Movatterモバイル変換


[0]ホーム

URL:


مندرجات کا رخ کریں
ویکیپیڈیاآزاد دائرۃ المعارف
تلاش

استنبول

متناسقات:41°00′49″N28°57′18″E / 41.01361°N 28.95500°E /41.01361; 28.95500
یہ ایک منتخب مضمون ہے۔ مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

استنبول
Istanbul
İstanbul
میٹروپولیٹن بلدیہ
See caption
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
استنبول
کا نقشہ دیکھیں ترکی
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
استنبول
کا نقشہ دیکھیں یورپ
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
استنبول
کا نقشہ دیکھیں ایشیا
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
Turkey, with Istanbul pinpointed at the northwest along a thin strip of land bounded by water
استنبول
کا نقشہ دیکھیں زمین
ترکیہ میں مقام##یورپ میں مقام
متناسقات:41°00′49″N28°57′18″E / 41.01361°N 28.95500°E /41.01361; 28.95500
ملکترکیہ
ترکی کے علاقےمرمرہ علاقہ
ترکی کے صوبےاستنبول
صوبائی نشست[a]جاغال اوغلو، فاتح
اضلاع39
حکومت
 • ناظم شہراکرم امام اوغلو (ریپبلکن پیپلز پارٹی)
 • والیعلی یرلیکایا
رقبہ[1][2][b]
 • شہری2,576.85 کلومیٹر2 (994.93 میل مربع)
 • میٹرو5,343.22 کلومیٹر2 (2,063.03 میل مربع)
بلندی39 میل (128 فٹ)
آبادی(31 دسمبر 2019)[3]
 • میٹروپولیٹن بلدیہ15,519,267
 • درجہترکی کے شہر
 • شہری15,214,177
 • شہری کثافت5,904/کلومیٹر2 (15,290/میل مربع)
 • میٹرو کثافت2,904/کلومیٹر2 (7,520/میل مربع)
نام آبادیاستنبولائٹ (Istanbulite)
(ترکی زبان:İstanbullu (استانبولو))
منطقۂ وقتترکی میں وقت (UTC+3)
رمزِ ڈاک34000 to 34990
ٹیلی فون کوڈ212(یورپی حصہ)
216(ایشیائی حصہ)
گاڑی کی نمبر پلیٹ34
خام ملکی پیداوار2018[4][5]
 - کلامریکی ڈالر 244.757 بلین[6]
- 31.02 % ترکی کا –
 - فی کسامریکی ڈالر 16,265
انسانی ترقیاتی اشاریہ (2017)0.812[7]انتہائی اعلیٰ
جغرافیائی اعلیٰ ترین ڈومین نیم۔ist،۔istanbul
ویب سائٹibb.istanbul
www.istanbul.gov.tr
یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ
باضابطہ ناماستنبول کے تاریخی علاقے
معیارثقافتی: (i)(ii)(iii)(iv)
حوالہ356bis
کندہ کاری1985(9اجلاس)
توسیع2017
علاقہ765.5 ha (1,892 acre)

استنبول (تلفظ:/ˌɪstænˈbʊl/,[8][9]ترکی زبان:İstanbul[isˈtanbuɫ] (سنیے))جسے ماضی میںبازنطیوم اورقسطنطنیہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھاترکیہ کا سب سے زیادہ آبادی والاشہر اور ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔استنبولیوریشیا کا بین براعظمی شہر بھی ہے جوبحیرہ مرمرہ اوربحیرہ اسود کے درمیان میںآبنائےباسفورس کے دونوں کناروں پر واقع ہے۔ یہ آبنائےایشیا کویورپ سے جدا کرتی ہے۔اس کا تجارتی اور تاریخی مرکزیورپی جانب ہے اور اس کی آبادی کا ایک تہائی حصہآبنائے باسفورس کےایشیائی کنارے کے مضافاتی علاقوں میں رہتا ہے۔[10] اس کےمیٹروپولیٹن علاقہ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی مجموعی آبادی ہے[3] جس کی بنا پر استنبول کا شماردنیا کے سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ عالمی طور پر یہ دنیا کاپانچواں سب سے بڑا شہر اوریورپ کاسب سے بڑا شہر ہے۔نیز یہ استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کا انتظامی مرکز بھی ہے۔

سرائے بورنو کے مقام پر600 ق م[11] میںبازنطیوم کے نام سے آباد ہونے والے شہر کے اثر و رسوخ، آبادی اور رقبہ میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا اور یہ تاریخ کا سب سے اہم شہر بن گیا۔330ء[12] میںقسطنطنیہ کے نام سے از سر نو آباد ہونے کے بعدیہ شہر تقریباً 16 صدیوں تک متعدد سلطنتوں کادار الحکومت رہا جن میںرومی سلطنت/بازنطینی سلطنت (330ء–1204ء)،لاطینی سلطنت (1204ء–1261ء)،فالیولوجی بازنطین (1261ء–1453ء) اورسلطنت عثمانیہ (1453ء–1922ء) شامل ہیں۔رومی سلطنت اوربازنطینی دور میں شہر نےمسیحیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا تاہم1453ء میںفتح قسطنطنیہ کے بعد یہ مسلمانوں کا مرکز اورخلافت عثمانیہ کادارالخلافہ بن گیا[13] اورقسطنطنیہ کے نام سے1923ء تک یہسلطنت عثمانیہ کادار الحکومت رہا۔ اس کے بعد دار الحکومت کوانقرہ منتقل کرکے اس شہر کا ناماستنبول رکھ دیا گیا۔

اس شہر کوبحیرہ اسود اوربحیرہ روم کے درمیان میں ایک اہم تزویراتی مقام بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یہ شہر تاریخیشاہراہ ریشم پر بھی واقع تھا۔[14] اس سےبلقان اورمشرق وسطی کے درمیان میں ریل نیٹ ورک کو کنٹرول کیا جاتا تھا اوربحیرہ اسود اوربحیرہ روم کے درمیان میں واحد سمندری راستہ تھا۔1923ء میںترک جنگ آزادی کے بعدانقرہ کوجمہوریہ ترکی کا نیادار الحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی شہر کا نامقسطنطنیہ سے بدل کر استنبول رکھا گیا۔ تاہم شہر نے جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی معاملات میں اپنی اہمیت کو اب تک برقرار رکھا ہے۔ 1950ء کی دہائی کے بعد سے اس شہر کی آبادی دس گنا بڑھ چکی ہے کیونکہاناطولیہ سے آنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں یہاں آباد ہو چکے ہیں اور ان کی سکونت کے لیے حدود شہر میں اضافہ بھی ہوا ہے۔[15][16]بیسویں صدی کے اواخر میں یہاں پرفنون لطیفہ،موسیقی،فلم اور ثقافتی میلوں کا انعقاد شروع ہوا اور آج بھی یہ شہر ان کی میزبانی کر رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی بہتر صورت حال نے شہر میں نقل و حمل کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک تیار کر دیا ہے۔

یورپی ثقافت کا صدر مقام نامزد ہونے کے پانچ سال بعد2015ء میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد غیر ملکی زائرین استنبول آئے۔ سیاحوں کے اس رجوع عام کی وجہ سے یہ شہر دنیا کا پانچواں مقبول ترین سیاحتی مقام بن چکا ہے۔[17] شہر کا سب سے بڑا سیاحتی مقام اس کاتاریخی مرکز ہے جو جزوی طور پریونیسکو کےعالمی ثقافتی ورثہ میں درج ہے۔نیز اس کا ثقافتی اور تفریحی مرکز ضلعبے اوغلو میں واقع شہر کی قدرتی بندرگاہشاخ زریں بھی ہے۔ استنبول کوعالمی شہر[18] سمجھے جانے کی وجہ سے یہاں متعدد ترک کمپنیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے مراکز بھی قائم ہیں اور ملک کی مجموعیخام ملکی پیداوار کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ بنتا ہے۔[19] اس کی ترقی اور تیز رفتار توسیع کی امید میں استنبول نےگرمائی اولمپک کھیلوں کے لیے بیس سالوں میں پانچ بار بولی لگائی ہے۔[20]

تسمیہ مقام

[ترمیم]
تفصیلی مضامین کے لیےبازنطیوم،قسطنطنیہ  اورنیا روم ملاحظہ کریں۔
قسطنطین اعظم

شہر کا پہلا معلوم نامبازنطیوم ہے (یونانی:Βυζάντιον،Byzántion) جو اسےمیگارا کے آباد کاروں نے اندازہْ600 ق م میں دیا تھا۔[21] خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نام ذاتی نامبیزاس سے ماخوذ ہے جویونانی اساطیر میں ایک کردار ہے۔ قدیم یونانی روایت میں یہ یونانی نوآبادیات کے رہنما اور ایک مشہور بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید علما نے یہ قیاس بھی کیا ہے کہ بیزاس کا نام مقامی تھریسیائی یا الیلیریائی تھا اور اسی وجہ سے میگاریائی آباد کاری کا قیاس کیا گیا ہے۔[22]

330 عیسوی میںقسطنطین اعظم کے اسےرومی سلطنت کے نئے مشرقیدار الحکومت بنانے کے بعد شہر کو عام طور پرقسطنطنیہ کہا جانے لگا جو (Κωνσταντινούπολις) کی لاطینی شکل ہے جس کے معنیقسطنطین کا شہر کے ہیں۔[21]اس نے نام "نووا روما" (Nova Roma) اور اس کے یونانی متبادل ("Νέα Ῥώμη")نیا روم کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی، لیکن یہ بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوا۔[23] جمہوریہ ترکی کے قیام تک مغرب میں اس شہر کا نام قسطنطنیہ عام استعمال ہوتا تھا، جس نے دوسرے ممالک کواستنبول کے استعمال کی تاکید کی۔[24][25](عثمانی ترکی زبان:قسطنطينيه) اور استنبول وہ نام تھے جو عثمانیوں نے اپنے اقتدار کے دوران متبادل طور پر استعمال کیے۔[26] اگرچہ تاریخی اعتبار سے درست ہے، لیکن قسطنطنیہ کا استعمال عثمانی دور کے دوران میں شہر کے نام کے لیے، 2009ء تک اکثر ترکی میں اسے "سیاسی طور پر غلط" سمجھا جاتا ہے۔[27]

انیسویں صدی تک اس شہر کے لیے دوسرے نام استعمال ہوتے تھے جو غیر ملکیوں یا ترکوں کے زیر استعمال تھے۔ یورپی مکمل شہر کے لیے قسطنطنیہ کا استعمال کرتے تھے، لیکنشاخ زریں اوربحیرہ مرمرہ فصیل بند جزیرہ نما کو ترکوں کی طرحستانبول (Stamboul) کہتے تھے۔[27]یونانی لفظپیرا (Pera) (یونانی زبان سے "پار" کے لیے)شاخ زریں اورباسفورس کے درمیان میں کے علاقے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن ترکوں نے اس کے لیےبے اوغلو استعمال کیا جو موجودہاستنبول کے اضلاع میں سے ایک کا نام بھی ہے۔[28]

نام استنبول (ترکی تلفظ: [isˈtanbuɫ] (سنیے)، عام بول چال میں[ɯsˈtambuɫ])قرون وسطی کی یونانی سے ("εἰς τὴνپولس (شہری ریاست)" تلفظ[istimˈbolin]) اخذ تصور کیا جاتا ہےجس کا معنی "شہر بنے" ہیں۔[29] اور اس طرح قسطنطنیہ کا ذکر مقامی یونانیوں نے کیا۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے آس پاس یہ واحد شہر تھا۔سلطنت عثمانیہ میں قسطنطنیہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اسے 'دیر سعادت' معنی 'خوش حالی کا دروازہ' کہا جاتا تھا

عثمانی دنیا میں قسطنطنیہ کی اہمیت بھی عثمانی میں اس کے عثمانی نام 'ڈیر سعادت' کے معنی میں 'خوش حالی کا دروازہ' سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ یہ نام قسطنطنیہ سے براہ راست تیار ہوا، جس میں پہلا اور تیسرا نصاب گر گیا۔ ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ یہ نام قسطنطنیہ سے براہ راست اخذ کیا گیا ہے جس میں حروف کو کم کر دیا گیا ہے۔[21]ایک ترک لوک روایت کے اعتبار نام "اسلام بول" معنی "اسلام کافی زیادہ"[30] سے بنا ہے کیونکہ اس شہر کو اسلامی عثمانی سلطنت کا دار الحکومت کے طور پر اسے "اسلامبول" ("بہت زیادہ اسلام") یا "اسلامبول" ("اسلام ڈھونڈنا") کہا جاتا تھا۔ فتح کے فوراً بعد اس کی پہلی بار استعمال کیا گیا اور کچھ معاصر مصنفین نے اسے خودسلطان محمد فاتح کی ایجاد قرار دیا ہے۔[31]سترہویں صدی کے کچھ عثمانی ذرائع جیسےاولیا چلبی نے اسے اس وقت کا عام ترک نام قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیںسترہویں صدی اوراٹھارہویں صدی کے شروع میں یہ رسمی طور پر استعمال میں تھا۔ سکوں پر "اسلامبول" کا پہلا استعمال1703ء (1115ھ) میں سلطاناحمد ثالث کے دور میں ہوا۔[32]جدید ترکی میں اسے (İstanbul) نقطے والی "İ" سے لکھا جاتا ہے۔[33] ترکی زبان میں شہر کے رہائشی کو "استنبولو" (İstanbullu) اور جمع "استنبولولار" (İstanbullular) کہتے ہیں۔[34]

تاریخ

[ترمیم]
بازنطیوم سطح مرتفع پر بازنطینی دور کا ایک ستون، موجودہ دور میں یہتوپ قاپی محل کے احاطے کے اندر واقع ہے

اکیسویں صدی کے آغاز میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کئی مقامات سےنئے سنگی دور کی اشیا دریافت کیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ استنبول کا تاریخی جزیرہ نما چھ ہزار صدی قبل مسیح کے دور میں بھی آباد تھا۔[35] یہ ابتدائی آبادی قریب مشرق سے یورپ تکنئے سنگی دور کے پھیلاؤ میں اہم تھا جو پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ڈوب جانے سے پہلے تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔[36][37][38][39] ایشیائی طرف پہلی انسانی آبادکاری فقیر تپہ ٹیلے پتہ تانبے کے دور کی ہے اور اس سے ملنے والے نوادرات 5500 سے 3500 قبل مسیح کے دور کے ہیں۔[40] یورپی طرف جزیرہ نما میںسرائے بورنو کے قریبپہلی صدی قبل مسیح کے شروع میں ایک تھریسی بستی آباد تھی۔ جدید مصنفین نے اسے تھریسی علاقائی نام لیگوس سے جوڑا ہے،[41] جس کا ذکرپلینیوس نےبازنطیوم کے پہلے نام کے طور پر کیا ہے۔[42]

اصل شہر کی تاریخ600 ق مسے شروع ہوتی ہے،[43][44] جبمیگارا کے یونانی باشندوں نےباسفورس کے یورپی جانببازنطیوم قائم کیا۔آباد کاروں نے ابتدائی تھریسی بستیوں کے مقام پرشاخ زریں سے ملحق ایک ایکروپولس تعمیر کیا جس سے شہر کی جدید معیشت کو تقویت ملی۔[45][46]پانچویں صدی ق م کے آغاز پر یہ شہر ایک مختصر عرصہ کے لیےفارس کے زیر نگیں آیا لیکن یونانیوں نے جلد ہیفارس۔ یونانی جنگیں کے دوران میں اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔[47] 355 قبل مسیح میں آزادی حاصل کرنے سے قبلبازنطیوم دوسری ایتھنین لیگ کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔[48] رومیوں سے طویل عرصے سے اتحادی ہونے کے بعدبازنطیوم رسمی طور پر 73 عیسوی میںرومی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔[49]رومی شہنشاہسیپٹیمیوس سیورس کے خلاف طالع آزماپیسینیوس نیجر کا ساتھ دینے پر شہر کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی،195ء کے آخر میں ہتھیار ڈالنے تک محاصرے کے دو سالوں کے شہر کو بالکل تباہ کر دیا۔[50] پانچ سال بعد سےسیپٹیمیوس سیورس نےبازنطیوم کی تعمیر نو کرنا شروع کی اور شہر میں دوبارہ خوش حالی آئی۔[51]

قبل از تاریخ

[ترمیم]

انسان کم از کم کےنئے سنگی دور سے استنبول کے طور پر جانے جانے والے علاقے میں رہائش پزیر تھے۔ 6700 قبل مسیح کی ابتدائی مشہور آبادی کے آثار تاریخی جزیرہ نماقسطنطنیہ کے یورپی حصے میں2008ء میںینی قاپی سب وے اسٹیشن اورمرمرائی سرنگ کے تعمیراتی کام کے دوران میں دریافت ہوئے۔[52][53][54] اناطولیہ کی طرف پہلی انسانی آبادی فقیر تپہ ٹیلا پر 5500 سے 3500 قبل مسیح کی تانبے کے دور کی ہے۔[55] قریبیقاضی کوئے میںفونیقی دور کی ایک بندرگاہ آبادی کے آثار ہی ملے ہیں۔

قسطنطنیہ کا عروج و زوال اور بازنطینی سلطنت

[ترمیم]
کریستوفورو بوندیلمونتی کا1422ء میں بنایا گیاقسطنطنیہ کا سب سے قدیم نقشہ ہے
تفصیلی مضمون کے لیےقسطنطنیہ ملاحظہ کریں۔

قسطنطین اعظم مؤثر طور پرستمبر324ء میں پوریرومی سلطنت کاشہنشاہ بنا۔[56] دو ماہ بعد اس نےبازنطیوم کو ایک نئے مسیحی شہر مِں تبدیل کرنے کا ایک منصوبے مرتب کیا۔ سلطنت کا مشرقی دار الحکومت ہونے کے ناطے اس شہر کا نامنیا روم (Nova Roma) رکھا گیا، لیکن زیادہ تر لوگ اسے قسطنطنیہ کہتے تھے جو نامبیسویں صدی تک برقرار رہا۔[57]11 مئی330ء کو قسطنطنیہرومی سلطنت کادار الحکومت ہونے کا اعلان کیا گیا، جو بعد ازاں17 جنوری395ء کوتھیودوسیوس اول کی موت پر اس کے دونوں بیٹوں کے مابین مستقل طور پر تقسیم ہو گئی اور یہ شہرمشرقی رومی سلطنت (بازنطینی سلطنت) کا دار الحکومت بن گیا۔[58]

قسطنطنیہ کا قیامقسطنطین اعظم کے سب سے پائیدار کارناموں میں سے ایک تھا، اس نے رومی طاقت کے مرکز کو مشرق کی طرف منتقل کیا جس سے یہ شہر یونانی ثقافت اورمسیحیت کا مرکز بن گیا۔[58][59]ایاصوفیہ سمیت پورے شہر میں متعدد گرجا گھر تعمیر کیے گئے۔ایاصوفیہ جوجستین اول کے دور میں تعمیر ہوا، ایک ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر رہا۔[60] قسطنطین نے قسطنطنیہ کےگھڑ دوڑ کے میدان کی ایک بڑی تزئین و آرائش اور توسیع کا کام بھی کیا جس میں دسیوںہزاروں شائقین کی گنجائش تھی۔گھڑ دوڑ کے میدان شہری زندگی کا مرکز بن گیا اورپانچویں اورچھٹی صدی میں نیکا فسادات سمیت بے امنی کا مرکز بنا۔[61][62] قسطنطنیہ کے محل وقوع نے اس کے وجود کو یقینی بنایا اور کئی صدیوں تک اس کیدیواروں اور سمندری حدود نے یورپ کو مشرقی اور مسلم حملہ آوروں کی پیش قدمی سے بچایا۔[59]قرون وسطی کے بیشتر دور کے دوران میں جو بازنطینی عہد کا آخری حصہ تھا شہربراعظمیورپ کا سب سے بڑا اور دولت مند شہر تھا اور کئی اوقات میں یہدنیا کا بھی سب سے بڑا شہر تھا۔[63][64]1025ء میںباسل دوم کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد قسطنطنیہ کی تنزلی کا دور شروع ہوا۔1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ اپنے مقصد سے ہٹا دی گئی اور صلیبیوں نے اس شہر کو لوٹا کھسوٹا۔[65] انھوں نے راسخ الاعتقاد بازنطینی سلطنت کی جگہلاطینی سلطنت قائم کی۔[66]ایاصوفیہ کو1204ء میں کیتھولک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔1261ء میںبازنطینی سلطنت بحال ہو گئی تاہم وہ کافی کمزور ہو چکی تھی۔[67] قسطنطنیہ کے گرجا گھر، دفاع اور بنیادی خدمات ناکارہ ہو گئیں[68] اورآٹھویں صدی کے دوران میں اس کی آبادی نصف ملین سے کم ہو کر ایک لاکھ ہو گئی۔[c]تاہم 1261ء کی بحالی کے بعد اس شہر کی کچھ خدمات بحال ہو گئیں۔

آندرونیکوس دوم کی وضع کردہ متعدد معاشی اور فوجی حکمت عملیوں، جیسے فوج کی تعداد میں کمی نے سلطنت کو کمزور کیا اور اسے حملے کے خطرے سے دوچار کیا۔[69]چودہویں صدی کے وسط میںعثمانی ترکوں نے آہستہ آہستہ چھوٹے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور قسطنطنیہ کی رسد کے راستوں کو منقطع کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کیا۔[70]29 مئی1453ء کو آٹھ ہفتوں کے محاصرے کے بعد (جس کے دوران میں آخری رومی شہنشاہقسطنطین یازدہم مارا گیا)، سلطانمحمد فاتح نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور اسےسلطنت عثمانیہ کا نیادار الحکومت قرار دیا۔شہر میں داخلے کے کئی گھنٹوں بعد سلطانایاصوفیہ میں گیا اور ایک امام کو طلب کیا جس نےشہادت کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا کیونکہ شہر نے امن سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا۔[71] سلطانمحمد فاتح نے اپنے لیے نیا لقب "قیصرِ روم" اختیار جو رومی لقبقیصر کے برابر قرار دیا گیا اور عثمانی ریاست کوعثمانی سلطنت میں تبدیل کر دیا گیا۔[72]

سلطنت عثمانیہ اور ترک جمہوریہ کا دور

[ترمیم]
عثمانی دور میں شہر کی تین پینٹنگز

قسطنطنیہ کی فتح کے فوراً بعد سلطانمحمد فاتح نے شہر کی بحالی کا کام شروع کیا۔[d]اس نے محاصرے کے دوران میں شہر سے فرار ہونے والے واپس آنے کا کہا اوراناطولیہ کے دیگر علاقوں سے مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کو یہاں پر آباد کیا۔ اس نے حکم دیا کہستمبر تک پانچ ہزار گھرانوں کو قسطنطنیہ میں منتقل کیا جائے۔[74] پوری اسلامی سلطنت سے جنگی قیدیوں اور ملک بدر لوگوں جنھیںسورگون (ترکی زبان:Sürgün;یونانی:σουργούνιδες) کہا جاتا تھا، کو شہر بھیج دیا گیا۔[75] بہت سے لوگ شہر سے دوبارہ فرار ہو گئے اور کئی بارطاعون کی وبا پھیلی اس لیے1459ء میں سلطان نے جلاوطن یونانیوں کو شہر میں واپس آنے کی اجازت دے دی۔[76] اس نے پورے یورپ سے لوگوں کو دار الحکومت میں مدعو کیا جس سے ایک کثیر ثقافتی معاشرہ تشکیل پایا جو عثمانی دور کے بیشتر حصوں میں قائم رہا۔[77]

قسطنطنیہ میں باقی صدی تک طاعون کی وبا برقرار رہی، کیونکہ یہ 1520ء کے سے بعد کچھ سالوں تک رہی اور پھر یہ 1529ء اور 1533ء کے درمیان میں پھر سے آئی اور پھر 1549ء اور 1552ء کے درمیان میں رہی اور اس کے بعد کچھ سال کا وقفہ ریا اور پھر سے 1567ء سے 1570ء تک یہ وبا رہی۔ وبائی امراض کا آغاز مغرب اورحجاز اور جنوبیروس میں ہوتا تھا۔[78] اناطولیہ میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے قسطنطنیہ کو اپنے نقصانات کی تلافی میں مدد ملی اور اس کی آبادی 1800ء تک 500،000 کے قریب برقرار رہی۔محمد فاتح نے شہر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی پر بھی کام کیا جس میں پانی کا پورا نظاموالنس آبراہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہگرینڈ بازارکی تعمیر شروع کی اور سلطان کی سرکاری رہائش گاہتوپ قاپی محل تعمیر کیا۔[79]ادرنہ سے قسطنطنیہ میں دار الحکومت کی منتقلی کے بعد نئی ریاست کو رومی سلطنت کا جانشین اور تسلسل قرار دیا گیا۔[80]

انیسویں صدی میں پہلاغلطہ پل

عثمانیوں نے جلد ہی اس شہر کومسیحیت کے گڑھ سے بدل کراسلامی ثقافت کی علامت بنا دیا۔ معماری کی شہکار شاہی مساجد کی تعمیر کے لیےمذہبی تنظیمیں قائم کی گئیں، اکثر مساجد اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حماموں کے ساتھ ملحق ہوتی تھیں۔[79]1517ء میںعثمانی خاندانخلافت کا دعوی بھی کر دیا اور قسطنطنیہ چار صدیوں تک اس آخریخلافت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔[13]سلیمان اول کا دور حکومت1520ء سے لے کر1566ء تک رہا اور خاص طور پر اس دور میںمعمار سنان پاشا شہر میں متعدد عمارتیں تعمیر کی جو فن تعمیر اور اس کی عظیم فنکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جبکہ عثمانی فنوں برائے اوراسلامی خطاطی کو بھی بہت فروغ ملا۔[81]اٹھارہویں صدی کے آخر تک قسطنطنیہ کی آبادی 570،000 نفوس پر مشتمل تھی۔[82]

انیسویں صدی کے آغاز میں بغاوت کا ایک دور شروع ہوا اور ترقی پسند سلطانمحمود ثانی کے عروج کا نتیجہ بھی بنا، اس کے نتیجے میں آخر کاردور تنظیمات کا آغاز ہوا۔ جس نے سیاسی اصلاحات کیں اور شہر میں نئی ٹکنالوجی متعارف کروانے کی اجازت دی۔[83] اس دور میںشاخ زریں پر پل تعمیر کیے گئے،[84] اور 1880ء کی دہائی میں قسطنطنیہ باقی یورپی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک ہو گیا۔[85] جدید سہولیات جیسے پانی کی فراہمی کا نیٹ ورک، بجلی، ٹیلی فون اور ٹرام آہستہ آہستہ اگلے دہائیوں میں قسطنطنیہ میں متعارف کروائے گئے، گو کہ دوسرے یورپی شہروں کی نسبتاً تاخیر سے ہوئے۔[86] تاہم جدید کاری کی کوششیںسلطنت عثمانیہ کے زوال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔

شاخ زریں اورباسفورس کی دو فضائی تصاویر جو19 مارچ1918ء کو ایک جرمن زپیلین سے لی گئیں تھیں۔

سلطانعبدالحمید ثانی1908ء کو نوجوان ترک انقلاب نے معزول کر دیا۔مجلس عمومی (عثمانی پارلیمان) جو14 فروری1878ء سے بند تھی، 30 سال بعد23 جولائی1908ء کو دوبارہ کھول دی گئی جس نے آئینی آئین کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔اور عثمانی پارلیمنٹ (⎘ جنرل اسمبلی)، جو 14 فروری 1878 سے بند تھی، 30 سال بعد 23 جولائی 1908 کو دوبارہ کھول دی گئی، جس نےآئین کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔۔[87]بیسویں صدی کے اوائل میں جنگوں کا ایک سلسلہ جیسے اطالیہ-ترک جنگ (1911ء-1912ء) ور بلقان کی جنگیں (1912ء–1913ء) جس کے نتیجے میں کمزور سلطنت کا دار الخلافہ مزید مشکلات کا شکار ہوا اور 1913ء میں عثمانی بغاوت ہوئی اورتین پاشا دور کا آغاز ہوا۔[88]

1920ء کی دہائی کے آخر میںبینک اسٹریٹ کا ایک منظر جو 1892ء میں مکمل ہوئی، عثمانی سنٹرل بینک کا ہیڈ کوارٹر بائیں طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ 1995ء میںاستنبول اسٹاک ایکسچینج (بورسا استنبول) اسٹائن منتقل ہو گئی

سلطنت عثمانیہ نےمرکزی طاقتوں کی طرف سےپہلی جنگ عظیم (1914ء–1918ء) میں شمولیت اختیار کی اور بالآخر اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔24 اپریل1915ء کو آرمینیائی لوگوں کی جلاوطنی ان اہم واقعات میں شامل تھی جسپہلی جنگ عظیم کے دوران میں آرمینی نسل کشی کا آغاز کا کیا تھا۔[89] جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں شہر کی مسیحی آبادی 1914ء سے 1927ء کے درمیان میں 450،000 سے کم ہو کر 240،000 ہو گئی۔[90]30 اکتوبر1918ء کومعاہدۂ مدروس پر دستخط ہوئے اور اتحادیوں نے13 نومبر1918ء کو قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی پارلیمنٹ (مجلس عمومی)11 اپریل1920ء کو اتحادیوں کے ذریعہ تحلیل ہو گئی اور عثمانی وفد کی سربراہی میں داماد فرید پاشا کو10 اگست1920ء کومعاہدہ سیورے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ترک جنگ آزادی (1919ء–1922ء) کے بعدانقرہ میںترکی قومی اسمبلی نے1 نومبر1922ء کوسلطنت عثمانیہ کو ختم کر دیا اور آخری عثمانی سلطانسلطانمحمد وحید الدین کو ترکی کے لیے نا مناسب شخص قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔17 نومبر1922ء کو برطانوی بحریہ کے جنگی جہاز ملایا پر سوار ہو کر وہ جلاوطنی میں چلا گیا اور16 مئی1926ء کوسان ریمو،اطالیہ میں انتقال کر گیا۔24 جولائی1923ء کومعاہدہ لوازن پر دستخط ہوئے اور قسطنطنیہ کا قبضہ4 اکتوبر1923ء کو شہر سے اتحادیوں کی آخری افواج کی روانگی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔[91] انقرہ حکومت کی ترک افواج6 اکتوبر1923ء کو ایک تقریب کے ساتھ شہر میں داخل ہوئی جس کی کمان شکرو نایلی گوکبرک کے رہے تھے۔ اس دن کویوم آزادی استنبول (ترکی:İstanbul'un Kurtuluşu) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کی سالگرہ پر سال منائی جاتی ہے۔[91]29 اکتوبر1923ء کوترکی قومی اسمبلی نےترک جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا اورانقرہ کو اس کادار الحکومت قرار دیا۔مصطفٰی کمال اتاترک جمہوریہ کے پہلے صدر بنے۔[92]

انقرہ کو1923ء میںترک جمہوریہ کے لیے دار الحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا تا کہ سیکولر جمہوریہ کو عثمانی تاریخ سے دور رکھا جائے۔[93] مؤرخ فلپ مانسل کے مطابق:

1925 میں شاہی خاندان کی رخصتی کے بعد یورپ کا سب سے بڑا بین الاقوامی شہر ہونے کے باوجود قسطنطنیہ ایک سب سے زیادہ قوم پرست بن گیا۔۔۔۔ ویانا کے برعکس قسطنطنیہ نے ماضی سے منہ موڑ لیا۔ یہاں تک کہ اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ قسطنطنیہ کو عثمانی اور بین الاقوامی تنظیموں کی وجہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔ 1926ء سے استنبول صرف پوسٹ آفس میں قابل قبول تھا اور یہ زیادہ تر ترک دکھائی دیتا تھا اور بیشتر ترک نے اسے استعمال کرتے تھے۔[94]

1940ء کی دہائی کے اواخر اور 1950ء کی دہائی کے اوائل میں استنبول میں بڑی ساختی تبدیلیاں آئیں چونکہ پورے شہر میں بعض اوقات تاریخی عمارتوں کو گرا کر نئے عوامی چوکوں، بولیورڈز اور راستوں کی تعمیر کی گئی تھی۔۔[95] 1970ء کی دہائی میں استنبول کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا، جباناطولیہ کے لوگ شہر میں ہجرت کر کے آئے جو یہاں پر بہت ساری نئی فیکٹریوں میں ملازمت ڈھونڈ رہے تھے جو وسیع و عریض شہر کے مضافات میں تعمیر ہوئیں تھیں۔شہر کی آبادی میں اس اچانک اور تیز اضافہ نے مکانات کی بڑی مانگ بہت زیادہ اضافہ کر دیا اور بہت سے مضافاتی دیہات اور جنگلات استنبول کےمیٹروپولیٹن علاقے میں شامل ہو گئے۔[96]

برج غلطہ سے عثمانی دور کے استنبول کا نظارہ، انیسویں صدی (نوٹس کے ساتھ تصویر)

جغرافیہ

[ترمیم]
A high concentration of fault lines in northwestern Turkey, where the Eurasian and African plates meet; a few faults and ridges also appear under the Mediterranean
مغربی ترکی میں استنبول کے بالکل جنوب مغرب میں مرکوز ایکدراڑ واقع ہے جوبحیرہ مرمرہ اوربحیرہ ایجیئن کے نیچے سے گزرتی ہے۔
Satellite image showing a thin piece of land, densely populated on the south, bisected by a waterway
استنبول کا مصنوعی سیارے سے نظارہ اورآبنائےباسفورس

استنبول شمال مغربیترکی میںمرمرہ علاقہ میں واقع ہے جس کا کل رقبہ 5،343 مربع کلومیٹر (2،063 مربع میل) ہے۔[b]بحیرہ مرمرہ کوبحیرہ اسود سے جوڑنے والیآبنائے باسفورس اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے جس میں تاریخی اور معاشی مرکز پر مشتمل یورپی حصہتھریس اور ایک ایشیائی حصہاناطولیہ شامل ہیں۔ اس شہر کو مزیدشاخ زریں بھی تقسیم کرتا ہے، جو جزیرہ نما کے ساتھ منسلک ایک قدرتی بندرگاہ جہاں سابقہبازنطیوم اورقسطنطنیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔بحیرہ مرمرہ، باسفورس اورشاخ زریں کا سنگم موجودہ استنبول کے مرکز میں ہزاروں سالوں سے افواج کو اس پر حملہ کرنے سے روکتا رہا اور اب یہ شہر کے مناظر کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔[59]

روم کے ماڈل کے طرز پر یہ تاریخی جزیرہ نما سات پہاڑیوں کی خصوصیات والا کہا جاتا ہے جس میں ہر ایک پر ایک شاہی مسجد موجود ہے۔ ان پہاڑیوں کے مشرقی ترین حصےسرائے بورنو پرتوپ قاپی محل واقع ہے۔[101]شاخ زریں کی مخالف سمت میں ایک اور مخروطی پہاڑی ہے جہاں جدیدبے اوغلو ضلع واقع ہے۔ مقامی جغرافیہ کی مناسبت سے بے اوغلو پر عمارتیں سیڑھی دار طرز پر بنی ہیں اور سڑکیں بھی مرحلہ وار بنائی گئی ہیں۔[102]ایشیائی طرف میں واقعاسکودار بھی اسی طرح کی پہاڑی خصوصیات رکھتا ہے۔ خطہ بتدریج بلندی کم کرتے ہوئے باسفورس کے ساحل کے ساتھ جا ملتا ہے، لیکن شمسی پاشا اور ایازما یک لخت اٹھے ہوئے ہیں اور ایک کوہی راس بناتے ہیں۔ استنبول کا سب سے اونچا نقطہچاملیجا پہاڑی ہے، جس کی اونچائی 288 میٹر (945 فٹ) ہے۔[102] استنبول کا شمالی نصف حصہ جنوبی ساحلی حصے کے مقابلے میں اسطً زیادہ بلندی ہے، جس میں کچھ مقامات 200 میٹر (660 فٹ) تک بلند ہیں اور اس کی ڈھلوانی چٹٹانیں چٹانی کھاڑی کی مشابہت رکھتی ہیں، خاص طور پر باسفورس کے شمالی سرے کے آس پاس جہاں یہبحیرہ اسود سے ملتی ہے۔

استنبول شمالی اناطولیائیدراڑ کے قریب واقع ہے جو افریقی اور یوریشائیساختمانی تختیوں کے درمیان میں حدود کے قریب ہے۔ یہ رخنہ زون جو شمالی اناطولیہ سے بحیرہ مرمرہ تک جاتا ہے شہر کی تاریخ کے متعدد مہلکزلزلوں کا ذمہ دار رہا ہے۔ ان زلزلوں میں سب سے تباہ کن1509ء کازلزلہ تھا جس کی وجہ سے سونامی آیا جس نے شہر کی دیواریں توڑ دیں اور 10،000 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا۔ ابھی حال ہی میں1999ء میں قریبی شہرازمیت کے قریب واقعمرکز زلزلہ سے آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 18،000 افراد ہلاک ہوئے اس میں استنبول کے نواحی علاقوں کے ایک ہزار افراد بھی شامل ہیں۔ استنبول کے لوگوں کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ مستقبل قریب میں شہر میں اس سے بھی زیادہ تباہ کن زلزلے ثابت سکتے ہیں۔کیونکہ حال ہی میں استنبول کی تیزی سے بڑھتی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے تعمیر کیے گئے ہزاروں ڈھانچے درست معیار پر تعمیر نہیں ہو سکے ہیں۔[103] ماہرین زلزلیات کہتے ہیں کہ استنبول کو 2030ء کے قریب ایک 7.6 شدت یا اس سے زیادہ کے زلزلے کے خطرے کا امکان 60 فیصد سے زیادہ ہے۔[104][105]

آب و ہوا

[ترمیم]
Skyscrapers, both near and far, soar above a dense layer of fog that keeps the ground hidden from view.
لیوینٹ نے صبح کے وقت اکثر اس طرح کیدھند کا لبادہ اوڑھا ہوتا ہے۔
کوپن موسمی زمرہ بندی کے مطابق استنبول کی مائکرو آب و ہوا

کوپن موسمی زمرہ بندی کے مطابق استنبول کی آب و ہوا بحیرہ روم کی آب و ہوا کی سرحد پر ہے، ایک مرطوب آب و ہوا اور سمندری آب و ہوا، ایک عبوری موسمی زون میں اس کے مقام کی وجہ سے ہے۔ چونکہ گرمی کے مہینوں میں بارش 20 سے 65 ملی میٹر (1 سے 3 انچ) تک ہوتی ہے، اس لیے مقام کے لحاظ سے اس شہر کو صرف بحیرہ روم یا مرطوب آب و ہوا کے درجہ میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔[106][107][108] اس کی جسامت کی وجہ سے متنوع ٹپوگرافی، سمندری مقام اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شمال اور جنوب میں دو مختلف پانیوں کے ساحل کا خطہ ہونے کی وجہ سے استنبولخرد آب و ہوا کی نمائندگی کرتا ہے۔ شہر کے شمالی نصف حصے کے ساتھ ساتھ باسفورس کے ساحل، سمندری اور مرطوب نیم استوائی موسم کی خصوصیات کا اظہار ہے، کیونکہبحیرہ اسود اور پودوں کی نسبتاً زیادہ ارتکاز سے نمی کا تناسب زیادہ ہے۔بحیرہ مرمرہ پر جنوب کی طرف شہر کے آبادی والے علاقوں میں آب و ہوا گرم، خشک اور نمی سے کم متاثر ہے۔[109] شمالی نصف حصے میں سالانہ بارش دگنا ہو سکتی ہے (باہچےکوئے، 1166.6 ملی میٹر)، بمقابلہ مرمرہ ساحلی علاقہ (فلوریہ 635.0 ملی میٹر)۔[110] شمالی اور جنوبی ساحلوں پر سالانہ اوسط درجہ حرارت میں بھی بہت زیادہ فرق ہے، باہچے کوئے 12.8 ° س (55.0 ° ف)، کرتال 15.03 ° س (59.05 ° ف)[111] صوبے کے وہ حصے جو دونوں سمندری علاقوں سے دور ہیں براعظم کے اثر و رسوخ کی نمائش کرتے ہیں، جہاں رات اور دن اورموسم گرما اورموسم سرما میں درجہ حرارت کا زیادہ فرق ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں صوبے کے کچھ حصے رات کے وقت اوسطانقطۂ انجماد یا اس سے بھی نیچے رہتے ہیں۔

استنبول کی مستقل طور پر زیادہ نمی جو صبح 80 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔[112] اس کی وجہ سےدھند بہت عام ہے، حالانکہ شہر کے شمالی علاقوں اور شہر کے مرکز میں کم ہے۔[109]گھنی دھند کے باعث باسفورس سمیت اس خطے میں آمدورفت میں خلل پڑتا ہے، یہ موسم خزاں اور سردیوں کے مہینوں میں عام ہے جب نمی دوپہر تک زیادہ رہتی ہے۔[113][114][115] گرمی کے مہینوں میں مرطوب آب و ہوا اور دھند کی لہر دوپہر تک ختم ہوجاتی ہے، لیکندرجہ حرارت معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔[112][116] گرمی کے ان مہینوں میں اعلیٰ درجہ حرارت اوسطا 29 ° س (84 ° ف) اور بارش غیر معمولی بات ہے۔جون اوراگست کے درمیان میں بارش والے دن صرف پندرہ تک ہوتے ہیں۔[117] گرمیوں کے مہینوں میں گرج چمک سب سے زیادہ ہوتی ہے۔[118]

استنبول میںبحیرہ روم طاس کے آس پاس کے بیشتر دوسرے شہروں کی نسبت سردیوں کا موسم زیادہ سرد ہے، کم درجہ حرارت اوسطا 1–4 ° س (34–39 ° ف) تک رہتا ہے۔[117]بحیرہ اسود سے جھیل کا اثر برف عام ہے، اگرچہ اس کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے علاوہ شہر کے بنیادی ڈھانچے میں خلل اور دھند کی وجہ سے بھی درہم برہم ہو سکتی ہے۔[119] موسم بہار اور خزاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے، لیکن اکثر گیلے اور غیر متوقع ہیں۔ شمال مغرب سے چلنے والی سرد ہواؤں اور جنوب سے گرم مرغولوں سے — بعض اوقات ایک ہی دن میں، درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنتا ہے۔[116][120] مجموعی طور پر استنبول کی سالانہ اوسطا 130 دن بارش کے دنوں کی اوسط کے ساتھ ہے، جو سالانہ 810 ملی میٹر (31.9 انچ) تک ہوتی ہے۔[117][121] مرمرہ ساحل پر واقع شہر کے وسط میں اب تک کا سب سے زیادہ اور کم درجہ حرارت 40.5 ° س (105 ° ف) اور۔116.1 ° س (3 ° ف) درج ہے۔ایک دن میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے زیادہ بارش 227 ملی میٹر (8.9 انچ) اور سب سے زیادہ برفباری کا 80 سینٹی میٹر ہے (31 انچ) ہے۔[122][123]

آب ہوا معلومات برائے استنبول(سارییر)، 1929–2017
مہیناجنوریفروریمارچاپریلمئیجونجولائیاگستستمبراکتوبرنومبردسمبرسال
بلند ترین °س (°ف)22.0
(71.6)
24.7
(76.5)
29.3
(84.7)
33.6
(92.5)
34.5
(94.1)
40.2
(104.4)
41.5
(106.7)
40.5
(104.9)
39.5
(103.1)
34.2
(93.6)
27.8
(82)
25.5
(77.9)
41.5
(106.7)
اوسط بلند °س (°ف)8.4
(47.1)
9.0
(48.2)
10.9
(51.6)
15.4
(59.7)
20.0
(68)
24.6
(76.3)
26.6
(79.9)
26.8
(80.2)
23.7
(74.7)
19.1
(66.4)
14.8
(58.6)
10.8
(51.4)
17.5
(63.5)
یومیہ اوسط °س (°ف)6.0
(42.8)
6.1
(43)
7.7
(45.9)
12.0
(53.6)
16.7
(62.1)
21.4
(70.5)
23.8
(74.8)
23.8
(74.8)
20.1
(68.2)
15.7
(60.3)
11.7
(53.1)
8.3
(46.9)
14.4
(57.9)
اوسط کم °س (°ف)3.1
(37.6)
3.1
(37.6)
4.2
(39.6)
7.6
(45.7)
12.1
(53.8)
16.5
(61.7)
19.4
(66.9)
20.1
(68.2)
16.8
(62.2)
12.9
(55.2)
8.9
(48)
5.5
(41.9)
10.8
(51.4)
ریکارڈ کم °س (°ف)−13.9
(7)
−16.1
(3)
−11.1
(12)
−2.0
(28.4)
1.4
(34.5)
7.1
(44.8)
10.5
(50.9)
10.2
(50.4)
6.0
(42.8)
0.6
(33.1)
−7.2
(19)
−11.5
(11.3)
−16.1
(3)
اوسطعمل ترسیب مم (انچ)106.0
(4.173)
77.7
(3.059)
71.4
(2.811)
45.9
(1.807)
34.4
(1.354)
36.0
(1.417)
33.3
(1.311)
39.9
(1.571)
61.7
(2.429)
88.0
(3.465)
100.9
(3.972)
122.2
(4.811)
817.4
(32.181)
اوسط عمل ترسیب ایام(≥ 0.1 mm)17.315.213.810.38.06.24.35.07.611.213.017.1129.0
ماہانہ اوسطدھوپ ساعات89.9101.7142.6195.0272.8318.0356.5328.6246.0176.7120.083.72,431.5
اوسط روزانہدھوپ ساعات2.93.64.66.58.810.611.510.68.25.74.02.76.64
ماخذ:ترکی ریاستی موسمیاتی خدمت[124] and Weather Atlas[125]
آب ہوا معلومات برائے استنبول (کیریچبورنو،سارییر)، 1949–1999
مہیناجنوریفروریمارچاپریلمئیجونجولائیاگستستمبراکتوبرنومبردسمبرسال
اوسط بلند °س (°ف)8.3
(46.9)
8.7
(47.7)
10.3
(50.5)
15.2
(59.4)
19.6
(67.3)
24.2
(75.6)
26.0
(78.8)
26.1
(79)
23.3
(73.9)
19.0
(66.2)
14.8
(58.6)
10.9
(51.6)
17.2
(62.96)
یومیہ اوسط °س (°ف)5.5
(41.9)
5.5
(41.9)
6.7
(44.1)
10.9
(51.6)
15.4
(59.7)
20.1
(68.2)
22.4
(72.3)
22.6
(72.7)
19.5
(67.1)
15.5
(59.9)
11.6
(52.9)
8.1
(46.6)
13.65
(56.58)
اوسط کم °س (°ف)3.0
(37.4)
2.9
(37.2)
4.0
(39.2)
7.5
(45.5)
11.9
(53.4)
16.2
(61.2)
19.1
(66.4)
19.7
(67.5)
16.6
(61.9)
12.8
(55)
8.9
(48)
5.6
(42.1)
10.68
(51.23)
اوسطعمل ترسیب مم (انچ)103.6
(4.079)
70.5
(2.776)
71.0
(2.795)
47.2
(1.858)
45.8
(1.803)
36.8
(1.449)
35.6
(1.402)
38.6
(1.52)
51.9
(2.043)
81.3
(3.201)
100.8
(3.969)
122.0
(4.803)
805.1
(31.698)
اوسط برفباری ایام(≥ 0.1 mm)3.64.92.80.00.00.00.00.00.00.00.31.513.1
ماخذ:ترکی ریاستی موسمیاتی خدمت[126] (1949–1999)
آب ہوا معلومات برائے استنبول (باہچے کوئے،سارییر)، 1949–1999
مہیناجنوریفروریمارچاپریلمئیجونجولائیاگستستمبراکتوبرنومبردسمبرسال
اوسط بلند °س (°ف)8.0
(46.4)
8.6
(47.5)
10.5
(50.9)
15.9
(60.6)
20.6
(69.1)
24.7
(76.5)
26.3
(79.3)
26.6
(79.9)
23.7
(74.7)
19.2
(66.6)
14.7
(58.5)
10.4
(50.7)
17.43
(63.39)
یومیہ اوسط °س (°ف)4.6
(40.3)
4.7
(40.5)
6.0
(42.8)
10.5
(50.9)
15.0
(59)
19.3
(66.7)
21.5
(70.7)
21.6
(70.9)
18.2
(64.8)
14.1
(57.4)
12.2
(54)
6.8
(44.2)
12.88
(55.18)
اوسط کم °س (°ف)1.7
(35.1)
1.6
(34.9)
2.8
(37)
6.4
(43.5)
10.7
(51.3)
14.5
(58.1)
17.0
(62.6)
17.6
(63.7)
14.2
(57.6)
10.8
(51.4)
6.9
(44.4)
3.9
(39)
9.01
(48.22)
اوسطعمل ترسیب مم (انچ)152.1
(5.988)
100.1
(3.941)
105.2
(4.142)
57.2
(2.252)
45.8
(1.803)
40.5
(1.594)
37.4
(1.472)
54.1
(2.13)
67.3
(2.65)
118.2
(4.654)
135.1
(5.319)
175.4
(6.906)
1,088.4
(42.851)
اوسط برفباری ایام(≥ 0.1 mm)4.65.23.90.10.00.00.00.00.00.00.53.017.3
ماخذ:ترکی ریاستی موسمیاتی خدمت[127] (1949–1999)
استنبول کے آب و ہوا کے اعداد و شمار
مہیناJanFebMarAprMayJunJulAugSepOctNovDecYear
اوسط سمندری درجہ حرارت °س (°ف)8.4
(47.1)
7.7
(45.9)
8.3
(46.9)
10.2
(50.4)
15.5
(59.9)
21.3
(70.3)
24.6
(76.3)
24.9
(76.8)
22.8
(73.0)
18.4
(65.1)
13.8
(56.8)
10.5
(50.9)
15.5
(60.0)
مطلب روزانہ کی روشنی کے اوقات10.011.012.013.014.015.015.014.012.011.010.09.012.2
ماخذ: Weather Atlas[125]

موسمیاتی تبدیلی

[ترمیم]

ترکی میںعالمی حرارتگرمی کی لہر،[128] خشک سالی،[129] طوفان،[130] اورسیلاب[131][132] کا سبب بن سکتا ہے۔سطح سمندر میں اضافے سے شہر کے ڈھانچے کو متاثر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے، مثال کے طور پر قاضی کوئے میٹرو اسٹیشن کو سیلاب کا خطرہ ہے۔[133] سبز خالی جگہوں پر زیرسکیپنگ کا مشورہ دیا گیا ہے،[134] اور استنبول کا ایکآب و ہوا میں تبدیلی کا ایکشن پلان بھی ہے۔[135]

شہر کا نظارہ

[ترمیم]
شاخ زریں سےتوپ قاپی محل کا نظارہ، پس منظر میںجزائر پرنس
تفصیلی مضامین کے لیےاستنبول کے تاریخی علاقے  اوراستنبول کے شہری مراکز کی فہرست ملاحظہ کریں۔

ضلع فاتح جس کا نام سلطانمحمد فاتح کے نام پر رکھا گیا تھا 1453ء میں عثمانی فتح کردہ علاقے سے مطابقت رکھتا تھاقسطنطنیہ (آج دار الحکومت ضلع ہے اور اسے استنبول کا تاریخی جزیرہ نما کہا جاتا ہے) کا پورا شہرشاخ زریں کے جنوبی کنارے پرقرون وسطی کےجینوا کے قلعہ کے شمالی ساحل تک تھا۔شہر کے شمال کی طرف توسیع کے لیےبرج غلطہ کو چھوڑ کرغلطہ میںجینوائی قلعے بڑے پیمانے پرانیسویں صدی میں مسمار کر دیے گئے تھے۔[136] موجودہ دور میںغلطہ (قرہ کوئے) ضلعبے اوغلو میں موجود ہے جو استنبول کا تجارتی اور تفریحی مرکز ہے اور اس میںاستقلال ایونیو اورتقسیم چوک بھی شامل ہیں۔[137]

آبنائے باسفورس کے کنارے ضلعبیشکتاش میںدولماباغچہ محل عثمانیہ دور میں حکومت کی نشست تھی۔باب عالی جو عثمانی حکومت کے لیے ایک مجازی لفظ بن گیا تھا اصل میںتوپ قاپی محل کے سب سے بیرونی صحن میں شاہی دروازہ (باب ہمایوں) کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔لیکناٹھارہویں صدی کے بعد یہتوپ قاپی محل کے قریب قرہ اوغلو حصے میںصدر اعظم (وزیر اعظم) کمپاؤنڈ کے دروازہ تسلیم کیا جاتا تھا، جہاںصدر اعظم اور دیگروزیروں کے دفاتر تھے اور جہاں غیر ملکی سفارت کاروں کا استقبال کیا جاتا تھا۔اورتاکوئے کا سابقہ گاؤںبیشکتاش کے اندر ہے اورآبنائے باسفورس پرباسفورس پل کے نردیک واقعاورتاکوئے مسجد اسی کے نام پر ہےباسفورس کے دونوں یورپی اور ایشیائی کناروں پر قطار در قطار کھڑی پرتعیش عمارتیں اور تاریخی حویلیاں عثمانی اشرافیہ نے گرمیوں کے گھروں کے طور پر تعمیر کیں تھیں۔[138] اس شہر کی اندرونی رنگ روڈ سے باہر استنبول کے اہم کاروباری اضلاعلیوینٹ اور ماسلک ہیں۔[139]

اصل میں شہر سے باہر، باسفورس کے ساتھ رہائش گاہیں اب استنبول کے کچھ اشرافیہ کے گھر ہیں۔
قرہ کوئے کے عمارتوں کا نظارہ، پس منظر میںبرج غلطہ

عثمانی دور میںاسکودار اورقاضی کوئے شہری علاقے کے دائرہ کار سے باہر تھے جہاں سمندر کے کنارے حویلیاں، باغات اور حفاظتی چوکیاں موجود تھیں۔لیکنبیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں ایشیائی طرف کو بڑی شرح پر شہری ترقی کا سامنا تھا۔ قدیم رہائشی علاقوں کے مقابلے میں شہر کے اس حصے کی دیر سے ترقی اور بہتر انفراسٹرکچر اور صاف شہری منصوبہ بندی حاصل ہوئی۔[10]باسفورس کے بیشتر ایشیائی حصے یورپی استنبول میں اقتصادی اور تجارتی مراکز کے مضافاتی علاقے ہیں، جہاں ان کے روزگار کا صرف ایک چوتھائی حصہ لیکن شہر کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے۔[10]بیسویں صدی میں استنبول کی نمایاں نمو کے نتیجے میں شہر کا ایک اہم حصہ گیچیکوندو (لفظی معنی "راتوں رات بنا ہوا") پر مشتمل ہے، غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کا حوالہ دیتا ہے۔[140] موجودہ دور میں کچھ گیچیکوندو علاقوں کو آہستہ آہستہ مسمار کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ جدید بڑے رہائشی منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔[141] مزید یہ کہ بڑے پیمانے پر نئے اور شہری تجدید منصوبے ہو رہے ہیں،[142] جیسا کہ تارلاباشی میں منصوبہ[143] اس طرح کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ جبکہسولوکولے میں منصوبے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔[144] شہر کے تیسرے ہوائی اڈےاستنبول ہوائی اڈے کے منصوبے کے ساتھ ترکی حکومت شہر کے یورپی طرف مغرب اور شمال کی طرف وسعت کے متمنی منصوبے بنا رہی ہے۔ شہر کے نئے حصوں میں چار مختلف بستیاں شامل ہوں گی جن میں مخصوص شہری کام اور 1.5 ملین افراد کی رہائش ہو گی۔[145]

تقسیم گیزی پارک

استنبول میں کوئی بنیادی شہری پارک نہیں، لیکن اس میں متعدد سبز علاقے موجود ہیں۔گل خانہ پارک اوریلدز پارک اصل میں استنبول کے دو محلاتتوپ قاپی محل اوریلدز محل کے میدان میں شامل تھے لیکن انھیں جمہوریہ ترکی کے ابتدائی عشروں میں عوامی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا۔[146] ایک اور پارکفتحی پاشا کوروسواناطولیہ میںباسفورس پل سے متصل ایک پہاڑی پر واقع ہے جو یورپی طرفیلدز محل کے بالمقابل ہے۔ یورپی طرف اورفاتح سلطان محمد پل کے قریب امیرگان پارک ہے جو بازنطینی دور کے دوران میں کیپرادیس (سائپرس جنگل) کے نام سے جانا جاتا تھا۔سولہویں صدی میں عثمانی دور میں اسے پہلی بار نشانجیفریدون احمد بے کو عطا کیا گیا، جبکہ بعد میںسترہویں صدی میں سلطانمراد رابع نے اسے صفویامیر گونے خان کو عطا کیا اور تب سے اس کا نام امیرگان ہے۔ 47 ہیکٹر (120 ایکڑ) کا ایک پارکانیسویں صدی میںخديويت مصر کےخدیواسماعیل پاشا کی ملکیت تھا۔ امیرگان پارک اپنے پودوں کی تنوع کے لیے جانا جاتا ہے اور یہاں 2005ء سے سالانہگل لالہ کا میلہ بھی لگایا جاتا ہے۔[147]جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی حکومت کا یہ فیصلہ کہتقسیم گیزی پارک کی جگہ عثمانی دور کیتقسیم فوجی بیرکس کی نقل تیار کرنے کے منصوبے نے (جو 1921ء میں گیزی پارک کی تعمیر کے لیے منہدم ہونے سے پہلے، 1921ء میں تقمیم اسٹیڈیم میں تبدیل ہو گیا تھا) 2013ء میں ملک گیر مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں مختلف امور کا احاطہ کیا گیا تھا۔ استنبول کے شہریوں کے لیے موسم گرما کے دوران مقبولبلغراد جنگل ہے، جو شہر کے شمالی کنارے پر 5،500 ہیکٹر (14،000 ایکڑ) پر پھیلا ہوا ہے۔جنگل اصل میں اس شہر کو پانی فراہم کرتا تھا۔ بازنطینی اور عثمانی دور کے دوران میں استعمال ہونے والے ذخائر کی باقیات یہاں موجود ہیں۔[148][149]

استنبول کی ایک وسیع تصویر جس میںآبنائے باسفورس،بحیرہ مرمرہ اور شہر کے کئی اہم مقامات جیسےسلطان احمد مسجد،آیا صوفیہ،توپ قاپی محل اوردولماباغچہ محل بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

مضافات شہر اور (دفاتر اور خوردہ اضلاع)

[ترمیم]
لیوینٹ کی عمارتوں کاآبنائے باسفورس سے نظارہ
مسلاک ضلع (2007ء)
لیوینٹ کی عمارتیں (2013ء) اور پس منظر میںاستنبول سفیر
عطا شہر ضلع

شہر کے مضافات میں جدید شاپنگ مالز، گھنے رہائشی اور ہوٹلوں کے برج اور تفریحی، تعلیمی اور دیگر سہولیات تاریخی مرکز کے باہر پائی جا سکتی ہیں۔[150]

فن تعمیر

[ترمیم]
A reddish building topped by a large dome and surrounded by smaller domes and four towers
اصل میں ایک چرچ، بعد میں ایک مسجد اور 1935 کے بعد سے ایک میوزیم،چھٹی صدی کاآیا صوفیہ (532ء–537ء)بازنطینی شہنشاہجسٹینین اول نے بنوایا تھا۔ یہ تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا تھا، جب تک کہہسپانیہ میں اشبلیہ کتھیڈرل (1507ء) نہیں بنا تھا۔
عبد المجید اول اورعبد العزیز اول کےانیسویں صدی میں تیار کردہدولماباغچہ محل،چراغاں محل اوربے لربیئی محل استنبول کے یورپی اور ایشیائی ساحلوں پر محلاتآبنائے باسفورس کے کنارے پر واقع ہیں۔[151]
1616 میں مکمل ہونے والیسلطان احمد مسجد کو عام طور پر "نیلی مسجد" کہا جاتا یت۔[152]

استنبول بنیادی طور پر اپنے بازنطینی اورعثمانیفن تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے لیکن اس کی عمارتیں مختلف اقوام اور سلطنتوں کی عکاسی کرتی ہیں جنھوں نے اس شہر پر حکمرانی کی ہے۔ جینوائی اور رومی فن تعمیر کی مثالیں استنبول میں اپنے عثمانی ہم منصبوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ کلاسیکی یونانی دور کی کوئی تعمیر باقی نہیں بچی، لیکنرومی فن تعمیر زیادہ پائیدار ثابت ہوا ہے۔قسطنطنیہ کا گھڑ دوڑ کے میدان میںتھیودوسیوس اول کا بنایا گیا ستون سلطان احمد چوک سے اب بھی نظر آتا ہے اورچوتھی صدی کے آخر میں تعمیر کی جانے والیوالنس آبراہ کا ایک حصہضلع فاتح کے مغربی کنارے پر نسبتاً برقرار کھڑا ہے۔[153]قسطنطین کا ستون جورومی شہنشاہقسطنطین اعظم کے حکم پر330ء میں تعمیر کیا گیا ایک رومی یادگار ستون ہے۔ یہبازنطیوم کےرومی سلطنت کے نئےدار الحکومت کے طور پر (قسطنطین اعظم نے اس کا نام بدل کرنووا روما (نیا روم) کے اعلان کی یادگار ہے۔ یہقسطنطنیہ کا گھڑ دوڑ کا میدان کے قریب ہی واقع ہے۔[153]

ابتدائی بازنطینی تعمیرات میں گنبدوں اور محرابوں والے کلاسیکی رومی ماڈل کی پیروی کیم لیکن ان عناصر پر بہتری آئی، جیسا کہایا صوفیہ اصغر میں فرق صاف ظاہر ہے۔ استنبول کا سب سے قدیم بچ جانے والا بازنطینی گرجا گھر، کھنڈروں میں بنایا گیااستودیوس کی خانقاہ ہے جو454ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔1261ء میں قسطنطنیہ پر دابارہ قبضہ کرنے کے بعد، بازنطینیوں نے موجودہ دو اہم ترین گرجا گھروںخورا گرجا گھر اورپاماکاریستوس گرجا گھر کی توسیع کی۔ بازنطینی فن تعمیر کی سب سے عمارت اور استنبول کے سب سے نمایاں ڈھانچوں میں سے ایکآیا صوفیہ ہے۔ اس کے مرکزیگنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) کا ہے۔[154]آیا صوفیہ صدیوں تک دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کی حیثیت سے برقرار ریا اور بعد میں اسے ایک مسجد میں تبدیل کر دیا گیا، تاہم اب یہ ایکعجائب گھر ہے۔[60]

استنبول میںعثمانی فن تعمیر کی سب سے قدیم بچ جانے والی مثالوں میںانادولو حصاری اورقلعہ روملی حصار شامل ہیں جنھوں نے شہر کے محاصرے کے دوران میں عثمانیوں کی مدد کی۔[155] اگلی چار صدیوں کے دوران میں عثمانیوں نے استنبول میںعثمانی فن تعمیر کے کئی انمٹ نقوش چھوڑے، بڑی مساجد اور دیدہ زیب محلات بنائے۔ سب سے بڑا محلتوپ قاپی فن تعمیر کی ایک متنوع مثال ہے، حرم کے اندر باروکی سے لے کر اس کے جدید کلاسیکل طرز تعمیر کااندرون مکتب۔[156] شاہی مساجد میںفاتح مسجد،بایزید دوم مسجد،یاوز سلیم مسجد،جامع سلیمانیہ،سلطان احمد مسجد (نیلی مسجد) اورینی مسجد شامل ہیں۔ یہ سبسولہویں صدی اورسترہویں صدی میںسلطنت عثمانیہ کے عروج کے دور میں تعمیر ہوئیں تھیں۔ اگلی صدیوں میں اور خاص طور پردور تنظیمات کی اصلاحات کے بعدعثمانی فن تعمیر کو یورپی طرز کے ذریعہ سر انجام دیا گیا۔[157] اس کی ایک مثال شاہینورعثمانیہ مسجد ہے۔استقلال ایونیو کے آس پاس کے علاقوں میں جدید کلاسیکل طرز کے عظیم الشان یورپی سفارت خانوں اور عمارتوں کی قطاریں بھری ہوئی تھیں اس کی ایک عمدہ مثالدولماباغچہ محل ہے۔[158]

انتظامیہ

[ترمیم]
استنبول کے اضلاع
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول کے اضلاع کی فہرست ملاحظہ کریں۔

2004ء کے بعد سے استنبول کی بلدیاتی حدود اس کےصوبے کی حدود کے موافق ہیں۔[159] یہ شہر جو استنبول صوبہ کا دار الحکومت سمجھا جاتا ہے، کا انتظام استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ (ایم ایم آئی) کے زیر انتظام ہے، جو شہر-صوبے کے 39اضلاع کا انتظام کرتا ہے۔[b]

موجودہ شہر کا ڈھانچہانیسویں صدی میںتنظیمات کی اصلاحی دور سے ملتا ہے جس سے قبلقاضی اور امامصدر اعظم کی قیادت میں شہر کا انتظام سنبھالتے تھے۔ فرانسیسی شہروں کے نمونے پر اس مذہبی نظام کی جگہ ایک میئر اور شہر کے نمائندوں پر مشتمل (ملت) ایک شہر گیر کونسل شہر کا انتظام سنبھالتے تھے۔

آبادیات

[ترمیم]
تاریخی آبادی
قبل جمہوریہ
سالآبادی
10036,000
361300,000
500400,000
7thc.150–350,000
8thc.125–500,000
9thc.50–250,000
1000150–300,000
1100200,000
1200150,000
1261100,000
135080,000
145345,000
1500200,000
1550660,000
1700700,000
1815500,000
1860715,000
1890874,000
1900942,900
جمہوریہ
سالآبادی±% پی.اے.
1925881,000—    
1927691,000−11.44%
1935740,800+0.87%
1940793,900+1.39%
1945845,300+1.26%
1950983,000+3.06%
19601,459,500+4.03%
19651,743,000+3.61%
19702,132,400+4.12%
19752,547,400+3.62%
19802,853,500+2.30%
19855,494,900+14.00%
19906,620,200+3.80%
19947,615,500+3.56%
19978,260,400+2.75%
20008,831,800+2.25%
200711,174,200+3.42%
201514,657,434+3.45%
مآخذ:Jan Lahmeyer 2004آرکائیو شدہ(غیرموجود تاریخ) بذریعہ populstat.info(نقص:نامعلوم آرکائیو یو آر ایل)،Chandler 1987،Morris 2010،Turan 2010
جمہوریہ سے پہلے کے اعداد وشمار[c]
1975 اور 2011 میں استنبول میں شہری علاقوں کی جسامت (سرمئی زون کے طور پر اشارہ کیا گیا ہے) موازنہ کیے گئے دو نقشے
1930ء کی دہائی میں استنبول میںقرہ کوئے میں مسافر فیری سے سفر کرتے لوگ

اپنی پوری تاریخ میں استنبول دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں شامل رہا ہے۔ 500 عیسوی تک قسطنطنیہ میں 400،000 سے 500،000 افراد آباد تھے۔اپنے پیشرو دنیا کے سب سے بڑے شہرروم سے بھی بڑھ کر۔[161]

قسطنطنیہ دوسرے ہم عصربڑے تاریخی شہروں مثلاًبغداد،چانگ آن،کائفینگ اورمرو کے مقابلے میںبارہویں صدی تک اپنی حیثیت برقرار رکھی۔اس کے بعد یہ کبھی دنیا کا سب سے بڑا شہر نہیں رہا، لیکن 1500ء سے 1750ء تک جب اسےلندن نے پیچھے چھوڑ دیا، یہیورپ کا سب سے بڑا شہر رہا۔[162]

ترک شماریاتی ادارے کے اندازے کے مطابق 2014ء کے آخر میں استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کی آبادی 14،377،019 تھی، جو ملک کی کل آبادی کا 19 فیصد ہے۔[3]تب میٹروپولیٹن بلدیہ کے تقریباً 97–98% رہائشی شہر کی حدود میں تھے،2007ء میں 89% تک،[163] اور 1980ء میں یہ صرف 61% رہ گئے۔[164] 64.9% رہائشییورپی طرف اور 35.1%ایشیائی طرف رہتے ہیں۔[165] یہ شہر دنیا کاپانچواں سب سے بڑے اصل شہر ہے، یہ شہری علاقے کے طور پرچوبیسویں مقام پر آتا ہے اور اور میٹرو ایریا کے طور پر یہاٹھارہویں مقام پر ہے کیونکہ شہر کی حدود تقریباً برابر ہیں۔آج یہ یورپ کے سب سے بڑیشہری جمعیت میںماسکو کے ساتھ شامل ہے۔[e]انجمن اقتصادی تعاون و ترقی کے بطابق یہ3.45 فیصد شہر کی سالانہ آبادی میں اضافہ سے دنیا میں اٹھترویں مقام پر ہے۔اعلیٰ آبادی میں اضافے کے باعث یہ ملک بھر میں شہریت کے رجحان کا آئینہ دار ہے، کیونکہ دوسرے اور تیسرے تیزی سے ترقی کرنے والی او ای سی ڈی میٹروپولیٹن میںازمیر اورانقرہ شامل ہیں۔[19]

شارع استقلال ہفتے کے اختتام کے دنوں میں تقریباً تین ملین افراد آتے ہیں۔

بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے دوران میں استنبول نے خاص طور پر آبادی میں تیز رفتار ترقی سامنا کیا اور اس کی آبادی 1950ء سے 2000ء کے درمیان میں اس کی آبادی دس گنا بڑھ گئی ہے۔[15]آبادی میں یہ اضافہ جزوی طور پر شہر کی حدود میں توسیع سے ہوا، خاص طور پر 1980ء اور 1985ء کے درمیان میں جب استنبول کی آبادی تقریباً دگنی ہو گئی۔[98]غیر معمولی نمو کے باوجود مشرقی ترکی سے آنے والے تارکین وطن کو روزگار کے حصول اور رہائشی حالات میں مزید بہتری آئی۔ سات شمالی اور مشرقی صوبوں سے آنے والے استنبول کے رہائشیوں کی تعداد ان کے پورے متعلقہ صوبوں کی آبادی سے زیادہ ہے،صوبہ سیواس اورصوبہ کاستامونو ہر ایک سے استنبول میں نصف ملین سے زیادہ باشندے موجود ہیں۔[16]استنبول کی غیر ملکی آبادی نسبتاً بہت کم ہے، 2007ء میں یہ42،228 رہائشیوں پر مشتمل تھی۔[168] شہر کے صرف 28 فیصد رہائشی اصل استنبول کے ہیں۔[169] انتہائی گنجان آباد علاقوں میں یورپی طرف شمال مغرب، مغرب اور شہر کا مرکز ہے۔ ایشیائی طرف سب سے زیادہ گنجان آباد ضلعاسکودار ہے۔[16]

مذہبی اور نسلی گروہ

[ترمیم]

استنبول اپنی پوری تاریخ میں ایک کثیر ثقافتی شہر رہا ہے لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے یہ مزید یکجا ہو گیا ہے۔

اسلام

[ترمیم]
2019ء میں استنبول بننے والیچاملیجا مسجد ترکی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

ترکی اور استنبول میں لوگوں کی اکثریتمسلمان ہے اور خاص طور پراہل سنت ہیں۔ بیشتر سنی ترکحنفی مکتب فکر کی پیروی کرتے ہیں جبکہ کرد سنیشافعی مکتب کی پیروی کرتے ہیں۔ سب سے بڑا غیر سنی مسلم گروہعلوی شیعہ ہیں جو ترکی کی آبادی کا 10–20 فیصد ہیں۔[170] ملک کے تمامعلوی شیعہ میں سے ایک تہائی استنبول میں رہتے ہیں۔[169]جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد صوفیانہ تحریکوں جیسےتصوف بھی سرکاری طور پر پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن وہ اب بھی متعدد پیروکاروں پر فخر کرتے ہیں۔[171] 1950ء کی دہائی سے استنبول ایک مہاجر شہر ہے۔ استنبول کی آبادی 1 ملین سے بڑھ کر 10 ملین رہائشیوں تک پہنچ گئی ہے۔ تقریباً 200،000 نئے تارکین وطن جن میں سے زیادہ تر ترکی کے دیہاتوں سے ہوتے ہیں ہر سال یہاں آتے ہیں۔

مساجد
[ترمیم]
گرجا گھر مساجد
[ترمیم]
آیا صوفیہ جو تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کو سب سے بڑا گرجا گھر تھافتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا، ترک جمہوریہ کے آغاز میںعجائب گھر میں تبدیل اور سن 2020 میں دوبارہ مسجد میں بدل دیا گیا۔

فتح قسطنطنیہ کے بعد بہت سےگرجا گھروں کومساجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ درج ذیل ایسی مساجد کی ایک فہرست ہے۔

عثمانی دور کی مساجد
[ترمیم]
1616ء میں بننے والیسلطان احمد مسجد استنبول کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
مہر ماہ سلطان مسجدعثمانی طرز تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
لالےلی مسجد معماری کا ایک اور شاہکار

جمہوریہ ترکی کے دور میں چند جدید مساجد میںشیشلی مسجد (1949ء)،شاکرین مسجد (2009ء) اورچاملیجا مسجد (2016ء) (موجودہ ترکی کی سب سے مسجد) شامل ہیں۔

مسیحیت

[ترمیم]
استنبول میں یونانی آبادی بطور شہر کی آبادی کا فیصد (1844ء–1997ء)

بطریق قسطنطنیہ کا چھٹی صدی کے بعد سے کل کلیسیا بطریق نامزد کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے 300 ملینمشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کا رہنما سمجھا جاتا ہے۔[172]1601ء کے بعد سےکل کلیسیا بطریقسینٹ جارج کیتھیڈرل، استنبول میں نشست پزیر ہے۔[173]انیسویں صدی میں استنبول کےمسیحی یا تویونانی راسخ الاعتقاد کلیسیا یاآرمینیائی رسولی کلیسیا کے رکن یا شامی کیتھولک ہیں۔[174]بیسویں صدی کے دوران میں ہونے والے واقعات کے سبب جس میںیونان اورترکی کے مابین1923ء کا تبادلہ آبادی، 1942 میں ثروت ٹیکس اور 1955ء کے استنبول فسادات بھی شامل ہیں، کی وجہ سے یونانی آبادی جو اصل میںفینار اور ساماتیا میں مرکوز تھی میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں استنبول کی یونانی آبادی 3،000 تھی۔ (1910ء کی مردم شماری کے مطابق کل 850،000 میں سے 260،000 اور 1919ء میں 350،000 کی سب سے زیادہ آبادی)[175][176] استنبول میں آج 50،000 سے 90،000 آرمینی باشندے موجود ہیں، جو 1913ء کی مردم شماری کے مطابق (جزوی طور پر آرمینی نسل کشی کی وجہ سے) تقریباً 164،000 سے کم ہوئے ہیں۔[177] شامی، لاطینی مسیحی جو عثمانی دور کے دوران میںغلطہ میں آباد تھے،انیسویں اوربیسویں صدی کے اوائل میں استنبول کی ثقافت اور تعمیر کی تشکیل میں ایک مرکزی کردار ادا کیا تھا، ان کی آبادی کم ہو گئی ہے بلکہ وہ شہر میں بہت کم تعداد میں باقی ہیں۔[178]

رومن کیتھولک گرجا گھر
[ترمیم]
پادووا کے سینٹ انتھونی کا چرچ
یونانی راسخ الاعتقاد گرجا گھر
[ترمیم]
آئیا تریادا یونانی راسخ الاعتقاد گرجا گھر
آرمینیائی رسولی گرجا گھر
[ترمیم]
سینٹ گریگوری نورافگن گرجا گھر

کرد

[ترمیم]

استنبول میں سب سے بڑی نسلی اقلیتکرد برادری ہے جو مشرقی اور جنوب مشرقی ترکی سے ہیں۔ اگرچہ اس شہر میں کردوں کی موجودگی عثمانی دور کے ابتدائی دور کی ہے[179] تاہم شہر میں کردوں کی آمد کا عمل 1970ء کی دہائی کے آخر میں کرد-ترکی تنازع کے آغاز سے تیز ہوا ہے۔[180] استنبول کے 20 سے 40 ملین باشندے کرد ہیں، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں استنبول میں کرد زیادہ ہیں۔[181][182][183][184][185][186]

بوسنیائی مسلم

[ترمیم]

شہر میں دیگر اہم نسلی اقلیتیں بھی موجود ہیں۔ پورےبیرم پاشا ضلع میںبوشنیاک (بوسنیائی مسلم) اکثریت میں ہیں۔[187]

یہودیت

[ترمیم]
غلطہ کیشارع بینک پرکاموندو سیڑھیاں جنھیں عثمانی-یہودی بینکرابراہم سالومن کاموندو نے 1870ء–1880ء میں تعمیر کروایا تھا۔

بالات محلے میںسفاردی یہودیوں ایک بڑی برادری آباد تھی، جو سب سے پہلے 1492ء میںہسپانیہ سے بے دخل کے جانے بعد یہاں آباد ہوئے تھے۔[188] رومانیوت اوراشکنازی یہود سفاردیوں سے پہلے استنبول میں مقیم تھے لیکن اب ان کا تناسب کم ہو گیا ہے۔ آج استنبول کے 1 فیصد یہودی اشکنازی ہیں۔[189][190] بڑے پیمانے پر یہودی آبادی کیاسرائیل ہجرت کی وجہ سے ان کی آبادی 1950ء میں 100،000 سے کم ہوکر 2005ء میں 18،000 ہو گئی ہے، ان میں سے اکثریت استنبول یاازمیر میں مقیم ہے۔[191]

یہودی عبادت گاہیں
[ترمیم]
اشکنازی کنیسہ استنبول
  • نیو شالوم کنیسہ
  • اشکنازی کنیسہ استنبول
  • کنیسہ احریدا
  • کنیسہ باقر کوئے
  • بیت ایورام کنیسہ
  • بیتاسرائیل کنیسہ
  • بیت نویم کنیسہ
  • بیت یعقوب کنیسہ
  • کادے بستان کنیسہ
  • حمدت اسرائیل کنیسہ
  • اطالوی کنیسہ
  • کارایتے کنیسہ
  • مالم کنیسہ
  • میئر کنیسہ
  • یانبول کنیسہ
  • ینی کوئے کنیسہ

سیاست

[ترمیم]
اکرم امام اوغلوریپبلکن پیپلز پارٹی سے تئیسویں اور حالیہ میئر استنبول ہیں جو جون 2019ء میں منتخب ہوئے
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
24 / 39
ریپبلکن پیپلز پارٹی
(قومی اتحاد)
14 / 39
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
1 / 39
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
43 / 98
ریپبلکن پیپلز پارٹی
(قومی اتحاد)
27 / 98
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی
(بغیر اتحاد)
12 / 98
ایی پارٹی
(قومی اتحاد)
8 / 98
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
(جمہوری اتحاد)
8 / 98

سیاسی طور پر استنبول کو ترکی میں ایک اہم ترین انتظامی خطے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ صدررجب طیب ایردوان سمیت بہت سےسیاست دانوں کا خیال ہے کہ استنبول میں سیاسی جماعت کی کارکردگی اس کی عام کارکردگی سے زیادہ اہم ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استنبول ترکی کا مالی مرکز ہے، اس کے انتخابی حلقے بڑے اور در حقیقترجب طیب ایردوان خود 1994ء میں استنبول کا میئر منتخب ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کا مالی مرکز، اس کے بڑے انتخابی حلقے اور اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ ایردوان خود 1994 میں استنبول کا میئر منتخب ہوا تھا۔2019ء کےترکی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے دوران، اردوان نے کہا تھا کہ 'اگر ہم استنبول میں ناکام ہو گئے تو ہم ترکی میں ناکام ہوجائیں گے'۔[192]

تاریخی طور پر استنبول نے1995ء سے عام انتخابات میں فاتح پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔2002ء کے بعد سے دائیں بازو کیجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے ہر عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے،24 جون2018ء کو ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اس کو 41.74 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اے کے پی کے صدارتی امیدواررجب طیب ایردوان کو اسی دن ہونے والے صدارتی انتخابات میں 50.0 فیصد ووٹ ملے تھے۔1994ء میں ایردوان کے ساتھ آغاز کرتے ہوئے، استنبول کے2019ء تک 25 سالوں سے قدامت پسند میئر رہ چکے ہیں۔ استنبول کی دوسری سب سے بڑیسیاسی جماعت مرکز میں بائیں بازو کیریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) ہے جو ملک کی اصل حزباختلاف جماعت بھی ہے۔ بائیں بازو کی کرد حمایت یافیہ جمہرری جماعتپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) اس شہر کی تیسری سب سے بڑی سیاسی قوت ہے جس کی اصل وجہ کافی تعداد میں کرد افراد جو جنوب مشرقی ترکی سے ہجرت کر یہاں آئے ہیں اس کے ووٹر ہیں۔

ضلع فاتح میں استنبول میٹرو پولیٹن بلدیہ کی عمارت

حال ہی میں استنبول اور ترکی کے بہت سے میٹروپولیٹن شہر حکومت اور ان کے دائیں بازو کے نظریہ سے دور رجحان کی پیروی کر رہے ہیں۔ 2013ء اور 2014ء میں بڑے پیمانے پر اے کے پی مخالف طاقتوں نے استنبول میں حکومت مخالف مظاہرے شروع کیے جو پورے ملک میں پھیل گئے۔ یہ رجحان سب سے پہلے 2014ء کے میئر انتخابات میں واضح ہوا جہاں مرکز کے بائیں بازو کے حزب اختلاف کے امیدوار نےکامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود 40 فیصد ووٹ حاصل کر لیے۔ استنبول میں حکومت کی پہلی شکست 2017ء کے آئینی ریفرنڈم میں ہوئی، جہاں استنبول نے 'نہیں' کو 51.4% سے 48.6% تک ووٹ دیا۔ اے کے پی کی حکومت نے 'ہاں' کے ووٹ کی حمایت کی تھی اور ملک کے دیہی علاقوں میں زیادہ حمایت کی وجہ سے یہ ووٹ قومی سطح پرجیت گیا تھاحکومت کو سب سے بڑی شکستترکی بلدیاتی انتخابات، 2019ء میں ہوئی، جہاں میئر کے لیے ان کے سابق وزیر اعظمبن علی یلدرم امیدوار تھے جنھیں اپوزیشن کے امیدواراکرم امام اوغلو نے ایک انتہائی کم فرق سے شکست دے دی۔ یلدرم کے 48.61% کے مقابلے میں امام اوغلو نے 48.77% ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح کے رجحانات اور اپوزیشن کو انتخابی کامیابیاںانقرہ،ازمیر،انطالیہ،مرسین،ادانا اور ترکی کے دیگر میٹروپولیٹن علاقوں میں بھی ملیں۔

انتظامی طور پر استنبول کو 39 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، جو ترکی کے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے۔ ایک صوبے کی حیثیت سے استنبول 98رکن پارلیمان کوترکی قومی اسمبلی میں بھیجتا ہے جس میں کل 600 نشستیں ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے مقصد کے لیے استنبول کو تین انتخابی اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے، دو یورپی طرف اور ایک ایشیائی طرف سے جس میں بالترتیب 28، 35 اور 35 ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔

معیشت

[ترمیم]
لیوینٹ کے قریب کاروباری ضلع

مساوی قوت خرید کے ساتھ استنبول کیخام ملکی پیداوار 301.1 بلینامریکی ڈالر ہے جس کا 2011ء میں دنیا کے شہری علاقوں میں درجہانتیسواں ہے۔[193] 1990ء کی دہائی کے وسط سے استنبول کی معیشتاو ای سی ڈی کے مطابق میٹرو علاقوں میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی رہی ہے۔[19]استنبول ترکی کیخام ملکی پیداوار کے 27 فیصد کا شراکت دار ہے جبکہ ملک کی 20 فیصد صنعتی افرادی قوت شہر میں مقیم ہے۔[19][194] اس کی فی کس خام ملکی پیداوار اور پیداواری صلاحیت قومی اوسط سے بالترتیب 70 فیصد اور 50 فیصد زیادہ ہے، جس کی وجہ اعلیٰ قیمت والی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اس کی آبادی اور ترکی کی معیشت میں نمایاں شراکت کے ساتھ، استنبول ملک کے ٹیکس محصول کا دوتہائی حصہ ادا کرتا ہے۔[19]اس میں استنبول میں مقیم 37 امریکی ڈالر ارب پتیوں کے ٹیکس بھی شامل ہیں جو دنیا بھر کے شہروں میں پانچویں نمبر پر ہے۔[195]

لیوینٹ کا ایک نظارہ، استنبول کا ایک اہم کاروباری ضلع اور شہر کی بلند عمارتوں کا گھر

اتے بڑے شہر کی توقع کے مطابق، استنبول کی متنوع صنعتی معیشت ہے وہ زیتون کے تیل، تمباکو، گاڑیاں اور الیکٹرانکس کی مختلف اشیا تیار کرتا ہے۔[194]اعلیٰ ویلیو ایڈڈ کام پر توجہ دینے کے باوجود اس کا کم ویلیو ایڈڈ مینوفیکچرنگ کا شعبہ خاطر خواہ ہے جو استنبول کی جی ڈی پی کے صرف 26 فیصد نمائندگی کرتا ہے لیکن شہر کی کل برآمدات کا پانچ چوتھائی حصہ ہے۔[19]2005ء میں استنبول میں قائم کمپنیوں نے 41.4 بلین ڈالر کی برآمدات کیں اور مجموعی طور پر 69.9 بلین ڈالر کی درآمدات موصول ہوئیں۔ یہ اعدادوشمار بالترتیب 57 فیصد اور 60 فیصد کے برابر تھے۔[196]

استنبول ترکی کی واحداسٹاک ایکسچینجبورسا استنبول کا گھر بھی ہے جواستنبول اسٹاک ایکسچینج،استنبول گولڈ ایکسچینج اورترکی کی تبادلہ ایکسچینج کو ضم کرنے سے وجود میں آئی۔[197][198] سابقہ استنبول اسٹاک ایکسچینج اصل میں 1866ء میں عثمانی اسٹاک ایکسچینج کے طور پر قائم کی گئی تھی۔[199]بیسویں صدی کے اوائل کے دوران میںغلطہ میںبینک اسٹریٹسلطنت عثمانیہ کا مالی مرکز تھا جہاں عثمانی اسٹاک ایکسچینج واقع تھی۔۔[200]بینک اسٹریٹ 1990ء کی دہائی تک استنبول کا اہم مالیاتی ضلع تھا تاہم اس کے بعد زیادہ تر ترک بینکوں نے اپنا مرکزی دفتر جدید مرکزی کاروباری اضلاعلیوینٹ) اور مسالک میں منتقل کرنا شروع کر دیے۔ 1995ء میں استنبول اسٹاک ایکسچینج (اببورسا استنبول) ضلعساریئر) میں اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہو گئی۔[201]عطا شہر میں ایک نیا مرکزی کاروباری ضلع بھی زیر تعمیر ہے اور تکمیل کے بعد ترکی کے مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے صدر دفتر کی میزبانی کرے گا۔[202]

بحیرہ اسود کو جانے والا واحد راستہ،آبنائے باسفورس دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے

بحیرہ اسود اوربحیرہ روم کے درمیان میں واحد بحری راستے کے طور پرآبنائے باسفورس دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ ہر سال 200 ملین ٹن سے زیادہ تیل آبنائے سے گزرتا ہے اور باسفورس پر ٹریفکنہر سوئز سے تین گنا زیادہ ہے۔[203] اس کے نتیجے میں شہر کے یورپی طرف آبنائے کے متوازیاستنبول کنال کے نام سے جانی جانے والی ایک نہر تعمیر کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہے۔[204] استنبول میں تین بڑیبندرگاہیں ہیں جوحیدر پاشا بندرگاہ، امبارلی بندرگاہ اور زیتون بورنو بندرگاہ ہیں۔ نیز باسفورس اوربحیرہ مرمرہ کے ساتھ کئی چھوٹی بندرگاہیں اور تیل کے ٹرمینلز موجود ہیں۔[205][206]حیدر پاشا بندرگاہ باسفورس کے جنوب مشرقی سرے پر موجود 2000ء کی دہائی کے اوائل تک استنبول کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی۔اس کے بعد امبارلی بندرگاہ شروع ہونے کے بعد یہ کافی مصروف بندرگاہ ہے اور حیدر پاشا کم استعمال ہو رہی ہے اور اس بندرگاہ کو بتدریج ختم کرنے کا منصوبہ بھی ہے۔[207] 2007ء میں شہری مرکز کے مغربی کنارے پر واقع امبارلی کی سالانہ گنجائش 15 لاکھٹی ای یو تھی (حیدرپاشا میں 354،000 ٹی ای یو کے مقابلے میں)، جو اسےبحیرہ روم کے طاس میں چوتھا بڑا کارگو ٹرمینل بناتا ہے۔[208][209] زیتون برونو بندرگاہ کو موٹر ویز اوراتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے کی قربت کا بھی فائدہ ہے۔[210] اور شہر کے لیے طویل مدتی منصوبوں میں تمام ٹرمینلز اور سڑک اور ریل نیٹ ورک کے مابین زیادہ سے زیادہ رابطے کی ضرورت ہے۔[211]

استنبول ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔ 2000ء میں 2 لاکھ 40 ہزار غیر ملکی سیاحوں نے اس شہر کا دورہ کیا۔ اس نے 2015ء میں 12.56 ملین غیر ملکی سیاحوں کا خیر مقدم کیا اور یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ دورہ کیا جانے والا شہر بنا۔[17][212] استنبولانطالیہ کے بعدترکی کا دوسرا سب سے بڑا بین الاقوامی گیٹ وے ہے جو ملک میں غیر ملکی سیاحوں کا ایک چوتھائی حصہ وصول کرنا ہے۔ استنبول کی سیاحتی صنعت یورپی طرف مرکوز ہے، شہر کے 90 فیصد ہوٹل یہیں موجود ہیں۔سرائے بورنو میں سستے اور اوسط کرائے کے ہوٹل ہیں، اعلیٰ درجے کے ہوٹل بنیادی طور پرشاخ زریں کے شمال میں تفریحی اور مالی مراکز میں ہیں۔استنبول میں سترعجائب گھر موجود ہیں، جن میںتوپ قاپی محل اورآیا صوفیہ سب سے زیادہ دیکھیے جانے والے ہیں، یہ عجائب گھر ہر سال 30 ملین ڈالر کی آمدنی دیتے ہیں۔ شہر کے ماحولیاتی ماسٹر پلان میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ استنبول میں تاریخی اہمیت کے حامل 17 محل، 64 مساجد اور 49 گرجا گھر موجود ہیں۔[213]

ثقافت

[ترمیم]
استنبول آثاریات عجائب گھر عثمان حمدی نے 1891ء میں قائم کیا تھا، یہ ترکی کا قدیم ترین جدید عجائب گھر ہے۔[214]

استنبول تاریخی طور پر ایک ثقافتی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا لیکنجمہوریہ ترکی کے قیام کے بعددار الحکومت کیانقرہ منتقلی سے ثقافتی منظر نامہ کا رخ منتقل ہو گیا۔[215] نئی قومی حکومت نے ایسے پروگرام قائم کیے جن سے ترکوں کو موسیقی کی روایات کی طرف راغب کیا گیا، خاص طور پر وہ جو یورپ میں شروع ہوئے، لیکن موسیقی کے ادارے اور غیر ملکی کلاسیکی فنکاروں کے دورے بنیادی طور پر نئے دار الحکومت میں مرکوز ہیں۔[216] ترکی کے بیشتر ثقافتی منظر کی جڑیں استنبول میں ہی تھیں اور 1980ء اور 1990ء کی دہائی تک استنبول ایک ایسے شہر کی حیثیت برقرارنہ رکھ سکا جس کی ثقافتی اہمیت صرف اس کی ماضی کی عظمت پر مبنی ہے۔[217]

بے اوغلو میں پرار عجائب گھر

انیسویں صدی کے آخر تک استنبول ایک علاقائی فنکارانہ مرکز کے طور پر اپنے آپ کو قائم رکھا، ترکی، یورپی اور مشرق وسطی کے فنکار شہر کی طرف آ رہے تھے۔انقرہ کو ترکی کا ثقافتی دل بنانے کی کوششوں کے باوجود استنبول 1970ء کی دہائی تک ملک کا بنیادی مرکز فن تھا۔[218] جب 1980ء کی دہائی کے دوران میں استنبول میں اضافی جامعات اور آرٹ جرائد کی بنیاد رکھی گئی تھی تو پہلے سے انقرہ میں مقیم فنکار یہاں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔[219]بے واغلو شہر کے فنکارانہ مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے، نوجوان فنکار اور بوڑھے ترک فنکار جو پہلے بیرون ملک مقیم تھے قدم جماتے نظر آتے ہیں۔ استنبول میں جدیدعجائب گھر جن میں پیرا عجائب گھر،ثاقب سابانجی عجائب گھر اوراستنبول ماڈرن شامل ہیں 2000ء کی دہائی میں نمائش گاہوں اور نیلام گھروں میں جدید اضافہ تھا جو شہر کی کثیر ثقافتی قدر کو بڑھانے کا موجب بنے۔[220] ان عجائب گھروں کو ابھی تک تاریخی جزیرہ نما کے پرانے عجائب گھروں کی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے، اس میںاستنبول آثاریات عجائب گھر اورترکی اور اسلامی فنون عجائب گھر بھی شامل ہیں جو ترکی میں جدید عجائب گھروں کے عہد کا آغاز تھا۔[213][214]

استنبول فیسٹیول کا قیام ثقافتی بازگشت کے ساتھ مربوط ہونا تھا، جس نے 1973ء میں ترکی اور پوری دنیا سے مختلف قسم کے فن کی نمائش شروع کی۔اسی مشعل بردار فیسٹیول سے 1980ء کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی استنبول فلم فیسٹیول اور استنبول انٹرنیشنل جاز فیسٹیول آیا۔ اس کی توجہ اب صرف موسیقی اور رقص پر مرکوز ہے، استنبول فیسٹیول کو 1994ء سے استنبول بین الاقوامی میوزک فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔[221] اصل استنبول فیسٹیول سے نکلے جانے والے دیگر تہواروں میں سب سے نمایاں استنبول بائینیئل ہے جو 1987ء کے بعد سے ہر دو سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس کا ابتدائی مقصد ترکی کے بصری فن کی نمائش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بین الاقوامی فنکاروں کے لیے کھلا اور وینس بینیال اور ساؤ پالو آرٹ بینیئل کے ساتھ ساتھ ایلیٹ بائناالس میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔[222]

عجائب گھر

[ترمیم]
استنبول آثاریات عجائب گھر
استنبول کھلونا عجائب گھر

استنبول صدیوں کے دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں کا دار الحکومت رہا جس کی یہ ثقافت کا ایک بڑا مرکز بھی ہے۔ شہر میں جا بجا تاریخی عمارتیں ہیں جن میں کئی اب عجائب گھروں میں تبدیل ہو جکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہاں متعددعجائب گھر موجود ہیں جن میں اہم عجائب گھر کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔

فلم اور مقبول ثقافت

[ترمیم]
فرام رشیا ود لوو
ایک تھا ٹائیگر

ترکی میں پہلی فلم کی نمائشیلدز محل میں 1896ء میں ہوئی پیرس میں اس ٹیکنالوجی کے عوامی آغاز کے ایک سال بعد۔[223]بے اوغلو میں سینما گھر اور تھیٹر تیزی پھیلنا شروع ہو گئے، سینما گھروں کی بڑی تعداد سڑک کے کنارے مرکوز تھی جسے ابشارع استقلال کہا جاتا ہے۔[224] استنبول ترکی کی جدید فلم انڈسٹری کا دل بن گیا، حالانکہ 1950 کی دہائی تک ترک فلمیں مستقل طور پر تیار نہیں کی گئیں۔[225] تب سے استنبول ترکی ڈراموں اور مزاح نگاروں کی فلم بنانے کا سب سے مقبول مقام رہا ہے۔[226]

صدی کے دوسرے نصف حصے میں ترک فلمی صنعت میں تیزی آگئی اور اوزاک (2002) اور میرے والد اور میرے بیٹے (2005) دونوں کی عکس بندی استنبول میں کی گئی۔ ملکی فلموں میں بین الاقوامی سطح پر کافی کامیابی نظر آتی ہے۔[227] استنبول اور اس کی دلکش عمارتوں نے متعدد غیر ملکی فلموں کے پس منظر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ چند مشہور بین الاقوامی فلموں میںفرام رشیا ود لوو،دا ورلڈ از ناٹ اینف،ٹیکن 2،عثمانی لیفٹیننٹ،مشن استنبول اور توپ قابی شامل ہیں۔ استنبول میں فلمائی گئی دیگر فلموں میںجوانی پھر نہیں آنی 2،دل دھڑکنے دو،ایک تھا ٹائیگر،بیبی،ریس 2،ہجرت اوروار شامل ہیں۔

اس ثقافتی بازگشت کے ساتھ مربوط استنبول فیسٹیول کا قیام تھا، جس نے 1973ء میں ترکی اور دنیا بھر سے مختلف فنون کی نمائش شروع کی۔ اسی فلیگ شپ فیسٹیول سے سن 1980 کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی استنبول فلم فیسٹیول اور استنبول انٹرنیشنل جاز فیسٹیول شہر میں منعقد ہونا شروع ہوا۔ اپنی پوری توجہ صرف موسیقی اور رقص پر مرکوز ہونے کی وجہ سے استنبول فیسٹیول کو 1994ء سے استنبول انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔[228]

خریداری اور تفریح

[ترمیم]
بڑا بازار، استنبول

تاریخی سے جدید تک استنبول میں متعدد خریداری مراکز ہیں۔بڑا بازار 1461ء کے بعد سے چل رہا ہے یہ دنیا کے قدیم ترین اور چھتے بازاروں میں سے ایک ہے۔[229][230] محمود پاشا بازار ایک کھلا ہوا بازار ہے جوبڑا بازار اورمصری بازار کے مابین پھیلا ہوا ہے جو 1660ء سے استنبول کی مسالا کی بڑی منڈی ہے۔1987ء میں جب گیلریا اتاکوئے کا افتتاح ہوا تو ترکی میں جدید شاپنگ مالز کے زمانے کا آغاز ہوا۔[231] اس کے بعد سے تاریخی جزیرہ نما کے باہر بڑے شاپنگ سینٹرز بن گئے ہیں۔

استنبول اپنے تاریخی سمندری غذا والے ریستورانوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ شہر کے بہت سے مشہور اور اعلیٰ سمندری غذا والے ریستوراںباسفورسکے کنارے واقع ہیں خاص طور پراورتاکوئے، بیبک،ارناوتکوئے، ینی کوئے،بے لربئی اور چنگال کوئے میں۔بحیرہ مرمرہ کے ساحل کے ساتھقوم قاپی پیدل چلنے والا زون ہے جس میں پچاس کے قریب مچھلی والے ریستوراں ہیں۔[232]جزائر پرنس شہر کے مرکز سے 15 کلومیٹر (9 میل)، سمندری غذا والے ریستوراں کے لیے بھی مشہور ہیں۔ان ریستوراںوں، موسم گرما کی تاریخی حویلیوں اور کار سے پاک سڑکوں کی وجہ سےجزائر پرنس استنبول اور غیر ملکی سیاحوں کے درمیان میں چھٹیوں کا ایک مقبول مقام ہے۔[233]

نشان تاشی خریداری ضلع میںنئے سال کی شام کے موقع پر سجاوٹ

استنبول عثمانی کھانوں کی جدید ترین اور وسیع پیمانے پر پکے پکوان کے لیے بھی مشہور ہے۔ 1960ء کی دہائی میں شروع ہونے والے جنوب مشرقی اور مشرقی ترکی سے آنے والے تارکین وطن کی آمد کے بعد صدی کے آخر تک اس شہر کے کھانے کا نظارہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ مشرق وسطی کے کھانا جیسےکباب کھانے کے منظر میں ایک اہم جگہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔غیر ملکی کھانوں والے ریستوراں بنیادی طوربے اوغلو،بیشکتاش،شیشلی اورقاضی کوئے اضلاع میں مرتکز ہیں۔

استنبول فعال رات کی زندگی اور تاریخی ٹیورنز کے لیے بھی مشہور ہے جو صدیوں سے شہر کی ایک خصوصیت ہے۔شارع استقلال پر چیچک پاسجی اب شراب خانوں پب اور ریستوراںوں کا گھر ہے۔[234] استقلال ایوینیو جو اصل میں اپنے طعام خانوں کے لیے جانا جاتا ہے، خریداری کی طرف بڑھ گیا ہے، لیکن قریب کی نیویزادے اسٹریٹ اب شراب خانوں اور پبوں سے بھری ہے۔[235][236] استقلال ایونیو کے آس پاس کے کچھ دوسرے محلوں کوبے اوغلو کی رات کی زندگی کے لیے نئے سرے سے تشکیل دیا گیا ہے، اب تجارتی گلیوں میں پب، کیفے اور ریستوراں موجود ہیں جن میں لائیو موسیقی ایک خاص خصوصیت ہے۔[237] استنبول کی رات کی زندگی کے دیگر فوکل پوائنٹ میںنشان تاشی،اورتاکوئے، بیبک اورقاضی کوئے شامل ہیں۔[238]

کھیل

[ترمیم]
1. سنان ایردم ڈوم
2. اولکر اسپورٹس ایرینا

استنبول میں ترکی کے سب سے قدیم اسپورٹس کلبوں کا گھر ہے۔ "بیشکتاش جے کے" جو 1903ء میں قائم ہوا ان کھیلوں کے کلبوں میں سب سے قدیم سمجھا جاتا ہے۔ غلطہ سرائے اپورٹس کلب اور فنارباہچے اپورٹس کلب بین الاقوامی مقابلوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور بالترتیب 22 اور 19 مرتبہ سوپر لیگ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔[239][240][241] استنبول میں باسکٹ بال کی سات ٹیمیں ہیں جو ترک باسکٹ بال سپر لیگ میں کھیلنی ہیں۔[242]

سنان ایردم ڈوم یورپ کے سب سے بڑے انڈور کھیلوں کے میدانوں میں سے ایک ہے۔ اس نے 2010ء فیبا ورلڈ چیمپینشپ کے فائنل کی میزبانی، 2012ء آئی اے اے ایف ورلڈ انڈور چیمپین شپ، اس کے ساتھ ساتھ 2011ء–12ء یورو لیگ اور 2016ء–17ء یورو لیگ فائنل فور کی بھی میزبانی کی۔[243] اولکر اسپورٹس ارینا جو فنارباہچے باسکٹ بال ٹیم کا ہوم کورٹ ہے 2012ء میں کھلا۔تعمیراتی عروج کے باوجودگرمائی اولمپکس کے لیے شہر نے پانچ بولیاں دیں جس میں2000ء گرمائی اولمپکس،2008ء گرمائی اولمپکس،2012ء گرمائی اولمپکس، 2020ء گرمائی اولمپکس اور اس کے علاوہیوئیفا یورو 2016ء شامل ہیں تاہم یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔[244]

2005ء اور 2011ء کے درمیان میں استنبول پارک ریسنگ سرکٹ نے سالانہفارمولا ون ترک گراں پری کی میزبانی کی۔[245] 1952ء میں قائم ہونے والا استنبول کشتی رانی کلب ہر سال استنبول کے آس پاس کی آبی گزرگاہوں پر ریس اور دوسرے کشتی رانی کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔[246][247] ترکی کے ساحل سمندر ریسنگ کلب میں بڑی کشتیاں بھی شامل ہیں جیسے کہ سالانہ نیول فورس ٹرافی۔[248]

اتاترک اولمپک اسٹیڈیم استنبول کے مغربی مضافات میںترکی کا سب سے بڑااسٹیڈیم ہے۔ اس کا نامجمہوریہ ترکی کے بانی اور پہلے صدرمصطفٰی کمال اتاترک کے نام پر ہے۔ اس کی تعمیر 1999ء میں شروع ہوئی اور 2002ء میں مکمل ہوئی۔ یہ 2008ء کےاولمپک کھیلوں کے لیے ترکی کی ناکام بولی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا جو بالآخربیجنگ کو دیا گیا تھا۔ اس پر تقریباً 140 ملینامریکی ڈالر لاگت آئی۔[249]

ترک ٹیلی کام اسٹیڈیم استنبول،ترکی کے یورپی حصے کے ضلعسارییر میں ایکایسوسی ایشن فٹ بالاسٹیڈیم ہے۔[250] کل نشستی اسٹیڈیم میں 52،223 میزبانی کرنے کی گنجائش ہے۔[251] ترک ٹیلی کام اسٹیڈیمترکی کا پہلا اسٹیڈیم تھا جویوئیفا یورپی چیمپئن شپ کی میزبانی کے لیےیوئیفا یورو 2016ء کے معیار پر پقرا اترا۔[252]

شکرو سراج اوغلو اسٹیڈیم استنبول،ترکی کے ضلعقاضی کوئے میں ایک کثیر المقاصداسٹیڈیم ہے۔اس اسٹیڈیم کا افتتاح سنہ 1908ء میں ہوا اور 1929ء سے 1932ء، 1965ء سے 1982ء اور 1999ء سے 2006ء کے درمیان میں اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ اسٹیڈیم کا انتخاب 2009ء کے یوئیفا کپ فائنل کی میزبانی کے لیے کیا گیا تھا۔[253][254][255]

ووڈافون پارک استنبول،ترکی کے ضلعبیشکتاش میں ایک کل نشستی کثیر المقاصداسٹیڈیم ہے۔[256][257] یہ "بیشکتاش جے کے" سب سے قدیم کلب کا گھر ہے۔ اس میں تقریباْ 41،188 شائقین کی گنجائش ہے۔ اسٹیڈیم نے یوئفا سپر کپ 2019ء کی میزبانی کی تھی۔

میڈیا

[ترمیم]
ترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن کا صدر دفتر
1948ء سے شائع ہونے والاحریت (ترکی اخبار) سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔

زیادہ تر سرکاری سطح پر چلنے والے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشنانقرہ میں قائم ہیں، لیکن استنبول ترک میڈیا کا بنیادی مرکز ہے۔ سابقہ دار الحکومت میں اس صنعت کی جڑیں یہاں موجود ہیں۔باب عالی اسٹریٹ تیزی سےشاخ زریں ترکی بھر میں پرنٹ میڈیا کا مرکز بن گیا۔[258] استنبول میں اب کئی طرح کے رسالے موجود ہیں۔ زیادہ تر ملک گیر اخبارات بیک وقتانقرہ،ازمیر اور استنبول سے شائع ہوتے ہیں۔[259]حریت، صباح، پوستا اور سوزجو ملک کے اعلیٰ چار اخبارات ہیں، سب کا صدر دفتر استنبول میں ہے، جس میں ہر ایک میں 275،000 سے زیادہ ہفتہ وار فروخت ہوتے ہیں۔[260] استنبول میںآرمینیائی زبان میں بھی اخبارات شائع ہوتے ہیں۔حریت 1948ء میں قائم ہونے والا ایک ترکی اخبار ہے۔ جنوری 2018ء میںترکی میں اس کی گردش کسی بھی اخبار سے زیادہ تھی جس کہ 3193،000 کے قریب تھی۔[261]

ترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن ترکی میں "عوامی نشریات "کا ذکر کرنے پر جو اولین اور واحد ادارہ ذہن میں آتا ہے وہ ٹی آر ٹی ہے جس کا قیام یکم مئی 1964 میں عمل میں آیا۔ 5 مئی 1927 کو اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا ریڈیو کا ادارہ بھی اسی تاریخ سے ٹی آر ٹی کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ بٹن دبانے یا پھر چینل گھمانے پر ہمیں ایک نئی دنیا میں لے جانے والے ریڈیو کے ساتھ 1960 کی دہائی کے آخر میں ایک نیا دوست اس کے ساتھ شامل ہوا یعنی ٹیلی ویژن۔ ترکی میں ٹیلی ویژن پہلی دفعہ 31 جنوری 1968 میں ٹی آر ٹی کے وسیلے سے متعارف ہوا۔81 سالہ ریڈیو اور 40 سالہ ٹیلی ویژن نشریات کے ساتھ ٹی آر ٹی جمہوریت کی تاریخ کا حافظہ بننے کے ساتھ ساتھ مہارت، تعمیر اور ذمہ داری کے نقۡطہ نظر سے ایک بااعتماد اخوت اور اتحاد کا نشان بن گیا۔اپنے کارکنوں کے عزم اور فداکاری کی وجہ سے ٹی آر ٹی نے ترک قوم کے دلوں مین کبھی نہ ختم ہونے والا مقام حاصل کیا ہے۔ ترکی کے نشر و اشاعت کی درس گاہ بننے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ قابل اعتماد ادارے کی حیثیت سے آج کے دور تک پہنچنے والے ٹی آر ٹی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے شعبہ نشریات ٰ٘ن کامیاب ترین پروگراموں کو بھی پروان چڑھایا۔ اس صورتِ حال میں قدرتی طور پر ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور رنگین پروگرام ترکی ٹیلی ویژن کی رونق بنا۔ٹی آر ٹی نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے شعبے میں صرف ایک نشریاتی ادارے ہونے پر ہے انحصار نہیں کیا بلکہ ایک گہری بنیادوں کے حامل تعلیمی ادارے کا کردار بھی ادا کیا ہے۔اور یہ زیر بحث کردار صرف نشریات سے وابستہ عملے کی ہیتعلیم و تربیت کے حوالے سے نہیں بلکہ فراہم کردہ خبروں اور معلومات کے ذریعے اپنے ناظرین کی تعلیم و تربیت کے نقطہ نظر سے بھی ایک ناقابلِ فراموش اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح کے با معنی اور اہم مشن کے حامل ٹی آر ٹی نے غیر جانبدار، قابلِ اعتماد خبر فراہم کرنے کے نقطہ نظر اور عوامی نشریات کے اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انمول معیار کے پروگراموں کے ذریعے دنیا کے گنے چنے نشریاتی اداروں میں جگہ حاصل کر لی ہے۔اس کامیابی کا سبب بننے والی سرگرمیوں کو ان عنوانات کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے۔

تعلیم

[ترمیم]
استنبول یونیورسٹی

استنبول یونیورسٹیترکی کی ایک مشہور و معروف یونیورسٹی ہے جو استنبول میں واقع ہے۔ اس کا مرکزی کیمپسضلع فاتح میں بایزید چوک سے ملحق ہے۔ 1453ء میں قائم یہ شہر کا سب سے قدیم کا تعلیمی ادارہ ہے۔ ابتدا میں یہ ایکاسلامی مدرسہ تھا۔انیسویں صدی میںجمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد اسے سیکولر کر دیا گیا اور قانون، طب اور سائنس کے شعبے قائم کیے گئے۔[262]استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی استنبول، ترکی میں واقع ایک بین الاقوامی تکنیکی یونیورسٹی ہے۔ یہ دنیا کی تیسری قدیم ترین ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے جو انجینئری علوم کے لیے مختص ہے۔[263][264][265] یہ دونوںعوامی جامعات شہر کی آٹھ جامعات میں سے دو ہیں۔[266] دیگر ممتاز جامعات میںمعمار سنان فائن آرٹس یونیورسٹی فنون لطیفہ کی اعلیٰ تعلیم کے لیےترکی کی ایکریاستی یونیورسٹی ہے۔یہترکی کےشہر کے ضلعبے اوغلو میں واقع ہے۔[267] یہجامعہسلطنت عثمانیہ کے مایہ ناز معمارمعمار سنان پاشا کے نام پر ہے۔ یہ 1970ء کے عشرے تک ترکی کا بنیادی ادارہ فن تھا۔[218]مرمرہ یونیورسٹی استنبول،ترکی کےضلع فاتح میں ایکعوامی جامعہ ہے۔ یہ 124 برسوں سے ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔ موجودہصدر ترکیرجب طیب ایردوان نے اسی جامعہ سے معاشیات اور انتظامی علوم کی فیکلٹی سے گریجویشن کی ڈگری لی ہے۔[268][269][270][271][f]

استنبول میں قائم بہترین جامعات حکومت کے زیر انتطام ہیں تاہم اس شہر میں متعدد ممتاز نجی ادارے بھی ہیں۔ استنبول میں پہلی جدید نجی یونیورسٹی، جو ریاستہائے متحدہ سے باہر اس کا سب سے قدیم امریکی اسکول ہےرابرٹ کالج تھا جس کے بانی ایک امریکی سماجی کارکن کرسٹوفر رابرٹ تھے۔ 1971ء میں یہبوغازچی یونیورسٹی بن گیا۔ جبکہ اس کا باقی حصہ آج بھیرابرٹ کالج کے نام سے کام کر رہا ہے۔[272][273]1982ء کے آئین سے قبل نجی جامعات کو ترکی میں باضابطہ طور پر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن 1970ء تک استنبول میں پہلے ہی پندرہ نجی "ہائی اسکول" موجود تھے، جو مؤثر طریقے سے یونیورسٹیاں تھیں۔1982ء کے بعد استنبول میں قائم پہلی نجی یونیورسٹیکوچ یونیورسٹی تھی جس کا قیام 1992ء میں عمل میں آیا اور اگلی دہائی کے میں ایک درجن جامعات بنیں۔[272]آج شہر میں کم از کم 30 نجی جامعات ہیں۔[274][275][276]

عوامی خدمات

[ترمیم]

فراہمی آب

[ترمیم]
والنس آبراہ

استنبول میں پانی کی فراہمی کا پہلا نظام شہر کی ابتدائی تاریخ سے ملتا ہے جب شہر کوآبراہوں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا مثلاًوالنس آبراہ ایک رومیآبراہ ہے جومشرقی رومی سلطنت کےدار الحکومتقسطنطنیہ (جدید استنبول، ترکی) کو پانی فراہم کرنے والا سب سے بڑا نظام تھا۔ اسےچوتھی صدی عیسوی کے آخر میںرومی شہنشاہ والنس نے مکمل کیا۔ اس کا انتظامبازنطینیوں اور بعد میںعثمانیوں نے کیا اور اسے استعمال کیا گیا۔ اب یہ شہر کے سب سے اہم مقامات میں سے ایک ہے۔ان آبراہوں سے پانی شہر کے متعدد تالابوں میں جمع کر دیا جاتا تھا۔[277]سلیمان اول کے حکم پرکرک چشمہ (Kırkçeşme) پانی کی فراہمی کے نیٹ ورک تعمیر کیا گیا۔ 1563ء تک یہ نیٹ ورک 158 مقامات کو ہر روز 4،200 مکعب میٹر (150،000 مکعب فٹ) پانی فراہم کرتا تھا۔[277]بعد کے برسوں میں عوامی طلب کے بڑھنے پر مختلف چشموں سے پانی کو عوامی سبیلوں جیسےسبیلاحمد ثالث سپلائی لائنوں کے ذریعہ شہر کو پانی فراہم کرتے تھے۔[278] آج استنبول میں ایک کلورینیٹڈ اور فلٹر پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام کو استنبول واٹر اینڈ سیوریج انتظامیہ کے زیر انتطام ہے۔[279]

بجلی

[ترمیم]

شاخ زریں کے ساتھ کوئلہ سے چلنے والابجلی گھر، صلاحترآغا پاور اسٹیشن، 1914ء اور 1952ء درمیان میں استنبول کا واحد بجلی کا ذریعہ تھا۔[280] جمہوریہ ترکی کی تشکیل کے بعد اس پلانٹ کو بہتر بنایا گیا تاکہ شہر کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ اس کی گنجائش 1923ء میں 23 میگا واٹ سے بڑھ کر 1956ء میں 120 میگا واٹ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔[280][281] صلاحیت میں کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ پاور اسٹیشن اپنی معاشی زندگی کے اختتام کو پہنچا اور 1983ء میں بند ہو گیا۔[280]سرکاری طور پر چلنے والی ترک الیکٹریکل اتھارٹی (ٹی ای کے) 1970ء سے 1984ء کے دوران میں اپنی بجلی کی پیداوار اور تقسیم پر اجارہ داری تھی۔لیکن اب اتھارٹی دو حصوں "ترکی بجلی کی پیداوار ٹرانسمیشن کمپنی" (TEAŞ) اور "ترک بجلی تقسیم کار کمپنی" (TEDAŞ) کے درمیان میں تقسیم ہو گئی ہے۔[281]

ڈاک اور مواصلات

[ترمیم]
استنبول کا مرکزی پوسٹ آفس 1909 کا ہے

عثمانی وزارت ڈاک اور ٹیلی گراف 1840ء میں قائم کیا گیا اور پہلا ڈاکخانہینی مسجد کے صحن کے قریب کھلا۔ 1876ء تک استنبول اور سلطنت عثمانیہ سے باہر کے علاقوں کے مابین پہلا بین الاقوامی ڈاک نیٹ ورک قائم ہو چکا تھا۔[282]عبد المجید اول نے 1847ء میں ٹیلی گراف کے لیے سموئیل مورس کے کوڈ استعمال کرتے ہوئے پہلا سرکاری ٹیلی گراف بھیجا۔ استنبول اورادرنہ کے مابین پہلی ٹیلی گراف لائن کی تعمیر 1856ء میں ہوئی جس پرجنگ کریمیا کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔[283]

استنبول میں 1881ء میں ٹیلی فون کا ایک نیا نظام ابھرنا شروع ہوا اور 1909ء میں استنبول میں پہلا دستی ٹیلی فون ایکسچینج چلنے کے بعد، ڈاک اور ٹیلی گراف کی "وزارت ڈاک، ٹیلی گراف اور ٹیلی فون" کی وزارت بن گئی۔[282][284] جی ایس ایم سیلولر نیٹ ورک 1994ء میں ترکی پہنچا جہاں استنبول اس کی خدمت حاصل کرنے والے پہلے شہروں میں شامل ہے۔[285] موجودہ دور میں نجی کمپنیوں کے ذریعہموبائل اور لینڈ لائن سروس مہیا کی جاتی ہے کیونکہ "ترک ٹیلی کام" 1995ء میں "وزارت ڈاک، ٹیلی گراف اور ٹیلی فون" الگ ہو گئی اور 2005ء میں اس کی نجکاری کر دی گئی۔[282][285]ڈاک سروسز اب بھی اسی دائرہ کار میں ہیں تاہم اس اس کا نام "پوسٹ اور ٹیلی گراف آرگنائزیشن" ہے۔[282]

صحت

[ترمیم]
استنبول میں ایک ہسپتال

2000ء میں استنبول میں 137 اسپتال تھے جن میں سے 100 نجی تھے۔[286] ترک شہری سرکاری سطح پر چلائے جانے والے اسپتالوں میں امدادی صحت کی دیکھ بھال کے حقدار ہیں۔[259]چونکہ سرکاری اسپتالوں میں بھیڑ ہوتی ہے یا زیادہ وقت لگتا ہے اس لیے نجی اسپتال ان لوگوں کے لیے افضل ہیں جو ان کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پچھلی دہائی کے دوران میں ان کے پھیلاؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، چونکہ 2005ء سے 2009ء کے درمیان میں نجی اسپتالوں میں علاج کروانے والے مریضوں کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گئی ہے۔[259][287] ان میں سے بہت سے نجی اسپتالوں کے ساتھ ساتھ کچھ سرکاری اسپتال ہائی ٹیک آلات سے لیس ہیں۔[288] صحت کی دیکھ بھال کے اعلیٰ معیار خاص طور پر نجی اسپتالوں میں، ترکی میںطبی سیاحت میں حالیہ اضافے میں مدد ملی ہے (2007ء اور 2008ء کے درمیان میں 40 فیصد اضافے کے ساتھ)۔[289] طبی سیاحوں میں لیزر سے آنکھوں سرجری خاص طور پر عام ہے، کیونکہ ترکی اس طریقہ کار میں مہارت کے لیے جانا جاتا ہے۔[290]

نقل و حمل

[ترمیم]

بری

[ترمیم]
یورپی روٹ ای 80

استنبول ترکی کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے۔ یہ ترکی کی شاہراہوں سے ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہے۔موٹر وےاو-1 شہر کے گرد رنگ روڈ بناتی ہے۔یورپی روٹ ای 80 ترکی کو یورپ کے دیگر ملکوں سے منسلک کرتی ہے۔[291]

سڑکیں / شاہراہیں

[ترمیم]

استنبول کی بنیادیموٹر وے (اوتویول)او-1،او-2،او-3 اوراو-4 ہیں۔او-1 شہر کی اندرونی رنگ روڈ جبکہاو-2فاتح سلطان محمد پل سے ہوتے ہوئے بیرونی رنگ روڈ بناتی ہے۔او-2 مغرب میںادرنہ سے ملتی ہے جبکہاو-4 مشرق میں شہر کوانقرہ سے ملاتی ہے۔او-2،او-3 اوراو-4یورپی روٹ ای 80 کا حصہ بھی ہیں۔[291][292]

پل

[ترمیم]

استنبول ایک بین براعظمی شہر ہے اورآبنائے باسفورس شہر کو ایشیائی اور پورپی حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ یہ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے تنگآبنائے ہے جوبحیرہ اسود کوبحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے۔ برینقل و حمل کے لیےآبنائے پر پل بنائے گئے ہیں۔ اسی طرحشاخ زریںآبنائے باسفورس کی ایک قدرتی خلیج ہے جو شہر کے یورپی حصے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک قدرتیبندرگاہ بناتی ہے۔آبنائے باسفورس کی طرحشاخ زریں پر بھی بری نقل حمل کے لیے پل موجود ہیں۔ استنبول کی بری نقل و حمل میں یہ پل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

باسفورس پل
[ترمیم]
باسفورس پل
تفصیلی مضمون کے لیےباسفورس پل ملاحظہ کریں۔

باسفورس پل استنبول،ترکی میںآبنائے باسفورس پر قائم ایک پل ہے۔ یہ شہر کے یورپی علاقےاورتاکوئے اور ایشیائی حصےبے لربئی کو ملاتا ہے اور باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔ یہ پل 1510میٹر طویل ہے جبکہ اس کی عرصے کا عرض 39 میٹر ہے۔ اس کے دونوں برجوں کے درمیان میں فاصلہ 1074 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے بلندی 105 میٹر ہے۔ یہسطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے اور1973ء میں تکمیل کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا سسپنشن پل بن گیا تاہم یہریاستہائے متحدہ امریکا سے باہر دنیا کا سب سے بڑا سسپنشن پل ہے۔

آبنائے باسفورس پر پل کی تعمیر کا فیصلہ پہلی بار1957ء میں عدنان میندریس کے دور حکومت میں کیا گیا۔ اس کے نقشے کے لیےبرطانیہ کے ادارے فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز کے ساتھ1968ء میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ پل کا نقشہ معروف برطانوی ماہر تعمیرات سر گلبرٹ رابرٹس نے تیار کیا۔ تعمیر کا آغازفروری1970ء میں ہوا جس میں اُس وقت کے صدر جودت سونے اور وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل نے بھی شرکت کی۔ تعمیراتی کام ترک ادارے انکا انسات و صناعی نے انجام دیا۔ اس کام میں برطانیہ اورجرمنی کے دو ادارے میں شامل تھے۔ منصوبے پر 35 مہندسین اور 400 افراد نے کام کیا۔پل کی تعمیر جمہوریہ ترکی کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے صرف ایک روز بعد30 اکتوبر1973ء کو مکمل ہوئی۔ اس کا افتتاح صدر فہری کوروترک اور وزیر اعظم نعیم تولو نے کیا۔ باسفورس پل کی تعمیر پر 200 ملینامریکی ڈالر کی لاگت آئی۔

فاتح سلطان محمد پل
[ترمیم]
فاتح سلطان محمد پل
تفصیلی مضمون کے لیےفاتح سلطان محمد پل ملاحظہ کریں۔

فاتح سلطان محمد پل استنبول،ترکی میںآبنائے باسفورس پر واقع ایک پل ہے۔ یہ پلپندرہویں صدی کے عثمانی سلطانمحمد ثانی المعروفمحمد فاتح سے موسوم ہے جنھوں نے1453ء میںاستنبول فتح کیا تھا۔یہ پل استنبول کے یورپی علاقے حصارشتو اور ایشیائی علاقے کاواجک کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ پل 1510میٹر طویل ہے اور اس کے عرشے کا عرض 39 میٹر ہے۔ برجوں کے درمیان میں فاصلہ 1090 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے اس کی بلندی 105 میٹر ہے۔ یہ پل سطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے۔ فاتح پل کو1988ء میں اپنی تکمیل کے بعد دنیا کے چھٹے طویل ترین سسپنشن پل کا اعزاز ملا۔

تینجاپانی، ایکاطالوی اور ایک ترک ادارے کے مشترکہ بین الاقوامی منصوبے سے اس پل کی تعمیرات کا کام انجام دیا۔ اس کا نقشہ فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز نے بنایا۔ پل3 جولائی1988ء کو مکمل ہوا اور اس کا افتتاح اس وقت کے ترک وزیر اعظم ترغت اوزال نے کیا جو اپنی گاڑی کے ذریعے اس پل کو پار کرنے والے پہلے شخص بھی تھے۔ پل پر 130 ملینامریکی ڈالر کی لآگت آئی۔

یاووز سلطان سلیم پل
[ترمیم]
یاووز سلطان سلیم پل
تفصیلی مضمون کے لیےیاووز سلطان سلیم پل ملاحظہ کریں۔

یاووز سلطان سلیم پلآبنائےباسفورس پرریل اورگاڑیوں کی نقل و حمل کے لیے استنبول،ترکی میں ایک پل ہے جو پہلے سے موجود دو پلوں کے شمال میں واقع ہے۔ ابتدا میں اس کا نامتیسرا باسفورس پل تھا، پہلا پلباسفورس پل اور دوسرافاتح سلطان محمد پل تھا تاہم بعد میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ یہآبنائے باسفورس کےبحیرہ اسود میں داخلے کے قریب ہے۔ یورپی طرف یہسارییر میںغریبچے اور ایشیائی طرف میں یہبیکوز میںپویرازکوئے کے مقام پر ہے۔[293]

یوریشیا سرنگ
[ترمیم]
یوریشیا سرنگ
تفصیلی مضمون کے لیےیوریشیا سرنگ ملاحظہ کریں۔

یوریشیا سرنگ استنبول،ترکی میں ایک زمین دوز سرنگ ہے جوآبنائے باسفورس کے نیچے بنائی گئی ہے۔ سرنگ کا باضابطہ افتتاح20 دسمبر2016ء کو ہوا[294][295][296] اور22 دسمبر2016ء کو اسے ٹریفک کے لیے کھولا گیا۔5.4 کلومیٹر (3.4 ملی میٹر) دو منزلہ سرنگ استنبول کے یورپی حصےقوم قاپی کو ایشیائی حصےقاضی کوئے سے جوڑتی ہے[297] کل راستہ 14.6 کلومیٹر (9.1 میل) ہے جس میں سرنگ تک جانے والی سڑکیں بھی شامل ہیں۔[298] یہ سمندری فرش کے نیچے باسفورس کو 106 میٹر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی میں پار کرتا ہے۔[299][300][301] دونوں براعظموں کے مابین سفر میں 5 منٹ لگتے ہیں۔[296][298][300][302]

غلطہ پل
[ترمیم]
غلطہ پل
تفصیلی مضمون کے لیےغلطہ پل ملاحظہ کریں۔

غلطہ پلشاخ زریں، استنبول،ترکی میں واقع ایک پُل ہے۔ جو زمانۂ قدیم سے مختلف صورتوں میں اس کھاڑی پر مختلف صورتوں میں موجود رہا ہے اور آج جو پل اس مقام پر قائم ہے وہ پانچواں پل ہے۔ غلطہ پل خصوصاًانیسویں صدی کے اواخر سے ترک ادب، تھیٹر،شاعری اور ناولوں کا حصہ بنتا رہا ہے۔ شاخ زریں پر قائم قدیم ترین پل کے شواہد چھٹی صدی عیسوی میں ملتے ہیں جب جسٹینین اعظم نے شہر کے مغربی کنارے پر تھیوڈیسیائی دیواروں کے قریب ایک پل تعمیر کیا تھا۔1453ء میںفتح قسطنطنیہ کے موقع پر ترکوں نے کشتیوں سے ایک متحرک پل قائم کیا تاکہ افواج کو شاخ زریں کے دوسرے کنارے پر پہنچایا جا سکے۔

سلطانبایزید ثانی کے عہد میں1502ء میں موجودہ مقام پر ایک پل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور اس امر کے لیے معروف اطالوی مصورلیونارڈو ڈا ونچی نے 240میٹر طویل اور 24 میٹر عریض پل کا نقشہ پیش کیا۔ جو تعمیر کی صورت میں اپنے وقت کا دنیا کا سب سے طویل پل ہوتا۔ اور ایک اطالوی مصورمائیکل اینجلو کو بھی پل کی تعمیر کے لیے نقشہ بنانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرادی اور اس طرحانیسویں صدی تک شاخ زریں پر پل کی تعمیر کا خیال شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

اتاترک پل
[ترمیم]
اتاترک پل
تفصیلی مضمون کے لیےاتاترک پل ملاحظہ کریں۔

اتاترک پل جسےآنکاپانی پل بھی کہا جاتا ہے استنبول،ترکی میںشاخ زریں پر ایک ہائی وے پل ہے۔ یہجمہوریہ ترکی کے بانی اور پہلے صدرمصطفٰی کمال اتاترک کے نام پر ہے۔

شاخ زریں میٹرو پل
[ترمیم]
شاخ زریں میٹرو پل
تفصیلی مضمون کے لیےشاخ زریں میٹرو پل ملاحظہ کریں۔

شاخ زریں میٹرو پل استنبول،ترکی میںاستنبول میٹرو کی ایم2 لائن کے لیےشاخ زریں پر ایک پل ہے۔ یہ استنبول کے یورپی حصے میں اضلاعبے اوغلو اورفاتح کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہغلطہ پل اوراتاترک پل کے درمیان میںاتاترک پل سے تقریباْ 200 میٹر (660 فٹ) مشرق میں واقع ہے۔[300][303][304] یہشاخ زریں پر چوتھا پل ہے۔[304][305] اس کا افتتاح15 فروری2014ء کو ہوا۔[298]

خلیج پل
[ترمیم]
خلیج پل
تفصیلی مضمون کے لیےخلیج پل ملاحظہ کریں۔

خلیج پلشاخ زریں (ترکی زبان:Haliç خلیج) پر استنبول،ترکی میں ہائی وے پل ہے۔ یہ جنوب مغرب میںایوان سرائے کو شمال مغرب میںہاسکوئے سے ملاتا ہے۔ یہ 1971ء اور 1974ء کے درمیان میں تعمیر کیا گیا۔پل کی لمبائی 995 میٹر (3،264 فٹ)، چوڑائی 32 میٹر (105 فٹ)اورسطح سمندر سے بلندی 22 میٹر (72 فٹ) ہے۔

بحری

[ترمیم]

استنبول میں بحری کے کیے دو بندرگاہیں موجود ہیں۔حیدر پاشا بندرگاہ ایک عمومی کارگوبندرگاہ ہے جوحیدر پاشا، استنبول،ترکی میں واقع ہے جبکہ دوسریاستنبول بندرگاہ استنبول،ترکی کے ضلعبے اوغلو کے محلےقرہ کوئے میں واقع یک مسافر بندرگاہ ہے۔

فیری بوٹ

[ترمیم]
آبنائے باسفورس پر ایک فیری بوٹ

فیری بوٹس کی 15 لائنیں استنبول میں خدمت فراہم کر رہی ہیں جوآبنائے باسفورس اوربحیرہ مرمرہ کی 27 بندرگاہوں پر خدمات فراہم کرتی ہیں۔

بحری بس

[ترمیم]

16 اپریل 1987ء کو بلدیہ استنبول نے تیز رفتار سمندری نقل و حمل کی فراہمی کے لیے ایک کمپنی قائم کی۔ پہلی دس بحری بسیںناروے سے خریدی گئیں جس سے استنبول کی سمندری نقل و حمل کو جدید بنا دیا گیا۔ آج کمپنی آئی ڈی او کے 29 ٹرمینلز میں 28 بحری بسوں کا بیڑا خدمات انجام دے رہا ہے، جس میں چھ تیز کار فیری بھی شامل ہیں۔

فضائی

[ترمیم]

استنبول ساری دنیا کے سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام ہے اور زیادہ تر سیاح فضائی راستے سے استنبول آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامان اور تجارت کے لیے بھی فضائی راستہ مقبول ہے خاص طور پر جب وقتی طور پر شہر ریل کے نظام سے منسلک نہیں۔

استنبول ہوائی اڈا

[ترمیم]
استنبول ہوائی اڈا
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔

استنبول ہوائی اڈا[306] استنبول،ترکی کا بنیادیبین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ ضلعارناوتکوئے شہر کےیورپی حصے میں واقع ہے۔ تمام شیڈول تجارتی مسافر پروازیں 6 اپریل، 2019ء کواستنبول اتاترک ہوائی اڈا سے استنبول ہوائی اڈے پر منتقل کردی گئیں۔[307]

استنبول اتاترک ہوائی اڈا

[ترمیم]
اتاترک ہوائی اڈا
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول اتاترک ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔

استنبول اتاترک ہوائی اڈا استنبول،ترکی کا اہمبین الاقوامیہوائی اڈا ہے۔ یہترکی کا سب سے بڑا ہوائی اڈا اورترکش ایئر لائنز کا صدر دفتر بھی ہے۔

استنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا

[ترمیم]
صبیحہ گوکچن ہوائی اڈا
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔

استنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈاترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے دوبین الاقوامی ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر کے وسط سے 32 کلومیٹر (20 میل) جنوب مشرق میں واقع ہے۔صبیحہ گوکچنترکی کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہوا باز تھیں جنھوں نے کسیجنگ میں حصہ لیا۔ وہ ترکی کے پہلے صدرمصطفٰی کمال اتاترک کے گود لیے گئے آٹھ بچوں میں سے ایک تھیں۔

استنبول ہزارفن ایئرفیلڈ

[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول ہزارفن ایئرفیلڈ ملاحظہ کریں۔

استنبول ہزارفن ایئرفیلڈ استنبول،ترکی کے ضلعچاتالجا میں ایک نجی ملکیت کاہوائی اڈا ہے۔

استنبول سماندرا فوجی ایئر بیس

[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول سماندرا فوجی ایئر بیس ملاحظہ کریں۔

استنبول سماندرا فوجی ایئر بیس استنبول،ترکی کے ضلعکارتال میں ایک فوجیہوائی اڈا ہے۔

ریل

[ترمیم]
حیدر پاشا ریلوے اسٹیشن

سلطنت عثمانیہ کے دور سے ہی ترکی میں ریل کا اعلیٰ نظام موجود تھا۔بغداد ریلوےبرلن کو اس وقت کےسلطنت عثمانیہ کے شہربغداد سے مربوط کرنے کے لیے 1903ء سے 1940ء کے درمیان میں تعمیر کی گئی۔ اس کے راستےجرمنخلیج فارس میں ایکبندرگاہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ جدید دور کے ممالکترکی،سوریہ اورعراق سے گزرتی تھی اور اس کی لمبائی 1،600 کلومیٹر (1000 میل) تھی۔حیدر پاشا ریلوے اسٹیشن استنبول میں ایکریلوے اسٹیشن ہے۔ یہبغداد ریلوے اورحجاز ریلوے کا ایک اسٹیشن تھا۔حجاز ریلوےدمشق سےمدینہ تک جاتی تھی۔ اصل منصوبہ میں لائن کومکہ تک جانا تھا لیکنپہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے کی وجہ سے یہمدینہ منورہ سے آگے نہ جا سکی۔ یہ عثمانی ریلوے نیٹ ورک کا ایک حصہ تھی جس کا مقصد استنبول سےدمشق کی لائن کو آگے تک پھیلانا تھا۔ منصوبہ کا مقصدسلطنت عثمانیہ سے حجاج کرام کو سفری سہولت فراہم کرنا تھا۔ تاہمبغداد ریلوے اورحجاز ریلوے دونوں اب غیر فعال ہیں۔[308][309][310] استنبول سے بین الاقوامی ریل سروس کا آغاز 1889ء میں ہوا جببخارسٹ اور استنبول کےسیرکیجی ریلوے اسٹیشن مابین ایک ریلوے لائن بچھائی گئی۔جو بالآخرپیرس سےاورینٹ ایکسپریس کا مشرقی ٹرمنس کے نام سے مشہور ہوا۔[85] نئے اسٹیشنوں نے دونوںحیدر پاشا ریلوے اسٹیشن اورسیرکیجی ریلوے اسٹیشن کی جگہ لی ہے اور شہر کے غیر مربعط ریلوے نیٹ ورک کو ملایا ہے امید کی جارہی ہےمرمرائی منصوبے کی تکمیل کے بعد ریلوے خدمات بحال ہوں گی تاہم ابھی استنبول بین شہر ریل سروس کے بغیر ہے۔[311]

ترک ریاستی ریلوے

[ترمیم]
ترک ریاستی ریلوے
تفصیلی مضمون کے لیےترک ریاستی ریلوے ملاحظہ کریں۔

ترک ریاستی ریلوے مخففٹی سی ڈی ڈی حکومتی ملکیت کی قومی ریلوے کمپنی ہے جو ترکی میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کی ملکیت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ نئی لائنوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی بھی ذمہ دار ہے۔ ترکی میں ریلوے کو قومیائے کے عمل کے طور پر 4 جون 1929ء کو ٹی سی ڈی ڈی تشکیل دی گئی۔[312] ترکی کی ریاستی ریلوے ترکی میں تمام عوامی ریلوے کی مالک اور ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس میں ریلوے اسٹیشن، بندرگاہیں، پل اور سرنگیں، یارڈ اور دیکھ بحال کی سہولیات شامل ہیں۔ 2016ء میںء ٹی سی ڈی ڈی کے زیر انتظام 12،532 کلومیٹر (7،787 میل) ریلوے کا ایک فعال نیٹ ورک تھا جو اسے دنیا کا بائیسواں سب سے بڑا ریلوے نظام بناتا ہے۔انقرہ اور ترکی کے دیگر مقامات کو خدمت عام طور پرترک ریاستی ریلوے کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے لیکنمرمرائی اور انقرہ-استنبول تیز رفتار لائن کی تعمیر نے اس اسٹیشن کو 2012ء میں بند کرنے پر مجبور کر دیا۔[311]

مرمرائی

[ترمیم]
مرمرائی
تفصیلی مضمون کے لیےمرمرائی ملاحظہ کریں۔

مرمرائی استنبول،ترکی میں 76.6 کلومیٹر (47.6 میل) لمبی بین براعظمیمسافر ریل ہے۔

استنبول میٹرو

[ترمیم]
استنبول میٹرو
تفصیلی مضمون کے لیےاستنبول میٹرو ملاحظہ کریں۔

استنبول میٹرو استنبول،ترکی میںعاجلانہ نقل و حمل ایک ریلوے نیٹ ورک ہے۔ یہمیٹرو استنبول کے زیر انتظام ہے۔میٹرو کا سب سے قدیم سیکشن ایم ون لائن ہے جو 1989 میں کھولی تھی، اب اس میں 89 اسٹیشن شامل ہیں اور 64 مزید زیر تعمیر ہیں۔[313][314]

لائنروٹافتتاحلمبائیاسٹیشننوٹس[315]
ینی قاپی ↔ اتاترک ایرپورٹ / کیرازلی1989[316]26.1 کلومیٹر[316]23[316]0.7 کلومیٹر ینی قاپی کو توسیع افتتاح 9 نومبر 2014.[317] اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات
ینی قاپی ↔ حاجی عثمان2000[318]23.5 کلومیٹر[318]16[318]جنوبی توسیع (3.5 کلومیٹر ینی قاپی تک بڑھاو، مع 3 اسٹیشن) تکمیل فروری 2014. اوقات 06:15 صبح تا 00.00 آدھی رات
کیرازلی ↔ میٹروکینٹ–اولیمپیات2013[319]15.9 کلومیٹر[319]11[319]ایک جنوبی توسیع (9.0 کلومیٹر باقر کوئے کو، مع 7 اسٹیشن) زیر تعمیر۔ اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات
قاضی کوئے ↔ تاوشان تپہ2012[320]26.5 کلومیٹر[320]19[320]ایک توسیع 7.4 کلومیٹراستنبول صبیحہ گوکچن بین الاقوامی ہوائی اڈا کو مع 4 مزید اسٹیشن زیر تعمیر ہیں۔ اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات
اسکودار ↔ چکمہ کوئے2017[321]20 کلومیٹر[321]16[321]افتتاح 15 دسمبر 2017. اوقات 06:00 صبح تا 00.00 آدھی رات وقت از اسکودار تا چکمہ کوئے 27 منٹ ہے۔
لیوینٹ↔ بوغازچی یونیورسٹی/حصار اوستو2015[322]3.3 کلومیٹر[322]4[322]منی میٹرو دراصل ایکہلکی میٹرو لائن ہے۔
کل:115.3 کلومیٹر[313]89[313]

ٹرام

[ترمیم]
استنبول یاد ماضی ٹراموے
جدیداستنبول ٹرام

استنبول یاد ماضی ٹراموے استنبول،ترکی میں دو ثقافتی ورثہ ٹرام کے راستے ہیں، اس کا بنیادی مقصد شہر کے قدیم ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنا ہے۔ جدیداستنبول ٹرام استنبول کے یورپی حصے ٹرام کا ایک جدید نظام ہے۔ پہلا سیکشن "ٹی 1" 1992ء میں کھولا گیا اس کے بعد "ٹی 2" کا افتتاح 2006ء میں ہوا۔ "ٹی 4" 2007ء میں کھولا گیا۔[323][324]

بس نظام

[ترمیم]
میٹروبس (استنبول)

بس کے بیڑے میں کل 4،012 مختلف انوع کی بسیں موجود ہیں۔[325][326] 2012ء میں روزانہ سواریوں کی تعداد 3،621،908 تھی، جو شہر کی کل یومیہ نقل و حمل کا 30% کی نمائندگی کرتی ہے۔[327][328]

میٹروبس

[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیےمیٹروبس (استنبول) ملاحظہ کریں۔

میٹروبس استنبول،ترکی میں 50 کلومیٹر (31.1 میل) کابس ریپڈ ٹرانزٹ راستہ ہے جس کے 45 اسٹیشن ہیں۔اوجیلار کواستنبول یونیورسٹی سے ملانے والے پہلے حصے کی تعمیر کا آغاز 2005ء میں ہوا۔ بس وے کا افتتاح17 ستمبر2007ء کو ہوا۔

ٹریفک سے فضائی آلودگی

[ترمیم]

ترکی میںفضائی آلودگی استنبول میں کاروں، بسوں اور ٹیکسیوں کی وجہ سے شدید ہے جس کی وجہ سے اکثر شہر کواسموگ[329] کا سامنا ہوتا ہے، یہ کم اخراج زون والے یورپی شہروں میں سے ایک ہے۔2019ء میں شہر کی فضائی کوالٹی ایک سطح پر رہی ہے اور ٹریفک کے اوقات کے دوران میں صحت مند لوگوں کے دل اور پھیپھڑوں کو متاثر کیا۔[330]

جڑواں شہر

[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیےترکی کے جڑواں شہروں کی فہرست ملاحظہ کریں۔

استنبول[331] کے جڑواں شہر مندرجہ ذیل ہیں۔

مشاہیر

[ترمیم]
رجب طیب ایردوان

بیرونی روابط

[ترمیم]
Istanbul کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کےساتھی منصوبے:
لغت و مخزن ویکی لغت سے
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "YETKİ ALANI"۔ Istanbul Buyuksehir Belediyesi۔ 2020-04-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-04
  2. İstanbul Province = 5,460.85 km²
    Land area = 5,343.22 km²
    Lake/Dam = 117.63 km²
    Europe (25 districts) = 3,474.35 km²
    Asia (14 districts) = 1,868.87 km²
    Urban (36 districts) = 2,576.85 کلومیٹر² [Metro (39 اضلاع) – (Çatalca+Silivri+Şile)]
  3. ^ابپ"The Results of Address Based Population Registration System (2019)"۔Turkish Statistical Institute۔ 31 دسمبر 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-04
  4. "Gross Domestic Product by Provinces 2018"۔Turkstat.gov.tr۔ 2019-12-20 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-09
  5. "Turkey (GDP-Nominal)"۔Turkstat.gov.tr۔ 2020-10-02 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-09
  6. According to the Turkstat.gov.tr:
    -> US$ / TL = 4.72 (2018)
    -> Turkey = 3,724.388 billion TL (GDP Nominal)
    -> İstanbul = 1,155.254 billion TL (GDP Nominal)
    -> İstanbul = 76,769 TL (GDP Nominal per capita)
  7. "Sub-national HDI – Area Database – Global Data Lab"۔hdi.globaldatalab.org
  8. John C. Wells (2008)۔Longman Pronunciation Dictionary (3rd ایڈیشن)۔ Longman۔ISBN:978-1-4058-8118-0
  9. Clive Upton؛ William A. Kretzschmar, Jr. (2017)۔The Routledge Dictionary of Pronunciation for Current English (2nd ایڈیشن)۔ Routledge۔ ص 704۔ISBN:978-1-138-12566-7
  10. ^ابپWCTR Society; Unʼyu Seisaku Kenkyū Kikō 2004، صفحہ 281
  11. Isaac 1986، صفحہ 218
  12. Cyril Mango (1991)۔ "Constantinople"۔ درAlexander Kazhdan (مدیر)۔آکسفورڈ ڈکشنری آف بازنطیوم۔ Oxford and New York: Oxford University Press۔ ص 508–512۔ISBN:0-19-504652-8
  13. ^ابMasters اور Ágoston 2009، صفحہ 114–15
  14. Dumper اور Stanley 2007، صفحہ 320
  15. ^ابTuran 2010، صفحہ 224
  16. ^ابپ"Population and Demographic Structure"۔Istanbul 2010: European Capital of Culture۔ Istanbul Metropolitan Municipality۔ 2008۔ 2011-07-23 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-27
  17. ^اب"London Retains Crown in 2015 MasterCard Global Destinations Cities Index"۔MasterCard Social Newsroom۔ 2020-06-12 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-10
  18. "The World According to GaWC 2010"۔Globalization and World Cities (GaWC) Study Group and Network۔ Loughborough University۔ 2011-09-24 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-05-08
  19. ^ابپتٹثOECD Territorial Reviews: Istanbul, Turkey۔ The Organisation for Economic Co-operation and Development۔ مارچ 2008۔ISBN:978-92-64-04383-1{{حوالہ کتاب}}:|کاوش= تُجوهل (معاونت)
  20. "IOC selects three cities as Candidates for the 2020 Olympic Games"۔ The International Olympic Committee۔ 24 مئی 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-18
  21. ^ابپRoom 2006، صفحہ 177
  22. Georgacas 1947، صفحہ 352ff.
  23. Gregory 2010، صفحہ 62–63
  24. Room 2006، صفحہ 177–78
  25. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 7
  26. Necipoğlu 2010، صفحہ 262
  27. ^ابMasters اور Ágoston 2009، صفحہ 286
  28. Masters اور Ágoston 2009، صفحہ 226–27
  29. Necdet Sakaoğlu (1993/94a): "İstanbul'un adları" ["The names of Istanbul"]۔ In:Dünden bugüne İstanbul ansiklopedisi, ed. Türkiye Kültür Bakanlığı، Istanbul.
  30. "Online Etymology Dictionary"۔ اخذ شدہ بتاریخ2015-06-26
  31. Necdet Sakaoğlu (1993/94a): "İstanbul'un adları" ["The names of Istanbul"]۔ In: 'Dünden bugüne İstanbul ansiklopedisi', ed. Türkiye Kültür Bakanlığı، Istanbul.
  32. Finkel 2005، صفحہ 57, 383
  33. Göksel اور Kerslake 2005، صفحہ 27
  34. Keyder 1999، صفحہ 95
  35. Sarah Rainsford (10 جنوری 2009)۔"Istanbul's ancient past unearthed"۔ BBC۔ اخذ شدہ بتاریخ2010-04-21
  36. O. Algan؛ M.N.K. Yalçın؛ M. Özdoğan؛ Y.C. Yılmaz؛ E. Sarı؛ E. Kırcı-Elmas؛ İ۔ Yılmaz؛ Ö۔ Bulkan؛ D. Ongan؛ C. Gazioğlu؛ A. Nazik؛ M.A. Polat؛ E. Meriç (2011)۔ "Holocene coastal change in the ancient harbor of Yenikapı–İstanbul and its impact on cultural history"۔Quaternary Research۔ ج 76 شمارہ 1: 30۔Bibcode:2011QuRes.۔76.۔۔30A۔DOI:10.1016/j.yqres.2011.04.002۔ISSN:0033-5894{{حوالہ رسالہ}}:تأكد من صحة قيمة|bibcode= طول (معاونت)
  37. BBC: "Istanbul's ancient past unearthed" Published on 10 جنوری 2007. اخذکردہ بتاریخ on 3 مارچ 2010.
  38. "Bu keşif tarihi değiştirir"۔hurriyet.com.tr
  39. "Marmaray kazılarında tarih gün ışığına çıktı"۔fotogaleri.hurriyet.com.tr۔ 2015-11-18 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-04-14
  40. "Cultural Details of Istanbul"۔ Republic of Turkey, Minister of Culture and Tourism۔ 2007-09-12 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-10-02
  41. Raymond Janin (1964)۔Constantinople byzantine۔ Paris: Institut Français d'Études Byzantines۔ ص 10ff
  42. "Pliny the Elder, book IV, chapter XI:
    "On leaving the Dardanelles we come to the Bay of Casthenes, … and the promontory of the Golden Horn, on which is the town of Byzantium, a free state, formerly called Lygos; it is 711 miles from Durazzo,۔۔۔""
    ۔ 2017-01-01 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2015-06-21
  43. Bloom اور Blair 2009، صفحہ 1
  44. HerodotusHistories 4.144, translated inDe Sélincourt 2003، صفحہ 288
  45. Çelik 1993، صفحہ 11
  46. Freely 1996، صفحہ 20
  47. De Souza 2003، صفحہ 88
  48. Freely 1996، صفحہ 20
  49. Freely 1996، صفحہ 22
  50. Grant 1996، صفحہ 8–10
  51. Limberis 1994، صفحہ 11–12
  52. BBC: "Istanbul's ancient past unearthed" Published on 10 جنوری 2007. اخذکردہ بتاریخ on 3 مارچ 2010.
  53. Hürriyet: Bu keşif tarihi değiştirir (2 اکتوبر 2008)
  54. "Hürriyet: Photos from the Neolithic site, circa 6500 BC"۔ 2015-11-18 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-04-14
  55. "Cultural Details of Istanbul"۔ Republic of Turkey, Minister of Culture and Tourism۔ اخذ شدہ بتاریخ2007-10-02
  56. Barnes 1981، صفحہ 77
  57. Barnes 1981، صفحہ 212
  58. ^ابBarnes 1981، صفحہ 222
  59. ^ابپGregory 2010، صفحہ 63
  60. ^ابKlimczuk اور Warner 2009، صفحہ 171
  61. Mike Dash (2 مارچ 2012)۔"Blue Versus Green: Rocking the Byzantine Empire"۔Smithsonian Magazine۔ The Smithsonian Institution۔ 2012-08-05 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-30
  62. Dahmus 1995، صفحہ 117
  63. Cantor 1994، صفحہ 226
  64. Morris 2010، صفحہ 109–18
  65. Gregory 2010، صفحہ 324–29
  66. Gregory 2010، صفحہ 330–33
  67. Gregory 2010، صفحہ 340
  68. Gregory 2010، صفحہ 341–42
  69. Reinert 2002، صفحہ 258–60
  70. Baynes 1949، صفحہ 47
  71. Gregory 2010، صفحہ 394–99
  72. Béhar 1999، صفحہ 38;Bideleux اور Jeffries 1998، صفحہ 71۔
  73. Edhem, Eldem. "Istanbul." In: Ágoston, Gábor and Bruce Alan Masters.Encyclopedia of the Ottoman Empire۔Infobase Publishing، 21 مئی 2010.ISBN 1438110251، 9781438110257. Start and CITED: p.286۔ "Originally, the nameIstanbul referred only to[…]in the 18th century." and "For the duration of Ottoman rule, western sources continued to refer to the city as Constantinople, reserving the nameStamboul for the walled city." and "Today the use of the name[…]is often deemed politically incorrect[…]by most Turks." // (entry ends, with author named, on p.290)
  74. Inalcik, Halil. "The Policy of Mehmed II toward the Greek Population of Istanbul and the Byzantine Buildings of the City." Dumbarton Oaks Papers 23, (1969): 229–49. p. 236
  75. Müller-Wiener, Wolfgang (1977)۔ Bildlexikon zur Topographie Istanbuls: Byzantion, Konstantinupolis, Istanbul bis zum Beginn d. 17 Jh (in German)۔ Tübingen: Wasmuth.ISBN 978-3-8030-1022-3۔
  76. Müller-Wiener (1977)، p. 28
  77. Holt, Lambton اور Lewis 1977، صفحہ 306–07
  78. Joseph Patrick Byrne,Encyclopedia of the Black Death, Volume 1, p. 87
  79. ^ابHolt, Lambton اور Lewis 1977، صفحہ 307
  80. Tarasov اور Milner-Gulland 2004، صفحہ 121;El-Cheikh 2004، صفحہ 22۔
  81. Holt, Lambton اور Lewis 1977، صفحہ 735–36
  82. ^ابTertius Chandler؛ Gerald Fox (1974)۔3000 Years of Urban Growth۔ London: Academic Press۔ISBN:978-0-12-785109-9{{حوالہ کتاب}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
  83. Shaw اور Shaw 1977، صفحہ 4–6, 55
  84. Çelik 1993، صفحہ 87–89
  85. ^ابHarter 2005، صفحہ 251
  86. Shaw اور Shaw 1977، صفحہ 230, 287, 306
  87. "Meclis-i Mebusan (Mebuslar Meclisi)"۔ Tarihi Olaylar۔ 2021-02-25 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-04-19
  88. Çelik 1993، صفحہ 31
  89. Jeri Freedman (2009)۔The Armenian genocide (1st ایڈیشن)۔ New York: Rosen Pub. Group۔ ص 21–22۔ISBN:978-1-4042-1825-3
  90. Globalization, Cosmopolitanism, and the Dönme in Ottoman Salonica and Turkish Istanbul۔ Marc Baer, University of California, Irvine.
  91. ^اب"6 Ekim İstanbul'un Kurtuluşu"۔Sözcü۔ 6 اکتوبر 2017
  92. Landau 1984، صفحہ 50
  93. Dumper اور Stanley 2007، صفحہ 39
  94. Philip Mansel۔Constantinople: City of the World's Desire, 1453–1924 (2011)
  95. Keyder 1999، صفحہ 11–12, 34–36
  96. Efe اور Cürebal 2011، صفحہ 718–19
  97. "Districts"۔ Istanbul Metropolitan Municipality۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-21
  98. ^اب"History of Local Governance in Istanbul"۔ Istanbul Metropolitan Municipality۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-21
  99. "İstanbul İl ve İlçe Alan Bilgileri" [Istanbul Province and District Area Information] (بزبان ترکی). Istanbul Metropolitan Municipality. Retrieved2010-06-20.
  100. "Jurisdiction"۔ Istanbul Metropolitan Municipality۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-21
  101. "Istanbul from a Bird's Eye View"۔ Governorship of Istanbul۔ 2009-05-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2010-06-13
  102. ^اب"The Topography of İstanbul"۔ Republic of Turkey Ministry of Culture and Tourism۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-19
  103. Andrew C. Revkin (24 فروری 2010)۔"Disaster Awaits Cities in Earthquake Zones"۔The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ2010-06-13
  104. Tom Parsons؛ Shinji Toda؛ Ross S. Stein؛ Aykut Barka؛ James H. Dieterich (2000)۔"Heightened Odds of Large Earthquakes Near Istanbul: An Interaction-Based Probability Calculation"۔Science۔ Washington, DC۔ ج 288 شمارہ 5466: 661–65۔Bibcode:2000Sci.۔۔288.۔661P۔DOI:10.1126/science.288.5466.661۔PMID:10784447{{حوالہ رسالہ}}:تأكد من صحة قيمة|bibcode= طول (معاونت) وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
  105. Ian Traynor (9 دسمبر 2006)۔"A Disaster Waiting to Happen – Why a Huge Earthquake Near Istanbul Seems Inevitable"۔The Guardian۔ UK۔ اخذ شدہ بتاریخ2010-06-13
  106. Markus Kottek؛ Jürgen Grieser؛ Christoph Beck؛ Bruno Rudolf؛ Franz Rube (جون 2006)۔"World Map of the Köppen-Geiger climate classification updated"(PDF)۔Meteorologische Zeitschrift۔ ج 15 شمارہ 3: 259–63۔Bibcode:2006MetZe.۔15.۔259K۔DOI:10.1127/0941-2948/2006/0130۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-03-29{{حوالہ رسالہ}}:تأكد من صحة قيمة|bibcode= طول (معاونت)
  107. M.C. Peel؛ B. L. Finlayson؛ T. A. McMahon (2007)۔"Updated world map of the Köppen-Geiger climate classification"(PDF)۔Hydrology and Earth System Sciences۔ ج 4 شمارہ 2: 439–73۔DOI:10.5194/hessd-4-439-2007{{حوالہ رسالہ}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر نشان زد مفت ڈی او آئی (link)
  108. "Total Participation Data: اگست" (بزبان ترکی). Turkish State Meteorological Service. Archived fromthe original on 2012-05-16. Retrieved2012-07-06.
  109. ^ابEfe اور Cürebal 2011، صفحہ 716–17
  110. "Comparisons of Annual Meanprecipations of Annual Meanprecipitation Gridded and Station Data: An Example from Istanbul, Turkey Yıllık Ortalama Gridlenmiş Yağış Verisi ve İstasyon Yağış Verisinin Karşılaştırılması، İstanbul Örneği – USTAOĞLU – Marmara Coğrafya Dergisi"۔marmara.edu.tr۔ 2016-03-04 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2016-02-12
  111. belgrat۔"Hüsnuü Yazici Yasdiği Konular"۔blogspot.com.tr۔ اخذ شدہ بتاریخ2016-02-12
  112. ^اب"Weather – Istanbul"۔World Weather۔ BBC Weather Centre۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-10-15
  113. "Istanbul Enshrouded in Dense Fog"۔Turkish Daily News۔ 14 جنوری 2005۔ 2017-10-18 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-10-15
  114. "Thick Fog Causes Disruption, Flight Delays in İstanbul"۔Today's Zaman۔ 23 نومبر 2009۔ 2013-11-04 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-10-15
  115. "Dense Fog Disrupts Life in Istanbul"۔Today's Zaman۔ 6 نومبر 2010۔ 2013-11-04 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-10-15
  116. ^ابAttila Pelit۔"When to Go to Istanbul"۔TimeOut Istanbul۔ 2011-12-14 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-19
  117. ^ابپ"Resmi İstatistikler (İl ve İlçelerimize Ait İstatistiki Veriler)" [Official Statistics (Statistical Data of Provinces and Districts) – Istanbul] (بزبان ترکی). Turkish State Meteorological Service. Retrieved2015-08-10.
  118. Quantic 2008، صفحہ 155
  119. Tayfin Kindap (19 جنوری 2010)۔ "A Severe Sea-Effect Snow Episode Over the City of Istanbul"۔Natural Hazards۔ ج 54 شمارہ 3: 703–23۔DOI:10.1007/s11069-009-9496-7۔ISSN:1573-0840{{حوالہ رسالہ}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
  120. "Istanbul Winds Battle Over the City"۔Turkish Daily News۔ 17 اکتوبر 2009۔ 2017-10-18 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-10-15
  121. "Yıllık Toplam Yağış Verileri" [Annual Total Participation Data: Istanbul, Turkey] (بزبان ترکی). Turkish State Meteorological Service. Retrieved2012-07-06.
  122. "İstanbul Bölge Müdürlüğü'ne Bağlı İstasyonlarda Ölçülen Ekstrem Değerler" [Extreme Values Measured in Istanbul Regional Directorate](PDF) (بزبان ترکی). Turkish State Meteorological Service. Archived fromthe original(PDF) on 2011-05-24. Retrieved2010-07-27.
  123. Mete Tayanç؛ Mehmet Karaca؛ H. Nüzhet Dalfes (1998)۔"مارچ 1987 Cyclone (Blizzard) over the Eastern Mediterranean and Balkan Region Associated with Blocking"۔Monthly Weather Review۔ ج 126 شمارہ 11: 3036۔Bibcode:1998MWRv.۔126.3036T۔DOI:10.1175/1520-0493(1998)126<3036:MCBOTE>2.0.CO;2{{حوالہ رسالہ}}:تأكد من صحة قيمة|bibcode= طول (معاونت)
  124. "Resmi İstatistikler (İl ve İlçelerimize Ait İstatistiki Veriler)" [Official Statistics (Statistical Data of Provinces and Districts) – Istanbul] (بزبان ترکی). ترکی ریاستی موسمیاتی خدمت. Archived fromthe original on 2018-04-22. Retrieved2018-04-22.
  125. ^اب"Istanbul, Turkey – Climate data"۔ Weather Atlas۔ اخذ شدہ بتاریخ2017-03-29
  126. "The Yearly Measurements by Kirecburnu Station Between 1990–1999"(PDF)
  127. "The Yearly Measurements by Bahcekoy Station Between 1990–1999"(PDF)
  128. "Turkey reeling from African heat wave"۔Daily Sabah۔ 2 جولائی 2017
  129. "Gov't forced to take measures amid below average rainfall across Turkey"۔Hürriyet Daily News۔ 21 جنوری 2018
  130. "Lightning electrifies Istanbul, northwestern Turkey skies as thunderstorms take over"۔Daily Sabah۔ 24 جولائی 2018
  131. "Istanbul flood result of Turkey's climate change"۔ Anadolu Agency۔ 27 جولائی 2017۔ 2018-09-27 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-04-20
  132. Ömer Lütfi Şen۔"Climate Change in Turkey"۔ Mercator–IPC Fellowship Program=۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-09-27
  133. "Temperature to increase significantly in Turkey in 30 years due to global warming, warns climate expert"۔Hürriyet Daily News۔ 19 مارچ 2018
  134. Nefise Çetin؛ Sibel Mansuroğlu؛ Ayşe Kalaycı Önaç (2018)۔"Xeriscaping Feasibility as an Urban Adaptation Method for Global Warming: A Case Study from Turkey"۔Pol. J. Environ. Stud.۔ ج 27 شمارہ 3: 1009–18۔DOI:10.15244/pjoes/76678
  135. "İstanbul İklim Değişikliği Eylem Planı"۔ 2019-04-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2019-04-22
  136. Çelik 1993، صفحہ 70, 169
  137. Çelik 1993، صفحہ 127
  138. Wendy Moonan (29 اکتوبر 1999)۔"For Turks, Art to Mark 700th Year"۔The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-04
  139. Oxford Business Group 2009، صفحہ 105
  140. Karpat 1976، صفحہ 78–96
  141. Ercan Yavuz (8 جون 2009)۔"Gov't launches plan to fight illegal construction"۔Today's Zaman۔ 2012-01-20 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-20
  142. Rowland Atkinson؛ Gary Bridge (2005)۔Gentrification in a Global Context: The New Urban Colonialism۔ Routledge۔ ص 123–۔ISBN:978-0-415-32951-4۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-06
  143. Jessica Bourque (4 جولائی 2012)۔"Poor but Proud Istanbul Neighborhood Faces Gentrification"۔The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-06
  144. Robert Tait (22 جولائی 2008)۔"Forced gentrification plan spells end for old Roma district in Istanbul"۔The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-06
  145. "New city construction to begin in six months"۔Hurriyet Daily News۔ 22 فروری 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-06
  146. Boyar اور Fleet 2010، صفحہ 247
  147. Taylor 2007، صفحہ 241
  148. "Water Supply Systems, Reservoirs, Charity and Free Fountains, Turkish Baths"۔ Republic of Turkey Ministry of Culture and Tourism۔ 2010-11-19 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-29
  149. Time Out Guides 2010، صفحہ 212
  150. ^ابپتٹثIstanbul Office Market Overview Q1 2014(PDF)۔ Property Investment Consultancy۔ 2014۔ 2022-12-29 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2019-07-26
  151. "Continuity and Change in Nineteenth-Century Istanbul: Sultan Abdulaziz and the Beylerbeyi Palace", Filiz Yenisehirlioglu,Islamic Art in the 19th Century: Tradition, Innovation, And Eclecticism، 65.
  152. "Blue Mosque"۔bluemosque.co۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-06-12
  153. ^ابChamber of Architects of Turkey 2006، صفحہ 80, 118
  154. Chamber of Architects of Turkey 2006، صفحہ 176
  155. Freely 2000، صفحہ 283
  156. Necipoğlu 1991، صفحہ 180, 136–37
  157. Çelik 1993، صفحہ 159
  158. Çelik 1993، صفحہ 133–34, 141
  159. "Büyükşehir Belediyesi Kanunu" [Metropolitan Municipal Law].Türkiye Büyük Millet Meclisi (بزبان ترکی). 10 Jul 2004. Archived fromthe original on 2016-03-13. Retrieved2010-11-30.Bu Kanunun yürürlüğe girdiği tarihte; büyükşehir belediye sınırları، İstanbul ve Kocaeli ilinde, il mülkî sınırıdır. (On the date this law goes in effect, the metropolitan city boundaries, in the provinces of İstanbul and Kocaeli, are those of the province.)
  160. "Address Based Population Registration System Results of 2010"۔ Turkish Statistical Institute۔ 28 جنوری 2011۔ 2019-05-24 کواصل(doc) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-24
  161. Morris 2010، صفحہ 113
  162. Chandler 1987، صفحہ 463–505
  163. "2007 statistics"۔ tuik۔ 2014-01-01 کواصل سے آرکائیو کیا گیا
  164. "1980 Statistics"۔ tuik۔ 2012-11-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا
  165. "Istanbul Asian and European population details" (بزبان ترکی). 2013. Archived fromthe original on 2009-02-02. Retrieved2015-06-16.İstanbul'da 8 milyon 156 bin 696 kişi Avrupa, 4 milyon 416 bin 867 vatandaş da Asya yakasında bulunuyor (In Istanbul there are 8,156,696 people in Europe, 4,416,867 citizens in Asia)
  166. "Frequently Asked Questions"۔World Urbanization Prospects, the 2011 Revision۔ The United Nations۔ 5 اپریل 2012۔ 2012-09-07 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-09-20
  167. "File 11a: The 30 Largest Urban Agglomerations Ranked by Population Size at Each Point in Time, 1950–2035"(xls)۔World Urbanization Prospects, the 2018 Revision۔ The United Nations۔ 5 اپریل 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-08-21
  168. Kristina Kamp (17 فروری 2010)۔"Starting Up in Turkey: Expats Getting Organized"۔Today's Zaman۔ 2013-05-09 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-27
  169. ^اب"Social Structure Survey 2006"۔ KONDA Research۔ 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-27 (Note: Accessing KONDA reports directly fromKONDA's own website requires registration.)
  170. Henri J. Barkey (2000)۔Turkey's Kurdish Question۔ Rowman & Littlefield Publishers۔ ص 67۔ISBN:978-0-585-17773-1
  171. U.S. Bureau of Democracy, Human Rights, and Labor۔"Turkey: International Religious Freedom Report 2007"۔ U.S. Department of State۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-27{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
  172. "History of the Ecumenical Patriarch"۔ The Ecumenical Patriarch of Constantinople۔ 2012-06-08 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-20
  173. "The Patriarchal Church of Saint George"۔ The Ecumenical Patriarch of Constantinople۔ 2012-05-31 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-20
  174. Çelik 1993، صفحہ 38
  175. Athanasopulos 2001، صفحہ 82
  176. "The Greek Minority and its foundations in Istanbul, Gokceada (Imvros) and Bozcaada (Tenedos)"۔ Hellenic Republic Ministry of Foreign Affairs۔ 21 مارچ 2011۔ 2012-07-26 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-21
  177. "Istanbul Population 2015"۔ World Population Review۔ 7 جولائی 2015۔ 2015-09-10 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-04-22
  178. Schmitt 2005، passim
  179. Masters اور Ágoston 2009، صفحہ 520–21
  180. Wedel 2000، صفحہ 182
  181. Bahar Baser؛ Mari Toivanen؛ Begum Zorlu؛ Yasin Duman (6 نومبر 2018)۔Methodological Approaches in Kurdish Studies: Theoretical and Practical Insights from the Field۔ Lexington Books۔ ص 87۔ISBN:978-1-4985-7522-5
  182. Amikam Nachmani (2003)۔Turkey: Facing a New Millenniium : Coping With Intertwined Conflicts۔ Manchester University Press۔ ص 90–۔ISBN:978-0-7190-6370-1۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-05
  183. Milliyet Konda Araştırma (2006)۔"Biz Kimiz: Toplumsal Yapı Araştırması"(PDF)۔ 2017-02-15 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-04
  184. Bekir Agirdir (2008)۔"Kürtler ve Kürt Sorunu"(PDF)۔ KONDA۔ 2013-11-03 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-04
  185. Bekir Agirdir۔"Kürtlerin nüfusu 11 milyonda İstanbul"da 2 milyon Kürt yaşıyor"۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-04
  186. Christiane Bird (18 دسمبر 2007)۔A Thousand Sighs, A Thousand Revolts: Journeys in Kurdistan۔ Random House Publishing Group۔ ص 308–۔ISBN:978-0-307-43050-2۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-04
  187. Elma Gabela (5 جون 2011)۔"Turkey's Bosniak communities uphold their heritage, traditions"۔Today's Zaman۔ 2011-08-23 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-09-20
  188. Rôzen 2002، صفحہ 55–58, 49
  189. Rôzen 2002، صفحہ 49–50
  190. Brink-Danan 2011، صفحہ 176
  191. ʻAner 2005، صفحہ 367
  192. "Erdoğan: 'İstanbul'da teklersek, Türkiye'de tökezleriz'"۔Tele1۔ 2 اپریل 2019۔ اخذ شدہ بتاریخ2019-05-04
  193. "Global MetroMonitor"۔ Brookings Institution۔ 30 نومبر 2012۔ 2013-06-05 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-04-13
  194. ^اب"Presentation of Reference City: Istanbul"۔ Urban Green Environment۔ 2001۔ 2012-01-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-12-30
  195. Ricardo Geromel (14 مارچ 2013)۔"Forbes Top 10 Billionaire Cities – Moscow Beats New York Again"۔Forbes۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-07-27
  196. "Dış Ticaretin Lokomotifi İstanbul" [Istanbul is the Locomotive of Foreign Trade] (بزبان ترکی). NTV-MSNBC. 13 Feb 2006. Archived fromthe original on 2013-05-31. Retrieved2012-03-28.
  197. "Borsa İstanbul'un kuruluş sermayesi".TRT Haber (بزبان ترکی). 4 Apr 2013. Archived fromthe original on 2017-06-30. Retrieved2013-04-05.
  198. Taylan Bilgic (5 اپریل 2013)۔"Istanbul Opens New Bourse as Erdogan Seeks to Build Finance Hub"۔ Bloomberg News۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-04-14
  199. Attila Odabaşı؛ Celal Aksu؛ Vedat Akgiray (دسمبر 2004)۔"The Statistical Evolution of Prices on the Istanbul Stock Exchange"(PDF)۔The European Journal of Finance۔ London۔ ج 10 شمارہ 6: 510–25۔CiteSeerX:10.1.1.500.6930۔DOI:10.1080/1351847032000166931۔ 2023-04-14 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-04-24{{حوالہ رسالہ}}:پیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
  200. "History of the Bank"۔ The Ottoman Bank Archives and Research Centre۔ 2012-04-13 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-28
  201. "Milestones in ISE History"۔ Istanbul Stock Exchange۔ 2012۔ 2009-11-25 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-28
  202. Mark Bentley؛ Benjamin Harvey (17 ستمبر 2012)۔"Istanbul Aims to Outshine Dubai With $2.6 Billion Bank Center"۔Bloomberg Markets Magazine۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-05
  203. Oxford Business Group 2009، صفحہ 112
  204. Jones, Sam, and agencies (27 اپریل 2011)۔"Istanbul's new Bosphorus canal 'to surpass Suez or Panama'"۔The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-29{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
  205. Organisation for Economic Co-operation and Development 2008، صفحہ 80
  206. "Ports of Turkey"۔ Cerrahogullari T.A.S.۔ 2012-09-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-08-28
  207. Omer Cavusoglu (مارچ 2010)۔"Summary on the Haydarpasa Case Study Site"(PDF)۔Cities Programme۔ London School of Economics۔ 2012-07-09 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-03
  208. Hülya Zeybek؛ Muhtesem Kaynak (27–30 مئی 2008)۔"What Role for Turkish Ports in the Regional Logistics Supply Chains?"(PDF)۔ International Conference on Information Systems and Supply Chain۔ 2009-02-06 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-08-28
  209. Organisation for Economic Co-operation and Development 2008، صفحہ 82
  210. Organisation for Economic Co-operation and Development 2008، صفحہ 143
  211. Organisation for Economic Co-operation and Development 2008، صفحہ 81
  212. Ebra Kerimoğlu؛ Hale Ciraci۔"Urban Tourism: An Analysis of Visitors to Istanbul"(PDF)۔ Vienna University of Economics and Business۔ 2014-05-22 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2016-02-12
  213. ^اب"Istanbul '10"(PDF)۔Turkey Tourism Market Research Reports۔ Istanbul Valuation and Consulting۔ 2010۔ 2012-06-16 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-29 (n.b. Source indicates that the Topkapı Palace Museum and the Hagia Sophia together bring in55 millionTL, approximately$30 million in 2010, on an annual basis.)
  214. ^اب"İstanbul – Archaeology Museum"۔ Republic of Turkey Ministry of Culture and Tourism۔ 2012-02-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-19
  215. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 8
  216. Reisman 2006، صفحہ 88
  217. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 2–4
  218. ^ابGöktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 221–23
  219. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 223–24
  220. Suzy Hansen (10 فروری 2012)۔"The Istanbul Art-Boom Bubble"۔The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-19
  221. "History"۔ The Istanbul Foundation for Culture and Arts۔ 2011-05-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-13
  222. Fiachra Gibbons (21 ستمبر 2011)۔"10 of the Best Exhibitions at the Istanbul Biennial"۔The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-13
  223. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 130–31
  224. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 133–34
  225. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 146
  226. Göktürk, Soysal اور Türeli 2010، صفحہ 165
  227. Nikolaj Nikitin (6 مارچ 2012)۔"Golden Age for Turkish Cinema"۔ Credit-Suisse۔ 2012-12-17 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-06
  228. "History"۔ The Istanbul Foundation for Culture and Arts۔ 2011-05-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-13
  229. Michael Hensel، مدیر (جنوری–فروری 2010)۔ "Turkey at the Threshold"۔Architectural Design۔ London۔ ج 80 شمارہ 1۔ISBN:978-0-470-74319-5{{حوالہ رسالہ}}:نامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-first= رد کیا گیا (معاونتنامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری2-last= رد کیا گیا (معاونتنامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-first= رد کیا گیا (معاونتنامعلوم پیرامیٹر|مرتب آخری3-last= رد کیا گیا (معاونت)، وپیرامیٹر|حوالہ=harv درست نہیں (معاونت)
  230. Köse 2009، صفحہ 91–92
  231. Taşan-Kok 2004، صفحہ 166
  232. Marlene Schäfers (26 جولائی 2008)۔"Managing the Difficult Balance Between Tourism and Authenticity"۔Hürriyet Daily News۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-29
  233. Liesl Schillinger (8 جولائی 2011)۔"A Turkish Idyll Lost in Time"۔The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-29
  234. Freely 2011، صفحہ 429
  235. Keyder 1999، صفحہ 34
  236. Seth Kugel (17 جولائی 2011)۔"The $100 Istanbul Weekend"۔The New York Times۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-29
  237. Knieling اور Othengrafen 2009، صفحہ 228–34
  238. Kathryn Tomasetti؛ Tristan Rutherford (23 مارچ 2012)۔"A Big Night Out in Istanbul – And a Big Breakfast the Morning After"۔The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-29
  239. "Turkey – List of Champions"۔www.rsssf.com۔RSSSF۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-05-31
  240. "Galatasaray: The Lions of the Bosporus"۔ FIFA۔ 2012-04-04 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-10
  241. "UEFA Champions League 2007/08 – History – Fenerbahçe"۔ The Union of European Football Associations۔ 8 اکتوبر 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-10
  242. "Puan Durumu: 2015–2016 Sezonu 30. Hafta" [League Table: 2015–16 Season, Round 30] (بزبان ترکی). Turkish Basketball Super League. Archived fromthe original on 2016-05-14. Retrieved2016-06-06.
  243. "2010 FIBA World Championship Istanbul: Arenas"۔ FIBA۔ 2013-06-03 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-10
  244. Stephen Wilson (2 ستمبر 2011)۔"2020 Olympics: Six cities lodge bids for the games"۔The Christian Science Monitor۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-29
  245. Giles Richards (22 اپریل 2011)۔"Turkey Grand Prix Heads for the Scrapyard Over $26m Price Tag"۔The Guardian۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-03
  246. "2012 Yarış Programı ve Genel Yarış Talimatı" [2012 Race Schedule and General Sailing Instructions] (بزبان ترکی). The Istanbul Sailing Club. 2012. Archived fromthe original on 2012-06-04. Retrieved2012-07-03.
  247. Turkish Daily News (23 اگست 2008)۔"Sailing Week Starts in Istanbul"۔Hürriyet Daily News۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-03
  248. "About Us"۔ The Turkish Offshore Racing Club۔ 31 مارچ 2012۔ 2013-09-05 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-03
  249. "Tekfen Construction – ISTANBUL ATATÜRK OLYMPIC STADIUM"۔Tekfeninsaat.com۔ 2016-01-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2016-08-07
  250. "Türk Telekom Stadyumu"۔ 2018-03-15 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-03-14
  251. http://www.tff.org/Default.aspx?pageID=394&stadID=5018
  252. "Archived copy"۔ 2011-05-08 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2011-05-23{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: آرکائیو کا عنوان (link)
  253. "Ülker Stadium selected for 2009 UEFA Cup Final"۔ 2007-09-28 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-25
  254. "Uefa Cup gets new name in revamp"۔bbc.co.uk۔ 26 ستمبر 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ2008-09-26
  255. "UEFA Cup to become UEFA Europa League"۔uefa.com۔ 2008-09-29 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2008-09-26
  256. "Beşiktaş and Vodafone sign 15-year sponsorship contract worth $145 mln"۔ hurriyetdailynews.com۔ 20 اگست 2013
  257. http://www.hurriyetdailynews.com/Default.aspx?pageID=238&nid=52919
  258. Brummett 2000، صفحہ 11, 35, 385–86
  259. ^ابپ"Country Profile: Turkey"(PDF)۔ The Library of Congress Federal Research Division۔ اگست 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-05-08
  260. "Tiraj".Medyatava (بزبان ترکی). 25 Dec 2016. Archived fromthe original on 2018-03-28. Retrieved2016-12-25.
  261. "08 Ocak 2018 – 14 Ocak 2018 haftası Tiraj Tablosu"۔ 2018-03-28 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-03-27
  262. "History"۔ Istanbul University۔ 11 اگست 2011۔ 2012-11-13 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-08-20
  263. World Oldest Universitiesآرکائیو شدہ جنوری 15, 2008 بذریعہوے بیک مشین
  264. "History"۔ Istanbul Technical University۔ 2012-06-18 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-04
  265. "University Profile: Istanbul Technical University, Turkey"۔ Board of European Students of Technology۔ 2011-11-16 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-30
  266. "State Universities"۔ The Turkish Council of Higher Education۔ 2011-11-30 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-30
  267. "Home"۔ Mimar Sinan Fine Arts University۔ 2009-02-21 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2019-07-09۔Meclis-i Mebusan Caddesi No: 24Fındıklı 34427 İstanbul
  268. "Profile: Recep Tayyip Erdogan"۔BBC News۔ 18 جولائی 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ2008-08-29
  269. "Erdoğan'ın diploması aslında hangi okuldan" [Which school is Erdoğan's diploma from].oda TV (بزبان ترکی). 25 Apr 2014. Archived fromthe original on 2016-03-27. Retrieved2014-12-03.
  270. Cengiz Aldemir (28 Apr 2014)."Erdoğan'ın diploması Meclis'te" [Erdoğan's diploma in parliament].Sözcü (بزبان ترکی). Retrieved2014-12-03.
  271. "Rektörlük, diplomasını yayınladı; Halaçoğlu yeni belge gösterdi" [Rectorate issues diploma: Halaçoğlu shown the new document].Zaman (بزبان ترکی). 25 Apr 2014. Archived fromthe original on 2014-04-26. Retrieved2014-12-03.
  272. ^ابİhsan Doğramacı (اگست 2005)۔"Private Versus Public Universities: The Turkish Experience"(DOC)۔18th International Conference on Higher Education۔ Ankara۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-30
  273. "History of RC"۔ Robert College۔ 2012۔ 2012-10-22 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-10-15
  274. "Private Universities"۔ The Turkish Council of Higher Education۔ 2011-11-30 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-30
  275. "Baraja nazır en akıllı kent"۔Hürriyet۔ 4 مئی 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ2013-05-05
  276. "Aecom expands role on $2.2bn Istanbul scheme"۔everythingturkish.com.au۔ EverythingTurkish۔ 5 ستمبر 2012۔ 2016-09-21 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2016-08-31
  277. ^اب"Istanbul and the History of Water in Istanbul"۔ Istanbul Water and Sewerage Administration۔ 2007-09-29 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2006-03-11
  278. Tigrek اور Kibaroğlu 2011، صفحہ 33–34
  279. "İSKİ Administration"۔ Istanbul Water and Sewerage Administration۔ 2007-09-29 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-31
  280. ^ابپ"Silahtarağa Power Plant"۔ SantralIstanbul۔ 2012-07-30 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-31
  281. ^اب"Short History of Electrical Energy in Turkey"۔ Turkish Electricity Transmission Company۔ 2001۔ 2009-11-28 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-07-05
  282. ^ابپت"About Us | Brief History"۔ The Post and Telegraph Organization۔ 2011-08-07 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-31
  283. Masters اور Ágoston 2009، صفحہ 557
  284. Shaw اور Shaw 1977، صفحہ 230
  285. ^اب"About Türk Telekom: History"۔ Türk Telekom۔ 2016-03-06 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-03-31
  286. Sanal 2011، صفحہ 85
  287. Oxford Business Group 2009، صفحہ 197
  288. Oxford Business Group 2009، صفحہ 198
  289. Connell 2010، صفحہ 52–53
  290. Papathanassis 2011، صفحہ 63
  291. ^ابگوگل (1 اپریل 2012)۔ "Istanbul Overview" (Map)۔گوگل نقشہ جات۔ گوگل{{حوالہ نقشہ}}:|mapurl= میں بیرونی روابط (معاونتنامعلوم پیرامیٹر|mapurl= مجوزہ استعمال رد|مسار الخريطة= (معاونت)، وپیرامیٹر|access-date|یوآرایل= درکار (معاونت)
  292. Efe اور Cürebal 2011، صفحہ 720
  293. "Turkey Unveils Route for Istanbul's Third Bridge"۔انادولو ایجنسی۔ 29 اپریل 2010۔ 2010-06-19 کواصل سے آرکائیو کیا گیا
  294. "Istanbul's $1.3BN Eurasia Tunnel prepares to open"۔انادولو ایجنسی۔ 19 دسمبر 2016
  295. "Eurasia Tunnel opens, linking Europe and Asia in 15 minutes"۔Daily Sabah۔ 20 دسمبر 2016
  296. ^اب"Eurasia Tunnel Project"(PDF)۔یونی کریڈٹ – Yapı Merkezi, SK EC Joint Venture۔ 2016-01-20 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-04-13
  297. While, for both directions, the mouth openings of the tunnel on the Asian side are situated in the Haydarpaşa quarter, the access roads begin or end in the adjacent Koşuyolu quarter.
  298. ^ابپ"Çift katlı Avrasya Tüneli'nde kazı işlemi devam ediyor".حریت (ترکی اخبار) (بزبان ترکی). 3 Sep 2013. Retrieved2014-04-13.
  299. "Avrasya tüneli'nin temeli atıldı".Zaman (بزبان ترکی). 26 Feb 2011. Archived fromthe original on 2013-11-03. Retrieved2014-04-13.
  300. ^ابپ""Haliç Metro Geçiş Köprüsü" açılışa hazır".حریت (ترکی اخبار) (بزبان ترکی). 17 Jan 2014. Retrieved2014-02-03.
  301. "Environmental and Social Impact Assessment for the Eurasia Tunnel Project Istanbul, Turkey"(PDF)۔ ERM Group, Germany and UK & ELC-Group, Istanbul۔ جنوری 2011۔ ص 42۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-04-15
  302. "Haliç metro Hattı" (بزبان ترکی). İstanbul Büyükşehir Belediyesi. Archived fromthe original on 2013-12-13. Retrieved2014-02-03.
  303. ^اب"Low profile"۔ Bridge Design & Engineering۔ 14 مئی 2013۔ 2014-02-22 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-02-03
  304. "Haliç Metro Crossing Bridge"۔ halicmetrokoprusu.com۔ 2014-01-26 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-02-04
  305. "Yeni havalimanının adı belli oldu (İstanbul Havalimanı tabelaları asıldı)"۔NTV
  306. "Last flight leaves Ataturk as Istanbul switches airports"۔Reuters
  307. "Haydarpasa Train Station"۔ Emporis۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-03
  308. Jonathan Head (16 فروری 2010)۔"Iraq – Turkey railway link re-opens"۔ BBC۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-03
  309. "Transports to Middle-Eastern Countries"۔ Turkish National ریلویز۔ 2012-04-15 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-03
  310. ^ابLatifa Akay (5 فروری 2012)۔"2012 Sees End of Line for Haydarpaşa Station"۔Today's Zaman۔ 2013-09-16 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-04-03
  311. TCDD History – Trains and ریلویز of Turkey
  312. ^ابپ"Raylı Sistemler" [Rail Systems] (بزبان انگریزی). Metro İstanbul. 2019. Archived fromthe original on 2019-11-23. Retrieved2019-10-05.
  313. https://www.trtworld.com/turkey/where-is-the-istanbul-subway-system-headed-21715
  314. "Istanbul Railway Network Map (complete, including under construction sections)"۔Istanbul-ulasim.com.tr۔ İstanbul Ulaşim A.Ş۔ 2014۔ 2018-01-02 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-04-13
  315. ^ابپ"M1 Yenikapı – Atatürk Havalimanı / Kirazlı Metro Hattı" [M1 Yenikapı – Atatürk Airport / Kirazlı Metro Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşim A.Ş. Archived fromthe original on 2016-03-04. Retrieved2015-04-14.
  316. "PM Davutoğlu inaugurates İstanbul's Aksaray-Yenikapı metro"۔Today's Zaman۔ 9 نومبر 2014۔ 2016-03-05 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2014-11-09
  317. ^ابپ"M2 Yenikapı- Hacıosman Metro Hattı" [M2 Yenikapı- Hacıosman Metro Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşım. Archived fromthe original on 2015-10-18. Retrieved2015-04-14.
  318. ^ابپ"M3 Başakşehir Metro Hattı" [M3 Başakşehir Metro Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşım. Archived fromthe original on 2014-02-19. Retrieved2015-04-14.
  319. ^ابپ"M4 Kadıköy-Kartal Metro Hattı" [M4 Kadikoy-Kartal Metro Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşım. Archived fromthe original on 2015-04-23. Retrieved2015-04-14.
  320. ^ابپ"M5 Üsküdar-Çekmeköy Metro Hattı" [M5 Üsküdar – Çekmeköy Metro Line].www.metro.istanbul (بزبان ترکی). Metro Istanbul. Archived fromthe original on 2020-11-05. Retrieved2018-10-21.
  321. ^ابپ"M6 Levent – Boğaziçi Üniversitesi/Hisarüstü Metro Hattı" [M6 Levent – Boğaziçi Üniversitesi/Hisarüstü Metro Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşım. Archived fromthe original on 2016-03-05. Retrieved2015-04-20.
  322. "T1 Kabataş-Bağcılar Tramvay Hattı" [T1 Kabataş-Bağcılar Tramway Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşim A.Ş. Archived fromthe original on 2014-04-18. Retrieved2014-04-17.
  323. "T4 Topkapı Habibler Tramvay Hattı" [T4 Topkapi-Habib Tramway Line].Istanbul-ulasim.com.tr (بزبان ترکی). İstanbul Ulaşim A.Ş. Archived fromthe original on 2012-07-27. Retrieved2014-04-17.
  324. http://www.iett.gov.tr/tr/main/pages/otobus-filosu/85
  325. "آرکائیو کاپی"۔ 2016-11-27 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-13
  326. "آرکائیو کاپی"۔ 2015-08-11 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-02-13
  327. "Archived copy"۔ 2012-06-15 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2012-06-30{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: آرکائیو کا عنوان (link)
  328. "Fed up with Istanbul traffic"۔ اخذ شدہ بتاریخ2018-09-28
  329. "Understanding Vehicular Pollution – AQI, Harmful Effects and How to Reduce It?"۔News18۔ 1 مارچ 2019
  330. "Sister Cities of Istanbul"۔greatistanbul.com۔ Istanbul۔ 2016-10-28 کواصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ2020-01-17

کتابیات

[ترمیم]
تاریخ
انتظامی
تقسیم
اہم سیاحی
مقامات
تعلیم
نقل و حمل
سیاست
متعلقہ مضامین کی فہرست
اضلاع


[[Image:{{{image}}} districts.png|100px|center|استنبول کے اضلاع]]
فہرستصوبے بلحاظعلاقہ
استنبول
مغربی مرمرہ
ایجیئن
مشرقی مرمرہ
مغربی اناطولیہ
بحیرہ روم
مرکزی اناطولیہ
مغربی بحیرہ اسود
مشرقی بحیرہ اسود
شمال مشرقی اناطولیہ
مرکزی مشرقی اناطولیہ
جنوب مشرقی اناطولیہ
میٹروپولیٹن بلدیات جلی حروف میں۔
ایجیئن علاقہ
بحیرہ اسود علاقہ
وسطی اناطولیہ علاقہ
مشرقی اناطولیہ علاقہ
  • آنی کا تاریخی شہر
مرمرہ علاقہ
بحیرہ روم علاقہ
جنوب مشرقی اناطولیہ علاقہ
1 دیگر سے مشترکہعلاقہ
ترکیہ کا پرچم ترکیہ کے موضوعات
ترکی سے پہلے کا دور
سلجوقی سلطنت
سلطنت عثمانیہ
دور جمہوریت
موضوعات
حکومت
مقننہ
عدالتی
سیاست
قانون
ترکی مسلح افواج
تنازعات
معاشرہ
آبادیات
سماج
ثقافت
علامت
1985
ایتھنز
1986
فلورنس
1987
ایمسٹرڈیم
1988
مغربی برلنبرلن
1989
پیرس
1990
گلاسگو
1991
ڈبلن
1992
میدرد
1993
انتورب
1994
لزبن
1995
لکسمبرگ شہر
1996
کوپن ہیگن
1997
تھیسالونیکی
1998
اسٹاک ہوم
1999
وایمار
2000
ریکیاوک
برگن
ہلسنکی
برسلز
پراگ
کراکوف
سانتیاگو دے کومپوستیلا
آوینیو
بولونیا
2001
روتردم
پورٹو
2002
بروج
سالامانکا
2003
گراتز
پلوودیف
2004
جینوا (اٹلی)
لیل
2005
کورک (شہر)
2006
پاتراس
2007
لکسمبرگ شہر اورعظیم علاقہ
سیبیو
2008
لیورپول
ستاوانگیر
2009
لینتس
ویلنیوس
2010
رور
استنبول
پئچ
2011
ترکو
تالین
2012
ماریبور
گیمارائس
2013
کوشیسہ
مارسئی
2014
اومیو
ریگا
2015
مونس
پلزین
2016
سان سیباسچان
وراتسواف
2017
آرہس
پافوس
2018
والیٹا
لیوردن
2019
پلوودیف
ماتیرا
2020
ریئکا
گالوے
2021
تیمیشوارا
ایلیوسیس
نووی ساد
2022
کاوناس
اش-سور-الزیت
یورپی کھیلوں کے دار الحکومت
افریقا
ایشیا
شمالی امریکا
جنوبی امریکا
یورپ
ماخذ:"دنیا بھر کے شہری علاقوں کی آبادیات، 14ویں سالانہ اشاعت"(PDF)۔ اپریل 2018۔ 2018-05-03 کواصل(PDF) سے آرکائیو کیا گیا
 
ترکی کے بڑے شہر یا ٹاؤن
[1][2]
درجہصوبہآبادیدرجہنامصوبہآبادی
استنبول
استنبول
انقرہ
انقرہ
1استنبولاستنبول14,744,51911مرسینمرسین1,005,455ازمیر
ازمیر
بورصہ
بورصہ
2انقرہانقرہ4,871,88412شانلی اورفہشانلی اورفہ921,978
3ازمیرازمیر2,938,54613اسکی شہراسکی شہر752,630
4بورصہبورصہ2,074,79914دنیزلیدنیزلی638,989
5آداناآدانا1,753,33715قہرمان مرعشقہرمان مرعش632,487
6غازی عینتابغازی عینتاب1,663,27316سامسونسامسون625,410
7انطالیہانطالیہ1,311,47117مالاطیہمالاطیہ618,831
8قونیہقونیہ1,130,22218ازمیتقوجائلی570,077
9قیصریقیصری1,123,61119آداپازاریساکاریا492,027
10دیار بکردیار بکر1,047,28620ارض رومارض روم422,389
معلومات کتب خانہ
  1. Where governor's office is located.
  2. ^ابپSources have provided conflicting figures on the area of Istanbul. The most authoritative source on this figure ought to be the Istanbul Metropolitan Municipality (MMI), but the English version of its website suggests a few figures for this area. One page states that "Each MM is sub-divided into District Municipalities ("DM")of which there are 27 in Istanbul" [emphasis added] with a total area of 1,538.9 کلومربع میٹر (594.2 مربع میل)۔[97] The Municipal History page appears to be the most explicit and most updated, saying that in 2004, "Istanbul Metropolitan Municipality's jurisdiction was enlarged to cover all the area within the provincial limits"۔ It also states a 2008 law merged theامین اونو district into theضلع فاتح district (a point that is not reflected in the previous source) and increased the number of districts in Istanbul to 39.[98] That total area, as corroborated on the Turkish version of the MMI website,[99] and a Jurisdiction page on the English site[100] is 5,343 کلومربع میٹر (2,063 مربع میل)۔
  3. ^ابHistorians disagree—sometimes substantially—on population figures of Istanbul (Constantinople), and other world cities, prior to the 20th century. A follow-up to Chandler & Fox 1974,Chandler 1987، صفحہ 463–505[82] examines different sources' estimates and chooses the most likely based on historical conditions; it is the source of most population figures between 100 and 1914. The ranges of values between 500 and 1000 are due toMorris 2010، which also does a comprehensive analysis of sources, including Chandler (1987); Morris notes that many of Chandler's estimates during that time seem too large for the city's size, and presents smaller estimates. Chandler disagrees withTuran 2010 on the population of the city in the mid-1920s (with the former suggesting 817,000 in 1925)، but Turan, p. 224, is used as the source of population figures between 1924 and 2005. Turan's figures, as well as the 2010 figure,[160] come from theTurkish Statistical Institute۔ The drastic increase in population between 1980 and 1985 is largely due to an enlargement of the city's limits (see theAdministration section)۔ Explanations for population changes in pre-Republic times can be inferred from theHistory section۔
  4. In the Ottoman period the inner core of the city, inside the city walls, came to be known as "İstanbul" in Turkish and "Stamboul" in the West. The whole city was generally known as Constantinople or under other names. SeeNames of Istanbul for further information.[73]
  5. The United Nations defines an urban agglomeration as "the population contained within the contours of a contiguous territory inhabited at urban density levels without regard to administrative boundaries"۔ The agglomeration "usually incorporates the population in a city or town plus that in the suburban areas lying outside of, but being adjacent to, the city boundaries"۔[166][167]
  6. Sufficient proofs of entry and graduation are lacking, several Turkish sources dispute that he graduated.
  1. TÜİK's address-based calculation from December, 2017.
  2. "December 2013 address-based calculation of the Turkish Statistical Institute as presented by citypopulation.de"
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=استنبول&oldid=9011494»
زمرہ جات:
پوشیدہ زمرہ جات:

[8]ページ先頭

©2009-2025 Movatter.jp