سقوطِ اندلس (ہسپانوی:Reconquista اورانگریزی: Reconquest) مسیحیوں کی ساڑھے سات سو سال طویل ان کوششوں کو کہا جاتا ہے جو انھوں نےجزیرہ نما آئبیریا سے مسلمانوں کو نکالنے اور ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے کیں۔ مسیحیہسپانوی اسےاسترداد (انگریزی: Recovery)کہتے ہیں۔ 8 ویں صدی میں استرداد کا آغاز 722ء میںمعرکہ کوواڈونگا سے جبکہ اختتام 1492ء میںسقوط غرناطہ کے ساتھ ہوا۔
جب گیارویں صدی عیسوی کے اوائل میںخلافتِ قرطبہ کا زوال ہوا تو چھوٹی چھوٹی جانشین ریاستوں کا ایک سلسلہ سامنے آیا جس کو طوائف الملوکی جانا جاتا تھا۔ شمالیمسیحی ریاستوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اوراندلس کی طرف پڑ گئے۔ انھوں نے خانہ جنگی کو فروغ دیا ، کمزور طائفہ جات کو ڈرایا اور انھیں تحفظ دلانے کے لیے مسلمانوں سے بڑے بڑے محصول جمع کیے۔
’جیرالڈ بیباک والا‘ جو مہمِ استرداد کے زمانے کاپرتگالی مسیحی جنگجو اور مقامی ہیرو تھا جس کا جنوبیپرتگال کا شہر ایوورا میں واقع ایک مجسمہ موجود ہے جس سے وہ کسی مسلمان کا بریدہ سر اپنے ہاتھ میں اٹھا کر اپنی دلیری کی نمائش کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔
بارہویں صدی عیسوی میں ایک مسلم بغاوت کے بعد، جنوبیجزیرہ نما آبیریا میں مسلمانوں کے عظیم شہروں ایک کے بعد ایک تیرویں صدی میںمعرکۂ عقاب (1212ء) کو ہارنے کے بعد ، سب مسیحیوں کے قبضے میں آئے۔قرطبہ 1232ء میں اوراشبلیہ کی بندرگاہ 1248 میں مسیحی عساکر نے تسخیر کی۔ مسلمانوں کے قبضے میں صرف جنوب میں ایک ہی کمزور محصول گزار ریاستمملکتِ غرناطہ رہ گئی تھی جو ڈھائی سو سال تک آزاد رہی۔
1492ء میںسقوطِ غرناطہ کے بعد، تمامجزیرہ نما آبیریا میں مسیحی حکمرانوں کے زیر کنٹرول تھا۔ اس قبضے کے بعد سلسلہ وار (1499ء–1526ء)کلیسا کے پادریوں نےہسپانیہ کےمسلمانوں کو مذہبی تبدیلی پر زبردستی کیا گیا ، جنہیں بعد میں 1609 میں شاہ فلپ سوم کے فرمانوں کے ذریعہیورپ کاجزیرہ نما آبیریا سے سب کے سبشمالی افریقہ کی طرف بے دخل کر دیے گئے۔