شیخ احمد یاسین 1938ء میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت فلسطین پربرطانیہ کی حکمرانی میں تھا اس وقت سے ہی ان کے تمام نظریات اور تصورات اس توہین و حزیمت پر استوار ہونے لگے جس کا فلسطینیوں کو شکست کے بعد سامنا تھا۔
بچپن میں ایک حادثہ کے نتیجہ میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے جس کے بعد انھوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے لیے وقف کر دی تھی۔
انھوں نےمصر کےدار الحکومتقاہرہ میں تعلیم حاصل۔ قاہرہ اس وقت ’اخوان المسلمون‘ کا مرکز تھا۔ یہ دنیائے عرب کی پہلی اسلامی سیاسی تحریک تھی۔
یہیں پر ان کا یہ عقیدہ راسخ ہوتا چلا گیا کہ فلسطین اسلامی سرزمین ہے اور کسی بھی عرب رہنما کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے کسی بھی حصہ سے دستبردار ہو۔
اگرچہ فلسطینی انتظامیہ سمیت عرب رہنماؤں سے ان کے تعلقات استوار رہے تاہم ان کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ "نام نہاد امن کا راستہ امن نہیں ہے اور نہ امن جہاد اور مزاحمت کا متبادل ہو سکتا ہے "۔
دبلے پتلے جسم کے مالک شیخ یاسین کی نظر بھی انتہائی کمزور تھی اور وہ انتہائی دھیمی آواز میں گفتگو کیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ ان تمام فلسطینیوں کی امیدوں کا مرکز تھے جو اس تصور سے مایوس ہو چکے ہیں کہ امن ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے۔ شیخ یاسین کو سب سے پہلے 1987ء میں عالمی شہرت ملی جب وہ انتفاضہ اول کے موقع پر سامنے آئے۔ اس وقت فلسطینی اسلامی تحریک نےحماس نام اختیار کیا جس کے معنی جوش و جذبہ کے ہیں اور شیخ یاسین اس کے روحانی قائد چنا 1998 ء میں اسرائیلی فوج سے تعاون کرنے والے فلسطینیوں کے قتل کا حکم دینے کی پاداش میں اسرائیل نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔1997ء میں انھیں ان دو اسرائیلی ایجنٹوں کے بدلے رہا کر دیا گیا تھا جن پراردن میں فلسطینی رہنماؤں کو قتل کرنے کا الزام تھا تاہم اسیری کے ان دنوں میں ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ فلسطین کی جہادی مزاحمت کی علامت بن گئے۔ وہ اردن میں ہونے والی عقبہ سربراہ ملاقات اور مذاکرات کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں تھے۔ اس ملاقات میںامریکہ،اسرائیل اورفلسطینی رہنماؤں نے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کی تھیں اور اس سربراہ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اس وقت کے فلسطینی وزیر اعظممحمود عباس نے تشدد کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اسرائیل ان سے شدید نفرت کااظہار کرتا رہا ہے بلکہ انھیں فلسطینیوں کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے۔
شیخ ستمبر 2003ء میں ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے۔ تاہم 22 مارچ 2004ء کواسرائیل کے ایک گن شپ ہیلی کاپٹر کے میزائل حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ اس وقت آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے۔ حملے میں ان کے دونوں محافظین سمیت 10 دیگر افراد بھی جاں بحق اور شیخ یاسین کے دو صاحبزادوں سمیت 12 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ کے اُس وقت کے معتمد عامکوفی عنان نے اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ان کے قتل کے خلاف قرارداد منظور کی جوچین،بھارت،انڈونیشیا،روس اورجنوبی افریقا سمیت 31 ممالک کی حمایت سے منظور ہوئی۔ مخالفت میں دو رائے آئیں جبکہ 18 ارکان غیر حاضر رہے۔عرب لیگ اورافریقی یونین نے بھی ان کے قتل کی مذمت کی۔برطانیہ اورامریکہ کا رد عمل یہ رہا "اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے لیکن وہ اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں " جبکہعراق میں اس وقت کے امریکی سفیرجان نیگروپونٹے نے یاسین کو ایک "دہشت گرد" تنظیم کا سربراہ قرار دیا۔ اسرائیل کے اس وقت کے وزیر دفاعشاؤل موفاز نے انھیں "فلسطینی بن لادن" قرار دیا جبکہ حزب اختلاف کے سربراہشمعون پیریز کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ رہنماؤں کو قتل کرنے سے دہشت گردی ختم کی جا سکتی ہے، یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ ان کے قتل پرفلسطینی اتھارٹی نے تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا اور رملہ میںیاسر عرفات کی رہائش گاہ پر فلسطینی پرچم سرنگوں رہا۔ حماس کے رہنمااسماعیل ہانیہ نے کہا کہ "شیخ یاسین اس وقت کے منتظر تھے کہ انھیں شہادت ملے، ایریل شیرون نے اپنے لیے جہنم کا دروازہ کھول دیا ہے "غزہ میں ان کی نمازہ جنازہ میں دو لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اقوام متحدہ کیسلامتی کونسل نے یاسین کے قتل کی مذمت کے حوالے سے قرارداد پیش کی جسے امریکا نے ویٹو کر دیا۔
شیخ احمد یاسین کا مشہور قول یہ ہے :
ہم نے اس راہ کا انتخاب کیا ہے جس کا اختتام فتح یا شہادت ہے
عبد العزیز رنتیسی کو ان کی جگہ حماس کا قائد قرار دیا گیا جو17 اپریل2004ء کو اسرائیل کے دوسرے حملے میں جاں بحق ہوئے۔