آتش نمرود یعنی نمرود کی آگ، یہآگابراہیم علیہ السلام کوبتوں کی مخالفت اور کچھ بتوں کو توڑنے کے الزام میں بطور سزا جلانے کے لیےنمرود کے حکم سے جلائی گئی۔ یہ آگ ایک فرسنگ (تقریباً نصف فرلانگ) کے احاطے میں جلوائی گئی تھی اور اس کی گرمی سے چار فرسنگ تک کوئی ذی حیات اس کے قریب نہ جا سکتا تھا۔بابل کے لوگوں نے اس کے لیے لکڑیاں فراہم کیں۔ اس کام میں نمرود کے ہر ماننے والے نے اپنی ہمت اور بساط کے مطابق حصہ ڈالا۔ یہاں تک کہ عورتوں نے بھی ہاتھ بٹایا۔ یہ لوک ایک عرصے تک لکڑیاں اکٹھی کرتے رہے حتی کا پہاڑ کے برابر ڈھیر لگ کيا۔ آگ جلانے کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو آک میں ڈالا گیا، لیکنمعجزہ ہوا،اللہ کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گی اورابراہیم علیہ السلام آگ سے محفوظ نکل آئے۔سورہ انبيا کی آیت 69 میں ہے
| ” | اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی بن | “ |
قرآن میں اس آک کا ذکر مزید تین بار آیا ہے۔سورہ انبيا کی آیت 68 میں ہے
| ” | اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو | “ |
دوسری بارسورہ عنكبوت کی آیت 24 میں
| ” | اسے مار ڈالو یا جلا ڈالو | “ |
پھر تیسری مرتبہسورہ صافات میں آیت 97
| ” | وہ بولے اس کے لیے ایک عمارت بناؤ۔ پھر اس کو آگ کے ڈھیر میں ڈال دو۔ | “ |