلا۔تعمیراتی عروج کے باوجودگرمائی اولمپکس کے لیے شہر نے پانچ بولیاں دیں جس میں2000ء گرمائی اولمپکس،2008ء گرمائی اولمپکس،2012ء گرمائی اولمپکس، 2020ء گرمائی اولمپکس اور اس کے علاوہیوئیفا یورو 2016ء شامل ہیں تاہم یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔[244]
2005ء اور 2011ء کے درمیان میں استنبول پارک ریسنگ سرکٹ نے سالانہفارمولا ون ترک گراں پری کی میزبانی کی۔[245] 1952ء میں قائم ہونے والا استنبول کشتی رانی کلب ہر سال استنبول کے آس پاس کی آبی گزرگاہوں پر ریس اور دوسرے کشتی رانی کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔[246][247] ترکی کے ساحل سمندر ریسنگ کلب میں بڑی کشتیاں بھی شامل ہیں جیسے کہ سالانہ نیول فورس ٹرافی۔[248]
شکرو سراج اوغلو اسٹیڈیم استنبول،ترکی کے ضلعقاضی کوئے میں ایک کثیر المقاصداسٹیڈیم ہے۔اس اسٹیڈیم کا افتتاح سنہ 1908ء میں ہوا اور 1929ء سے 1932ء، 1965ء سے 1982ء اور 1999ء سے 2006ء کے درمیان میں اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ اسٹیڈیم کا انتخاب 2009ء کے یوئیفا کپ فائنل کی میزبانی کے لیے کیا گیا تھا۔[253][254][255]
ووڈافون پارک استنبول،ترکی کے ضلعبیشکتاش میں ایک کل نشستی کثیر المقاصداسٹیڈیم ہے۔[256][257] یہ "بیشکتاش جے کے" سب سے قدیم کلب کا گھر ہے۔ اس میں تقریباْ 41،188 شائقین کی گنجائش ہے۔ اسٹیڈیم نے یوئفا سپر کپ 2019ء کی میزبانی کی تھی۔
زیادہ تر سرکاری سطح پر چلنے والے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشنانقرہ میں قائم ہیں، لیکن استنبول ترک میڈیا کا بنیادی مرکز ہے۔ سابقہ دار الحکومت میں اس صنعت کی جڑیں یہاں موجود ہیں۔باب عالی اسٹریٹ تیزی سےشاخ زریں ترکی بھر میں پرنٹ میڈیا کا مرکز بن گیا۔[258] استنبول میں اب کئی طرح کے رسالے موجود ہیں۔ زیادہ تر ملک گیر اخبارات بیک وقتانقرہ،ازمیر اور استنبول سے شائع ہوتے ہیں۔[259]حریت، صباح، پوستا اور سوزجو ملک کے اعلیٰ چار اخبارات ہیں، سب کا صدر دفتر استنبول میں ہے، جس میں ہر ایک میں 275،000 سے زیادہ ہفتہ وار فروخت ہوتے ہیں۔[260] استنبول میںآرمینیائی زبان میں بھی اخبارات شائع ہوتے ہیں۔حریت 1948ء میں قائم ہونے والا ایک ترکی اخبار ہے۔ جنوری 2018ء میںترکی میں اس کی گردش کسی بھی اخبار سے زیادہ تھی جس کہ 3193،000 کے قریب تھی۔[261]
ترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن ترکی میں "عوامی نشریات "کا ذکر کرنے پر جو اولین اور واحد ادارہ ذہن میں آتا ہے وہ ٹی آر ٹی ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 میں عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے ٹی آر ٹی کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ بٹن دبانے یا پھر چینل گھمانے پر ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جانے والے ریڈیو کے ساتھ 1960 کی دہائی کے آخر میں ایک نیا دوست اس کے ساتھ شامل ہوا یعنی ٹیلی ویژن۔ ترکی میں ٹیلی ویژن پہلی دفعہ 31 جنوری 1968 میں ٹی آر ٹی کے وسیلے سے متعارف ہوا۔81 سالہ ریڈیو اور 40 سالہ ٹیلی ویژن نشریات کے ساتھ ٹی آر ٹی جمہوریت کی تاریخ کا حافظہ بننے کے ساتھ ساتھ مہارت، تعمیر اور ذمہ داری کے نقۡطہ نظر سے ایک بااعتماد اخوت اور اتحاد کا نشان بن گیا۔اپنے کارکنوں کے عزم اور فداکاری کی وجہ سے ٹی آر ٹی نے ترک قوم کے دلوں مین کبھی نہ ختم ہونے والا مقام حاصل کیا ہے۔ ترکی کے نشر و اشاعت کی درس گاہ بننے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ قابل اعتماد ادارے کی حیثیت سے آج کے دور تک پہنچنے والے ٹی آر ٹی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے شعبہ نشریات ٰ٘ن کامیاب ترین پروگراموں کو بھی پروان چڑھایا۔ اس صورتِ حال میں قدرتی طور پر ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور رنگین پروگرام ترکی ٹیلی ویژن کی رونق بنا۔ٹی آر ٹی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے شعبے میں صرف ایک نشریاتی ادارے ہونے پر ہے انحصار نہیں کیا بلکہ ایک گہری بنیادوں کے حامل تعلیمی ادارے کا کردار بھی ادا کیا ہے۔اور یہ زیر بحث کردار صرف نشریات سے وابستہ عملے کی ہیتعلیم و تربیت کے حوالے سے نہیں بلکہ فراہم کردہ خبروں اور معلومات کے ذریعے اپنے ناظرین کی تعلیم و تربیت کے نقطہ نظر سے بھی ایک ناقابلِ فراموش اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح کے با معنی اور اہم مشن کے حامل ٹی آر ٹی نے غیر جانبدار، قابلِ اعتماد خبر فراہم کرنے کے نقطہ نظر اور عوامی نشریات کے اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انمول معیار کے پروگراموں کے ذریعے دنیا کے گنے چنے نشریاتی اداروں میں جگہ حاصل کر لی ہے۔اس کامیابی کا سبب بننے والی سرگرمیوں کو ان عنوانات کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے۔
استنبول میں قائم بہترین جامعات حکومت کے زیر انتطام ہیں تاہم اس شہر میں متعدد ممتاز نجی ادارے بھی ہیں۔ استنبول میں پہلی جدید نجی یونیورسٹی، جو ریاستہائے متحدہ سے باہر اس کا سب سے قدیم امریکی اسکول ہےرابرٹ کالج تھا جس کے بانی ایک امریکی سماجی کارکن کرسٹوفر رابرٹ تھے۔ 1971ء میں یہبوغازچی یونیورسٹی بن گیا۔ جبکہ اس کا باقی حصہ آج بھیرابرٹ کالج کے نام سے کام کر رہا ہے۔[272][273]1982ء کے آئین سے قبل نجی جامعات کو ترکی میں باضابطہ طور پر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن 1970ء تک استنبول میں پہلے ہی پندرہ نجی "ہائی اسکول" موجود تھے، جو مؤثر طریقے سے یونیورسٹیاں تھیں۔1982ء کے بعد استنبول میں قائم پہلی نجی یونیورسٹیکوچ یونیورسٹی تھی جس کا قیام 1992ء میں عمل میں آیا اور اگلی دہائی کے میں ایک درجن جامعات بنیں۔[272]آج شہر میں کم از کم 30 نجی جامعات ہیں۔[274][275][276]
استنبول میں پانی کی فراہمی کا پہلا نظام شہر کی ابتدائی تاریخ سے ملتا ہے جب شہر کوآبراہوں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا مثلاًوالنس آبراہ ایک رومیآبراہ ہے جومشرقی رومی سلطنت کےدار الحکومتقسطنطنیہ (جدید استنبول، ترکی) کو پانی فراہم کرنے والا سب سے بڑا نظام تھا۔ اسےچوتھی صدی عیسوی کے آخر میںرومی شہنشاہ والنس نے مکمل کیا۔ اس کا انتظامبازنطینیوں اور بعد میںعثمانیوں نے کیا اور اسے استعمال کیا گیا۔ اب یہ شہر کے سب سے اہم مقامات میں سے ایک ہے۔ان آبراہوں سے پانی شہر کے متعدد تالابوں میں جمع کر دیا جاتا تھا۔[277]سلیمان اول کے حکم پرکرک چشمہ (Kırkçeşme) پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک تعمیر کیا گیا۔ 1563ء تک یہ نیٹ ورک 158 مقامات کو ہر روز 4،200 مکعب میٹر (150،000 مکعب فٹ) پانی فراہم کرتا تھا۔[277]بعد کے برسوں میں عوامی طلب کے بڑھنے پر مختلف چشموں سے پانی کو عوامی سبیلوں جیسےسبیلاحمد ثالث سپلائی لائنوں کے ذریعہ شہر کو پانی فراہم کرتے تھے۔[278] آج استنبول میں ایک کلورینیٹڈ اور فلٹر پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام کو استنبول واٹر اینڈ سیوریج انتظامیہ کے زیر انتطام ہے۔[279]
شاخ زریں کے ساتھ کوئلہ سے چلنے والابجلی گھر، صلاحترآغا پاور اسٹیشن، 1914ء اور 1952ء درمیان میں استنبول کا واحد بجلی کا ذریعہ تھا۔[280] جمہوریہ ترکی کی تشکیل کے بعد اس پلانٹ کو بہتر بنایا گیا تاکہ شہر کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ اس کی گنجائش 1923ء میں 23 میگا واٹ سے بڑھ کر 1956ء میں 120 میگا واٹ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔[280][281] صلاحیت میں کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ پاور اسٹیشن اپنی معاشی زندگی کے اختتام کو پہنچا اور 1983ء میں بند ہو گیا۔[280]سرکاری طور پر چلنے والی ترک الیکٹریکل اتھارٹی (ٹی ای کے) 1970ء سے 1984ء کے دوران میں اپنی بجلی کی پیداوار اور تقسیم پر اجارہ داری تھی۔لیکن اب اتھارٹی دو حصوں "ترکی بجلی کی پیداوار ٹرانسمیشن کمپنی" (TEAŞ) اور "ترک بجلی تقسیم کار کمپنی" (TEDAŞ) کے درمیان میں تقسیم ہو گئی ہے۔[281]
عثمانی وزارت ڈاک اور ٹیلی گراف 1840ء میں قائم کیا گیا اور پہلا ڈاکخانہینی مسجد کے صحن کے قریب کھلا۔ 1876ء تک استنبول اور سلطنت عثمانیہ سے باہر کے علاقوں کے مابین پہلا بین الاقوامی ڈاک نیٹ ورک قائم ہو چکا تھا۔[282]عبد المجید اول نے 1847ء میں ٹیلی گراف کے لیے سموئیل مورس کے کوڈ استعمال کرتے ہوئے پہلا سرکاری ٹیلی گراف بھیجا۔ استنبول اورادرنہ کے مابین پہلی ٹیلی گراف لائن کی تعمیر 1856ء میں ہوئی جس پرجنگ کریمیا کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔[283]
استنبول میں 1881ء میں ٹیلی فون کا ایک نیا نظام ابھرنا شروع ہوا اور 1909ء میں استنبول میں پہلا دستی ٹیلی فون ایکسچینج چلنے کے بعد، ڈاک اور ٹیلی گراف کی "وزارت ڈاک، ٹیلی گراف اور ٹیلی فون" کی وزارت بن گئی۔[282][284] جی ایس ایم سیلولر نیٹ ورک 1994ء میں ترکی پہنچا جہاں استنبول اس کی خدمت حاصل کرنے والے پہلے شہروں میں شامل ہے۔[285] موجودہ دور میں نجی کمپنیوں کے ذریعہموبائل اور لینڈ لائن سروس مہیا کی جاتی ہے کیونکہ "ترک ٹیلی کام" 1995ء میں "وزارت ڈاک، ٹیلی گراف اور ٹیلی فون" الگ ہو گئی اور 2005ء میں اس کی نجکاری کر دی گئی۔[282][285]ڈاک سروسز اب بھی اسی دائرہ کار میں ہیں تاہم اس اس کا نام "پوسٹ اور ٹیلی گراف آرگنائزیشن" ہے۔[282]
2000ء میں استنبول میں 137 اسپتال تھے جن میں سے 100 نجی تھے۔[286] ترک شہری سرکاری سطح پر چلائے جانے والے اسپتالوں میں امدادی صحت کی دیکھ بھال کے حقدار ہیں۔[259]چونکہ سرکاری اسپتالوں میں بھیڑ ہوتی ہے یا زیادہ وقت لگتا ہے اس لیے نجی اسپتال ان لوگوں کے لیے افضل ہیں جو ان کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران میں ان کے پھیلاؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، چونکہ 2005ء سے 2009ء کے درمیان میں نجی اسپتالوں میں علاج کروانے والے مریضوں کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گئی ہے۔[259][287] ان میں سے بہت سے نجی اسپتالوں کے ساتھ ساتھ کچھ سرکاری اسپتال ہائی ٹیک آلات سے لیس ہیں۔[288] صحت کی دیکھ بھال کے اعلیٰ معیار خاص طور پر نجی اسپتالوں میں، ترکی میںطبی سیاحت میں حالیہ اضافے میں مدد ملی ہے (2007ء اور 2008ء کے درمیان میں 40 فیصد اضافے کے ساتھ)۔[289] طبی سیاحوں میں لیزر سے آنکھوں سرجری خاص طور پر عام ہے، کیونکہ ترکی اس طریقہ کار میں مہارت کے لیے جانا جاتا ہے۔[290]
استنبول ترکی کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے۔ یہ ترکی کی شاہراہوں سے ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہے۔موٹر وےاو-1 شہر کے گرد رنگ روڈ بناتی ہے۔یورپی روٹ ای 80 ترکی کو یورپ کے دیگر ملکوں سے منسلک کرتی ہے۔[291]
استنبول ایک بین براعظمی شہر ہے اورآبنائے باسفورس شہر کو ایشیائی اور پورپی حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ یہ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے تنگآبنائے ہے جوبحیرہ اسود کوبحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے۔ برینقل و حمل کے لیےآبنائے پر پل بنائے گئے ہیں۔ اسی طرحشاخ زریںآبنائے باسفورس کی ایک قدرتی خلیج ہے جو شہر کے یورپی حصے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک قدرتیبندرگاہ بناتی ہے۔آبنائے باسفورس کی طرحشاخ زریں پر بھی بری نقل حمل کے لیے پل موجود ہیں۔ استنبول کی بری نقل و حمل میں یہ پل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
باسفورس پل استنبول،ترکی میںآبنائے باسفورس پر قائم ایک پل ہے۔ یہ شہر کے یورپی علاقےاورتاکوئے اور ایشیائی حصےبے لربئی کو ملاتا ہے اور باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔ یہ پل 1510میٹر طویل ہے جبکہ اس کی عرصے کا عرض 39 میٹر ہے۔ اس کے دونوں برجوں کے درمیان میں فاصلہ 1074 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے بلندی 105 میٹر ہے۔ یہسطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے اور1973ء میں تکمیل کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا سسپنشن پل بن گیا تاہم یہریاستہائے متحدہ امریکا سے باہر دنیا کا سب سے بڑا سسپنشن پل ہے۔
آبنائے باسفورس پر پل کی تعمیر کا فیصلہ پہلی بار1957ء میں عدنان میندریس کے دور حکومت میں کیا گیا۔ اس کے نقشے کے لیےبرطانیہ کے ادارے فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز کے ساتھ1968ء میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ پل کا نقشہ معروف برطانوی ماہر تعمیرات سر گلبرٹ رابرٹس نے تیار کیا۔ تعمیر کا آغازفروری1970ء میں ہوا جس میں اُس وقت کے صدر جودت سونے اور وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل نے بھی شرکت کی۔ تعمیراتی کام ترک ادارے انکا انسات و صناعی نے انجام دیا۔ اس کام میں برطانیہ اورجرمنی کے دو ادارے میں شامل تھے۔ منصوبے پر 35 مہندسین اور 400 افراد نے کام کیا۔پل کی تعمیر جمہوریہ ترکی کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے صرف ایک روز بعد30 اکتوبر1973ء کو مکمل ہوئی۔ اس کا افتتاح صدر فہری کوروترک اور وزیر اعظم نعیم تولو نے کیا۔ باسفورس پل کی تعمیر پر 200 ملینامریکی ڈالر کی لاگت آئی۔
فاتح سلطان محمد پل استنبول،ترکی میںآبنائے باسفورس پر واقع ایک پل ہے۔ یہ پلپندرہویں صدی کے عثمانی سلطانمحمد ثانی المعروفمحمد فاتح سے موسوم ہے جنھوں نے1453ء میںاستنبول فتح کیا تھا۔یہ پل استنبول کے یورپی علاقے حصارشتو اور ایشیائی علاقے کاواجک کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ پل 1510میٹر طویل ہے اور اس کے عرشے کا عرض 39 میٹر ہے۔ برجوں کے درمیان میں فاصلہ 1090 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے اس کی بلندی 105 میٹر ہے۔ یہ پل سطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے۔ فاتح پل کو1988ء میں اپنی تکمیل کے بعد دنیا کے چھٹے طویل ترین سسپنشن پل کا اعزاز ملا۔
تینجاپانی، ایکاطالوی اور ایک ترک ادارے کے مشترکہ بین الاقوامی منصوبے سے اس پل کی تعمیرات کا کام انجام دیا۔ اس کا نقشہ فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز نے بنایا۔ پل3 جولائی1988ء کو مکمل ہوا اور اس کا افتتاح اس وقت کے ترک وزیر اعظم ترغت اوزال نے کیا جو اپنی گاڑی کے ذریعے اس پل کو پار کرنے والے پہلے شخص بھی تھے۔ پل پر 130 ملینامریکی ڈالر کی لآگت آئی۔
یوریشیا سرنگ استنبول،ترکی میں ایک زمین دوز سرنگ ہے جوآبنائے باسفورس کے نیچے بنائی گئی ہے۔ سرنگ کا باضابطہ افتتاح20 دسمبر2016ء کو ہوا[294][295][296] اور22 دسمبر2016ء کو اسے ٹریفک کے لیے کھولا گیا۔5.4 کلومیٹر (3.4 ملی میٹر) دو منزلہ سرنگ استنبول کے یورپی حصےقوم قاپی کو ایشیائی حصےقاضی کوئے سے جوڑتی ہے[297] کل راستہ 14.6 کلومیٹر (9.1 میل) ہے جس میں سرنگ تک جانے والی سڑکیں بھی شامل ہیں۔[298] یہ سمندری فرش کے نیچے باسفورس کو 106 میٹر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی میں پار کرتا ہے۔[299][300][301] دونوں براعظموں کے مابین سفر میں 5 منٹ لگتے ہیں۔[296][298][300][302]
غلطہ پلشاخ زریں، استنبول،ترکی میں واقع ایک پُل ہے۔ جو زمانۂ قدیم سے مختلف صورتوں میں اس کھاڑی پر مختلف صورتوں میں موجود رہا ہے اور آج جو پل اس مقام پر قائم ہے وہ پانچواں پل ہے۔ غلطہ پل خصوصاًانیسویں صدی کے اواخر سے ترک ادب، تھیٹر،شاعری اور ناولوں کا حصہ بنتا رہا ہے۔ شاخ زریں پر قائم قدیم ترین پل کے شواہد چھٹی صدی عیسوی میں ملتے ہیں جب جسٹینین اعظم نے شہر کے مغربی کنارے پر تھیوڈیسیائی دیواروں کے قریب ایک پل تعمیر کیا تھا۔1453ء میںفتح قسطنطنیہ کے موقع پر ترکوں نے کشتیوں سے ایک متحرک پل قائم کیا تاکہ افواج کو شاخ زریں کے دوسرے کنارے پر پہنچایا جا سکے۔
سلطانبایزید ثانی کے عہد میں1502ء میں موجودہ مقام پر ایک پل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور اس امر کے لیے معروف اطالوی مصورلیونارڈو ڈا ونچی نے 240میٹر طویل اور 24 میٹر عریض پل کا نقشہ پیش کیا۔ جو تعمیر کی صورت میں اپنے وقت کا دنیا کا سب سے طویل پل ہوتا۔ اور ایک اطالوی مصورمائیکل اینجلو کو بھی پل کی تعمیر کے لیے نقشہ بنانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرادی اور اس طرحانیسویں صدی تک شاخ زریں پر پل کی تعمیر کا خیال شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
خلیج پلشاخ زریں (ترکی زبان:Haliç خلیج) پر استنبول،ترکی میں ہائی وے پل ہے۔ یہ جنوب مغرب میںایوان سرائے کو شمال مغرب میںہاسکوئے سے ملاتا ہے۔ یہ 1971ء اور 1974ء کے درمیان میں تعمیر کیا گیا۔پل کی لمبائی 995 میٹر (3،264 فٹ)، چوڑائی 32 میٹر (105 فٹ)اورسطح سمندر سے بلندی 22 میٹر (72 فٹ) ہے۔
16 اپریل 1987ء کو بلدیہ استنبول نے تیز رفتار سمندری نقل و حمل کی فراہمی کے لیے ایک کمپنی قائم کی۔ پہلی دس بحری بسیںناروے سے خریدی گئیں جس سے استنبول کی سمندری نقل و حمل کو جدید بنا دیا گیا۔ آج کمپنی آئی ڈی او کے 29 ٹرمینلز میں 28 بحری بسوں کا بیڑا خدمات انجام دے رہا ہے، جس میں چھ تیز کار فیری بھی شامل ہیں۔
استنبول ساری دنیا کے سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام ہے اور زیادہ تر سیاح فضائی راستے سے استنبول آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامان اور تجارت کے لیے بھی فضائی راستہ مقبول ہے خاص طور پر جب وقتی طور پر شہر ریل کے نظام سے منسلک نہیں۔
ترک ریاستی ریلوے مخففٹی سی ڈی ڈی حکومتی ملکیت کی قومی ریلوے کمپنی ہے جو ترکی میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی ملکیت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ نئی لائنوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی بھی ذمہ دار ہے۔ ترکی میں ریلوے کو قومیائے کے عمل کے طور پر 4 جون 1929ء کو ٹی سی ڈی ڈی تشکیل دی گئی۔[312] ترکی کی ریاستی ریلوے ترکی میں تمام عوامی ریلوے کی مالک اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس میں ریلوے اسٹیشن، بندرگاہیں، پل اور سرنگیں، یارڈ اور دیکھ بحال کی سہولیات شامل ہیں۔ 2016ء میںء ٹی سی ڈی ڈی کے زیر انتظام 12،532 کلومیٹر (7،787 میل) ریلوے کا ایک فعال نیٹ ورک تھا جو اسے دنیا کا بائیسواں سب سے بڑا ریلوے نظام بناتا ہے۔انقرہ اور ترکی کے دیگر مقامات کو خدمت عام طور پرترک ریاستی ریلوے کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے لیکنمرمرائی اور انقرہ-استنبول تیز رفتار لائن کی تعمیر نے اس اسٹیشن کو 2012ء میں بند کرنے پر مجبور کر دیا۔[311]
استنبول میٹرو استنبول،ترکی میںعاجلانہ نقل و حمل ایک ریلوے نیٹ ورک ہے۔ یہمیٹرو استنبول کے زیر انتظام ہے۔میٹرو کا سب سے قدیم سیکشن ایم ون لائن ہے جو 1989 میں کھولی تھی، اب اس میں 89 اسٹیشن شامل ہیں اور 64 مزید زیر تعمیر ہیں۔[313][314]
استنبول یاد ماضی ٹراموے استنبول،ترکی میں دو ثقافتی ورثہ ٹرام کے راستے ہیں، اس کا بنیادی مقصد شہر کے قدیم ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنا ہے۔ جدیداستنبول ٹرام استنبول کے یورپی حصے ٹرام کا ایک جدید نظام ہے۔ پہلا سیکشن "ٹی 1" 1992ء میں کھولا گیا اس کے بعد "ٹی 2" کا افتتاح 2006ء میں ہوا۔ "ٹی 4" 2007ء میں کھولا گیا۔[323][324]
بس کے بیڑے میں کل 4،012 مختلف انوع کی بسیں موجود ہیں۔[325][326] 2012ء میں روزانہ سواریوں کی تعداد 3،621،908 تھی، جو شہر کی کل یومیہ نقل و حمل کا 30% کی نمائندگی کرتی ہے۔[327][328]
ترکی میںفضائی آلودگی استنبول میں کاروں، بسوں اور ٹیکسیوں کی وجہ سے شدید ہے جس کی وجہ سے اکثر شہر کواسموگ[329] کا سامنا ہوتا ہے، یہ کم اخراج زون والے یورپی شہروں میں سے ایک ہے۔2019ء میں شہر کی فضائی کوالٹی ایک سطح پر رہی ہے اور ٹریفک کے اوقات کے دوران میں صحت مند لوگوں کے دل اور پھیپھڑوں کو متاثر کیا۔[330]
↑"YETKİ ALANI"۔ Istanbul Buyuksehir Belediyesi۔ 2020-04-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-04
↑İstanbul Province = 5,460.85 km² Land area = 5,343.22 km² Lake/Dam = 117.63 km² Europe (25 districts) = 3,474.35 km² Asia (14 districts) = 1,868.87 km² Urban (36 districts) = 2,576.85 کلومیٹر² [Metro (39 اضلاع) – (Çatalca+Silivri+Şile)]
↑Clive Upton؛ William A. Kretzschmar, Jr. (2017)۔The Routledge Dictionary of Pronunciation for Current English (2nd ایڈیشن)۔ Routledge۔ ص 704۔ISBN:978-1-138-12566-7
^ابپ"Population and Demographic Structure"۔Istanbul 2010: European Capital of Culture۔ Istanbul Metropolitan Municipality۔ 2008۔ 2011-07-23 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-27
↑"The World According to GaWC 2010"۔Globalization and World Cities (GaWC) Study Group and Network۔ Loughborough University۔ 2011-09-24 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-05-08
↑Necdet Sakaoğlu (1993/94a): "İstanbul'un adları" ["The names of Istanbul"]۔ In:Dünden bugüne İstanbul ansiklopedisi, ed. Türkiye Kültür Bakanlığı، Istanbul.
↑Necdet Sakaoğlu (1993/94a): "İstanbul'un adları" ["The names of Istanbul"]۔ In: 'Dünden bugüne İstanbul ansiklopedisi', ed. Türkiye Kültür Bakanlığı، Istanbul.
↑O. Algan؛ M.N.K. Yalçın؛ M. Özdoğan؛ Y.C. Yılmaz؛ E. Sarı؛ E. Kırcı-Elmas؛ İ۔ Yılmaz؛ Ö۔ Bulkan؛ D. Ongan؛ C. Gazioğlu؛ A. Nazik؛ M.A. Polat؛ E. Meriç (2011)۔ "Holocene coastal change in the ancient harbor of Yenikapı–İstanbul and its impact on cultural history"۔Quaternary Research۔ ج 76 شمارہ 1: 30۔Bibcode:2011QuRes.۔76.۔۔30A۔DOI:10.1016/j.yqres.2011.04.002۔ISSN:0033-5894{{حوالہ رسالہ}}:تأكد من صحة قيمة|bibcode= طول (معاونت)
↑Edhem, Eldem. "Istanbul." In: Ágoston, Gábor and Bruce Alan Masters.Encyclopedia of the Ottoman Empire۔Infobase Publishing، 21 مئی 2010.ISBN1438110251، 9781438110257. Start and CITED: p.286۔ "Originally, the nameIstanbul referred only to[…]in the 18th century." and "For the duration of Ottoman rule, western sources continued to refer to the city as Constantinople, reserving the nameStamboul for the walled city." and "Today the use of the name[…]is often deemed politically incorrect[…]by most Turks." // (entry ends, with author named, on p.290)
↑Inalcik, Halil. "The Policy of Mehmed II toward the Greek Population of Istanbul and the Byzantine Buildings of the City." Dumbarton Oaks Papers 23, (1969): 229–49. p. 236
↑Müller-Wiener, Wolfgang (1977)۔ Bildlexikon zur Topographie Istanbuls: Byzantion, Konstantinupolis, Istanbul bis zum Beginn d. 17 Jh (in German)۔ Tübingen: Wasmuth.ISBN978-3-8030-1022-3۔
↑"İstanbul İl ve İlçe Alan Bilgileri" [Istanbul Province and District Area Information] (بزبان ترکی). Istanbul Metropolitan Municipality. Retrieved2010-06-20.
↑"Jurisdiction"۔ Istanbul Metropolitan Municipality۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-21
↑"Yıllık Toplam Yağış Verileri" [Annual Total Participation Data: Istanbul, Turkey] (بزبان ترکی). Turkish State Meteorological Service. Retrieved2012-07-06.
↑"Continuity and Change in Nineteenth-Century Istanbul: Sultan Abdulaziz and the Beylerbeyi Palace", Filiz Yenisehirlioglu,Islamic Art in the 19th Century: Tradition, Innovation, And Eclecticism، 65.
↑"Büyükşehir Belediyesi Kanunu" [Metropolitan Municipal Law].Türkiye Büyük Millet Meclisi (بزبان ترکی). 10 Jul 2004. Archived fromthe original on 2016-03-13. Retrieved2010-11-30.Bu Kanunun yürürlüğe girdiği tarihte; büyükşehir belediye sınırları، İstanbul ve Kocaeli ilinde, il mülkî sınırıdır. (On the date this law goes in effect, the metropolitan city boundaries, in the provinces of İstanbul and Kocaeli, are those of the province.)
↑"Istanbul Asian and European population details" (بزبان ترکی). 2013. Archived fromthe original on 2009-02-02. Retrieved2015-06-16.İstanbul'da 8 milyon 156 bin 696 kişi Avrupa, 4 milyon 416 bin 867 vatandaş da Asya yakasında bulunuyor (In Istanbul there are 8,156,696 people in Europe, 4,416,867 citizens in Asia)
↑"Frequently Asked Questions"۔World Urbanization Prospects, the 2011 Revision۔ The United Nations۔ 5 اپریل 2012۔ 2012-09-07 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-09-20
↑"Ports of Turkey"۔ Cerrahogullari T.A.S.۔ 2012-09-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-08-28
↑Omer Cavusoglu (مارچ 2010)۔"Summary on the Haydarpasa Case Study Site"(PDF)۔Cities Programme۔ London School of Economics۔ 2012-07-09 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-03
^اب"Istanbul '10"(PDF)۔Turkey Tourism Market Research Reports۔ Istanbul Valuation and Consulting۔ 2010۔ 2012-06-16 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-29 (n.b. Source indicates that the Topkapı Palace Museum and the Hagia Sophia together bring in55 millionTL, approximately$30 million in 2010, on an annual basis.)
^اب"İstanbul – Archaeology Museum"۔ Republic of Turkey Ministry of Culture and Tourism۔ 2012-02-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-19
↑Nikolaj Nikitin (6 مارچ 2012)۔"Golden Age for Turkish Cinema"۔ Credit-Suisse۔ 2012-12-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-06
↑"History"۔ The Istanbul Foundation for Culture and Arts۔ 2011-05-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-13
↑Michael Hensel، مدیر (جنوری–فروری 2010)۔ "Turkey at the Threshold"۔Architectural Design۔ London۔ ج 80 شمارہ 1۔ISBN:978-0-470-74319-5{{حوالہ رسالہ}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
↑"State Universities"۔ The Turkish Council of Higher Education۔ 2011-11-30 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-30
↑"Home"۔ Mimar Sinan Fine Arts University۔ 2009-02-21 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2019-07-09۔Meclis-i Mebusan Caddesi No: 24Fındıklı 34427 İstanbul
↑While, for both directions, the mouth openings of the tunnel on the Asian side are situated in the Haydarpaşa quarter, the access roads begin or end in the adjacent Koşuyolu quarter.
^ابپ"M3 Başakşehir Metro Hattı" [M3 Başakşehir Metro Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşım. Archived fromthe original on 2014-02-19. Retrieved2015-04-14.
Haralambos Athanasopulos (2001)۔Greece, Turkey, and the Aegean Sea: A Case Study in International Law۔ Jefferson, NC: McFarland & Company, Inc.۔ISBN:978-0-7864-0943-3{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Pierre Béhar (1999)۔Vestiges d'Empires: La Décomposition de l'Europe Centrale et Balkanique۔ Paris: Éditions Desjonquères۔ISBN:978-2-84321-015-0{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Ebru Boyar؛ Kate Fleet (2010)۔A Social History of Ottoman Istanbul۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ISBN:978-0-521-13623-5{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Marcy Brink-Danan (2011)۔Jewish Life in Twenty-First-Century Turkey: The Other Side of Tolerance۔ New Anthropologies of Europe۔ Bloomington, IN: Indiana University Press۔ISBN:978-0-253-35690-1{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Palmira Johnson Brummett (2000)۔Image and Imperialism in the Ottoman Revolutionary Press, 1908–1911۔ Albany, NY: SUNY Press۔ISBN:978-0-7914-4463-4{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Chamber of Architects of Turkey (2006)۔Architectural Guide to Istanbul: Historic Peninsula۔ Istanbul: Chamber of Architects of Turkey, Istanbul Metropolitan Branch۔ ج 1۔ISBN:978-975-395-899-8{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Philip De Souza (2003)۔The Greek and Persian Wars, 499–386 B.C۔ London: Routledge۔ISBN:978-0-415-96854-6{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Nadia Maria El-Cheikh (2004)۔Byzantium Viewed by the Arabs۔ Cambridge, MA: Harvard University Press۔ISBN:978-0-932885-30-2{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Caroline Finkel (2005)۔Osman's Dream: The Story of the Ottoman Empire, 1300–1923۔ New York: Basic Books۔ISBN:978-0-465-02396-7{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
John Freely (2011)۔A History of Ottoman Architecture۔ Southampton, Eng.: WIT Press۔ISBN:978-1-84564-506-9{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Demetrius John Georgacas (1947)۔ "The Names of Constantinople"۔Transactions and Proceedings of the American Philological Association۔ ج 78: 347–67۔DOI:10.2307/283503۔JSTOR:283503{{حوالہ رسالہ}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Aslı Göksel؛ Celia Kerslake (2005)۔Turkish: A Comprehensive Grammar۔ Comprehensive Grammars۔ Abingdon, Eng.: Routledge۔ISBN:978-0-415-21761-3{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Deniz Göktürk، مدیر (2010)۔Orienting Istanbul: Cultural Capital of Europe?۔ New York: Routledge۔ISBN:978-0-415-58011-3{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Murat Gül (2012)۔The Emergence of Modern Istanbul: Transformation and Modernisation of a City (Revised Paperback ایڈیشن)۔ London: IB.Tauris۔ISBN:978-1-78076-374-3{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Jim Harter (2005)۔World ریلویز of the Nineteenth Century: A Pictorial History in Victorian Engravings (illustrated ایڈیشن)۔ Baltimore, MD: Johns Hopkins University Press۔ISBN:978-0-8018-8089-6{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Peter M. Holt، مدیر (1977)۔The Cambridge History of Islam (illustrated, reprint ایڈیشن)۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ج 1A۔ISBN:978-0-521-29135-4{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Benjamin H. Isaac (1986)۔The Greek Settlements in Thrace Until the Macedonian Conquest (illustrated ایڈیشن)۔ Leiden, the Neth.: BRILL۔ISBN:978-90-04-06921-3{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Naim Kapucu؛ Hamit Palabiyik (2008)۔Turkish Public Administration: From Tradition to the Modern Age۔ USAK Publications۔ Ankara: USAK۔ ج 17۔ISBN:978-605-4030-01-9{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Çağlar Keyder، مدیر (1999)۔Istanbul: Between the Global and the Local۔ Lanham, MD: Rowman & Littlefield۔ISBN:978-0-8476-9495-2{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Charles King (2014)۔Midnight at the Pera Palace, The birth of modern Istanbul۔ Norton & Cy۔ISBN:978-0-393-08914-1
Jörg Knieling؛ Frank Othengrafen (2009)۔Planning Cultures in Europe: Decoding Cultural Phenomena in Urban and Regional Planning۔ Urban and Regional Planning and Development۔ Surrey, Eng.: Ashgate Publishing, Ltd.۔ISBN:978-0-7546-7565-5{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Özlem Köksal، مدیر (2012)۔World Film Locations: Istanbul۔ Bristol, Eng.: Intellect Books۔ISBN:978-1-84150-567-1{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Yavuz Köse (2009)۔ "Vertical Bazaars of Modernity: Western Department Stores and Their Staff in Istanbul (1889–1921)"۔ در Touraj Atabaki (مدیر)۔Ottoman and Republican Turkish Labour History۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ص 91–114۔ISBN:978-0-521-12805-6{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Jacob M. Landau (1984)۔Atatürk and the Modernization of Turkey۔ Leiden, the Neth.: E.J. Brill۔ISBN:978-90-04-07070-7{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Richard P. Lister (1979)۔The Travels of Herodotus۔ London: Gordon & Cremonesi۔ISBN:978-0-86033-081-3{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Mansel, Philip.Constantinople: City of the World's Desire, 1453–1924 (2011)
Bruce Alan Masters؛ Gábor Ágoston (2009)۔Encyclopedia of the Ottoman Empire۔ New York: Infobase Publishing۔ISBN:978-1-4381-1025-7{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Ian Morris (اکتوبر 2010)۔Social Development(PDF)۔ Stanford, Calif.: Stanford University۔ 2012-09-15 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-05{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Gülru Necipoğlu (2010)۔ "From Byzantine Constantinople to Ottoman Kostantiniyye"۔ در Nazan ölcer (مدیر)۔From Byzantion to Istanbul۔ Istanbul: SSM۔ISBN:978-605-4348-04-6{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Pippa Norris (2010)۔Public Sentinel: News Media & Governance Reform۔ Washington, DC: World Bank Publications۔ISBN:978-0-8213-8200-4{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Organisation for Economic Co-operation and Development (2008)۔Istanbul, Turkey۔ OECD Territorial Reviews۔ Paris: OECD Publishing۔ISBN:978-92-64-04371-8{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Oxford Business Group (2009)۔The Report: Turkey 2009۔ Oxford: Oxford Business Group۔ISBN:978-1-902339-13-9{{حوالہ کتاب}}:|مصنف= باسم عام (معاونت) وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Alexis Papathanassis (2011)۔The Long Tail of Tourism: Holiday Niches and Their Impact on Mainstream Tourism۔ Berlin: Springer۔ISBN:978-3-8349-3062-0{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Roy Quantic (2008)۔Climatology for Airline Pilots۔ Oxford: John Wiley & Sons۔ISBN:978-0-470-69847-1{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Stephen W. Reinert (2002)۔ "Fragmentation (1204–1453)"۔ در Cyril Mango (مدیر)۔The Oxford History of Byzantium۔ Oxford: Oxford University Press۔ISBN:978-0-19-814098-6{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Carl Roebuck (1959)۔Ionian Trade and Colonization۔ Monographs on Archaeology and Fine Arts۔ New York: Archaeological Institute of America۔ISBN:978-0-89005-528-1{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Mînnā Rôzen (2002)۔A History of the Jewish Community in Istanbul: The Formative Years, 1453–1566 (illustrated ایڈیشن)۔ Leiden, the Neth.: BRILL۔ISBN:978-90-04-12530-8{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Aslihan Sanal (2011)۔ Michael M.J. Fischer (مدیر)۔New Organs Within Us: Transplants and the Moral Economy۔ Experimental Futures (illustrated ایڈیشن)۔ Chapel Hill, NC: Duke University Press۔ISBN:978-0-8223-4912-9{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Oliver Jens Schmitt (2005).Levantiner: Lebenswelten und Identitäten einer ethnokonfessionellen Gruppe im osmanischen Reich im "langen 19. Jahrhundert" (بزبان جرمن). Munich: Oldenbourg.ISBN:978-3-486-57713-6.{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (help)
Oleg Tarasov؛ R.R. Milner-Gulland (2004)۔Icon and Devotion: Sacred Spaces in Imperial Russia۔ London: Reaktion۔ISBN:978-1-86189-118-1{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Tuna Taşan-Kok (2004)۔Budapest, Istanbul, and Warsaw: Institutional and Spatial Change۔ Delft, the Neth.: Eburon Uitgeverij B.V.۔ISBN:978-90-5972-041-1{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Sahnaz Tigrek؛ Ayșegül Kibaroğlu (2011)۔ "Strategic Role of Water Resources for Turkey"۔ در Ayșegül Kibaroğlu (مدیر)۔Turkey's Water Policy: National Frameworks and International Cooperation۔ London & New York: Springer۔ISBN:978-3-642-19635-5{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Neyran Turan (2010)۔ "Towards an Ecological Urbanism for Istanbul"۔Megacities: Urban Form, Governance, and Sustainability۔ Library for Sustainable Urban Regeneration۔ London & New York: Springer۔ ص 223–42۔ISBN:978-4-431-99266-0{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری1-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری1-last= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
WCTR Society؛ Unʼyu Seisaku Kenkyū Kikō (2004)۔Urban Transport and the Environment: An International Perspective۔ Amsterdam: Elsevier۔ISBN:978-0-08-044512-0
Heidi Wedel (2000)۔The Kurdish Conflict in Turkey۔ Berlin: LIT Verlag Münster۔ ص 181–93۔ISBN:978-3-8258-4744-9{{حوالہ کتاب}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری1-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری1-last= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونت)،نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
Martin Wynn (1984)۔Planning and Urban Growth in Southern Europe۔ Studies in History, Planning, and the Environment۔ Los Altos, CA: Mansell۔ISBN:978-0-7201-1608-3{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
^ابپSources have provided conflicting figures on the area of Istanbul. The most authoritative source on this figure ought to be the Istanbul Metropolitan Municipality (MMI), but the English version of its website suggests a few figures for this area. One page states that "Each MM is sub-divided into District Municipalities ("DM")of which there are 27 in Istanbul" [emphasis added] with a total area of 1,538.9 کلومربع میٹر (594.2 مربع میل)۔[97] The Municipal History page appears to be the most explicit and most updated, saying that in 2004, "Istanbul Metropolitan Municipality's jurisdiction was enlarged to cover all the area within the provincial limits"۔ It also states a 2008 law merged theامین اونو district into theضلع فاتح district (a point that is not reflected in the previous source) and increased the number of districts in Istanbul to 39.[98] That total area, as corroborated on the Turkish version of the MMI website,[99] and a Jurisdiction page on the English site[100] is 5,343 کلومربع میٹر (2,063 مربع میل)۔
^ابHistorians disagree—sometimes substantially—on population figures of Istanbul (Constantinople), and other world cities, prior to the 20th century. A follow-up to Chandler & Fox 1974,Chandler 1987، صفحہ 463–505[82] examines different sources' estimates and chooses the most likely based on historical conditions; it is the source of most population figures between 100 and 1914. The ranges of values between 500 and 1000 are due toMorris 2010، which also does a comprehensive analysis of sources, including Chandler (1987); Morris notes that many of Chandler's estimates during that time seem too large for the city's size, and presents smaller estimates. Chandler disagrees withTuran 2010 on the population of the city in the mid-1920s (with the former suggesting 817,000 in 1925)، but Turan, p. 224, is used as the source of population figures between 1924 and 2005. Turan's figures, as well as the 2010 figure,[160] come from theTurkish Statistical Institute۔ The drastic increase in population between 1980 and 1985 is largely due to an enlargement of the city's limits (see theAdministration section)۔ Explanations for population changes in pre-Republic times can be inferred from theHistory section۔
↑In the Ottoman period the inner core of the city, inside the city walls, came to be known as "İstanbul" in Turkish and "Stamboul" in the West. The whole city was generally known as Constantinople or under other names. SeeNames of Istanbul for further information.[73]
↑The United Nations defines an urban agglomeration as "the population contained within the contours of a contiguous territory inhabited at urban density levels without regard to administrative boundaries"۔ The agglomeration "usually incorporates the population in a city or town plus that in the suburban areas lying outside of, but being adjacent to, the city boundaries"۔[166][167]
↑Sufficient proofs of entry and graduation are lacking, several Turkish sources dispute that he graduated.
↑TÜİK's address-based calculation from December, 2017.